ذکر ان کا چلا، نم ہوا کی طرح
محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد مرحوم
خاکسار کے والدین کی شادی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ اور دعا کے نتیجہ میں ہوئی تھی اور اس حوالہ سے محترم میاں صاحب مرحوم و مغفور سے ہماری فیملی کا ایک خاص تعلق تھا۔
محترم میاں صاحب 1985ء میں ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی تھے جب ہمارے گاؤں مانگٹ اونچا میں خاکسار کے والد صاحب اور ہمارے دیگر رشتہ داروں کا ایک غیرازجماعت فریق کے ساتھ زمین لینے پر تنازعہ ہو گیا اور بدقسمتی سے ایک اور احمدی فیملی نے بھی ہمارے فریق مخالف کی حمایت شروع کردی۔جب معاملہ کافی سنگینی اختیار کر گیاتو میرے والد صاحب نےحضور سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں سارے معاملہ کی اطلاع دی اس پر حضور رحمہ اللہ نے اپنے نامہ مبارک میں ارشاد فرمایا:
’’اگر یہ قطعہ زمین آپ کے لیے باعث برکت ہوگا تو ضرور آپ کو مل جائے گا۔دنیوی کوششوں کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی جاری رکھیں اورنظام جماعت کے ذریعہ بھی معاملہ حل کروانے کی کوشش کریں۔‘‘
چنانچہ معاملہ دفتر اصلاح وارشاد مقامی میں آیا اور میرے والد صاحب اور ان کے کزن اور فریق مخالف دونوں فریق حضرت میاں صاحب کے پاس ربوہ حاضر ہوئے۔
حضرت میاں صاحب نے جس دوراندیشی،معاملہ فہمی اور خداداد فراست سے اس معاملہ کو حل کیا اس پر میرے والد صاحب اور ساری فیملی آج بھی ان کی گرویدہ اور ممنون احسان ہے۔ برسر آغاز ہی محترم میاں صاحب نے ابتدائی تعارف کے بعد میرے والد صاحب اور ان کے کزن سے پوچھا کہ آپ ربوہ کس طرح آئے ہیں؟ انہوں نے کہا جی میاں صاحب! ہم اپنی گاڑی میں آئے ہیں۔ اس کے بعد میاں صاحب نے فریق مخالف سے پوچھا تو انہوں نےجواب دیا کہ میاں صاحب ہم بس پہ آئے ہیں۔میاں صاحب نے فرمایا تم لوگ ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں کیوں نہیں آئے۔پھر میرے والد صاحب وغیرہ سے پوچھا کہ آپ لوگ ٹھہرے کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میاں صاحب! دارالضیافت میں۔پھر یہی سوال فریق دوم سےکیا توانہوں نے جواب دیاکہ ہمارا یہاں ربوہ میں گھر ہے ہمارا قیام وہاں ہے۔اس پر میاں صاحب نے میرے والد صاحب وغیرہ سے کہا آپ ان لوگوں کے ہاں کیوں نہیں ٹھہرے۔اس کے بعد جب معاملہ کی بابت انکوائری شروع کی اور دونوں فریق جوش میں آگئے تو میاں صاحب نے ایک کارکن سے فرمایا کہ دونوں فریقین کو ایک کمرہ میں 15منٹ کے لیےبٹھادیں۔ اور ہمیں مخاطب ہو کے ارشاد فرمایا ’’جتنا لڑنا ہے لڑ لولیکن ہاتھاپائی نہیں کرنی۔ میں 15منٹ تک آتا ہوں۔‘‘ چنانچہ فریقین کو حسب ہدایت کارکن نے ایک علیحدہ کمرہ میں بٹھایا اور بس پانچ سات منٹ کی تکرارکے بعد دونوں فریقین کاغصہ ختم ہوگیا۔اس دوران محترم میاں صاحب بھی واپس تشریف لے آئےاور فریقین کاغصہ بھی فرو ہو چکاتھا۔اس پرمیاں صاحب نے بڑے درد سے دونوں فریقوں کو آپسی رنجشیں اور اختلافات ختم کرنے کی نصیحت کی اور بڑے درد سے فرمایا۔ ہمارے حضور اس وقت پردیس میں ہیں ملک سے باہر ہیں اورتم لوگ آپس میں لڑتے ہو۔ اس بات سے حضور کو کتنی تکلیف پہنچے گی۔ پھر فریق مخالف کو مخاطب ہوکر فرمایا ’’واپس جاکر ان لڑکوں (مراد میرے والد صاحب اور ان کے کزن) کی زمین خریدنے میں مدد کرو اور ابھی یہاں ربوہ اپنے گھر میں ان کی دعوت کرو۔ اور واپس بھی ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں جانا ہے۔‘‘ اور میرے والدصاحب کو فرمایا کہ ’’واپس مانگٹ اونچا جا کر تم ان کی دعوت کرنا‘‘ اور پھر بڑے درد سے فرمایا ’’جاؤ! میں دعا کرتا ہوں کہ تم اس علاقہ میں سارے غیراحمدیوں کی زمینیں خرید لو‘‘ اور اسی طرح بہت سی دعائیں دے کررخصت فرمایا۔ فریقین نے محترم میاں صاحب کے ارشاد کے مطابق ایک دوسرے کی دعوت کی اور معاملہ خوش اسلوبی سے طے پاگیا اور متنازعہ زمین بخیروخوبی ہماری فیملی نے خرید لی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔
اس واقعہ میں معاملات کو حل کرنے کے حوالہ سے کئی سبق موجود ہیں اور میاں صاحب کے دل میں جماعتی اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے کے لیے جو درد اور تڑپ تھی اس کا بھی پتہ چلتا ہے۔
اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا تو میرے والد صاحب کسی کام سے دوبارہ ربوہ آئے تو میاں صاحب نے ارشاد فرمایاکہ چھوٹی پھوپھی جان حضرت سیدہ نواب امة الحفیظ بیگم ؓآج کل بہت علیل ہیں اوران کی خدمت کیلئے ایک ملازمہ کی ضرورت ہےچنانچہ آپ اپنے گاؤں سے کسی لڑکی کا انتظام کرکے بھجوائیں۔ خاکسار کے والد صاحب نے گاؤں آکر میرے دادا جان اور دادی جان سے بات کی اور مشورۃً عرض کیا کہ میرے خیال میں تو اس سےبڑی کوئی سعادت نہیں ہو سکتی سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام کی لخت جگر کی خدمت کا موقع ہے کیوں نہ ہم اپنی چھوٹی بہن (خاکسار کی پھوپھی) کو خدمت کیلئے بھجوادیں۔اللہ تعالیٰ جزا دے۔ میرے دادا جان کو انہوں نے بھی فوراً حامی بھر لی اورمیری پھوپھی کو جواس وقت بالکل نوجوان تھیں لے کر ربوہ میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ میاں صاحب کو جب پتہ چلاکہ یہ تو اپنی بیٹی کو لیکر آگئے ہیں تو بہت خوش اور حیران ہوئے۔ بہت شکریہ ادا کیا اپنی جیپ میں میرے دادا اور پھوپھی کو بٹھا کر اپنی کوٹھی پر لےگئے۔ دوپہر کا کھانا کھلایا اور پھر فرمایا کہ میں نے تو کسی خدمتگار ملازمہ کو بھجوانے کا کہا تھا آپ اپنی بیٹی کو لے کر آ گئے۔ جزاکم اللہ۔ لیکن اب حضرت پھوپھی جان کی خدمت کے لیے خاندان کی بعض لڑکیاں آ چکی ہیں اس لیے ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ میرے دادا جان میری پھوپھی کو لے کر گاؤں آگئےلیکن میرے دادا اور پھوپھی میاں صاحب کے حسن اخلاق اور مہمان نوازی سے بے حد متاثر ہوئے۔
