ہم جب جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھے اس وقت تعلیمی سرگرمیوں اور کھیلوں کی Activities کے علاوہ دوران جامعہ طلبہ کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئےتین Trip کروائے جاتے تھے۔ جو یہ تھے۔
- پیدل سفر
- تربیتی دورہ
- ہائیکنگ
ان کی تقسیم کچھ یوں تھی کہ درجہ ثانیہ میں پیدل سفر کرلینا ضروری تھا۔درجہ رابعہ میں تربیتی دورہ ہوتا تھا اور درجہ خامسہ میں ہائیکنگ کروائی جاتی تھی اور یوں درجہ شاہد کی ڈگری سے قبل ان تین Trips کے سنگ میل کو عبور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ویسے تو خاکسار کے تینوں Trips نہایت ہی دلچسپ، معلوماتی اور ازدیاد ایمان و علم کا باعث بنے اور تینوں پر الگ الگ مضمون لکھا جاسکتا ہے تاہم آج «پیدل سفر» پر اپنے ذمہ قرض کو نبھانے کی کوشش کروں گا۔
سن 1972ء کی بات ہے جب خاکسار درجہ اولیٰ کا طالب علم تھا اور پرنسپل جامعہ احمدیہ مکرم سید میرداؤد احمد مرحوم کی طرف سے پیدل سفر کا اعلان ہوا۔ غالباًاپریل کا مہینہ مقرر ہوا اور نوٹس بورڈ پر سرخ رنگ سے یہ اعلان آویزاں ہوا کہ جو طلبہ اس سال پیدل سفر کا سنگ میل عبور کرنا چاہتے ہیں وہ تیاری شروع کردیں اور اپنے نام لکھوا دیں اور ساتھ درج تھا کہ درجہ ثانیہ کے وہ تمام طلبہ اس پیدل سفر میں حصہ لیں گے جو ابھی تک جامعہ کا یہ اہم رکن مکمل نہیں کرپائے اوردرجہ رابعہ کے ایسے طلبہ جو کسی وجہ سے یہ سفر مکمل نہیں کرپائے تھے وہ بھی ضرور حصہ لیں گے۔
یہ سفر 125 میل کے قریب قریب ہوتا تھا۔ مگر اس سال مکرم پرنسپل صاحب نے جو مختلف راستوں کا سروے کروایا۔ اس میں ایک روٹ ربوہ سے براستہ چنیوٹ، برج، کھڑیانوالہ اور وہاں سے فیصل آباد لاہور روڈ کو اختیار کرتے ہوئے براستہ شاہ کوٹ، شیخوپورہ سے پنڈی بھٹیاں روڈ کو لیتے ہوئے براستہ سکھیکی۔ پنڈی بھٹیاں اور وہاں سے چنیوٹ اور ربوہ کاسفر تھا جو قریباً 152 میل بنتا تھا۔
جتنا بڑا کام ہو اس کی تیاری بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے اس کے لئے خاکسار نے اپنے دوستوں سے مشورہ شروع کیا تو میرے ساتھ میرے ایک بہت ہی قریبی دوست اور کلاس فیلو منیر احمد عابد اور رنگ (Ring) کھیل میں میرے ایک ساتھی رشید احمد عاصم درجہ ثانیہ نے حامی بھری اور یوں ہم نے تیاری شروع کردی۔ پیدل سفر کے لئے ہم نے درخواست جمع کروادی۔ رشید عاصم تو درجہ ثانیہ میں تھے۔انہوں نے تو سفر کرنا ہی تھا۔ ہم دونوں نے اجازت چاہی تو مجھے اس شرط پر اجازت ملی کہ پڑھائی میں فرق نہ آئے اور سالانہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنی ہے جبکہ منیر احمد عابد کو والد صاحب سے اجازت کے ساتھ مشروط کیا گیا اور یوں ہم دو ہی درجہ اولیٰ کے اس سفر میں تھے۔ ہم تینوں کے گھر مختلف جہت پر تھے اور میرا گھر ان دونوں کے درمیان پڑتا تھا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہر روز بعد عصر دونوں دوست مجھے گھر سے لے کر احمدنگر تک کراس کنٹری ریس کریں گے اور چھٹی والے دن یعنی جمعہ کو فجر کے بعد ہم تینوں چنیوٹ دوڑتے ہوئے جایا کریں گے اور سبزی منڈی سے حسب استطاعت و توفیق سبزی خرید کر پیدل ہی واپس ربوہ آئیں گے۔ یہ سلسلہ قریباً ڈیڑھ ماہ جاری رہا اور اس طرح 15 منٹ میں ربوہ سے چنیوٹ پیدل پہنچنے کی پریکٹس کی اور یوں ہم 152 میل کا سنگ میل ہنستے کھیلتے عبور کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور ہم تینوں نے مصّمم ارادہ کرلیا کہ پیدل سفر میں حصہ لینے والے 36 طلبہ میں سے پہلی تین پوزیشنزہماری ہی ہوں گیں۔
