وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
(الفرقان:75)
اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ !ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کراور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے ۔
عصر حاضرمیں ،مغرب نےایسی نسل تیار کی ہے جو اس بات کی ہم خیال ہے کہ ،مذہب کی تعلیمات،سماج کی روایات اور انسانی طبیعت آپس میں متصادم ہیں اور معاشرے کی قید اور روایات کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہےنیز خوشی کے لیے ضروری ہے کہ انسان خاندانی اور عائلی بندھنوں سے آزاد ہو جائے۔ بالآخر یورپ اور امریکہ کی تمام اقوام میں معاشرتی شیرازہ ان افکاروخیالات کی ترویج پاتے ہی بکھر گیا اور عائلی نظام درہم برہم ہو گیا۔
موجودہ دور میں جو کشمکش قوموں، ملکوں اور مذاہب میں جاری ہے، اس میں یہ نظریات و خیالات کارفرما ہیں جو اہل مغرب نے دنیا کو دیئے اور جس دلدل میں وہ خود جا گرے ہیں۔آج کا نام نہاد ترقی پسند معاشرہ اسی جانب رواں دواں ہے
اسلام جو دین فطرت ہے،انسان کی فطرت اور شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے احکامات لاگو کرتا ہےجبکہ اسلام کی عائد کردہ تمام قیود اور بندشیں معاشرے کے مفاد میں ہیں۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَّكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (صحيح البخاري،كتاب الجمعة،الجمعة فی القری والمدن) یعنی تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں سب راعی (نگہبان) ہیں اور انکی ذمے داری ہے کہ بگاڑ کی تمام صورتوں پر نظر رکھیں اور ابتری و انتشار کے اس دور میں ہر جگہ مغربی تہذیب کی چالوںسے نہ صرف خود بلکہ معاشرے کو محفوظ کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔دور حاضر کی مغربی طرز زندگی اور مصنوعی چمک دمک نےان ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ذہنوں کو بدلنے میںمصروف ہیں۔آزادی کے مغربی تصور کے تحت ذرائع ابلاغ نے فسق و فجور کی خوب اشاعت کی اور پوری دنیا کے ممالک کو اپنا ہدف بنا کر اس کےاثرات کو گھر گھر پہنچا دیا۔ ان ذرائع ابلاغ کے برے اثرات عیاں ہیں۔جھوٹ اور مکروفریب کی اشاعت کا کام تیزی سے جاری ہے۔ تربیت کا جو نظام اسلام دیتا ہےوہ انسانی طرز عمل پر اثر انداز ہونے والے بہترین عوامل میں سے ہے۔ ہر انسان کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو والدین کے پاس امانت ہوتا ہے ۔بچہ کا دل و دماغ سادہ ہوتا ہے۔ اس کے والدین، معلم اور معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں، اسکے خیالات و افکار بناتے ہیں۔ اگر خیر کی طرف راہنمائی کریں تو وہ اسکا عادی بنتا ہے اور اگر اس کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا بلکہ اسکی تباہی کا وبال اسکے سر پرستوں پر بھی ہوگا۔ تربیت کے اس مرحلے میں ماں اولاد کے قریب ترین ہوتی ہے۔ معاشرے کی تباہی، بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔
ماں باپ اپنی اولاد کو توحید پرست بنائیں
اس بار ے میں قرآن کریم میں حضرت ابراھیم ؑ کا ایک قول درج ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
(ابراهيم:36)
ترجمہ: اور (ىاد کرو) جب ابراہىم نے کہا اے مىرے ربّ! اس شہر کو امن کى جگہ بنا دے اور مجھے اور مىرے بىٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کى عبادت کرىں ۔
حدیث شریف میں ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ وَیُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیْمةَبَھِیْمةَ جَمْعَاءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِیْھَا مِنْ جَدْعَاءَ
(مسلم کتاب القدر باب معنی کل مولود یولد علی الفطر)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: ہر بچہ فطرتِ اسلامی پر پیدا ہو تا ہے۔پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہو تا ہے جیسے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے۔ کیا تمہیں ان میں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے؟ یعنی بعد میں لوگ اس کا کان کاٹتے ہیں اور اسے عیب دار بنا دیتے ہیں ۔
بچوں کی عمدہ تربیت کرنا ،والدین پر فرض ہے اور یہ بچوں کا حق ہے
آپ نے کبھی ایسے درخت دیکھے ہوں گے جو سڑک کے کسی موڑ پر یاچوراہے کے قریب اس طرح اُگے ہوتے ہیں کہ بجائے فائدہ کے ٹریفک اور راہ گیروں کے لئےمسائل کا باعث بن رہے ہوتے ہیں یاایسے گھنے اور سایہ دار درخت جو کسی ایسی جگہ پر ہوں جہاں سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکتا ہو ۔یا بعض اوقات گھروں کے صحن میں یا دیوار کے قریب لگے ہوئے ایسے درخت جو دیوار کے گرنے کا باعث بن رہے ہوں اور گھر کا مالک ان کو کاٹ پھینکنے کے متعلق سوچ رہا ہوتا ہے۔یا کبھی ایسا مشاہدہ ہوا ہو کہ بڑی محبتوں سے آپ گلاب کے پودے لیکر آئیں اور محنت اور محبت کے ساتھ ان کی آبیاری کریں اور جب اس پر خوبصورت رنگوں کے پھول کھلیں تو پتہ چلے کہ رنگ تو بہت اچھا ہے لیکن اس میں تو خوشبو ہی نہیں۔ خوشبو والے گلاب تو اور ہوتے ہیں۔اور اس وقت یعنی جب وقت تھا کہ پتہ رکھا جاتا اس وقت اس کا دھیان ہی نہیں رکھا ،علم ہی نہیں ہوا۔ جیسے اس درخت لگانے والے کو علم ہی نہ تھا یا اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اب تو یہ بے شک ایک ننھا سا بیج ہے ،چھوٹی سی کونپل ہے لیکن جب یہ بڑا ہو گا تو کس طرح راستوں کی رکاوٹ بن جائے گا یاگھر کی دیوار کو گرانے کا باعث بن جائے گا ۔اُسے گلاب کی خوبصورت رنگت تو میسر آگئی لیکن اس کی خوشبو سے تو محروم رہا۔ کیونکہ اس نے پہلے یہ خیال ہی نہیں کیا اب اس کو اپنی محنت پر حسرت ہو گی۔ چاہے تو وہ ان پودوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے، چاہے تو رہنے دے وہ اسکے کسی کام کے نہیں۔
