نام و نسب
آپ کا نام محمد اور لقب ملک المحدثین ہے۔ آپ کے دیگر القابات مجد الدین اور جمال الدین بھی معروف ہیں۔ آپ کے والد محترم کا نام طاہر بن علی ہے۔ کتب سیر میں آپ کا نام آپ کےوالد محترم کے نام کے ساتھ محمد طاہر بھی ملتا ہے جس میں لفظ ’’ابن‘‘ حذف ہے۔
مولف ’’تاریخ گجرات‘‘ علامہ ابوظفر ندوی کے نزدیک آپ کا شجرہ نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تک جاملتا ہے اور انہوں نے آپ کا سلسلہ نسب یہ بیان کیا ہے: محمد بن طاہر بن علی بن الیاس بن ابو النصر داؤد بن ابو عیسیٰ عبد الملک بن ابو الفتح یونس شامی بن عمر شامی بن عبد اللہ بن ابو العطاء حسین بن ابو المحامد احمد غریب بن ابو قاسم محمد بن ابو الصلاح محمد بن ابو الفیض عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن قاسم بن ابو النصر بن ابو المجد خلف بن احمد بن شعیب بن ابو طلحہ بن عبد اللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابو بکر صدیقؓ۔
(تذکرة المحدثین صفحہ380)
اسی طرح آپ کے پوتے مفتی مکہ علامہ شیخ عبد القادر بن ابوبکر (متوفی1138ھ) کے استاد علامہ شیخ عبداللہ طرفہ مکی شافعی انصاری نے اپنے شاگرد سے یہ اشعار کہے
قد کان جد ابیک بلّ ضریحہ
من اوحد العلماء و الفضلاء
اعنی محمد طاہر من منجی
الصدیق حققہ بغیر مراء
(اتحاف النبلاء لصدیق حسن قنوجی صفحہ398)
ترجمہ:تمہارے پڑدادا کی قبر کو خدا سیراب کرے، وہ علماء و فضلاء میں یکتا تھے۔ میری مراد محمد طاہر سے ہے جوبلاشک و شبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نسل سے تھے۔
لیکن علامہ صاحب موصوف اپنی تصنیف ’’تذکرة الموضوعات‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’محمد بن طاہر بن علی فتّنی، ہندی مسکن اور نسب کے لحاظ سے اورمذہباً حنفی‘‘
(مقدمہ تذکرة الموضوعات جزء1صفحہ3)
اسی طرح علامہ عبد الحق محدث دہلوی، علامہ آزاد بلگرامی وغیرہ نے آپ کو ہندی نژاد قرار دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صدیقی النسب ہیں یا ہندی نژاد۔ اس کے بارہ میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ بعض کے نزدیک آپ والدہ کی طرف سے صدیقی النسب تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ بنسبت اعتقاد صدیقی تھے کیونکہ شیعہ خود کو حیدری کہتے ہیں، اس لیے علامہ صاحب صدیقی کہلائے۔ علامہ صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب اتحاف النبلاء میں لکھتے ہیں کہ: ’’زیادہ راجح قول ثانی ہے کیونکہ ان کی ماں تو صدیقی النسب نہ تھیں البتہ والد ہوسکتے ہیں اس ضمن میں علامہ طرفہ انصاری کا شعربھی قابل غور ہے۔‘‘
(اتحاف النبلاء صفحہ 398)
ایک اور رائے یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کا تعلق تاجرخاندان سے تھا جو بوہرہ (تجارت پیشہ) کہلاتا تھا۔ بوہرہ قوم وہ ہے جو عرب کے قبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتی ہے اور تجارت کی غرض سے گجرات آکر آباد ہوئی۔