پیدل سفر کی شرائط
اس پیدل سفر کی شرائط بہت سخت اور کڑی ہوتی تھیں اور اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی پابندی نہ ہوئی ہو تو سفر منسوخ متصّور ہوتا تھا اور اگلے سال دوبارہ کرنا ہوتا تھا۔ ان تمام شرائط کو سامنے رکھ کر سفر کے آغاز سے قبل ایک عہد بھی لیا جاتا تھا کہ ان شرائط کاپابند رہوں گا۔ وہ شرائط یہ تھیں۔
- سفر مکمل پیدل کرنا ہوگا۔ کسی سائیکل، موٹر بائیک، کار یا بس سے مدد نہیں لی جائیگی۔
- راستہ میں کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی۔ خواہ کوئی ھدیہ کرتا ہو۔
- سفر کا زاد راہ گھر سے لے جاسکتے ہیں۔ جس میں بُھنے ہوئے چنے، سویابین یا السی وغیرہ سے تیار شدہ کوئی چیز اور طاقت کے لئے گلوکوزہمراہ رکھ سکتے ہیں۔
- اپنے ساتھی سے بھی کوئی چیز لے کر کھانے کی ممانعت ہوگی۔
- اپنے پاس 10 روپے رکھ سکتے ہیں۔ جس کو استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ہاں اگر آپ بیمار ہوگئے یا ہمت ہار گئے تو اس رقم کو بطور کرایہ خرچ کرنے کی اجازت تھی۔
ہم تینوں بہت پُر عزم تھے۔ دُعا کے ساتھ جامعہ کے گراؤنڈ کے ساتھ ملحقہ گیٹ سے سفر کا آغاز ہوا۔ دُعا مکرم پرنسپل صاحب نے کروائی۔ ہم تینوں چونکہ پوری تیاری میں تھے۔ اچھلتے کودتے اور چھلانگیں لگاتے ہم سب سے آگے تھے اورفیصل آباد، شیخوپورہ روڈ پر گھسیٹ پورہ سے قبل گجر سنگھ کے ایک کنواں پر دوپہر کا کھانا کھایا اور کنواں کے پانی سے خوب محظوظ ہوئے۔ پہلے دن ہم 71 میل کا سفر طے کرکے شاہ کوٹ پہنچ چکے تھے۔ اندھیرے بھی پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ ہماری آگے بڑھنے کی سکت اور استطاعت بھی بس ہوچکی تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ رات یہیں بسر کی جائے۔ ہم نے رات بسر کرنے کے لئے جگہ ڈھونڈنی شروع کی ہمیں برلب سڑک ایک تھڑا نظر آیا جس پر لوگ نماز ادا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی چارپائی پڑی تھی۔ جس پر دو تین افراد آرام سے لیٹ سکتے تھے۔ ساتھ چائے کا ٹھیلہ سا تھا۔ اس سے اجازت لے کر ہم نے پڑاؤ کا فیصلہ کیا۔ ہم بہت تھک چکے تھے۔ جرابیں وغیرہ اُتار کر ہم نےسرسوں کے تیل کے ساتھ مالش کی۔ مالش کرتے ہی ہم سب سوگئے۔ اس اثناء میں مکرم محمد اکرم باجوہ بھی ہمیں join کرچکے تھے۔ آپ غالباً گجر سنگھ میں ہمارے ذرا سے ٹھہراؤ کے وقت ہم سے آگے گزر چکے تھے۔ یوں اب ہم چار ہوگئے تھے۔
انتظامیہ درجہ شاہد کے طلبہ کو مختلف جگہوں پر ڈیوٹی پر متعین کرتی تھی۔ جس تیزی سے ہم نے 71 میل کا سفر طے کیا۔ یہ انتظامیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس لئے وہ آرام اور تسلی سے گھروں سے نکلے اور 50 میل تک انہوں نے علاقے کو گھیر لیا۔ یہ ٹیم محترم سید میر داؤد احمد صاحب کی نگرانی میں کام کررہی تھی۔ رات کو جب پیدل سفر میں شامل طلبہ کی گنتی کی گئی تو 4طلبہ Missing Persons کے طور پر سامنے آئے جو ہم تھے۔ محترم پرنسپل صاحب کو اس کی پریشانی لاحق ہوئی۔ آپ نے ہم چاروں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو شاہ کوٹ آکر انہوں نے اپنی گاڑی رکوادی اور ساتھیوں سے کہا کہ ایک دن میں 71 میل کا پیدل سفر کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ وہ اس سے آگے نہیں جاسکتے۔ آپ نے ہمیں شاہ کوٹ کے سینما گھر میں جاکر ڈھونڈا۔ آپ نے گورنمنٹ کالج کو چیک کروایا جہاں اس رات وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے خطاب کرنے والے تھے۔ جب دونوں جگہ سے ہم نہ ملے تو آپ یہ کہہ کر ہمیں اللہ کے حوالے کرگئے کہ اس سے آگے نہیں جاسکتے۔
اس زمانہ میں نہ تو دہشت گردی تھی اور نہ ہی کسی قسم کا خوف ۔ہم برلب سڑک تسلی سے سوئے اور علیٰ الصباح ہم چاروں عازم سفر ہوئے۔ ابھی چونکہ اندھیرا تھا۔ ہم نے فجر کی نماز بھی ادا نہ کی تھی۔ سڑک بل کھارہی تھی۔ ہم میں سے کسی نے اندازہ لگاکر کہا کہ کیوں نہ سڑک چھوڑ کر Short cut لگایا جائے۔ مگرایک ساتھی نے اس کی سخت مخالفت کی اور ہم کو صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قائل کیا۔ جو درست ثابت ہوا۔ چونکہ اب تھکاوٹ بھی بڑھ رہی تھی اس لئے ہماری رفتار آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی تھی۔ شیخوپورہ ہم سہ پہر کو Cross کرچکے تھے اوراب ہم لاہور، پنڈی بھٹیاں روڈ پر سڑک کے کنارے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ ہمارے ساتھ پرائیوٹ سواریاں یعنی کاریں، تانگے ، بسیں اور موٹر بائیک، ٹیکسی و سائیکلز مسلسل گزر کر ہمارا منہ چڑا رہی تھیں۔ کوئی ہمارے پر آوازیں کستا۔ کوئی نیم پاگل ہونے کا طعنہ دیتا، کوئی غریب کہہ کر گزر جاتا، کوئی کہتا کہ کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پیدل سفر کررہے ہیں اور ان کے علاوہ دسیوں ایسے طعنے جو ہمارے کان سُن نہ پائے فضاؤں میں موجود تھے۔ ہمارے ہاتھوں میں گو ڈنڈے تھے جن کے سہارے یا ان سے ٹیک لگا کر چل رہے تھے مگر ہماری چال بدل چکی تھی۔ ہمارے قویٰ جواب دیتے جارہے تھے۔اُدھر رات کے اندھیرے اپنے پنجے گاڑنے کو تیار تھے۔ ابھی ہم آپس میں مشورہ ہی کررہے تھے کہ کہاں رات بسر کرنی چاہیے۔ ہم برلب سڑک مسجد کے تلاش میں تھےکہ ہمارے کانوں میں گنگھرو بجنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ہم نے بغور دیکھا تو ایک ملنگ کو اپنے پیچھے آتے دیکھا۔ ہم نے جرات کرکے اس سے اپنا مدّعا کہہ ڈالا۔ اس نے بہت فراخدلی سے کہا کہ میرے پیچھے پیچھے آتے جائیں میں آپ کو ایک مسجد کی نشان دہی کردیتا ہوں۔ قریباً آدھ گھنٹہ کی مسافت طے کرنے کے بعدملنگ نے ڈیرہ ملاں سنگھ گاؤں کے قریب سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی مسجد کی نشان دہی کردی۔ جو صرف مسافروں کے لئے بنائی گئی تھی خود ملنگ نے گاؤں میں جاکر ہماری مخبری کردی کہ جو چور کل رات گاؤں سے بھینسیں چرا کرلے گئے تھے آج وہ دوبارہ چوری کرنے کے لئے فلاں مسجد میں رات بسر کررہے ہیں۔ ہم نے توٹارچ لائیٹ سے مسجد کا جائزہ لیا۔ صفائی کرکے صفیں بچھا کر ابھی لیٹے ہی تھے کہ ہم نے ایک ہجوم کی آواز سُنی جو ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس ہجوم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ہم پر ڈنڈے برسانے شروع کردیئے اور ہمارے بیگوں کی تلاشی لینی شروع کردی اور کہا کہ یہی چور ہیں جو کل گاؤں سے بھینسیں چرا کر لے گئے تھے اور آج دوبارہ مزید بھینسیں چرانے آئے ہیں۔
