تبرکات
از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ
جسم کے مرنے کے بعد روح کہاں رہتی ہے؟
مندرجہ بالا عنوان کے تحت موقر اخبار ’’لاہور‘‘ کی اشاعت مورخہ 24 اگست 1959ء میں ایک صاحب خواجہ حبیب اللہ صاحب فاروقی کا ایک دلچسپ مقالہ شائع ہوا ہے۔ ہر چند کہ یہ خاکسار آج کل بعض پریشانیوں کی وجہ سے وہ یکسوئی اور فرصت نہیں رکھتا جو اس قسم کے موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے ضروری ہے۔ لیکن فاروقی صاحب کا مقالہ حقیقتاً دلچسپ ہے۔ اور پھر محترم ایڈیٹر صاحب ’’لاہور‘‘ نے اپنے قارئین کو اس مضمون پر قلم اٹھانے کی عام دعوت بھی دی ہے۔ اس لئے چند مختصر سے فقرات کے ذریعہ ذیل میں اپنے خیالات اور معلومات کا اظہار کرتا ہوں۔ وَماَ تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ۔
سب سے پہلے تو میں مضمون نگار صاحب کے اس سوال کا دو حرفی جواب دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون کے عنوان میں کیا ہے۔ یعنی ’’کیا روح سے رابطہ ممکن ہے؟‘‘ اس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ ’’ہاں ممکن ہے‘‘۔ مگر میرے جواب کی تفصیل فاروقی صاحب کے مضمون کی تفصیل سے غالباً مختلف ہو گی۔ لیکن سب سے پہلے ضروری ہے کہ روح کی پیدائش کے متعلق قرآنی تعلیم کی رو سے روشنی ڈالی جائے کیونکہ اس کے بغیر میرے مضمون کا پس منظر واضح نہیں ہو سکے گا۔ قرآن مجید انسانی پیدائش کی تفصیل اور اس کے مختلف مدارج بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ o ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَo
(المومنون: 15-13)
یعنی ہم نے انسان کو ابتداءً مرطوب مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا۔ پھر اسے ایک محفوظ قرار گاہ (یعنی رحمِ مادر) میں نطفہ کے طور پر رکھا۔ پھر ہم نے اس نطفہ کو ایک ڈھیلے ڈھالے چپکنے والے لوتھڑے کی صورت دی۔ پھر اس ڈھیلے ڈھالے لوتھڑے کو پیوست بوٹی کی شکل میں منتقل کیا۔ پھر اس بوٹی میں ہڈیاں بنائیں۔ پھر ان ہڈیوں پر گوشت پوست کا خول چڑھایا اور پھر اس وجود کوایک نئی مخلوق کی صورت میں بنا کھڑا کیا۔ پس لوگو! دیکھو کہ تمہارا خدا کیسا بابرکت اور کیسا بہترین خالق ہے۔
جسم اور روح کی پیدائش کے مختلف مراحل
اس لطیف آیت میں خداوند عالم نے انسان کے جسم اور اس کی روح دونوں کی پیدائش کو نہایت لطیف رنگ میں اس کے مختلف مدارج کی تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اولاً اس آیت میں جسم کی پیدائش کو مٹی کے خلاصہ سے لے کر نطفہ اور پھر ڈھیلے ڈھالے لوتھڑے اور پھر پیوست بوٹی اور پھر ہڈی اور پھر گوشت پوست کے خول تک درجہ بدرجہ مکمل کرنا بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد روح کی پیدائش کا اسی جسم میں سے خَلْقاً اٰخَر (یعنی ایک نئی پیدائش) کے الفاظ سے ذکر کرتے ہوئے اور اس کے ساتھ اَنْشَاْنٰہُ (یعنی بنا کھڑا کیا) کا لفظ لگا کر اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان میں یہ روح ہی ہے جو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کر کے اور حیوانوں کے زمرہ میں سے نمایاں کر کے علیحدہ صف میں کھڑ اکر دیتی ہے۔