آپ کے نسب کےمتعلق دونوں آراء درست ہیں۔ آپ صدیقی النسب بھی تھے اور ہندی بھی۔ صدیقی النسب کے متعلق دو علماء کی مندرجہ بالا شہادتیں ہیں علامہ ابو ظفر ندوی نے تو پورا نسب نامہ ہی تحریر کردیا اور دوسری شہادت علامہ شیخ عبد اللہ طرفہ مکی شافعی انصاری کی ہے۔ ہندی کے متعلق آپ خود اپنی تصنیف ’’مقدمہ تذکرة الموضوعات‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’میں مسکن کے لحاظ سے ہندی ہوں اور نسباً بھی‘‘۔ آپ کی اس بات سے یہ واضح ہے کہ آپ چونکہ ہندوستان کے علاقہ گجرات میں پیدا ہوئے اور یہیں آپ کی سکونت تھی اس لیے ہندی ہوئے اور چونکہ آپ کا آباءواجداد عرب سے بغرض تجارت گجرات ہجرت کر آئے اور یہیں مستقل آباد ہوگئے۔ عین ممکن ہے کہ طویل عرصہ سے خاندان کے یہیں آباد رہنے اور یہاں کے ہندی نژاد لوگوں سے قرابت داریوں کی وجہ سے آپ نے خود کو ہند سے منسوب کیاہو۔ واللہ اعلم
ولادت
علامہ محمد بن طاہرکی ولادت 914ھ میں پٹن نہروالہ کاٹھیاواڑ گجرات میں ہوئی۔ آپ کے سن ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء کے نزدیک912ھ توبعض کے نزدیک913ھ۔ لیکن آپ کے پوتے شیخ عبد الوہاب اورعلامہ عبد الحق محدث دہلوی کے نزدیک آپ کا درست سن ولادت 914ھ ہی ہے۔
ابتدائی تعلیم و تربیت
علامہ محمد بن طاہرکے زمانہ میں گجرات علوم و فنون کا مرکز تھا۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ صغر سنی میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا۔ پھر اپنے علاقہ کےعلماء و فضلاء کی شاگردی اختیار کی اور تمام کتب متداولہ کا مطالعہ کیا۔ 15 سال کی عمر میں علوم عقلیہ و نقلیہ اور اصول و فروع میں طاق ہوئے۔
زمانہ طالبعلمی
علامہ صاحب نے زمانہ طالبعلمی میں بہت صعوبتیں اٹھائیں۔ ہم عصر طلباء سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کی قابلیت و علمیت کی وجہ سے حاسد طلباء اور اساتذہ آپ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرتے۔ ان تمام مصائب پر صبر کرتے ہوئے آپ نے یہ منت مانی کہ اگر اللہ نے مجھے علم عطا کیا تو میں اللہ کی رضا کے مطابق انصاف سےعلم کی نشر و اشاعت کروں گا۔ تعلیم میں کسی قسم کا بخل نہیں کروں گا۔چنانچہ جب آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی تو ایسا ہی کرکے دکھایا۔ آپ نے خدا کی خاطر یہ فریضہ سرانجام دیا اور اپنی تدریس سے ایک عالم کو ایسا نفع پہنچایا جس کو کوئی شمار نہیں۔
(النور السافر صفحہ476)
اساتذہ
علامہ محمد بن طاہر نے گجرات میں جن چار اساتذہ سے اکتساب فیض کیا، ان میں مولانا شیخ ناگوری، شیخ برہان الدین سمہودی، شیخ یداللہ سوہی اور ملا متھ یامٹھ (استاذ الزمان) شامل ہیں۔ ملا متھ نے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ہوا تھا۔ علامہ صاحب موصوف نے وہیں ملا صاحب کی شاگردی میں اپنی تعلیم کو مکمل کیا۔ شیخ ملا متھ کی وفات کے بعد علامہ صاحب موصوف کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔
(تذکرہ شیخ محمد طاہر صفحہ29 بحوالہ تذکرة المحدثین صفحہ386)
سفر حرمین شریفین