اس ہجوم میں ایک شخص پڑھا لکھا تھا اور پردیسی تھا اور رخصت گزارنے دوسری جگہ سے آیا تھا۔ اس نے ہجوم سے ہمیں مارنے سے منع کیا اور کہا کہ ممکن ہے یہ مہمان ہوں ان سے وجہ تو پوچھیں۔وہی دوست آگے بڑھے اور ہمارا انٹرویو لینا شروع کیا۔ ہم نے جب اپنا مدّعا بیان کیا تو اس نے ہم سے کوئی شناخت طلب کی۔ ہم میں سے ایک نے وہ Letter دکھلادیا جو محترم پرنسپل صاحب کے دستخط کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو الگ الگ جاری ہوا تھا۔ جس میں ہمارا تعارف کروایا گیا تھا۔ اس سمجھ دار آدمی نے اس خط کو پڑھ کر ہم سے معذرت کی اور ہم سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہاں آپ کا رات بسر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ سانپ، بچھو اوردوسرے خونخوار جانور موجود ہیں۔ ویسے بھی آج کل ڈاکے اور چوریاں کثرت سے ہیں اس لئے آپ ہمارے ساتھ گاؤں چلیں۔آپ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم دل نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ چل دیئےکیونکہ کالی گھٹاؤں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اور قریب تھا کہ وہ برس پڑیں۔ کوئی دو میل کی مسافت پر ہم ان کے گاؤں پہنچے۔ جہاں ایک جامع مسجد میں ہمارے قیام کا انتظام کردیا گیا۔ ہماری تواضع کی حامی بھری۔ ہم نے سفر کی شرائط کے پیشِ نظر معذرت کی۔ مسجد کی طرف بڑھتے ہوئے اسی سمجھ دار دوست نے ہمیں بتایا کہ آپ خوش نصیب ہیں کہ آج بچ گئے ہیں۔ آپ کوہم میں سے ایک نشانے باز نے اپنے نشانے پر لے لیا تھا۔ قریب تھا کہ بندوق کے گھوڑے کو دباتا کیونکہ گزشتہ رات گاؤں سے کچھ بھینسیں چوری ہوئی تھیں اور گمان تھا کہ آج رات بھی آپ چرانے کے لئے آئے ہیں ،میں نے اُسے منع کیا اور سمجھایا کہ ان سے پوچھ لیں کہیں مہمان نہ ہوں۔
ابھی ہم مسجد میں داخل ہی ہوئے تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور بادل خوب دل کھول کر برسے اور سردی بھی ہوگئی۔ اس دور میں سردی اپریل تک جاتی تھی ۔ہمیں مسجد میں لحافوں کا انتظام کردیا۔ ورنہ ہم جنگل میں مسجد میں ٹھٹھر کر مرنے کے قریب ہوتے۔
ہم تو تسلی کے ساتھ سورہے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ صبح تین بجے کے قریب مسجد کے مدرسے کے طلبہ نے قرآن کریم پڑھنا شروع کردیا۔ جس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اگلی سمت کو روانہ ہوں اور نماز راستہ میں ہی ادا کریں۔ ہم نے سرسوں کے تیل سے اپنے جسموں کو گرم کیا اور اگلی سمت کو عازم سفر ہوئے۔ راستے میں ہم نے چلتے چلتے فجر کی نمازباجماعت ادا کی کیونکہ اب جسم کا انگ انگ درد کررہا تھا اور ہم رکوع اور سجدہ کی پوزیشن میں نہ تھے۔
