• 15 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 26)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 26

سوال:۔ ایک دوست نے اصول فقہ کے قانون ’’قول صحابیٔ رسولﷺ شرعی حکم کے استنباط کیلئے دلیل ہے‘‘ کے بارہ میں حضور انور سے راہنمائی کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 جولائی 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ حضور ﷺ کے تربیت یافتہ تھے، انہوں نے حضور ﷺ سے علم و عرفان حاصل کیا۔ اور وہ مقاصد شریعت کو زیادہ اچھی طرح جانتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اصول فقہ والوں کا یہ قانون ایک hard and fast rule کے طور پر نہیں مانا جا سکتا۔ کیونکہ اقوال صحابہ بھی احادیث ہی کی طرح آنحضور ﷺ اور صحابہ کا دورگزر نے کے بعد جمع کئے گئے۔

صحابہ رسول ﷺ کے اقوال کا درجہ تو یقیناً احادیث نبویﷺ کے بعد آتا ہے۔ جبکہ بہت سی احادیث پر علماء و فقہاء نے جرح کر کے انہیں ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔ امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ کو چھ لاکھ کے قریب احادیث یاد تھیں جن میں سے انہوں نے سولہ سال کی محنت شاقہ کے بعد صرف تین ہزار کے قریب احادیث کو اپنی صحیح میں شامل فرمایا۔ دوسری صدی ہجری کے مؤرخ واقدی کی بیان کردہ متعدد احادیث ایسی ہیں جن کو علماء نے قابل استناد قرار نہیں دیا۔

پس اصل بات وہی ہے جو حضور ﷺ کے غلام صادق اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے مبعوث ہونے والے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے کہ ’’کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کیلئے حکم مقرر نہ کرے؟ اور جب کہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حکم ہے اور قول فصل ہے اور حق اورباطل کی شناخت کیلئے فرقان ہے اور میزان ہے تو کیا یہ ایمانداری ہو گی کہ ہم خدا تعالیٰ کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لاویں؟ اور اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طو پر اسی مشکوٰۃ وحی سے نور حاصل کرنیوالے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ22)

پس اس تعلیم کی روشنی میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کے وہ اقوال جو قرآن کریم، سنت نبویہ ﷺ اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہیں، شرعی احکام کے استنباط کیلئے دلیل شمار ہوں گے۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا غیر مسلموں پر رحم کرنا اور ان کیلئے استغفار کرنا جائز ہے۔ اور ان پر اتمام حجت ہونے یا نہ ہونے سے ان کیلئے رحم اور استغفار کرنے میں کوئی فرق پڑے گا؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 جولائی 2020ء میں اس کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔

جواب:۔ قرآن کریم کا علم رکھنے والے کی طرف سے اس قسم کا سوال کرنا قابل تعجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح اپنے لئے رب العالمین کے الفاظ استعمال کر کے یہ مضمون بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں پائی جانے والی مخلوق کی رنگ و نسل اور مذہب و ملت کا فرق کئے بغیر ربوبیت کرنے والی ذات ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات بابرکات کیلئے رحمۃ المومنین یا رحمۃ المسلمین کی بجائے رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء: 108) کے الفاظ استعمال فرما کر ہمیں بتا دیا کہ یہ رسول تمام جہانوں کیلئے بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت سراپائے رحمت ہے۔

یہی تعلیم حضورﷺ نے اپنے متبعین کو بھی دی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا لَا يَرْحَمُ اللّٰهُ مَنْ لَّا يَرْحَمُ النَّاسَ (صحیح بخاری کتاب التوحید) یہاں پر بھی حضور ﷺ نے یرحم المومنین یا یرحم المسلمین کی بجائے یرحم الناس کے الفاظ استعمال کر کے ہمیں سمجھا دیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا دل جب تمام بنی نوع انسان کیلئے رحمت کے جذبہ سے لبریز ہوگا تب وہ اللہ تعالیٰ کے رحم کا مورد ہو سکے گا۔