علامہ محمد بن طاہرتیس سال کی عمرتک اپنے وطن میں ہی تعلیم وتدریس کرتے رہے پھر 944ھ میں علم حدیث کے شوق میں حرمین شریفین تشریف لے گئے۔ حج بیت اللہ کی سعادت پائی۔ پھر مدینہ منورہ میں روضۂ رسولﷺ کی زیارت کی۔ بعدہ مکہ مکرمہ آکر وہاں کے نامور ارباب کمال سے اکتسابِ فیض کیا۔ ان معروف علماء و فضلاء میں شیخ ابوالحسن محمد بن عبد الرحمٰن بکری (متوفی952ھ)، علامہ ابوالعباس احمد بن محمد بن علی المعروف ابن حجر ہیثمی مکی (متوفی972ھ)، شیخ ابوالحسن علی بن محمد ابن عراق (963ھ)، شیخ جاراللہ بن فہد مکی (954ھ) اور شیخ علاؤالدین علی متقی (975ھ)، شیخ عبد اللہ عیدروس، شیخ برخوردار سندھی، شیخ عبیداللہ حضرمی وغیرہ شامل ہیں۔
آپ نے علامہ علی بن حسام الدین متقی جون پوری جو اپنے ہم عصروں میں علم حدیث میں ممتاز تھے، ان سےآپ نے علم حدیث میں کافی استفادہ کیا اور انہوں نے آپ کو روایت احادیث کی اجازت دی ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی بیعت بھی کرلی۔
(ماثر الکرام جزء1 صفحہ 194)
علامہ محمد بن طاہر کو علامہ علی متقی سے اس قدر عقیدت تھی کہ انہوں نے اپنی ’’مجمع بحارالانوار‘‘ کو ان کے نام معنون کیا ہے۔
درس و تدریس
حرمین شریفین میں کئی سال قیام کے بعد جب اپنے وطن کو لوٹے تودرس و تدریس اور تصنیف کا کام شروع کیا۔ آپ نے اپنے شہر میں ہی ایک مدرسہ قائم کیا جس میں متعدد علوم پڑھائے جاتے تھے۔ حدیث کا درس آپ خود یتے تھے۔ اس کے علاوہ احمدآباد میں سلطان احمد کی مسجد میں بھی درس دیا۔ آپ کے درس میں دیگر مدارس کے طلباء بھی تحقیق و رہنمائی کے لیے آتے۔ سلطان محمود ثانی کے ایک وزیر کو کچھ امور میں مشکل درپیش آئی تو وہ بھی آپ کی خدمت میں آیا اور تسلی بخش جواب پاکر لوٹا۔
(رسالہ مناقب اردو ترجمہ صفحہ 99)
تلامذہ
جیساکہ اوپر ذکر کیا جاچکاہے کہ علامہ صاحب نے اپنی منت اور عہد کو تحصیل علم کے بعد پورا کیا اور طلباء کی تعلیم میں کسی قسم کا بخل نہ کیا اور انہیں ہر قسم کی امدادسے نوازا۔ آپ کواپنے والد محترم کےترکہ میں کافی مال و دولت حاصل ہوا جسے آپ نے طلباء کی تعلیم و تربیت اور تحصیل علم کے لیے خرچ کیا۔
آپ نے تحصیل علم کا شوق رکھنے والے بچوں کی تلاش کے لیے معلم کو ہدایت کررکھی تھی کہ جو بچےقابل اور ذہین ہوں انہیں آپ کے پاس بھجوا دیا کرے۔ آپ ان قابل اور ذہین بچوں سے ان کے احوال دریافت کرتے۔ جوبچہ امیرہوتا، اسے کہتے کہ خوب محنت اور لگن سےعلم حاصل کرو۔ اگر غریب ہوتا تو اسے کہتے کہ دل لگا کرعلم حاصل کرو اورفکر معاش سے بے فکر ہوجاؤ۔ میں تمہاری تعلیم اور تمہارے اہل و عیال کے خرچ کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ تم بے فکرہوکر تحصیل علم میں خوب جدوجہد کرو۔ آپ تمام ایسے غریب طلباء کو وظیفہ عطا کرتے۔ یہاں تک آپ کے شاگردوں کی ایک بہت بڑی جماعت صاحب علوم و فنون ہوگئی اور آپ نے اپنا تمام مال ان پر خرچ کردیا۔
(شذرات الذھب جزء10 صفحہ601)
آپ اپنے شیخ کی وصیت کے مطابق اپنے ہاتھ سے روشنائی بنا کر طلباء کو مفت دیا کرتے تھے۔ بوقت تدریس بھی زبان سے پڑھاتے جاتے اور ہاتھ سے سیاہی گھوٹا کرتے اور کہتے کہ ہاتھوں کو بھی کام میں لگا رہنا چاہیے۔
(اخبار الاخیار صفحہ560)