آج ہمارا ربوہ پہنچنے کا ارادہ تھا۔ ہمارے قدموں میں واپس منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے تیزی تھی۔ ہم سہ پہراڑھائی بجے پنڈی بھٹیاں میں تھے اور سڑک کے کنارے ایک مسجد میں ذرا سا سستا کر ہم نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور ابھی ہم پنڈی بھٹیاں چنیوٹ روڈ پر مڑے ہی تھے کہ ہماری نظر مکرم سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل، مکرم سید میر قمر سلیمان صاحب (صاحبزادے) اور دو نگران مکرم حبیب اللہ احمدی اور مکرم سجاد احمد خالد مربیان پر پڑی جو سائیکل پر تھے۔ آپ تمام کو دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ ہمارے حوصلے بلند ہوئے۔ محترم پرنسپل صاحب نے ہمیں تھپکی دی اور ہماری 2 دن کی غیوبت کی وجہ دریافت فرمائی۔ اس موقع پر محترم میر صاحب نے ہمیں بتایا کہ میں نے شاہ کوٹ میں آپ کو سینما میں بھی تلاش کیا اور حنیف رامے کے اجتماع پر بھی ڈھونڈا اور میں بہت پریشان تھا۔ آپ نے جس سرعت اور تیزی کے ساتھ سفر کیا میں اس کی آپ کو داد دیتا ہوں۔ آپ نے ہم کو 2، 2 کینو بھی دیئے اور سفر کو جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی اور دُعا بھی دی۔ چونکہ ہمارا راشن بھی ختم ہوچکا تھا اس لئے محترم میر صاحب نے سائیکل پر موجود 2 نگرانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ ہمیں راستے سے کھانا کھلادیا جائے۔ ہم نے ربوہ کی طرف نئے جذبہ کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھا۔ ہم میں سے 2 دوست رشید احمد عاصم اور محمد اکرم باجوہ پوزیشنز کےحصول کے لئے آگے بڑھ گئے۔ گو ہم دونوں کا جذبہ بھی ربوہ پہنچنے کا تھا مگر ہر سہ شیخ تک پہنچ کر جبکہ رات چھاچکی تھی قدم آگے بڑھنے سے انکار کرچکے تھے۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور ایک مسجد میں قیام کرلیا۔ نگران ٹیم میں سے مکرم حبیب اللہ احمدی اور مکرم سجاد احمدخالد ہمارا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ چوتھے روز ہم دونوں دوست علیٰ الصبح عازم ربوہ ہوئے۔ منیر احمد عابد پاؤں میں چھالے بننے کی وجہ سے اپنے قدم نہ اٹھا پا رہے تھے اس لئے خاکسار ، منیر احمد عابد کو چھوڑ کر آگے بڑھا ۔ ہر سہ شیخ میں رات قیام کے دوران سمیع اللہ قمر (مرحوم) ہم سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ جس کا ہمیں علم نہ ہوسکا۔ اس طرح خاکسار چوتھے نمبر اور منیر احمد عابد پانچویں نمبر پرآئے۔ رشید احمد عاصم اول اور محمد اکرم باجوہ دوسری پوزیشن حاصل کرچکے تھے۔
ربوہ پہنچ کر جامعہ میں ہمارے استقبال کے لئے ٹیم موجود تھی۔ تازہ گرم دودھ سے تواضع ہورہی تھی۔ تھوڑا سا سستا کر ہم گھروں کو پہنچے اور نمک ڈال کر نیم گرم پانی میں پاؤں لٹکا کر کچھ عرصہ بیٹھ کر نہا دھو کر بستر میں جاکر آرام ملا۔ اب تو کھلیاں پڑچکی تھی۔ والدہ محترمہ مرحومہ نے خوب تواضع کی۔ ہر وہ چیز مہیا کی جس سے تھکاوٹ دُور ہو۔ فجزاھا اللّٰہ تعالیٰ خیراً فی الآخرۃ۔
محترم میر صاحب ہم طلبہ کو بہت ٹف بنانا چاہتے تھے۔ اس لئے ربوہ پہنچتے ہی سرکلر پڑھایا گیا کہ کل صبح 9 بجے وقار عمل ہوگا جس میں شمولیت لازمی ہے اور بعد میں ظہرانہ پیش ہوگا۔ ہم میں سے کئی ایک کا حال سرکلر پڑھ کر ’’قہر درویش بر جان درویش‘‘ والا ہوا مگر تھکن سے چور ہونے کے باوجود جذبہ اطاعت نے سب کو اس بات پر مجبور کیا کہ اسے بشاشت قلبی سے قبول کریں۔
