• 15 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 31)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
خادموں اور ملازموں سے حسن سلوک
قسط 31

’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں موت دے۔ اور مجھے قیامت کے روز زُمرۂ مساکین میں اٹھا۔‘‘

شاہ کونین رحمۃللعالمین محمد مصطفیﷺ کی یہ دعا سن کر حضرت عائشہؓ نے پوچھا کیوں یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم)

اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ: ’’مساکین اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ اے عائشہ! کسی مسکین کو نہ دھتکارنا خواہ تجھے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ اے عائشہ!مساکین کو اپنا محبوب رکھنا اور انہیں اپنے قرب سے نوازنا۔ خداتعالیٰ کے قیامت کے دن تجھے اپنے قرب سے نوازے گا۔‘‘

(ترمذی کتاب الزھد باب ما جاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیائھم)

رسول اللہﷺ جو مکارم اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر فائز ہیں۔ ہر ذی روح سے حسن سلوک کرنے کا عظیم ترین نمونہ ہیں۔ محروم طبقوں کا خاص طور پر زیادہ احساس فرمایا۔ ان میں سے خادموں، ملازموں اور نوکروں پر آپؐ کے الطاف و اکرام کے واقعات بتانے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں غلاموں کی خریدو فروخت عام تھی ان زر خرید غلاموں کو کم ترین مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ آپؐ نے انہیں برابر کا درجہ دیا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ غلامی میں مالک کے ظلم وستم کا شکار، پتھریلی زمین پہ گھسٹ کر لہو لہان بلال ایک دن حضرت سیدنا بلالؓ بن گئے۔ ان گنت واقعات میں سے چند پیش ہیں پڑھئے اور غلامی کو سرے سے ختم کرنے والے پر درود و سلام بھیجئے۔

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں بچہ تھا اور دس سال تک مجھے حضورؐ کی خدمت کا موقعہ ملا۔ اور مَیں اس طرح کام نہیں کیا کرتا تھا جس طرح حضورؐ کی خواہش ہوتی تھی۔ اکثر یہ ہوتا تھا۔ لیکن آپؐ نے کبھی مجھے آج تک کام کے بارے میں کچھ نہیں کہا، اُف تک نہیں کہی۔ یا یہ کبھی نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا ہے یا تم نے یہ کیوں نہیں کیا یا اس طرح کیوں نہیں کیا۔ کبھی آپؐ نے کچھ نہیں کہا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی الحلم واخلاق النبی)

حضرت انسؓ ہی سے ایک اور روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ ایک بار آپؐ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا۔ میں نے کہا میں نہیں جاؤں گا۔ لیکن میرے دل میں تھا کہ کر لوں گا کام، ابھی کرکے آتا ہوں کیونکہ حضورؐ کا حکم ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ مَیں چل پڑا، بچہ تھا تو بازار میں بچوں کے پاس سے گزرا۔ بچے کھیل رہے تھے میں کھڑا ہو گیا اور ان کو دیکھنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، گردن پرہا تھ رکھا۔ مَیں نے مڑ کر آپؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ ہنس رہے تھے۔ فرمایا: اُنَیس! (مذاق میں کہا) جس کام کی طرف مَیں نے تجھے بھیجا تھا وہاں گئے؟ مَیں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! ابھی جاتا ہوں۔ انس کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے نَو سال تک حضور ؐ کی خدمت کی ہے۔ مجھے علم نہیں کہ آپؐ نے کبھی فرمایا ہو کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ہے یا کوئی کام نہ کیا تو آپؐ نے فرمایا ہو کہ کیوں نہیں کیا۔

(مسلم کتاب الفضائل باب حسن خلقہﷺ)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اسامہ بن زیدؓ دروازے سے ٹکرا گئے جس کی وجہ سے ان کی پیشانی پہ زخم آ گیا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اس کا زخم صاف کرکے اس کی تکلیف دور کرو۔ چنانچہ میں نے اس کا زخم صاف کیا اور حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں پھر رسول اللہ ﷺ اس کو بہلاتے ہوئے شفقت اور محبت کا اظہار فرماتے رہے۔ اور فرمایا کہ اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا اور اسے زیور پہناتا یہاں تک کہ میں اس پر مال کثیر خرچ کرتا۔

(مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار حدیث سید عائشہ رضی اللہ عنہا صفحہ53)

حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے پکڑ کر اپنے ایک زانو پر بٹھا لیتے اور دوسرے پر حسنؓ کو۔ یعنی جب بیٹھے ہوتے تو ران پہ ایک طرف حضرت حسن کو بٹھا لیتے اور دوسرے پر مجھے پھر ہم دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیتے اور فرماتے: ’’اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُمَا فَاِنِّیْ اَرْحَمْھُمَا‘‘ اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرمانا۔ میں ان دونوں سے شفقت رکھتا ہوں۔

(بخاری کتاب الادب باب وضع الصبی علی الفخذ)

اسامہ غلام کا بیٹا اور حسن بن علیؓ آپؐ کا نواسا مگر کوئی تخصیص نہیں کی۔ حتیٰ کہ دعا میں بھی دونوں کو برابر شامل کیا۔


ابو مسعودؓ انصاری کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو ما ررہا تھا۔ مَیں نے اپنے پیچھے سے آنے والی ایک آواز سنی جو یہ تھی کہ ابن مسعود جان لو کہ اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی تم اس غلام پر رکھتے ہو۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ فرمانے والے رسول اللہﷺ تھے۔ چنانچہ میں نے کہا یا رسول اللہ! مَیں اسے اللہ کی خاطر آزاد کرتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کا عذاب پہنچتا۔

(مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ مَنْ لَطَمَ عَبْدَہ)

مارنے والا مالک تھا اور مار کھانے والا غلام تھا۔ کسی قصور پر مار رہا ہوگا۔ آپ ؐ نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کا کیا قصور تھا۔ اس لئے کہ قصور کتنا بھی بڑا ہو اس طرح مارنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اس غلام کو آزادی مل گئی اور غلاموں کا شرف قائم ہوا ن کی عزت نفس کا خیال رکھنے کا سبق دیا۔ غلاموں کو آزاد کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا ثواب ملنے کی نوید دی۔ اور ایسے قوانین بنائے کہ رفتہ رفتہ غلام رکھنے کا رواج ختم ہوگیا

رسول اللہ ﷺ نے کم مراعات یافتہ طبقے خادموں اور ملازموں سے بے مثال حسن سلوک کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے۔ اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مُرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہل دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں… مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خداتعالیٰ کے ماموروں کا خاصّہ ہوتا ہے۔ ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ میری خدمت کرتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گرد و پیش رہتے ہیں اس لئے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہےبعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگار سے ذرا کوئی کا م بگڑا۔ مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا۔ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا بس بیچارے خدمتگاروں کی آفت آ ئی۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر4 صفحہ437 ایڈیشن 1988)

آنحضرتﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؐ کے نور کامل سے فیضیاب ہوئے پھر اسی نور کو آگے پھیلایا فرماتے ہیں کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں۔ اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو میرے پاس آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔ بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ! خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خداتعالیٰ اس واسطے درگزر نہ کر ے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ370)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہےاور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے۔ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں۔ لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے اس کی دلجوئی کرے، اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے خداتعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقٰبِ ۖ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمٰنِ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ

(الحجرات: 12)

تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسّاق و فُجار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیرنہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا۔ خداتعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰٮکُمۡ ۚ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (الحجرات: 14)

(ملفوظات جلد اول صفحہ22-23 رپورٹ جلسہ سالانہ 1897)

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

آنحضرت ﷺ کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدمت گزاروں کا خیال رکھنے کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک پیرا پہاڑیہ تھا۔ مزدور آدمی تھا جو پہاڑی علاقے سے آیا ہوا تھا۔ بالکل جاہل اور اجڈ آدمی تھا۔ لیکن بہت سی غلطیاں کرنے کے باوجود کبھی یہ نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کبھی اسے جھڑکا ہو۔ ایک دفعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اچانک بیمار ہو گئے گرمی کا موسم ہونے کے باوجود ایک دم ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے اور مسجد کی چھت پر ہی مغرب کی نماز کے بیٹھے ہوئے تھے تو اس وقت جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کو فوراً فکر ہوئی، تدبیریں ہونی شروع ہوئیں کہ کیا کرنا ہے۔ یہی جو پیرا تھا، ان کو بھی خبر پہنچی، وہ گارے مٹی کا کوئی کام کر رہے تھے، یہ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں اندر آ گئے اور یہ نہیں دیکھا کہ دری بچھی ہوئی ہے یا کیا ہے تو اسی فرش پہ نشان بھی پڑنے شروع ہو گئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاؤں دبانے شروع کر دئیے۔ تو لوگوں نے ذرا ان کو گھورنا شروع کیا، ڈانٹنا شروع کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ: ’’اس کو کیا خبر ہے جو کرتا ہے کرنے دو کچھ حرج نہیں۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ350)

حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خادموں میں سے ایک حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ مرحوم تھے۔ وہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق اور برتاؤ کا حافظ صاحب سے کرتے تھے ان پر ایسا اثر تھا کہ وہ بارہاذکر کرتے ہوئے کہا کرتے

مَیں نے ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں۔ بلکہ زندگی بھر حضرت صاحب کے بعد کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا تھا۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ:
’’مجھے ساری عمر کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا۔ بلکہ مَیں بڑا ہی سست تھا اور اکثر آپؑ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر کر دیا کرتا تھا۔ بایں سفر میں مجھے ساتھ رکھتے‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ349-350)

حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ لکھتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ حافظ حامد علی صاحب کو حاضر غائب اسی پورے نام سے پکارتے یا میاں حامد علی کہتے۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ338)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’حافظ حامد علیؓ کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ اور معاملہ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہےاور یہ بات حافظ حامد علیؓ ہی پر موقوف نہ تھی حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اور کوئی عزیز آپ کو نہیں۔بہرحال حافظ حامد علیؓ کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپ نے دیئے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آؤ۔ حافظ حامد علیؓ کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا۔پس وہ کسی اور کام میں مصروف ہو گئے اور اپنے مفوّض کو بھول گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ (جو اُن دنوں میں میاں محمود اور ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔ آپؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں سے بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپؑ اُن کے جواب کے منتظر تھے۔ حامد علیؓ کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا: ’’حامد علی! تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو۔‘‘ ضروری اور بہت ضروری خطوط جن کے جواب کا انتظار مگر خادم کی غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بجائے ڈاک میں جانے کے وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں سے جا ملتے ہیں اس پر کوئی باز پُرس کوئی سزا اور کوئی تنبیہ نہیں کی جاتی۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ109)

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں، کہ ایک عورت نے اندر سے کچھ چاول چرائے، چور کا دل نہیں ہوتا اس لئے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بیتابی اور اس کا ادھر اُدھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا۔ شور پڑ گیا۔ اس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی ادھر سے ملامت اُدھر سے پھٹکار ہو رہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے اُدھر آنکلے پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا۔ فرمایا:
’’محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ25
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ جلد اول صفحہ101)

خان صاحب اکبر خان صاحب نے بتایا کہ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پرسے حضرت اقدس کے مکان پرجانے کے لئے پہلے بھی اسی طرح ایک راستہ ہوتا تھا… ایک دفعہ میں لالٹین اٹھا کر حضرت اقدسؑ کو راستہ دکھانے لگا۔ اتفاق سے لالٹین ہاتھ سے چھوٹ گئی لکڑی پر تیل پڑا اوپر سے نیچے تک آگ لگ گئی۔ میں بہت پریشان ہوا۔ بعض لوگ بھی کچھ بولنے لگے لیکن حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
’’خیر ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں۔ مکان بچ گیا۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ جلد اول صفحہ100)

خان اکبر صاحب ہی بیان کرتے ہیں حضرت اقدسؑ کا قاعدہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلا یا کرتے تھے۔ اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔ جن دنوں میں میں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی ایک د فعہ حضرت اقدسؑ کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گر پڑی۔ اور تمام مسودات جل گئے علاوہ ازیں اور بھی چند چیزوں کا نقصان ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت اقدسؑ کے کئی مسودات ضائع ہوگئے ہیں۔ تو تمام گھر میں گھبراہٹ، میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی ہوئی کیوں کہ حضرت اقدسؑ کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے لیکن جب حضورؑ کو معلوم ہوا تو حضورؑ نے اس واقعہ کو یہ کہہ کر رفت گزشت کر دیا کہ:
’’خداتعالیٰ کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوگیا۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ جلد اول صفحہ99)

ہم آنحضرت ﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے عشق کرتے ہیں۔ بڑے شوق سے ان کے واقعات بھی پڑھتے ہیں۔ اللہ کرے ہم اپنے ماتحتوں سے یا جن پر کچھ اختیار حاصل ہے سے حسنِ سلوک کے یہ انداز اپنا کر اپنے عشق کو اپنے عمل سے سچا کر دکھائیں۔ آمین اللّٰھم آمین۔

(امۃ الباری ناصر- امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