• 3 مئی, 2024

انبیاء کرام علیہم السلام کی مقبول دعائیں

حضرت آدمؑ سے حکم الہٰی کی خلاف ورزی ہو گئی اور آپ نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر شجر ممنوعہ کو چکھ لیا۔ بعد میں ان الفاظ میں آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے رحمت اور بخشش طلب کی: رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناََ ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ (الاعراف: ۲۴) اللہ تعا لیٰ نے آپؑ کی اس دعا کو قبول فرمایا اور آپؑ پر رجوع برحمت ہوا۔

حضرت نوح ؑ کی قوم نے آپؑ کی سخت تکذیب کی اور کہا کہ یہ مجنون اور دھتکارا ہوا ہے۔ اس پر آپ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اور دعا کی کہ: فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ ﴿۱۱﴾

تب اس نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ میں یقیناََ مغلوب ہوں ۔ پس میری مدد کر۔ (القمر: ۱۱) اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا کو قبول فرمایا اور آپؑ کی قوم کو طوفان میں غرق کر دیا جبکہ آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو کشتی میں بچا لیا۔

حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے صالح وارث کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو حضرت اسماعیلؑ سے نوازا۔ آپؑ نے دعا کی کہ:
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۱﴾ اے میرے رب مجھے صالحین میں سے (وارث) عطا کر۔(الصّٰفّٰت: ۱۰۱) جب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی گریہ و زاری کرتے ہوئے بعض عظیم الشان اور مقبول دعائیں کیں۔ ان مقبول دعاوٴں میں سے ایک دعا یہ تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقیناََ تو ہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔ (البقرہ: ۱۲۸)

حضرت ابراہیمؑ نےاپنی اولاداپنے والدین اور تمام مومنین کی بخشش کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ: رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۔ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ ﴿۴۱﴾رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿۴۲﴾

اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔ اے ہمارے رب اور میری دعا قبول کر۔اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب برپا ہو گا۔ (ابراہیم:۴۱،۴۲)

حضرت لوطؑ کی قوم انتہائی بد کردار اور بے حیا تھی۔آپؑ نے ان کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلایا اور برے کاموں سے روکا توقوم نے آپؑ سے بدکلامی کی اور کہا کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ جس پر آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ:

رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۳۱﴾

اے میرے رب! اس فساد کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد کر۔ (العنکبوت:۳۱)

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا کو قبول فرمایا اور آپؑ کو ظالم قوم سے نجات عطا کی۔

حضرت یعقوبؑ کو اپنے بیٹے حضرت یوسفؑ سے لمبا عرصہ جدائی برداشت کرنا پڑی۔ اس دوران آپؑ نے اپنے درد و غم کی فریاد صرف اللہ تعالیٰ کے حضور کی۔ اللہ تعالی نے آپؑ کی دعاوٴں کو قبول فرمایا اور آپ کو حضرت یوسفؑ سے ملا دیا۔ آپؑ نے دعا کی کہ:

اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ میں تو اپنے رنج و غم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں۔ (یوسف:۳۱)

حضرت یونسؑ کو مچھلی نے نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ میں اندھیروں میں گرے ہوئے آپؑ نے اللہ تعالی کو پکارا اور دعا کی کہ:

لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۸﴾

کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔ تو پاک ہے۔ یقیناََ میں ہی ظالموں میں سے تھا۔ (الانبیاء:۸۸) یہ دعا قبول ہوئی اور مچھلی نے آپؑ کواگل دیا۔ آپؑ واپس اپنی قوم کے پاس گئے جو کہ ایمان لا چکی تھی۔

حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے مظالم سے تنگ آکر مدین کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ مدین پہنچ کر انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے آپؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ: رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۵﴾

اے میرے رب! یقیناََ میں ہر اچھی چیز کے لئےجو تو میری طرف نازل کرےایک فقیر ہوں۔ (القصص:۲۵)

اس دعا کی تاثیرات انتہائی عظیم تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تمام تر نعمتوں کا وارث بنا دیا۔ یہاں تک کہ اپنی سب سے عظیم تر نعمت نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو نبوت کے انعام سے سرفراز فرمایا اور آپؑ کو فرعون کے دربار میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو آپؑ نے فریضہ تبلیغ احسن رنگ میں سرانجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ: قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۸﴾یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۹﴾

اس نے کہا اے میرے رب! میرا سینہ میرے لئے کشادہ کر دے۔ اور میرا معاملہ مجھ پر آسان کر دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔ (طٰہٰ:۲۶،۲۷،۲۸،۲۹)

جب حضرت موسیٰؑ نے اپنے ساتھ ستر ایمان لانے والوں کو لے کر کوہ طور میں پناہ لی تو شدید زلزلہ آگیا۔ آپؑ کو لگا کہ یہ قوم کے شرک کی سزا ہے۔ اس موقع پر آپؑ نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کی: اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ ﴿۱۵۶﴾

تو ہی ہمارا ولی ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔(الاعراف:۱۵۶)

حضرت داوٴدؑ جب جالوت کے لشکر سے مقابلہ کے لئے نکلے تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے صبر اور ثبات قدم کی دعا کی اور کافر قوم کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ آپؑ نے دعا کی کہ:

رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾ؕ

اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔ (البقرہ:۲۵۱)

حضرت سلیمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔علاوہ روحانی نعمتوں کے آپؑ کو ایک ایسی سلطنت عطا کی تھی جو کہ بہت عظیم الشان تھی اور اس کے امور انتہائی خوش اسلوبی سے طے پاتے تھے۔یہ نعمتیں آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والی نہ تھیں۔ آپؑ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں: رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۲۰﴾

اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروںجو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاوٴں جو تجھے پسند ہوں۔اور تو مجھےاپنی رحمت سے اپنے نیکوکار بندوں میں داخل کر۔ (النمل:۲۰)

حضرت ایوبؑ کو ایک شدید تر بیماری نے آلیا۔ آپؑ نے اپنی مشکل کشائی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع کیا اور دعا کی:

…اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۴﴾

مجھے سخت اذیت پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء:۸۴)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی تکلیف کو دور فرمایا اور اپنی رحمت سے آپؑ کو اہل و عیال بھی عطا کیے۔

حضرت زکریاؑ نے اللہ تعالیٰ سے صالح وارث کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا کو قبول فرمایا اور باوجود بڑھاپے کے آپؑ کو حضرت یحیٰؑ عطا کیے۔ آپؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ:

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹﴾

اے میرے رب! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا کر۔ یقیناََ تو بہت دعا سننے والا ہے۔ (آل عمران:۳۹)

٭…٭…٭

(سلمانہ مبشر۔ سویڈن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اگست 2020