پس اسلام کی تعلیم کے مطابق روح دراصل جسم ہی کا ایک ترقی یافتہ جوہر ہے جو انسانی جسم کی تکمیل کے بعد اس کے اندر سے ایک نئی اور ارفع مخلوق کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ اور آریہ سماج کی طرح یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ روح ایک بیرونی چیز ہے جو باہر سے آکر انسانی جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ تو جب روح انسانی جسم ہی کا ایک ترقی یافتہ حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا تعلق جسم کے ساتھ جو اس کے لئے بطور بیج یا باپ کے ہے کبھی بھی کامل طور پر منقطع نہیں ہو سکتا اور کسی نہ کسی صورت میں ضرور قائم رہتا ہے۔ اسی لئے حدیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرنے اور اس کی روح کے پرواز کر جانے اور اس کے جسم کے بظاہر کلّی طور پر فنا ہو جانے کے بعد بھی اس کے جسم کا ایک نہ نظر آنے والا حصہ جسے گویا ایٹم یا مالیکیول کہہ سکتے ہیں (مَیں سائنس کا عالم نہیں ہوں صرف سمجھانے کی غرض سے عام رنگ میں بیان کر رہا ہوں) محفوظ رہتا ہے۔ اور اس حدیث میں اس حصہ کو عَجَبُ الْذَنَب یعنی ریڑھ کی ہڈی کے اسفل ترین حصہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر) چنانچہ اسی وجہ سے مرنے والوں کی قبروں کے ساتھ ان کی روحوں کا کسی نہ کسی رنگ میں رابطہ تسلیم شدہ ہے۔ اور اکثر اولیاء اور صلحاء کا تجربہ ہے کہ جب وہ کسی فوت شدہ بزرگ کی قبر پر جا کر توجہ سے دعا کرتے ہیں تو بعض اوقات کشفی حالت میں صاحب قبر کی روح کے ساتھ ان کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ کشف اور خواب بالکل جداگانہ چیزیں ہیں۔ کیونکہ خواب نیند کی حالت میں آتی ہے اور کشف بیداری کی حالت میں ہوتا ہے۔ جبکہ کشف دیکھنے والے کی آنکھوں پر سے مادی پردے اٹھا کر اسے کوئی غیبی نظارہ دکھایا جاتا ہے۔ اور یہ نظارہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے مادی آنکھوں کے سامنے کوئی سینما کی تصویر پھر جاتی ہے۔
اسلامی اصطلاح کے مطابق قبر کی تشریح
اس جگہ یہ صراحت بھی ضروری ہے کہ اسلامی محاورہ میں قبر سے ہمیشہ مٹی کے ڈھیر والی معروف قبر ہی مراد نہیں ہوتی بلکہ اس سے وہ مقام بھی مراد ہوتا ہے کہ جہاں مرنے کے بعد حشرو نشر سے پہلے انسانی روح رکھی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: ثُمَّ اَمَاتَہ، فَاَقْبَرَہ، (عبس:22)
یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان پر موت وارد کرتا ہے اور پھر اسے اس کی قبر میں رکھتا ہے
اب ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو یہ مٹی کے ڈھیر والی قبر میسر نہیں آتی کیونکہ کروڑوں انسانوں کے مُردے جلائے جاتے ہیں اور دفن نہیں ہوتے۔ لاکھوں انسان ڈوب کر مرتے ہیں۔ ہزاروں انسانوں کو جنگل کے درندے کھا کر ختم کر دیتے ہیں۔ تو پھر ہر انسان کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسے خدا قبر میں رکھتا ہے ؟ یقینا یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جیسا کہ حدیث میں صراحت آتی ہے۔
قبر سے مراد وہ قیام گاہ لی جائے جہاں مرنے کے بعد اور کامل حساب کتاب سے پہلے انسان کی روح رکھی جاتی ہے۔
چنانچہ انہی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب النار سے ممتاز کر کے عذابِ قبر کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔ جس سے ناواقف یا ظاہر پرست لوگوں نے یہ ظاہری قبر مراد لے کر قبروں کو فراخ بنانا شروع کر دیا۔ تاکہ منکر نکیر نامی فرشتوں کے سامنے بیٹھنے کے لئے مرنے والے کو کافی جگہ میسر آسکے۔ حالانکہ یہاں یہ مٹی والی معروف قبر مراد نہیں بلکہ مرنے کے بعد مرنے والوں کی روح کے رکھے جانے کا مقام مراد ہے۔ یہ وہی مقام ہے جسے دوسری اصطلاح میں قرآن مجید نے برزخ کا نام دیا ہے جو حشر و نشر سے پہلے ایک درمیانی زمانہ کا مقام ہے۔ مرنے والی روحوں کا تعلق دنیا کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں اسی وقت تک قائم رہتا ہے جب تک کہ وہ قبر یعنی برزخ کے زمانہ میں رہتی ہیں۔ اس کے بعد یہ تعلق ختم ہو کر کامل طور پر اخروی زندگی شروع ہو جائے گی۔ مَیں شائد باریک مذہبی اصطلاحوں میں جارہا ہوں مگر دراصل یہ مسائل آپس میں اتنے مربوط ہیں کہ ان کی تاریں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا کرنا بظاہر ممکن ہی نہیں۔