آپ کے شاگردوں میں شیخ ضیاء الدین گوالیاری، میاں احمد خان پٹنی، داؤد بن حسن، ابو البشر محمد فضل، برہان الدین واعظ، نور محمد، عبد اللہ بن فتح، شیخ جیون سورتی، شیخ محمد شطاری، شیخ عبد الہادی احمد آبادی، شیخ فرید پٹنی، شیخ عبدالنبی، محمد اسحٰق وغیرہ شامل ہیں۔
(رسالہ مناقب اردو ترجمہ صفحہ 93-94)
آپ کے پوتے شیخ عبد الوہاب لکھتے ہیں کہ:
’’ان کے علاوہ بے شمار دوسرے بزرگ بھی شاگردوں میں شامل ہیں جن میں کچھ معروف ہیں اور کچھ غیر معروف۔‘‘
(تذکرة المحدثین از ضیاء الدین اصلاحی صفحہ 387)
علامہ محمد بن طاہر کا کتب خانہ
علامہ محمد بن طاہر نے اپنے علمی ذوق کے پیش نظر ایک کتب خانہ تیار کیا ہوا تھا۔ آپ نے مختلف ممالک سےنہایت قیمتی اور نایاب کتب منگوا کر اس میں جمع کی ہوئی تھیں۔
(گجرات کی تمدنی تاریخ از سید ابوظفر ندوی صفحہ 199)
محبت علم حدیث و سنت
علامہ محمد بن طاہر پٹنی تمام مروجہ علوم میں دسترس رکھتے تھے۔ علماء و فضلاء نے آپ کو کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کوعلم و فضل سے نوازا‘‘
(اخبار الاخیارصفحہ559)
آپ کو دیگر علوم کی نسبت علم حدیث سے زیادہ محبت تھی۔ آپ نے اس میں کمال حاصل کیا اور اس فن میں ماہر ہوئے اور امام بنے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی حدیث کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ اسی وجہ سے آپ کو رئیس المحدثین اور ملک المحدثین بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ عبد القادر بن شیخ بن عیدروس لکھتے ہیں:
’’آپ متعدد علوم میں ماہر ہوئے اور اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ حتیٰ کہ گجرات میں ان کے درجہ و مرتبہ کا کوئی محدث نہ تھا۔‘‘
(النور السافر صفحہ475)
آپ نے حدیث کے ساتھ سنت کی اشاعت میں بھی نمایاں خدمت سرانجام دی۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب آپ کے بارہ میں لکھتے ہیں
’’خادم حدیث نبوی و ناصر سنن مصطفوی است‘‘
(اتحاف النبلاء صفحہ397)
یعنی حدیث نبویؐ کے خادم اور سنن مصطفیٰﷺ کے ناصر (مددگار) ہیں۔
لغوی امام
آپ نے علوم حدیث کے علاوہ علم لغت میں بھی مہارت حاصل کی اور مشکل الفاظ کی ایک جامع لغت ’’مجمع بحار الانوار‘‘ مرتب کی جس میں قرآن مجید اور حدیث کے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق درج کی۔ حل لغات کے علاوہ احادیث کی عمدہ شرح اور تفسیر بھی بیان کی گئی ہے۔ علامہ عبدالحق دہلوی فرماتے ہیں:
’’ان کی تصنیفات میں مجمع البحار بھی ہے جو صحاح ستہ کی شرح کی متکفل وضامن ہے۔‘‘
(اخبار الاخیار صفحہ560)
فرقہ مہدویہ کی تردید
علامہ محمد بن طاہر ناصر السنت والحدیث تھے۔ آپ نے بدعات کے خلاف جہاد کیا۔ آپ حب فی اللہ کے قائل تھے لیکن بدعتیوں کے سخت مخالف تھے۔ آپ کی قوم بوہرہ دو گروہوں میں منقسم تھی ایک شیعہ اور دوسرا اہلسنت۔ آپ کا تعلق اہل سنت قوم بوہرہ سے تھا۔ لیکن یہ دونوں گروہ غلط رسم و رواج اور بدعات میں مبتلا تھے۔ پھر دوسری طرف فرقہ مہدویہ سر اٹھا رہا تھا جس کے بانی سید محمد جونپوری 903ھ میں پٹن آئے اور وہاں سے نو میل دور مقام برلی پرانہوں نے دعویٰ مہدویت کردیا۔ فرقہ مہدویہ نے اپنی تبلیغ خوب زور و شور سے شروع کردی اور نہ ماننے والوں کو پہلے کافر قرار دیا پھر نوبت بایں جا رسید کہ منکرین کو قتل کرنا شروع کردیا۔ اس کے نتیجہ میں گجرات میں فساد پھیلتا گیا۔ احمدآباد میں علامہ محمد بن طاہر کے شیخ علی متقی نے مہدویوں کے فتنہ کے آگے بند باندھا اوران کے خلاف ایک رسالہ بھی لکھاجس کے نتیجہ میں وقتی طور پر تو یہ فتنہ دب گیا لیکن سلطان محمود ثانی کی شہادت کے بعد انہوں نے پھر سر اٹھایا اور خانہ جنگی کی وجہ سے مہدیوں کا فتنہ بڑھتا چلا گیا۔