جہاں تک کسی کیلئے استغفار کرنے کا تعلق ہے تو اس بارہ میں بھی قرآن و سنت نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ ایسا مشرک جس کے متعلق یہ واضح ہو جائے کہ وہ خدا کا دشمن اور یقیناً جہنمی ہے اس کیلئے استغفار نہ کیا جائے۔ اور کسی کے جہنمی ہونے کا علم یا تو ا للہ تعالیٰ کی ذات کو ہے یا اس کے ان انبیاء اور برگزیدوں کو ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ خود کسی کے جہنمی ہونے کی خبر دیتا ہے۔ اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کے عدو اللہ ہونے کی خبر دی تو آپ اس کیلئے استغفار سے دست بردار ہو گئے۔ (التوبہ: 114)

مدینہ کے منافقین کی شرارتوں اور ان کی طرف سے آنحضورﷺ اور مسلمانوں کو دی جانے والی تکالیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کیلئے سخت انذار فرمایا اور انہیں نافرمان قرار دیتے ہوئے جہنمی قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو چونکہ اس وقت تک ان کیلئے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اس لئے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی وفات پر حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اس اختیار کی بناء پر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کیلئے استغفار کیا۔

اسلام کی عفو کی تعلیم اپنے اندر ایک ایسی گہری حکمت رکھتی ہے جس سے پہلے مذاہب کی تعلیمات عاری تھیں۔ لہٰذا اسلام اپنے ہر دشمن کیلئے جب تک کہ اس کے اصلاح پانے کی امید باقی ہو، ہدایت کی دعا کرنے اور اس کی تربیت کیلئے کوشش کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ جنگ احد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور حضور ﷺ بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دیدے کیونکہ وہ (میرے مقام اور اسلام کی) حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ (شعب الایمان للبیھقی) اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ (اسلام اور میرے مقام کی) لاعلمی کی وجہ سے اسلام کی مخالفت کر رہی ہے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی)

پس اسلام اپنے متبعین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کیلئے بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل رحم کے جذبات سے پُر ہوں اور سوائے ان مشرکوں اور خدا کے دشمنوں کے جن کے جہنمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مہر ثبت فرما دی ہو، ہر ایک کیلئے استغفار کرنے والے ہوں۔

آپ کے سوال کا تعلق اگر کسی معین انسان کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں پھر مسلم اور غیر مسلم کا سوال نہیں اٹھتا بلکہ اس انسان کے پیدا کردہ حالات، واقعات اوراس سے تعلق رکھنے والے حقائق کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے۔

سوال:۔ ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ کیایکم ذوالحج سے قربانی تک بال اور ناخن نہ کٹوانے کا ارشاد صرف حاجیوں کیلئے ہے یا ہر قربانی کرنے والے کیلئے ہے۔ نیز یہ کہ اگر کسی علاقہ میں ذوالحج کے چاند نکلنے کا بعد میں پتہ چلے تو اس علاقہ کےلوگوں کیلئے کیا ہدایت ہے؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11 اگست 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ احادیث سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم ہر قربانی کرنے والے کیلئے ہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو تو جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہواسے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہیں کٹوانے چاہئیں۔ (صحیح مسلم کتاب الاضاحی)

باقی اگر کسی علاقہ میں ذوالحج کے چاند نکلنے کا 29 ذوالقعد کو نہ علم ہو سکے اور ایک دو روز بعد وہاں کے لوگوں کو اس کی اطلاع ملے تو اس علاقہ کے لوگ اسی وقت حضورﷺ کے اس حکم کے مکلف ہوں گے جب انہیں چاند کے نکلنے کی اطلاع ملے۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو قتل کیا گیا تھایا قتل سے مراد ان کے پیغام کا قتل ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارہ میں اپنے مکتوب مؤرخہ 11 اگست 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہماالسلام کے قتل کے بارہ میں جس طرح تاریخ و سیرت کی کتب میں اور علمائے سلف کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے، اسی طرح جماعت میں بھی اس بارہ میں قرآنی آیات سے استدلال اور احادیث کی تشریح کی روشنی میں خلفائے احمدیت کی آراء مختلف ہیں۔ میری رائے اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق ہے اور میں قرآن کریم، احادیث نبویﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اسی موقف پر قائم ہوں کہ کسی بھی سلسلہ کا پہلااور آخری نبی یا وہ نبی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہو کہ وہ اسے انسانوں کی دسترس سے بچائے گا، قتل نہیں ہو سکتے۔ ان کے علاوہ باقی انبیاء کیلئے قتل نفس کوئی معیوب بات نہیں اور اس سے نبی کی شان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے۔ مگر ہاں ناکام قتل ہو جانا انبیاء کی شان میں سے نہیں ہے۔پس جب ایک نبی اپنا کام پورا کر چکے تو پھر وہ طبعی طور پر فوت ہو یا کسی کے ہاتھ سے شہید ہو جائے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ کیونکہ کامیابی کی موت پرنہ کسی کو تعجب ہوتا ہے اور نہ دشمن کو خوشی ہوتی ہے۔