کیا مرنے والے کی روح کے ساتھ ملاقات ہو سکتی ہے ؟
اب رہا یہ سوال کہ کیا کسی زندہ انسان کی کسی فوت شدہ انسان کی روح کے ساتھ اسی دنیا میں ملاقات ہو سکتی ہے؟ اور دراصل فاروقی صاحب کے سوالوں کا یہی مرکزی نقطہ ہے۔ سو جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں اس کے جواب میں میرا کہنا یہ ہے کہ ہاں یہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ لیکن میں اسے فاروقی صاحب کی طرح ایک تماشہ نہیں سمجھتا کہ جب چاہا اور جس نے چاہا کسی فوت شدہ روح کو بلا کر اس کے ساتھ باتیں شروع کر دیں۔ کیونکہ یہ نظریہ قرآنی آیات کے صریح خلاف ہے۔ چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ:
وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
(المومنون:101)
یعنی مرنے والوں اور اس دنیا میں رہنے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جو حشر نشر کے دن تک یعنی قیامت تک قائم رہے گا۔
یہ ملاقات کس طرح ہو سکتی ہے؟
تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں فوت شدہ روحوں کے ساتھ زندہ لوگوں کی ملاقات کس طرح ہو سکتی ہے؟ سو اس کے متعلق بھی قرآن مجید خاموش نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے:
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
(بنی اسرائیل:86)
یعنی اے رسولؐ! لوگ تجھ سے روحوں کے متعلق پوچھتے ہیں (کہ ان کا معاملہ کس طرح پر ہے؟) تو ان سے کہہ دے کہ روحوں کا معاملہ خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ مگر اے لوگو! تمہیں اس بارے میں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری معلومات کا اکثر حصہ محض تخیل اور قیاس آرائی یا نظر کے دھوکے پر مبنی ہے اور صحیح معلومات بہت کم ہیں۔
اس کا ذریعہ صرف اذن الٰہی ہے
اس آیت سے ظاہر ہے کہ روحوں کے ساتھ ملاقات تو یقینا ممکن ہے مگر یہ نہیں کہ جس نے چاہا اور جب چاہا کسی مرنے والے کی روح کو بلا کر اس کے ساتھ بات چیت کر لی۔ یہ نظریہ قرآنی تعلیم کے سراسر خلاف ہے جو اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان ایک برزخ یعنی روک اور روٹ کا قائل ہے اور صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ روحوں کے ساتھ زندوں کا رابطہ صرف اذن الٰہی کے ساتھ ممکن ہے اس کے بغیر ہرگز نہیں۔ دنیا بھر کے انبیاء اور اولیاء کی تاریخ ایسے واقعات سے معمور ہے کہ دعا اور توجہ کرنے پر اذن الٰہی سے ان کی کسی مرنے والے کی روح کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب احد کے میدان میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی عبداللہؓ شہید ہو گئے تو ایک کشفی انکشاف کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جواں سال مخلص لڑکے جابرؓ سے ازراہ دلداری فرمایا کہ تمہارے والد شہید ہوکر خدا کے سامنے پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی سے خوش ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی خواہش ہو تو بیان کرو۔ جابر ؓ کے والد عبداللہؓ نے عرض کیا۔ خدایا! تیری کسی نعمت کی کمی نہیں مگر یہ تڑپ ضرور ہے کہ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر تیرے رستہ میں جان دوں اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہاری اس خواہش کو بھی پورا کر دیتے مگر ہم ایک ازلی ابدی عہد کر چکے ہیں جو قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ: اَنَّھُمْ لاَ یَرْجَعُوْن۔