جب علامہ محمدبن طاہر نے یہ حالات دیکھے تو آپ نے سب سے پہلے اپنی قوم کےشیعہ بوہروں کے عقائد کے خلاف درس و تقاریر اور وعظ کا سلسلہ شروع کیا اور اپنی قوم کے بدعقائد اور بدعات کے خلاف انہیں نصائح کیں اور سنت پر کاربند ہونے اور برائیوں کو چھوڑنے کی تلقین کی اور اصلاح نفس کی طرف توجہ دلائی۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ وعظ پٹن سے نکل کر اردگرد بھی پھیلنے لگاجس پر مہدویوں کو کافی تکلیف پہنچی۔
علامہ ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں:
’’شیخ محمد بن طاہر وعظ، تقریر، تحریر ہر طریقہ سے قوم کی اصلاح اور بدعت و مہدویت کے استیصال پر کمر بستہ ہو گئے۔ عقلی و نقلی ہر قسم کی دلیلوں سے عقائد حقہ کا اثبات کیا اور عقائد باطلہ کی تردید کی۔‘‘
(تذکرة المحدثین صفحہ395)
حاکم وقت کو نصیحت
علامہ محمد بن طاہر نے حاکم وقت شیر خان فولادی کو جو مہدویوں کا پشت پناہ بھی تھا، ایک رسالہ ’’نصیحة الولاة‘‘ لکھ کر تحفة پیش کیا اور بدعقائد کو ترک کرنے کی تلقین کی جس پر کچھ دیر تو خاموشی رہی لیکن پھر وہی حالات ہوگئے۔ چنانچہ ایسے ہی دن گزرتے گئے۔ آپ جب اس بارہ میں سعی کرتے تو مہدوی رک جاتے اور پھر چند دنوں بعد اپنی پرانی روش پر چل پڑتے۔ موسیٰ خاں فولادی نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ چنانچہ ایک دن فرقہ مہدویہ کے لوگوں نے ان کے مدرسہ میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں علامہ صاحب زخمی ہو گئے اور بیس بائیس روز تک صاحب فراش رہے۔ مگر تندرستی کے بعد شیخ دوبارہ فرقہ مہدویہ اور اہل بدعت کے خلاف سرگرم ہو گئے۔
(تذکرة المحدثین صفحہ 395)
فتح گجرات اور مہدویوں کو شکست
روایات میں ملتا ہے کہ انہی ایام میں مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے امراء میں سے ایک امیر حج کے لیے مکہ مکرمہ گیا وہاں علامہ صاحب کی ایک کتاب ’’کفایة المفرطین‘‘ دیکھی تو اسے وہ کتاب بہت پسند آئی اس نے ارادہ کیا کہ واپسی پر علامہ صاحب سے ملے گا۔ دفع شر کی دعا کے پندرہویں روز وہ امیر آپ سے ملے۔ آپ نے اسے کل حالات بتائے اور ایک خط مغل بادشاہ جلال الدین محمداکبر کے نام اور دوسرا صدر الصدر عبد الغنی کے نام لکھا۔ ان خطوط کے نتیجہ میں اکبر بادشاہ نے گجرات کی طرف توجہ کی اور مالوہ سے ہوتے ہوئے گجرات پر لشکر کشی کر کے 980ھ میں پٹن پر قبضہ کر لیا۔
گجرات فتح ہوتے ہی جب اکبر بادشاہ نے علامہ محمد بن طاہر سے ملاقات کی توانہیں شیخ الاسلام کا لقب دیا نیز کہا کہ دین کی حفاظت میرا فرض ہے آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ میں بھی اس میں آپ کی پوری مدد کروں گا۔ اکبر بادشاہ نے اپنے رضاعی بھائی خان اعظم مرزا عزیز کو گجرات کا گورنر بنایا جس نے علامہ صاحب کی ہر طرح کی مدد کی۔ یوں فتنہ مہدویت کا شور ختم ہوا اور وہاں امن و امان قائم ہوا۔