پس حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام بھی کسی سلسلہ کے پہلے اور آخری نبی نہیں تھے اور نہ ہی ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ مذکور ہے کہ وہ انہیں دشمن کے ہاتھ سے ضرور محفوظ رکھے گا۔ اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ جب ان انبیاء کی شہادت ہوئی تو یقیناً وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر چکے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد فرمائی تھیں۔

سوال:۔ ایک خاتون نے نکاح اور طلاق کے بارہ میں بعض سوالات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوا کر ان کے بارہ میں راہنمائی چاہی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 17 اگست 2020ء میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب عطاء فرماتے ہوئے درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:۔

1۔ طلاق یا خلع کیلئے فریقین کا متفق ہونا یا اس کیلئے گواہوں کا ہونا ضروری نہیں۔ لیکن انعقاد نکاح کیلئے دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہے، جس کیلئے فریقین اور لڑکی کے ولی کی رضامندی اور گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ نیز اس معاہدہ کے اعلان کا بھی حکم ہے۔

جبکہ نکاح کے معاہدہ کو ختم کرنے کا اختیار اسلام نے فریقین کو دیا ہےجسے اصطلاح میں خلع اور طلاق کہا جاتا ہے۔ عورت جس طرح اپنا نکاح خود بخود نہیں کر سکتی بلکہ اپنے ولی کے ذریعہ کرتی ہے، اسی طرح خلع کا استعمال بھی وہ بذریعہ قضاء یا حاکم وقت ہی کر سکتی ہے۔ تا کہ خلع کی صورت میں اس کے حقوق کی حفاظت ہو سکے۔ جبکہ مرد جس طرح اپنے نکاح کا انعقاد اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اسی طرح طلاق کا استعمال بھی وہ خودبخود کر سکتا ہے کیونکہ طلاق کی صورت میں عورت کے حقوق کی ادائیگی خاوند پر لازم ہوتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلع اور طلاق کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دیدے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خُلع ہے۔ جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابل برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آباد رہنا ناگوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کردے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے۔

اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہوخود بخود اپنانکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ288-289)

خلع کا انعقاد چونکہ بذریعہ قضاء ہوتا ہے، اس لئے اس میں خود بخود گواہی قائم ہو جاتی ہے۔ لیکن طلاق چونکہ اس طرح نہیں ہوتی اس لئے اگر میاں بیوی طلاق کے اجراء پر متفق ہوں اور ان میں کوئی اختلاف نہ ہو تو پھر گواہی کے بغیر بھی طلاق مؤثر ہو تی ہے۔ طلاق کیلئے گواہی کا ہونا مستحب ہے لازمی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے طلاق اور رجوع کے سلسلہ میں جہاں گواہی کا ذکر فرمایا ہے وہاں اسے نصیحت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّاَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَاَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ (الطلاق: 3) یعنی پھر جب عورتیں عدت کی آخری حد کو پہنچ جائیں تو انہیں مناسب طریق پر روک لو یا انہیں مناسب طریق پر فارغ کردو اور اپنے میں سے دو منصف گواہ مقرر کرو اور خدا کیلئے سچی گواہی دو۔ تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اس کو یہ نصیحت کی جاتی ہے۔ اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کیلئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا۔

