• 25 اپریل, 2024

نومبائعین کی پاک روحانی تبدیلی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جرمنی کے دورے میں جومیرا گزشتہ دورہ ہوا ہے، اُس میں ایک جرمن نوجوان احمدی ہوئے، اُس نے مجھے یہی بات کہی (مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں) کہ مَیں سخت قسم کا غصیلہ انسان تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر مجھے غصہ آ جاتا تھا لیکن احمدی ہونے کے بعد ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوئی ہے مجھے لگتا ہے کہ احمدیت نے مجھے صبر اور تحمل اور برداشت سکھائی ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہوا اور جب اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا تو اپنی طبیعت پر کنٹرول بھی پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوئی۔

پھر ایک اور نو مبائع دوست نے کہا کہ ہم شراب پیتے تھے، سگریٹ نوشی کرتے تھے، احمدیت قبول کرنے سے ہم نے یہ دونوں چیزیں چھوڑ دی ہیں، بلکہ اگر نمازیں باقاعدہ ہوں، (وہ خود وہ لکھتے ہیں کہ اگر نمازیں باقاعدہ ہوں) تو ان فضول چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی۔

تو یہ تعلق ہے جو اللہ تعالیٰ سے ان لوگوں نے قائم کیا کہ نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی، اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھا اور ان سب فضولیات سے، لغویات سے اور گناہوں سے توبہ کرنے والے بنے۔ پس حقیقی نمازیں ہیں جو ان برائیوں سے چھڑانے والی ہو جاتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ جماعت احمدیہ صرف پرانے قصے پیش نہیں کرتی بلکہ آج بھی، اس زمانہ میں بھی، بندے کا خدا سے تعلق جوڑنے کے بیشمار واقعات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے، آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ایک انقلاب کی صورت میں لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ قرآنِ کریم کا جو یہ اعلان ہے، یہ دعویٰ ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت: 46) کہ یقینا نماز بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے، آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے پوری ہو رہی ہے اور اپنی سچائی کا اعلان کر رہی ہے۔ یہ اعلان کہ جو لوگ خالص ہو کر نمازیں پڑھتے ہیں، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں، یہ نمازیں یقینا اُن کو برائیوں سے اور فحشاء سے اور ناپسندیدہ باتوں سے روکنے والی ہیں۔ بلکہ قرآنِ کریم کا ہر دعویٰ ہر پیشگوئی جس طرح اس زمانے میں صحیح ثابت ہو رہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے لوگ ہیں اُن کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہیں وہ غیروں کو چاہے وہ مسلمان ہوں نظر نہیں آ سکتیں۔ پھر ایک نومبائع کے تبلیغ کے شوق کے بارہ میں امیر صاحب غانا تحریر کرتے ہیں کہ جب ہم تبلیغ کے لئے اَپر ایسٹ گئے تو بمباگو (Bimbaago) نامی جگہ پر ایک ٹیچر نے احمدیت کی تعلیم سے متاثر ہو کر بیعت کر لی۔ اس کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ کچھ عرصے کے بعد بولگا (Bolga) (وہاں پر ایک شہر کا نام ہے، نارتھ میں بڑا شہر ہے)، بولگا میں خدام کا نیشنل اجتماع ہوا، (وہ جو ٹیچر تھا جس نے بیعت کی) اپنے ساتھ بیس اساتذہ کو لے کر اس اجتماع میں شامل ہوا اور سب لوگ پہلے ہی اُس کی تبلیغ سے احمدی ہو چکے تھے۔ تو دیکھیں کہ نہ صرف یہ کہ بیعت کی اور اپنی اصلاح کی بلکہ اُن لوگوں میں تبلیغ کا بھی ایک شوق ہے، ایک لگن ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھ رہی ہیں۔ پھر برکینا فاسو کے ریجن کوپیلا میں سانہ سلیمان ایک احمدی خادم اور اُن کے تین بھائی احمدیت کی آغوش میں ہیں، اِن کے والد جماعت کے شدید مخالف ہیں اور اکثر جماعت کی مخالفت میں اندھے ہو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو گالیاں دیتے ہیں اور گھر سے نکال دیتے ہیں۔ وہاں برکینا فاسو میں ہماری جماعت کے کئی ریڈیو سٹیشن بھی چل رہے ہیں اور جو دوسرے ریڈیو سٹیشن ہیں اُن میں بھی جماعتی پروگرام کچھ گھنٹوں کے لئے نشر ہوتے ہیں۔ تو ایک روز ان کے (ان تین بچوں کے والدنے) ریڈیو لگایا تو اسلام کی تعلیم پر ایک خوبصورت درس جاری تھا۔ اس درس کو سننے کے بعدان بچوں کے والد اتنے متأثر ہوئے کہ سب بچوں کو بلایا اور کہا کہ دیکھو تم جو کافروں کے ساتھ ملے ہوئے ہو، (یعنی احمدیوں کو کافر کہا) کہ باز آ جاؤ اور اس پروگرام کو سنو جو ریڈیو پر آ رہا ہے۔ کتنا خوبصورت پروگرام ہے، یہ ہیں اصل اللہ والوں کے الفاظ۔ والد صاحب کہنے لگے کہ یہ اصل اللہ والوں کے الفاظ ہیں جو دل میں گھر کر جاتے ہیں، دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ یہ پیغام سنو، یہ اللہ والوں کا پیغام ہے تم کیوں احمدیوں کی طرف جھکے ہوئے ہو اور اُن کی باتیں سنتے ہو اور اُن سے متاثر ہو کر اُن میں شامل ہو گئے ہو۔ پھر اِن کے والد صاحب کہتے ہیں سنو یہ ہے اسلام۔ تویہ والد صاحب اس بات کو بالکل نہیں جانتے تھے کہ یہ وقت جماعتی ریڈیو پر جماعتی پروگرام کا ہے۔ پروگرام گورنمنٹ کے ریڈیو پر آ رہا تھا۔ لیکن جب پروگرام کے آخر پر تعارفی نظم احمدیت زندہ باد، احمدیت زندہ باد گونجی تو یہ سننا تھا کہ فوراً موصوف نے ریڈیو بند کر دیا۔ اس پر بچوں نے اُن کو کہا کہ ابا جان! واقعی آپ صحیح کہتے تھے یہی اصل اللہ والے لوگ ہیں جن کے الفاظ دل میں گھر کر جاتے ہیں اس لئے ہم آج پہلے سے بھی زیادہ احمدیت کے ساتھ مضبوط رشتے میں جڑ گئے ہیں۔ پس ان لوگوں کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیروں اور تعلیم کے مطابق اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور وہ تفسیریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآنِ کریم کی بیان کی ہیں، اُن کو سنیں۔ کیونکہ آج دنیا میں اس سے بہتر کوئی اور علم دے ہی نہیں سکتا۔

پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں ارشد محمود صاحب قرغزستان سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت قرغزستان کے نیشنل صدر سلامت صاحب کے ذریعہ Jildiz Abdullaeva صاحبہ (جو بھی نام ہے اِن کا) نام کی ایک لڑکی نے بیعت کی۔ وہ لڑکی قرغزستان میں موجود امریکن بیس میں کام کرتی ہے۔ وہاں اُس کے ساتھ کام کرنے والے ایک امریکن عیسائی نوجوان نے لڑکی کے نیک چال چلن اور باحیاء ہونے کی وجہ سے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ لڑکی نے کہا کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں اور اپنی جماعت سے پوچھ کر آپ کو کوئی جواب دوں گی۔ چنانچہ وہ مشن ہاؤس آئی اُسے بتایا گیا کہ ایک مسلمان لڑکی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ اس غیرت مند اور نیک فطرت نومبائع بچی نے غیر مسلم امریکن کی شادی سے انکار کر دیا۔ اُس کی پیشکش ٹھکرا دی۔ اس عیسائی نوجوان نے جو اُس کا بڑا گرویدہ ہوا ہوا تھا، کہا کہ اگر مَیں اسلام قبول کر لوں تو کیا پھر ہم شادی کر سکتے ہیں؟ تو لڑکی نے جواب میں کہا کہ اگر اسلام قبول کرنا ہے تو سچا دین سمجھ کر قبول کرو۔ شادی کی خاطر قبول کرنا جو ہے یہ مجھے منظور نہیں ہے، یعنی اگر تم اس لئے قبول کر رہے ہو تو تب مَیں شادی نہیں کروں گی۔ ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے کرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس کیتھولک عیسائی نوجوان نے مسلسل چھ ماہ تک تحقیقات کرنے اور جماعتی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد یکم جولائی 2011ء کو اسلام قبول کر کے، بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ اس تحقیق کے سفر کے دوران (جب تحقیق کر رہا تھا یہ نوجوان) اس نوجوان نے احمدیت مخالف ویب سائٹس کو بھی دیکھا، وہاں جا کر بھی مطالعہ کیا۔ اور آخر کار احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر ہی اس کا دل مطمئن ہوا اور اُس کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے، دعا کی جانی چاہئے۔ یہ لڑکی جو ہے نئی احمدی ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا اُس کے لحاظ سے، دنیا داری کے لحاظ سے، لیکن اُس نے دین کی خاطرٹھکرا دیا۔ اس میں اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ قاعدہ بنا ہوا ہے کہ جب تک بیعت میں ایک سال نہ گزر جائے اور لڑکے کا اخلاص نہ دیکھ لیا جائے ہماری لڑکیوں کو عموماً نئے نومبائعین سے شادی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کہیں شادی کی خاطر تو بیعت نہیں کی؟

(خطبہ جمعہ 2؍ ستمبر 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2021