(اتحاف النبلاء صفحہ398)
شہادت
اس کے بعد علامہ صاحب پھر درس وتدریس اور تصنیف کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ لیکن جب خان اعظم کی جگہ عبد الرحیم خان خاناں گورنر ہوا تو اس نے مہدویوں کی حمایت کی جس کی وجہ سے انہوں نے پھر سر اٹھانا شروع کردیا اور 986ھ میں بادشاہ کو ان حالات سے مطلع کرنے کے لیے آگرہ روانہ ہوئے۔ علامہ وجیہ الدین علوی نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن آپ نہ رکے۔
اطلاع پاتے ہی مہدوی بھی آپ کے تعاقب میں نکلے۔ علامہ صاحب مالوہ سے ہوتے ہوئے سارنگ پہنچے۔ سارنگ میں تین روز قیام کے بعد اجین کے قریب ایک گاؤں سوحی گئے اور اسی گاؤں میں 6 شوال 986ھ کو نماز تہجد کے دوران آپ کو مہدویوں نے شہید کردیا۔
علامہ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
’’آپ نے علاقہ گجرات کے بدعتیوں کی بدعتیں چھڑانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی لیکن اسی جماعت کے افراد نے آپ کو 980ھ میں شہید کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششیں قبول کرے اور مسلمانوں کے لیے اچھے کام کرنے کے عوض میں اچھے بدلے عنایت کرے۔‘‘
(اخبار الاخیار صفحہ560)
شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
’’شیخ علی متقی کے شاگردوں میں محمد بن طاہر پٹنی تھےجنہوں نے اپنے استاد کی پیروی میں مخالفت بدعت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور بالآخر اسی کوشش میں شہید ہوئے۔‘‘
(رود کوثرصفحہ 354)
آپ کی نعش مبارک کو مالوہ سے پٹن لایا گیا اور آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
اولاد
مشہور محقق علامہ ابو ظفر ندوی کے نزدیک علامہ محمد بن طاہر کے چار بیٹے تھے۔ 1۔ ابراہیم2۔ احمد 3۔ ابوبکر4۔ نور الحق
آپ کے صاحبزادے احمد کے بیٹے شیخ عبد الوہاب فقیہ تھے۔ پہلے قاضی عسکر اور پھر قاضی القضاة رہے۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے ابوبکر کے بیٹے شیخ عبد القادر فقہ و افتاء کے عالم تھےمفتی مکہ بھی رہے۔
تصنیفات
علامہ محمد بن طاہرجب حجاز سے واپس تشریف لائے تو درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی شروع کیا۔ آپ ایک باکمال مصنف تھے۔ آپ نے بہت سے علمی رسائل اور بلند پایہ کتب یادچھوڑیں۔ آپ کی تمام تصانیف بہت عمدہ، جامع، علمی اور تحقیقی ہیں۔ جن سےعلمائے عالم اسلام مستفیض ہو رہے ہیں۔
آپ کی کتب کی کوئی معین تعداد تو نہیں ہے البتہ علامہ ضیاء الدین اصلاحی نے آپ کی 31 کتابوں کے نام لکھے ہیں۔ جن میں سے چندمعروف درج ذیل ہیں
المغنی، تذکرة الموضوعات، قانون الموضوعات، مجمع بحارالانوار، کفایة المفرطین، چہل حدیث، حاشیہ صحیح بخاری، حاشیہ صحیح مسلم، حاشیہ مشکوۃ المصابیح، حاشیہ توضیح و تلویح، سوانح نبویؐ عربی و فارسی، مختصر اتقان، نصاب البیان، لسان المیزان وغیرہ
اخلاق کریمانہ