فقہاء بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق دیدے یا رجوع کر لے تو اس سے اس کی طلاق یا رجوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

2۔ جہاں تک غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق کا معاملہ ہے توجب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ بیوی کی کسی ناقابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے۔ بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اسے طلاق نہیں دیتا۔اس لئے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہو گی۔

البتہ اگر کوئی انسان ایسے طیش میں ہو کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری ہو اور اس نے نتائج پر غور کئے بغیر جلدبازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کیلئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَلٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ (البقرہ: 226) یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو (قسموں) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالارادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بُردبار ہے۔

3۔ شرطی طلاق بھی مقررہ شرط کے پورا ہونے پرمؤثر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد اور آپ کے آزاد کردہ غلام نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے بیوی سے کہا کہ اگر وہ باہر نکلی تو اسے طلاق ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فتویٰ دیا کہ اگر اس کی بیوی باہر نکلے گی تو اسے طلاق ہو جائے گی اور اگر وہ نہ نکلی تو اس پر کچھ نہیں۔

(صحیح بخاری کتاب الطلاق)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں:۔
اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔

(البدر نمبر21 جلد2 مؤرخہ 12جون 1903ء صفحہ162)

4۔ طلاق کیلئے پسندیدہ امر یہی ہے کہ خاوند ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا اورحمل کی حالت میں، حیض یا نفاس کے ایام میں طلاق دیتا ہے تو ایسی طلاق بھی مؤثر ہو گی۔ کیونکہ اگر صرف ایسے طہر میں دی جانے والی طلاق ہی مؤثر ہوتی جس میں خاوند نے تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو تو پھر قرآن کریم میں حمل والی عورت کی عدت طلاق کا بیان عبث ٹھہرتا ہے۔ پس قرآن کریم میں حمل والی عورتوں کی عدت طلاق کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ حمل کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر قرار پاتی ہے۔

اسی طرح حیض میں دی جانے والی طلاق کے بارہ میں کتب احادیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ ان کی طرف سے بیوی کو اس کے ایام حیض میں دی جانے والی طلاق، ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔

(صحیح مسلم کتاب الطلاق)

5۔ایسی طلاق جس کے بعد بیوی پر عدت کا حکم لاگو ہوتا ہے، اس عدت کے بارہ میں قرآنی حکم ہے کہ اس دوران نہ خاوند بیوی کو گھر سے نکالے اور نہ بیوی اپنا گھر چھوڑ کر جائے، بلکہ عدت کا عرصہ وہ خاوند کے گھر میں ہی گزارے۔ چنانچہ فرمایا لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَلَا یَخۡرُجۡنَ (الطلاق: 2) یعنی ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔

اسلام نے مطلقہ پر عدت کے دوران بناؤ سنگھار کرنے یا کام کاج اور دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے گھر سے باہر جانے کے حوالہ سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جیسی پابندیاں اس نے بیوہ پر اس کی عدت کے دوران لگائی ہیں۔ بلکہ احادیث میں مطلقہ کیلئے اس کے برعکس حکم ملتا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ایک خاتون کوطلاق کی عدت کے دوران نہ صرف باہر جانے کی اجازت دی بلکہ اس پر پسندیدگی کا بھی اظہار فرمایا۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں:۔ طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا۔

(صحیح مسلم کتاب الطلاق)

یعنی میری خالہ کو طلاق ہوئی اور وہ اپنا کھجور کا باغ کاٹنے نکل کھڑی ہوئیں۔ راستہ میں ایک شخص نے انہیں گھر سے باہرنکلنے پر ڈانٹا۔ اس پر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ تو حضور ﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم بیشک اپنا کھجور کا باغ کاٹو۔ شاید اس طرح تمہیں صدقہ دینے یا نیکی کرنے کا موقعہ مل جائے۔

7۔ خلع طلاق بائن کا حکم رکھتا ہے۔ یعنی اس کے بعد رجوع کیلئے تجدید نکاح لازمی ہے، اس کے بغیر رجوع نہیں ہو سکتا۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