یعنی مرنے والے اس دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتے۔
(ترمذی و ابن ماجہ)
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر میں قتل ہونے والے کفار کی لاشوں کے درمیان کھڑے ہوئے تو آپ کو عالمِ کشف میں ان کی روحیں دکھائی گئیں۔ جنہیں دیکھ کر آپؐ نے جوش کے ساتھ فرمایا کہ ’’ہم نے تو اپنے رب کا وعدہ پورا ہوتے دیکھ لیا کیا تم نے بھی خدا کا وعدہ پورا ہوتے دیکھا ؟‘‘
(صحیح بخاری کتاب المغازی)
اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانیؑ اپنے ایک مشہور عربی قصیدہ میں فرماتے ہیں کہ :
وَاللّٰہِ اِنِّی قَدْ رَأَیْتُ جَمَالَہ،
بِعُیُوْنِ جِسْمِی قَاعِداً بِمَکَانِی
وَرَأَیْتُ فِی رَیَعَانِ عُمْرِی وَجْھَہ،
ثُمَّ النَّبِییُّ بِیَقْظَتِیْ لَا قَانِی
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 593)
یعنی خدا کی قسم! میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو اپنے اس جسم کی آنکھوں کے ساتھ اپنے مکان کے اندر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے بالکل آغازِ جوانی میں آپؐ کے روئے مبارک کو دیکھا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عین بیداری کی حالت میں مجھے مکرر ملاقات کا شرف بخشا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
(میری) بارہا کشفی حالت میں (عیسیٰ علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھانا کھایا۔
(نورالحق حصہ اول روحانی خزائن جلد 8صفحہ 57-56)
اسی قسم کے ہزاروں واقعات اسلام کی تاریخ بلکہ قبل اسلام کے زمانہ میں روحانی لوگوں کے حالاتِ زندگی میں ملتے ہیں۔ مگر آ جا کے بات یہی ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کشفی نظارے ہیں جن میں خدا کے اذن سے نہ کہ از خودمرنے والوں کی روحوں سے زندہ لوگوں کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ اور یہ خاکسار بھی اس معاملہ میں کسی حد تک صاحبِ تجربہ ہے۔ وَلَا فَخْرَ۔
روحوں کے بلانے کی مزعومہ حقیقت کیا ہے؟
بالآخر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ آج کل جو بعض لوگ اور خصوصاً مغربی ممالک کے لوگ روحوں کے بلانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے ؟ سو چونکہ میری آنکھوں کے سامنے ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا اس لئے میں اس قسم کے واقعات کے متعلق بصیرت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میں اس قدر یقینا جانتا ہوں کہ ایسا ہونا اذنِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بعض محققین نے اس قسم کے واقعات کو نظر یا سماع کا دھوکا قرار دیا ہے۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ کے کئی لوگ بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ایسی رپورٹوں کو حسنِ ظنّی کی نظر سے دیکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے تجربات ہپناٹزم یعنی علم توجہ سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک معروف اور مسلّم علم ہے اور قدیم زمانہ سے چلا آیا ہے جسے بعض لوگ غلطی سے سِحر کا نام بھی دے دیتے ہیں۔ مگر اس علم کو روحانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ وہ علم ہے جس میں ایک مشّاق انسان خواہ وہ کسی مذہب کا ہو اپنی توجہ کے زور سے بعض دوسرے لوگوں کے دماغ یا حواس پر ایک وقتی اثر پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس صورت میں ایک معمول کو بعض غیر حقیقی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ یا بعض غیر حقیقی آوازیں حقیقت کے رنگ میں سنائی دے جاتی ہیں۔ اور بعض اوقات اس کا اثر ایک سے زیادہ انسانوں تک بلکہ ایک انبوہ تک بھی وسیع ہو جاتا ہے اور ایک معتدبہ جماعت اس سے متاثر ہو جاتی ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا اس علم کو روحانیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک غیر مسلم انسان حتیٰ کہ ایک دہریہ تک بھی مشق کے ذریعہ یہ ملکہ پیدا کر سکتا ہے اور خاکسار راقم الحروف نے ایسے کئی نظارے دیکھے ہیں۔ بلکہ اس علم میں کافی مشق کے ذریعہ بعض اوقات ایک غیر جاندار چیز پر بھی اثر پیدا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً بعض اوقات ایک جلتا ہوا لیمپ مدھم کیا جاسکتا ہے۔ یا بعض اوقات ایک بند زنجیر کو کھولا جا سکتا ہے۔ یا ایک لکڑی یا لوہے کی میز سے آواز اٹھائی جا سکتی ہے اور بعض لوگ اس علم کو بعض بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کرتے ہیں وغیرہ ذالک۔ اور یہ ایک ایسی معروف اور تجربہ شدہ بات ہے جس پر کوئی شاہد لانے کی ضرورت نہیں۔
انسانی روح اور حیوانی روح میں فرق
ضمناً یہ بات بھی بیان کر دینی نامناسب نہ ہو گی کہ انسانی روح اور حیوانی روح میں بھاری فرق ہو تا ہے۔ اور یہ فرق یہ ہے کہ انسانی روح جسم سے الگ ہو کر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر حیوانی روح کو یہ صلاحیت حاصل نہیں۔ بلکہ جب کوئی جانور مرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی روح بھی مر جاتی ہے۔ اس لئے اکثر محققین حیوانی روح کو روح کا نام ہی نہیں دیتے بلکہ اسے صرف جان یا زندگی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور روح کا لفظ صرف انسانی روح پربولا جاتا ہے۔ اس امتیاز کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید نے بار بار صراحت کی ہے انسان ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو اسے کچھ اس دنیا میں ملتی ہے اور اس کا ایک بہت لمبا حصہ مرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں ملے گاتا کہ وہ آخرت میں اپنے نیک و بد اعمال کی جزا یا سزا پا سکے۔ مگر حیوانوں کی پیدائش میں یہ غرض مدنظر نہیں بلکہ وہ صرف انسان کی خاطر سے عارضی زندگی کے لئے پید ا کئے گئے ہیں اور مرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے انسان کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ ۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍo
(التّین:7-5)
یعنی ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں اور بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اسے اسفل ترین گڑھے میں گرا دیتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو سچے ایمان پر قائم ہوتے اور عمل صالح بجا لاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اجر ہمیشہ رہے گا اور کبھی ختم نہیں ہو گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس مختصر سے نوٹ میں فاروقی صاحب کے سارے سوالوں کا اصولی جواب آجاتا ہے۔ جس کے بعد اگر وہ پسند کریں تو انہی لائنوں پر مزید غور کر کے اپنے معلومات میں کافی اضافہ کر سکتے ہیں۔ وَلاَ عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْنَا اللّٰہُ الْعَلِیْمُ۔وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَظِیْم۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(محررہ 30اگست 1959ء)
(روزنامہ الفضل ربوہ ١٨/ ستمبر 1959ء)
٭…٭…٭