یہ ننھے ننھے بچے جب ماں باپ کی گود میں آتے ہیں تو یہ بھی ان پودوں اور گلابوں کی مانند ہوتے ہیں۔تب وقت ہوتا ہے کہ آپ جو چاہیں ان کو بنا لیں۔ اب یہ والدین کا فرض ہے کہ ان کو خوشبو دار گلاب بنائیں یا بغیر خوشبو کے رہنے دیں۔کوئی پھلدار درخت بنائیں یا کانٹے دار جھاڑی، کسی رستے کی روک بننے والا درخت بنائیں یا کوئی شجر سایہ دار کہ جس کے نیچے کوئی تھکا ہارا دم لینے کے لئے آرام کرے اور پھر دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوجائے۔
چنانچہ بچے کے کان میں اس کی پیدائش کے وقت ہی اذان دلوا کر اس اہم فرض کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ سنو! بچے کی تربیت کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:
عَنْ اَبِی سَعِیدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ وُلِدَ لَہٗ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ اِسْمَہٗ وَاَدَبَہٗ فَاِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہُ فَاِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہُ فَاَصَابَ اِثْمًا فَاِنَّمَا اِثْمُہُ عَلٰی اَبِیْہِ
(مشکاۃ المصابیح کتاب النکاح باب الولی فی النکاح واستئذان المراۃ)
حضرت ابو سعیدؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کرے۔ اگر وہ بچہ بالغ ہو جاتا ہے اور وہ اس کی شادی نہیں کرتا اور بچہ سے کوئی گناہ سر زد ہو جاتا ہے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔
عَنْ اَنَسِ بِنْ مَالِکٍؓ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَکْرِ مُوْا اَوْلاَدَکُمْ وَاَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ
(ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالد)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤاور ان کی اچھی تربیت کرو۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ ،حضرت امّاں جانؓ کا طریق تربیت بیان کرتے ہوئےفرماتی ہیں کہ: ’’بچوں کی تربیت کا پہلا اصول یہ تھا کہ بچے پر مکمل اعتماد ظاہرکرکے ماں باپ کے اعتبار کا بھرم رکھنا، جھوٹ سے نفرت، غیرت دکھانا اور روپے پیسے اور دنیاوی چیزوں کی پرواہ نہ کرنا آپ کا پہلا سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی یہی فرماتی رہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے۔ پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی حرج نہیں۔جس وقت بھی روکا جائے گا رُک جائے گا۔ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید رہے گی۔ ہمیں بھی یہی سکھا رکھا تھا۔ ہم لوگ یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ماں باپ کی غیرموجودگی میں، ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریں۔ حضرت امّاں جان ہمیشہ یہ فرمایا کرتیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے۔ یہی اعتبار ہمیں ہمیشہ جھوٹ سے بچاتا تھا بلکہ اس سے اور نفرت آتی تھی۔ مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں۔‘‘
(سیرت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا تصنیف ازصاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ، شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ،صفحہ نمبر: 8)
اولاد کو نماز کا عادی بنانا
اولا د کو نماز قائم کرنے والا بنایا جائے جبکہ نماز کا ترجمہ بچپن سےہی سکھایا جائےنیزاولاد کو نماز کا عادی بنانے کے لئے کوشش کے ساتھ ساتھ یہ دعا کثرت سے پڑھیں:
رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ
(ابراهيم:41)
اے مىرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور مىرى نسلوں کو بھى۔ اے ہمارے ربّ! اور مىرى دعا قبول کر۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرُوْا اَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ اَبْنَآءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَاوَھُمْ اَبْنَآءُ عَشْرٍ وَ فَرِّقُوْابَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ
(سنن ابی داؤدکتاب الصلوۃ باب متی یومر الغلام بالصلوۃ)
حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد سے اوروہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ پھر دس سال کی عمر تک انہیں اس پر سختی سے کار بند کرو نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ۔