خاکسار کا براہ راست تعارف محترم میاں صاحب سے اس طرح سے ہوا کہ میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد نتیجہ کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک دن ہمارے گھر جو روزنامہ الفضل آیا تو اس میں ایک اعلان تھا کہ ایک واقف زندگی خادم سلسلہ نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر کوئی احمدی نوجوان دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتا ہو تو وہ اس کی رہنمائی کریں گے اور ساتھ اپنا فون نمبر دیا ہوا تھا۔خاکسار نے یہ اعلان پڑھ کر جب فون کیا تو دوسری طرف سے ایک نہایت بارعب آواز مدعا پوچھنے کے بعد یوں گویا ہوئی۔
’’میں مرزا انس احمد بول رہا ہوں۔ میں قرآن کریم پڑھانا چاہتا ہوں اگر آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو کل صبح دس بجے وکالت تصنیف تحریک جدید میں آجائیں۔‘‘
چنانچہ خاکسار اگلے دن صبح محترم میاں صاحب کے دفتر حاضر ہو گیا اور پھر قریبا ًدو ماہ محترم میاں صاحب قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے رہے۔ اغلباً پہلا پارہ ہم نے مکمل کیا ہی تھاکہ میرا جامعہ احمدیہ میں داخلہ ہو گیا اور یہ کلاس منقطع ہو گئی۔اس دوران محترم میاں صاحب کبھی چالیس جواہر پارے اور کبھی حدیقۃ الصالحین سے حدیث بھی پڑھاتے اور کبھی روحانی خزائن سے درس دیا کرتے۔ خاص طور پر مجھے فتح اسلام سبقاًپڑھنا یاد ہے۔ محترم میاں صاحب نہایت درد اور عقیدت بھرے لہجے میں ایک جملہ پڑھتے اور تشریح طلب امور کی وضاحت کرتے چلے جاتے۔ مجھے یاد ہے انہی دنوں پاکستان اور انڈیا نے ایٹمی تجربات کیے تھے اور ایٹمی تابکاری اور تباہی زبان زد عام تھی۔سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے خطبات میں تیسری عالمگیر جنگ اور ایٹمی تباہی کے متعلق بہت تفصیل سے دنیا کو متنبہ فرما رہے تھے۔ چنانچہ ایک دن خاکسار نے قدرےخوف سے میاں صاحب سے پوچھا کہ کیا اب دنیا ایٹمی تباہی سے ختم ہو جائے گی۔ محترم میاں صاحب نے بہت جلال سے فرمایا اگر ایٹم بم چل بھی گئے تو خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بچا لے گا اور یاد رکھو یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تمام پیشگوئیاں پوری نہ ہو جائیں اور آپکا غلبہ پوری دنیا میں نہ ہو جائے۔ میرے جیسے بچے کے لیے یہ بہت حوصلہ افزاء جواب تھا۔
جہاں تک اس عرصےمیں خاکسار نے نوٹ کیا محترم میاں صاحب انتہائی سادہ لیکن نفیس شخصیت تھے۔ آپ علی الصبح سائیکل پر تشریف لاتے جس کی ٹوکری کتابوں سے بھری ہوئی ہوتی اور تمام دن تصنیف و تحریر میں مشغول رہتے۔ اگر کوئی ملنے آتا تو نہایت خندہ پیشانی سے ملتے لیکن غیر ضروری محفلوں اور مجلسوں سے آپ کی طبیعت کلیۃً بیزار تھی۔
