• 9 مئی, 2025

ہزاروں نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصدیق کے ظاہر ہوئے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’دیکھو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزاروں نشان میری تصدیق کے ظاہر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور آئندہ ہوں گے‘‘۔ (یہ نہیں کہ بند ہو گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آئندہ ہوں گے۔) ’’اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدر تائید اور نصرت اس کی ہرگز نہ ہوتی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 48) یہ اللہ تعالیٰ کا ہی منصوبہ ہے جس کی وجہ سے تائید ہو رہی ہے۔

ایک موقع پر ضرورت مصلح اور مسیح موعود کی ضرورت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’جیسا کہ ہر ایک فصل کے کاٹنے کا وقت آ جاتا ہے۔ ایسا ہی اب مفاسد کے دُور کردینے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ (جو فساد دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کا وقت آ گیا ہے۔) آپ فرماتے ہیں۔ ’’صادق کی توہین اور گستاخی انتہا تک کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر (آپ فرماتے ہیں نعوذ باللہ) مکھی اور زنبور جتنی بھی نہیں کی گئی۔ زنبور سے بھی انسان ڈرتا ہے (ایک بھڑ جو ہے) اور چیونٹی سے بھی اندیشہ کرتا ہے لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے میں کوئی نہیں جھجکتا۔ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا کے مصداق ہو رہے ہیں۔ جتنا منہ ان کا کھل سکتا ہے انہوں نے کھولا اور منہ پھاڑ پھاڑ کر سبّ وشتم کئے۔ اب واقعی وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کا تدارک کرے۔ ایسے وقت میں وہ ہمیشہ ایک آدمی کو پیدا کیا کرتا ہے جو اس کی عظمت اور جلال کے لئے بہت جوش رکھتا ہے۔ ایسے آدمی کو باطنی مدد کا سہارا ہوتا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کرتا ہے مگر اس کا پیدا کرنا ایک سنّت کا پورا کرنا ہوتا ہے۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلًا۔‘‘ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سنت کے موافق بھیجا ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ’’خداتعالیٰ کے صحیفہ قدرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بات حد سے گزر جاتی ہے تو آسمان پر تیاری کی جاتی ہے۔ یہی اس کا نشان ہے کہ یہ تیاری کا وقت آ گیا ہے۔ سچے نبی و رسول و مجدد کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ وقت پر آوے اور ضرورت کے وقت آوے۔ لوگ قسم کھا کر کہیں کہ کیا یہ وقت نہیں کہ آسمان پر کوئی تیاری ہو؟‘‘ (آپ پوچھ رہے ہیں۔ لوگوں سے سوال کر رہے ہیں کہ قسم کھا کے بتاؤ کہ کیا یہ وقت نہیں ہے۔ وہ زمانہ بھی تھا اور آج بھی لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان میں تو مولوی خود یہ کہتے ہیں لیکن مسیح موعود کا انکار ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’مگر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کیا کرتا ہے۔ ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حجروں میں بیٹھ جائیں تب بھی کام ہو جائے گا اور دجّال کو زوال آجائے گا۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔‘‘ (اس طرح دن آپس میں پھرا کرتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’اس کا کمال بتاتا ہے کہ اب اس کے زوال کا وقت قریب ہے‘‘۔ (کسی چیز کو جب عروج حاصل ہو جائے، جب انتہا پہ پہنچ جائے تو وہ سمجھنے لگے کہ اب میں سب طاقتوں کا مالک ہو گیا ہوں اور سب ترقیاں میرے ہاتھ میں آ گئی ہیں تو پھر وہ جو عروج ہے اس پر پہنچ کر پھر وہاں سے زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اب ان طاقتوں کا بھی زوال شروع ہوگیا ہے۔ چاہے وہ اسلام کے خلاف طاقتیں ہیں یا وہ لوگ جو احمدیت کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس کا ارتفاع ظاہر کرتا ہے کہ اب وہ نیچا دیکھے گا۔‘‘ (انتہائی بلندی پہ پہنچ گیا۔ اب یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب وہ نیچے کی طرف آئے گا۔) ’’اس کی آبادی اس کی بربادی کا نشان ہے۔‘‘ (وہ سمجھتا ہے کہ اس کی طاقت اور آبادی بہت زیادہ ہے تو اب یہ بربادی کا نشان بن جائے گی۔) ’’ہاں ٹھنڈی ہوا چل پڑی (ہے)۔ اللہ تعالیٰ کے کام آہستگی کے ساتھ ہو تے ہیں‘‘۔ (ٹھیک ہے۔ نشان شروع ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں اور وہ ان شاء اللہ ہو جائیں گے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہ ہوتی تاہم زمانے کے حالات پر نظر کر کے مسلمانوں پر واجب تھا کہ وہ دیوانہ وار پھرتے اور تلاش کرتے کہ مسیح اب تک کیوں نہیں کسرِ صلیب کے لئے آیا۔ ان کو یہ نہ چاہئے تھا کہ اسے اپنے جھگڑوں کے لئے بلاتے۔‘‘ (اسلام کی غیرت تھی تو اسلام کے دفاع کے لئے بلاتے۔ مسیح کو تلاش کرتے، نہ کہ اپنے جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے۔) فرمایا ‘‘کیونکہ اس کا کام کسرِ صلیب ہے اور اسی کی زمانے کو ضرورت ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 396 تا 398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اسی طرح ایک جگہ فرمایا کہ ’’دہریت بھی پھیل رہی ہے زیادہ اور میں اس کے ردّ کے لئے بھی آیا ہوں۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 28۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ فرماتے ہیں کہ ’’اسی لئے اس کا نام مسیح موعود ہے۔ اگر مُلّانوں کو بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہبودی مدّ نظر ہوتی تو وہ ہر گز ایسا نہ کرتے جیسا ہم سے کر رہے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہئے تھا کہ انہوں نے ہمارے خلاف فتوی لکھ کر کیا بنا لیا ہے۔ جسے خدا تعالیٰ نے کہا کہ ہو جائے اسے کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہو۔‘‘ (فتوی لکھا تو اس کا کیا فائدہ ہوا۔ جماعت تو اسی طرح ترقی کر رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔)

آپ فرماتے ہیں ’’یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں یہ بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں کہ کسی نہ کسی رنگ میں ہماری بات مشرق و مغرب تک پہنچا دیتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جو مخالفت کر رہے ہیں وہ بھی حقیقت میں مخالفت کے ذریعہ سے ہی احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں کیونکہ اس طرح بھی لوگوں کو توجہ پیدا ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگ خط لکھتے ہیں اور رابطہ کرتے ہیں کہ فلاں مولوی کی مخالفت کی وجہ سے یا فلاں جگہ آپ کے خلاف باتیں ہو رہی تھیں۔ ان کی وجہ سے ہمیں تجسّس پیدا ہوا تو ہم نے تحقیق کرنی شروع کی۔ اور اب تو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ہر جگہ جماعتی لٹریچر بھی میسر ہے اور بہت ساری باتیں مل جاتی ہیں۔ موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تو تحقیق کر کے اب ہم جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ تو مولویوں کا، مخالفین کا یہ ذریعہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ بن رہا ہے۔

(خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2018ء فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اگست 2020