اس سفر میں ہر ایک کے ساتھ مختلف واقعات رونما ہوئے ہوں گے۔ ایک دلچسپ واقعہ جو مکرم سید میر داؤد احمد صاحب کے عالی ظرف پر دلالت کرتا ہے لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس سفر میں وسیم احمد چیمہ بھی ہمارے ہم سفر تھے۔ سفر چونکہ بہت لمبا، مشکل تھا اس لئے بار بار ہمت ہارتی اور دوبارہ عزم باندھنے کا موقع ملتا رہا۔ وسیم احمد چیمہ نے سفر کے دوران اپنے ساتھیوں سے اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا کہ
’’اگر میں کبھی جامعہ کا پرنسپل بن گیا تو میر صاحب کے لڑکے کو اتنا ہی پیدل سفر کرواؤنگا اور زادِراہ کے طور پر کھانے پینے کے لئے ایک دانہ تک نہ دونگا۔‘‘
یہ بات میر صاحب تک پہنچ گئی۔ آپ نے وسیم احمد چیمہ کو تو کچھ نہ کہا۔ صرف ہنس کر کہا تو یہ کہا کہ
’’اچھا جب تمہاری باری آئیگی۔ تو جو مرضی کرلینا۔ اب تو میری باری ہے۔‘‘
اس کے بعد سے مکرم میر صاحب نے وسیم احمد چیمہ کو پرنسپل کہہ کر مخاطب کرنا شروع کردیا۔ یہاں وسیم احمد چیمہ کی زبانی دو واقعات پیش ہیں۔
آپ بیان کرتے ہیں
’’ایک دفعہ رمضان المبارک میں مسجد مبارک میں بیٹھا درس سُن رہا تھا۔ محترم میر صاحب بھی سامنے تشریف فرما تھے۔ میں بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے طالب علم نسیم مہدی صاحب کے ساتھ ٹیک لگا کر اطمینان سے سوگیا۔ جب کافی دیر تک خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوا۔ تو میر صاحب نے کاغذ کے ایک پُرزہ پر کچھ لکھ کر نسیم مہدی کو بھجوایا۔ جب وہ پُرزہ کھولا گیا تو اس پر لکھا تھا۔ ’’محترم پرنسپل صاحب آپ کی گود میں سوئے ہوئے ہیں ان کو جگا دیں‘‘۔ نسیم مہدی نے مجھے جگا کر وہ چٹ پڑھائی۔ تو کچھ نہ پوچھئے کہ میرا کیا حال ہوا۔‘‘
’’اسی طرح ایک دفعہ آپ رمضان کادرس سُن رہے تھے اس دن آپ کی طبیعت بلڈ پریشر اور سردرد کے باعث بہت ناساز تھی۔ جس کے آثار آپ کے بشرہ (چہرہ) سے ظاہر ہورہے تھے۔ کچھ دیر تو آپ نے ضبط کیا۔ لیکن جب تکلیف بہت زیادہ ہوگئی تو آپ نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر اور اسے لفافے میں بند کرکے مجھے بھجوایا جب میں نے میر صاحب کے جانے کے بعد لفافہ کھولا تو اس میں لکھا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مکرم پرنسپل صاحب!
السلام علیکم ورحمۃاللّٰہ و برکاتہ
آج صبح سے مجھے سردرد کی سخت تکلیف ہے میں سارا دن جامعہ میں بھی آرام سے کام نہیں کرسکا اور اس وقت بھی سخت تکلیف ہے اس لئے درس میں بھی اچھی طرح بیٹھ نہیں سکتا۔ مہربانی فرما کر مجھے درس سے رخصت دی جائے۔ مہربانی ہوگی۔
آپ کا شاگرد
داؤد احمد
میں نے اس ’’درخواست‘‘ پر لکھ دیا۔ ’’بہتر ہے خدا تعالیٰ آپ کو تندرستی عطا کرے‘‘۔ مغرب کی نماز میں میر صاحب مجھے ملے۔ اور کہنے لگے شکر ہے کہ میری درخواست منظور ہوگئی۔ ورنہ میرا تو خیال تھا کہ شاید تم میری درخواست پر لکھ دو گے۔ ’’آپ کو بہانہ خوری کی عادت ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق نہیں ہے۔‘‘ یا یہ کہ ’’درخواست واپس۔ قاعدہ کے مطابق درخواست عربی میں لکھا کریں۔‘‘
(سیرتِ داؤد صفحہ224-225)
اللہ تعالیٰ ہمارے اس شفیق بزرگ کے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام کے ساتھ درجات بڑھاتا چلا جائے۔ جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ میں تو برملا اس امر کا اظہار کرسکتا ہوں کہ میری زندگی جن لوگوں نے بنائی۔ ان میں سے ایک مکرم سید میر داؤد احمد مرحوم بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