• 6 مئی, 2024

سمجھیں کہ یوکے (UK) میں رہنے والا ہر احمدی میزبان ہے

سمجھیں کہ یوکے (UK) میں رہنے والا ہر احمدی میزبان ہے
اور باہر سے آنے والا مہمان ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ بہت اہم نصیحت ہے۔ یہ صرف ہمارا زبانی عہدنہ ہو بلکہ عملی نمونہ ہو۔ اب دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے ہوتے ہیں وہاں بھی مہمان آتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف قومیں جلسے پر آتی ہیں۔ ہر قوم اور طبقے کا معیار مختلف ہے۔ برداشت کا مادہ مختلف ہے۔ ان کے بات چیت اور جذبات کے اظہار کے طریق مختلف ہیں۔ ان کی ہمارے سے توقعات مختلف ہیں۔ ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اس لئے ہر ایک کے ساتھ بڑی حکمت سے معاملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پُر حکمت نصیحت ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہئے۔ اگر یہ سامنے ہوگی تو سب معاملے ٹھیک ہو جائیں گے کہ ’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

اگر ہر خدمت کرنے والا اس نصیحت کو پلّے باندھ لے توکبھی جو چھوٹے موٹے مسائل پیدابھی ہوتے ہیں، اِلّا مَاشاء اللہ وہ پیدا نہ ہوں۔ شکایات کبھی نہیں ہوں گی سوائے اس کے کہ کسی کا مقصد ہی شرارت کرنا ہو، تو وہاں تو بہر حال بعض دفعہ سختیاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ گزشتہ سال ایک واقعہ ہوا تھا۔ عورتوں کے کھانے کی دعوت کے دوران ایک خاتون مہمان جو بڑے دور دراز علاقے سے آئی تھیں کسی وجہ سے ناراض ہو گئیں۔ اس میں غلطی کسی کارکن کی تھی یا نہیں تھی، لیکن ہمیں اس کو بہر حال تسلیم کرنا چاہئے، تبھی اصلاح ہو سکتی ہے۔ بجائے اس کے کہ مختلف قسم کی تاویلیں پیش کی جائیں۔ اس مرتبہ تبشیر کے مہمانوں میں مردوں اور عورتوں دونوں طرف اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو بھی تکلیف نہ ہو، کیونکہ یہ مختلف غیر ملکی مہمان ہوتے ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، ویسے تو جیسا کہ میں نے کہا، سب مہمان ہی مہمان ہیں۔ بہر حال اس شعبہ میں مَیں نے کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں انتظامی لحاظ سے ہیں۔ انتظامیہ کو بدلا ہے اور زیادہ تر واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کو شامل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی اب اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک انعام کیا ہے کہ بہت سارے واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو اس عمر کو پہنچ چکے ہیں اور تیار ہو چکے ہیں جو اپنے کام کو سنبھال سکیں۔ کچھ مستقل جماعت کی خدمت کر کے سنبھال رہے ہیں اور کچھ عارضی انتظامات میں بھی آ گئے ہیں۔ مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ یہ معیار اس سال بہتر ہو گا۔ لیکن یاد رکھیں کہ صرف شخصیات بدلنے سے، چہرے بدلنے سے بہتری نہیں آیا کرتی بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شاملِ حال رہے اور ہم وہ کام کریں، اُس طرح احسن رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں جس طرح خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اُس کی توفیق مانگیں۔ اور یہ بھی دعا کریں کہ کوئی ایسا موقع پیدا نہ ہو جس میں غلط فہمی پیدا ہو۔

مہمان نوازی کے ضمن میں اس بات کی بھی مَیں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ انگلستان کے رہنے والے احمدی اور خاص طور پر لندن میں رہنے والے احمدی یہ خیال رکھیں کہ باہر سے، یعنی بیرون از یوکے (UK) سے آنے والے مہمان اُن کے بھی مہمان ہیں۔ باہر سے آنے والے مہمانوں کی تعداد اب کم و بیش تین ہزار ہوتی ہے۔ اگر ویزے مل جائیں تو شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائے۔ اس لئے یہاں کے احمدیوں میں سے کسی کی کسی کام پر ڈیوٹی ہے یا نہیں ہے اُن کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ باہر سے آنے والا ہر مہمان اُن کا مہمان ہے۔ کیونکہ یوکے (UK) میں رہنے والے مہمان بھی جلسے پر آئیں گے تو مہمان ہوں گے، جن کی ڈیوٹی نہیں ہے۔ یہاں کے رہنے والے مہمان جب کسی باہر سے آنے والے مہمان سے رابطے میں ہوں تو سمجھیں کہ یوکے (UK) میں رہنے والا ہر احمدی میزبان ہے اور باہر سے آنے والا مہمان ہے۔ یا یہ سمجھ لیں کہ اگر بعض خاص حالات میں برطانیہ سے آئے ہوئے مہمانوں اور بیرون از برطانیہ آئے ہوئے مہمانوں کے لئے کسی ترجیح کا سوال پیدا ہو تو بیرون از برطانیہ مہمانوں کو پہلی ترجیح ملنی چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کو بہر حال اُن کے لئے قربانی دینی چاہئے۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ بعض حالات میں مہمان ہوتے ہوئے بھی میزبان ہیں۔ یہ صرف ڈیوٹی والوں کا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس سوچ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو وسیع کرتے ہوئے پھر آپ اپنے آپ کو قربانیاں دینے والا بنائیں اور جب یہ کچھ ہو گا تو پھر ایک خوبصورت معاشرہ ہمیں نظر آئے گا۔

(خطبہ جمعہ 23اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

بات کہنے کا اچھا طریقہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2022