• 8 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نےجلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فر ما کر اس کو اعزاز بخشا۔

ایک جذباتی ملاقات

میں ایک نوجوان احمدی فیملی سے ملاقات کو بھلا نہیں سکتا جن کی ابھی ابھی حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے شوہر کا نام مکرم مبشر احمد صاحب تھا اور وہ میرے ہم عمر تھے۔ انہوں نے اور ان کی اہلیہ مکرمہ عدیلہ قمر صاحبہ نے زندگی میں پہلی بار حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کیا تھا۔ مکرمہ عدیلہ قمر صاحبہ نے حضور انور سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا کہ:
’’میں نے ساری زندگی اس لمحے کے لئے انتظار کیا ہے اور جب میں بالآخر حضور انور کے پاس موجود تھی، تو مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں جنت میں داخل ہو گئی ہوں جہاں نہایت شیریں اور شفاف بارش برس رہی ہو۔‘‘

اس موقع پر مکرمہ عدیلہ قمر صاحبہ رونے لگیں اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پا رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے تو میں نے ان کے سنبھلنے تک انتظار کیا، چند لمحات کے بعد وہ کہنے لگیں۔

’’اپنی زندگی میں، میں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن ہر مرتبہ جب میں نے حضور انور کو دعاکے لئے لکھا ہے تو ہمیشہ میرا مسئلہ کسی نہ کسی طرح غائب ہو گیا اور رفع ہو گیا۔ہر دفعہ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی معجزہ رونما ہو اہے۔ میں خلافت (احمدیہ) کے سچے ہونے کی گواہ ہوں کیونکہ میں نے حضور انور کی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھا ہے۔‘‘

بعد ازاں ان کے شوہر مکرم مبشر احمد صاحب نے اپنے تجربات بتائے۔ وہ بھی بہت جذباتی انداز میں گفتگو کرنے لگے اور کہا کہ ’’آج کے دن اللہ تعالیٰ نے جو پھل مجھے عطا فرمایا ہے وہ کسی بھی انسان کو عطا ہو نے والا نہایت شیریں اور خوش ذائقہ پھل ہے۔ حضور انور کی صحبت میں جو وقت گزرا وہ چند لمحات ایسے تھے جیسے میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیاہو۔ میرے بچے ہمیشہ خلافت کے سائے میں محفوظ رہیں گے ان چند لمحات کی برکت سے جو ہم نے پیارے آقا کی شفقتوں میں بسر کئے۔‘‘

مکرم مبشر صاحب نے مزید کہا کہ ’’حضور انور سے ملنے کے بعدمجھے کسی مادی یا دنیاوی چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہر دوسری چیز کس قدر بے وقعت نظر آتی ہے۔ میری یہی دعا ہے کہ میرے محبوب آقا پاکستان تشریف لائیں تاکہ جو غریب اور ناخواندہ لوگ ہیں وہ بھی اپنے روحانی سربراہ سے ملاقات کا شرف پا کر ان کی دعائیں سمیٹ سکیں۔‘‘

بعد ازاں مکرم مبشر احمد صاحب نے مجھے اپنا تعارف کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ بارہ سال سے وہ ایک رضاکار کی حیثیت سے ربوہ کے ایک جماعتی دفتر میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کے بعض فیملی ممبرز نے (بطور رضاکار خدمت کرنے پر) ان سے ناراضگی کااظہار کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہیں گھر میں کچھ کما کر لانا چاہیئے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی مشورہ دیا کہ اس کا خرچہ اٹھانا بند کر دیں تاکہ اس کو سبق حاصل ہو۔ اس مشکل دور کا تذکرہ کرتے ہوئے مکرم مبشر صاحب نے مزید بتایا کہ ’’اس طرح متعدد دباؤ برداشت کرنے کے باوجود میں نے بطور رضاکار دفتر جانا نہیں چھوڑا اور آج میں نے اپنے خلیفہ کے ساتھ جو چند لمحات گزارے ہیں وہ میری اس تنگی کے وقت کے صبر کا بہترین اجر ثابت ہوئے ہیں۔ جب میں حضور انو رکے سامنے بیٹھا تھا تو ان مشکل دنوں کی یاد میرے ذہن میں گھوم رہی تھی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مجھے اجر دیا اور نوازا ہے۔‘‘