اس کے بعد بھی محترم میاں صاحب سے گاہے گاہے کبھی دفاتر، کبھی مسجد اقصیٰ و غیرہ میں ملاقات ہوجاتی۔ بڑی محبت سے حال احوال پوچھتے۔جب خاکسار جامعہ احمدیہ کے درجہ خامسہ میں تھا تو خاکسار کےوالد صاحب جو کینیڈا منتقل ہوچکے تھے انہوں نےاپنی فیملی کو سپانسر کیا اور اسکے نتیجہ میں خاکسار کا بھی ویزا آگیا لیکن جب خاکسار نے کینیڈا جانے کے لیے رخصت مانگی تو مجلس تحریک جدید نے وہ منظور نہ کی۔اب مسئلہ یہ تھا کہ خاکسار کی والدہ صاحبہ بوجہ بیماری کینیڈین امیگریشن کا میڈیکل ایگزام پاس نہ کرسکیں اور انکا ویزا (refuse) نا منظور ہوگیا تو میرے والد صاحب نے خاکسار کو بڑا بیٹاہونے کی وجہ سے Principal Applicant بنا دیا جس کی وجہ سےمیرے چھوٹےبھائی میرے ساتھ ہی Travel کرسکتے تھے۔ لیکن تحریک جدید نے میری رخصت کی درخواست نامنظور کردی تھی۔ خاکسار اسی پریشانی میں محترم میاں صاحب کے پاس چلا گیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔محترم میاں صاحب نے بہت شفقت اور دلداری فرمائی میری والدہ صاحبہ کا نمبر لیکر ان کو فوراً فون کیا تسلی دی اور پھر خود محترم وکیل اعلیٰ صاحب سے بات کرکے مجھے اجازت دلوائی جس پر خاکسار اور خاکسار کی ساری فیملی تادم آخر انکی ممنون احسان رہے گی۔ یہ ایک واقف زندگی کیساتھ محبت اور شفقت کا غیر معمولی مظاہرہ تھا جو محترم میاں صاحب نے فرمایا چنانچہ نومبر 2003ء میں خاکسار اپنے بھائیوں کے ہمراہ کینیڈا گیا اور انکو وہاں والد صاحب کے پاس چھوڑ کر ایک ماہ بعد واپس آگیا۔
پھر 2004ء میں جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز نے کینیڈا کا پہلا دورہ فرمایا تو محترم میاں صاحب کینیڈا گئے ہوئے تھے۔ وہاں میرے والد صاحب اور بھائی ان سے ملے تو انہوں نے فرمایا اکرام !کدھر ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میاں صاحب وہ تو پاکستان میں ہے۔ اس پر میاں صاحب نے ارشاد فرمایا کہ اسے فوراً کینیڈا بلاؤ اور اس کی حضور انور سے ملاقات کرواؤ۔ چنانچہ ہر چند کہ میری فیملی کہ مالی حالات ابھی بہت اچھے نہ تھے اور میں چند ماہ قبل ہی کینیڈا سے ہو کر آ یا تھا والد صاحب نے مجھے کہا کہ محترم میاں صاحب نے فرمایا ہے اس لیے فوراً رخصت لیکر ٹکٹ کروا کے کینیڈا آجاؤ چنانچہ خاکسار نے استاذی المکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور فوراً اجازت کی کارروائی کروا کے رخصت مرحمت فرمادی۔ اور خاکسار خلافت احمدیہ کے قدموں میں کینیڈا حاضر ہوگیا اور کسی بھی خلیفۃ المسیح سے اپنی زندگی میں پہلی بار شرف ملاقات اور زیارت سے مشرف ہوا۔ یقیناً یہ میاں صاحب مرحوم و مغفور کا ایک اور احسان گراں مایہ ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیشہ محترم میاں صاحب مجھ ناچیز کی عاجزانہ دعاؤں کا محور رہتے ہیں۔
یقیناً یہ میاں صاحب کی خلافت احمدیہ سے گہری وابستگی اور دلی محبت اور وفا تھی کہ آپ اپنے سے تعلق رکھنے والے خدام کو بھی خلافت احمدیہ کے قرب اور شفقتوں سے بہرہ ور فرمانا چاہتے تھے۔
واقعات تو بہت ہیں اور آپ کی یادوں کی ایک منتشر فلم نظروں کے سامنے چل رہی ہے لیکن طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ پیارے میاں صاحب سے بے حد راضی ہو اور اپنے پیاروں کے قدموں میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
؎اے خدا بر تربت او بارش رحمت ببار
داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم
(محمد اکرام ناصر)