علامہ محمد بن طاہر نہایت متقی اور عابدو زاہدتھے۔ آپ باقاعدہ تہجد گزار تھے۔ آپ بلندروحانی مقام و مرتبہ پر فائز تھے۔ شیخ علی متقی نے جمعہ 27 رمضان کو خواب میں رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اس زمانہ میں سب سے افضل کون ہے تو آپﷺ نے فرمایا تم یعنی شیخ علی متقی! انہوں نے دریافت کیا پھر کون افضل ہے۔ آپؐ نے فرمایا محمد بن طاہر۔
(النور السافر صفحہ475)
آپ کے پوتے شیخ عبد الوہاب لکھتے ہیں:
’’حضرت شیخ شرعی احکام اور حدود دین کو قائم رکھنے میں پانی ہمت صرف فرماتے تھے، کسی حاکم وقت یا طاقتور امیر کا خوف نہ کرتے تھے وہ خالص اللہ کے لئے محبت اور خالص اللہ کے لئے عداوت کے قائل تھے۔ اس بنا پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اختیار کرنے والے سے دوستی اور بدعتیوں سے دشمنی رکھتے تھے۔‘‘
(رسالہ مناقب اردو صفحہ98 بحوالہ تذکرة المحدثین صفحہ393)
دعائے مباہلہ
حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں
’’بعض نادان مولوی لکھتے ہیں کہ غلام دستگیر نے مباہلہ نہیں کیا صرف ظالم پر بد دعا کی تھی مگر میں کہتا ہوں کہ جبکہ اُس نے میرے مرنے کے ساتھ خدا سے فیصلہ چاہا تھا اور مجھے ظالم قرار دیا تھا تو پھر وہ بد دعا اس پر کیوں پڑ گئی اور خدا نے ایسے نازک وقت میں جبکہ لوگ خدائی فیصلہ کے منتظر تھے غلام دستگیر کو ہی کیوں ہلاک کر دیا اور جبکہ وہ اپنی دعا میں میرا ہلاک ہونا چاہتا تھا تا دنیا پر یہ بات ثابت کر دے کہ جیسا کہ محمد طاہرکی بد دعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا میری بد دعا سے یہ شخص ہلاک ہو گیا تو اس دعا کا اُلٹا اثر کیوں ہوا یہ تو سچ ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا اور اُسی محمد طاہرکی ریس سے غلام دستگیر نے میرے پر بد دعا کی تھی تو اب یہ سوچنا چاہیے کہ محمد طاہر کی بددعا کا کیا اثر ہوا اور غلام دستگیر کی دعا کا کیا اثر ہوا اور اگر کہو کہ غلام دستگیر اتفاقاً مر گیا تو پھر یہ بھی کہو کہ وہ جھوٹا مہدی بھی اتفاقاً مر گیا تھا محمد طاہر کی کوئی کرامت نہ تھی۔ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ344-345)
اسی طرح حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نےغلام دستگیر قصورى کے ذکر پر فرمايا
’’اس نے ايک ايسا مباہلہ کيا تھا جس کى نظير پہلے بھى اسلامى دُنيا ميں موجود ہے جس کا اس نے خود ہى اپنے رسالہ ميں ذکر کيا ہے کہ ايک بزرگ محمد طاہر نام تھے ان کے زمانہ ميں دو شخص پيدا ہوئے۔ ايک نے مسيح موعود ہونے کا دعوى کيا تھا اور ايک نے مہدى ہونے کا دعوى کيا تھا جس پر مولوى محمد طاہر صاحب نے خدا تعالى کے حضور ميں دُعا کى کہ يا الہٰى اگر يہ مدعى جھوٹے ہيں تو ان کو ہلاک کر اور اگر ان کو نہ ماننے ميں ميں جھوٹا ہوں تو مجھے ہلاک کر۔ چونکہ وہ دونوں کاذب تھے۔ اس واسطے ہر دو ہلاک ہوگئے۔ غلام دستگير نے بھى اسى طرح مباہلہ کيا تھا اور لکھا تھا کہ ميں وہى دُعا کرتاہوں جو کہ محمد طاہر نے کى تھى چونکہ اس کے مقابل ميں جو شخص تھا وہ سچا ہے اس واسطے غلام دستگير خود ہلاک ہوگيا۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ61-62)
(باسل احمد بشارت)