کچھ مزید گفتگو کے بعد مکرم مبشر صاحب اور ان کی فیملی چلے گئے۔

احمدیت قبول کرنے کی برکات

ایک اور نہایت جذباتی ملاقات کا موقع مجھے ایک ایسی فیملی کے ساتھ ملا جو حال ہی میں پاکستان سے جرمنی شفٹ ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام مکرم سید وقار حسین صاحب (بعمر 47 سال) اور والدہ کا نام مکرمہ فوزیہ ناہید تھا۔ ان کی جڑواں بیٹیاں ہیں جن کی عمر 18 سال ہے اور ایک اور بیٹی بھی ہے جس کی عمر تیرہ سال سے زائد ہے۔ وہ پیدائشی احمدی نہ تھے لیکن نو سال قبل انہوں نے احمدیت قبول کی تھی۔

سب سے پہلے فوزیہ ناہید صاحبہ (والدہ) نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ ’’ہم نے اپنا سارا دنیاوی مال و متاع پاکستان میں چھوڑ دیاہےاور ہم یہاں جرمنی شفٹ ہو گئے ہیں صرف اس لئے کہ ہم حضور انور کی قربت میں رہ سکیں۔ آپ ہمارا سب کچھ ہیں۔‘‘

انہوں نے مجھے بتایا کہ کہ بیعت کرنے کے بعد انہیں اور ان کی فیملی کو اپنے فیملی ممبرز کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے اور کئی طریقوں سے ان کی مدد فرمائی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی فیملی میں سے ان کی والدہ نے آخری وقت میں احمدیت قبول کر لی تھی۔ تاہم جب ان کی والدہ بیمار ہوئیں تو وہ سخت پریشان تھیں کہ وہ اپنے جنازے کے اخراجات اور نماز جنازہ کا انتظام کیسے کریں گی کیونکہ ان کے غیر احمد ی فیملی ممبرز نے صاف بتا دیا تھا کہ کسی طرح سے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اپنی ایک خواب سنائی جو انہوں نے اس وقت دیکھی تھی۔ مکرمہ فوزیہ صاحبہ نے بتایا کہ:
’’اس غم اور پریشانی کے عالم میں میں نے ایک خواب دیکھی جس میں حضور انور کا دیدار نصیب ہوا اور نہایت شفقت سے حضور انور نے فرمایا: ’’بالکل پریشان نہ ہوں، ہم سب انتظام کر دیں گے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’اس خواب کے تین دن بعد میری والدہ کی وفات ہو گئی اور فوری طور ر جماعت نے خود ہم سے رابطہ کیا اور جو پہلی بات جماعت کے نمائندہ نے کہی وہ یہ تھی کہ ’’بالکل پریشان نہ ہو، ہم سب انتظام کر دیں گے‘‘۔ پھر جماعت نے اپنے نمائندہ کو ہمارے گاؤں بھجوایا اور میری والدہ کی میت کو اپنی تحویل میں لے کر تدفین کے جملہ انتظامات خود کروائے۔ میں کبھی بھلا نہیں سکتی کہ میری خواب کس طرح حرف بہ حرف پوری ہوئی۔‘‘

ان جڑواں بیٹیوں نے مجھے بتایا کہ وہ کچھ بیان کرنا چاہتی ہیں اور یہ بھی کہ اگر میں ان کا پیغام حضور انور کی خدمت میں پہنچا سکوں۔ میں نے عرض کی کہ میں کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ

پھر یوں ہوا کہ جیساکہ جڑواں بہنوں کے لئے عین ممکن ہے کہ انہوں نے اکٹھے بولنا شروع کیا اور بے ساختہ ایک دوسرے کے فقرے مکمل کرتی چلی گئیں۔ حضور انور کے لئے ان کا پیغام یہ تھا کہ۔
’’پیارے آقا، ہمارے جملہ عزیز و اقارب نے ہمیں چھوڑ دیاہے اس لئے ہم فکر مند ہیں کہ آیا ہمیں مناسب رشتے ملیں گے یا نہیں۔ اس لئے آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے شوہروں سے نوازے۔ حضور انور سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے خاندان کے افراد کو احمدیت کی سچائی کی طرف ہدایت دے کیونکہ ہم بہت افسردہ ہیں کہ ہمارے اپنے ہدایت کے راستے پر نہیں ہیں اور یہ کہ وہ حق کو مستقل جھٹلا رہے ہیں۔‘‘

عام طور پر میں اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہوں مگر اس موقع پر اس خاندان کی مشکلات اور مصائب کے باوجود احمدیت کے لئے ان کی ایمان کی استقامت کی داستان سن کر میرا اپنے جذبات پر قابو رکھنا نا ممکن ہو گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے جو میں نے اس خیال سےتیزی سے پونچھے، کہ وہ دیکھ نہ لیں۔

جامعہ احمدیہ کے ایک استاد
اور ان کی فیملی سے ملاقات

ایک دن میری ملاقات ایک نوجوان مبلغ مکرم فاتح احمد ناصر صاحب (بعمر 33 سال) سے ہوئی جو 2011ء میں پاکستان سے جرمنی آئے تھے اور جامعہ احمدیہ جرمنی میں بطور استاد خدمت بجا لارہے تھے۔

مکرم فاتح صاحب نے مجھے بتایا کہ کس طرح حضور انور کو دیکھ کر انہیں بطور مبلغ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ترغیب ہوئی۔ انہوں نے بتایا ’’جب میں حضور انور کو دیکھتا ہوں اور دورہ پر آپ کے کاموں کی بہتات کو بھی تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ کس طرح آپ کا ایک ایک لمحہ جماعت کی خدمت میں صرف ہوتا ہے۔ یہ میرے لئے ایک نمونہ ہے اور مجھے مزید محنت کرنے پر ابھارتا ہے۔ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمیں راہنمائی کے حصول کے لئے خلافت کی نعمت مہیاہے۔‘‘

گزشتہ چند سالوں میں جامعہ احمدیہ جرمنی کے چند طلباء موقع میسر آنے پر سفر کرکے لندن گئے تاکہ حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کریں۔ ان دورہ جات کی بابت مکرم فاتح صاحب نے بتایا کہ ’’میں نے خود دیکھا ہے کہ جامعہ کے ایسے طلباء جو لندن (ملاقات کی غرض سے) جاتے ہیں، حضور انور سے ملاقات کی برکت سے بالکل بدلے ہوئے واپس آتے ہیں۔ وہ پڑھائی میں پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی نماز میں توجہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ سب حضرت خلیفۃ المسیح کی توجہ اور برکت سے ہے۔‘‘

ان کی اہلیہ محترمہ مبشرہ نصرت نے حضور انور سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں میرے ساتھ گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ:
’’اس (ملاقات کے حال) کو بیان کرنا مشکل ہے لیکن جب آپ حضور انور کو دیکھتے ہیں تو آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ ایسے عالم طمانیت میں ہیں کہ جہاں آپ کو اپنی کمزوریاں پرکھنے اور انہیں درست کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ ہمیں صرف حضور انور کی دعاؤں کی ضرورت ہے خاص طور پر مجھے آپ سے دعا کی درخواست کرنی ہے کہ میرے بچے تقویٰ اور اخلاص میں ہمیشہ بڑھتے رہیں۔‘‘

بوقتِ رخصت مکرم فاتح احمد صاحب نے مجھے پوچھا کہ اگر میں ان کی ایک خواہش پوری کر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جب بھی موقع ملے میں حضور انور سے ان کے لئے دعا کی درخواست کروں کہ انہیں اپنے وقف کو زندگی بھر نبھانے کی توفیق ملے اور ہمیشہ خلافت کے مطیع اور فرمانبردار رہیں۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015 اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