ایمان اورعمل صالح ہی دراصل خدا کے حضور قبولیت کا باعث ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَمَآ أَمْوَالُكُمْ وَلَآ أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولٓئِكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُوْنَ
(سباء:38)
اور تمہارے اموال اور تمہارى اولاد اىسى چىزىں نہىں جو تمہىں ہمارے نزدىک مرتبۂ قرب تک لے آئىں سوائے اس کے جو اىمان لاىا اور نىک اعمال بجا لاىا پس ىہى وہ لوگ ہىں جن کو اُن کے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے، دُہرى جزا دى جائے گى اور وہ بالاخانوں مىں امن کے ساتھ رہنے والے ہىں ۔
ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا کا فعل ہے
بچوں کی عمدہ تربیت اور گناہوں سے نجات دراصل خدا کے فضل پر موقوف ہے۔بچوں کی تربیت محبت و پیا ر اور حسن سلوک کے ساتھ کرنی چاہیے۔
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيْرِنَا
(مسند أحمد، كتاب مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کاسلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہیں کرتا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا کا فعل ہے ۔سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے ۔اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔ نیز فرمایا :
ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں ۔بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں ۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہو جائے گا ۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ 309)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما ۔سو اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ، اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے ۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ 456۔457)
اولاد کو خدا تعالیٰ کے فرماں بردار بنانے کی سعی اور فکر کریں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پھر ایک اوربات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرماں بردار بنانے کی سعی اور فکر کریں ۔ نہ کبھی ان کے لئے دعاکرتے ہیں اور نہ مراتبِ تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں ۔میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں، میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بُری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہو تے ہیں۔ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لیے کہ وہ خادمِ دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا ۔نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے۔ یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا۔جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما وے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق وفجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمٰن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں۔اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہوگا ۔اس سے گویا متقی ہو نے کی بھی دعا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ560۔563)
ماں باپ کی اپنی تربیت اور ان کے اخلاق کا اثر، اولاد پر پڑتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کو توجہ دینی ہوگی۔ وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں، اُنہیں متقی بنائیں اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک والدین خود متقی نہ ہوں یا متقی بننے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے مُنہ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر بچہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسائیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے، اپنے بہن بھائیوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں، ذرا ذرا سی بات پر میاں بیوی میں ،ماں باپ میں ناچاقی اور جھگڑے شروع ہو رہے ہیں تو پھر بچوں کی تربیت اور ان میں تقوٰی پیدا کرنا بہت مُشکل ہو جائے گا۔ اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد1 صفحہ 150)
بچوں کو بلا وجہ اور غیر مناسب اوقات میں گھروں سے باہر نہ جانے دیں
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ رات کا اندھیرا شروع ہونے پر یا رات کے چھا جانے پر اپنے بچوں کو (گھر میں) روک رکھوکیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلتے ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة ابلیس و جنودہ)
حضرت امّاں جانؓ (حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ) کا طریق ِتربیت
’’حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ جن کی تربیت (حضرت) امّاں جان کی گود میں ہوئی فرماتے تھے کہ حضرت امّاں جان کایہ اصول تھا کہ بچوں کو مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ رہنے دیتیں۔ اس اصول کی سختی سے پابندی فرماتیں۔ یہ حکم تھا کہ مغرب کی نماز پڑھ کر سیدھے گھر آؤ پھر باہر نہیں جانا سوائے عشاء کی نماز کے لیے۔ اور بڑے ہونے تک یہی پابندی رہتی ۔۔۔۔۔ حضرت امّاں جان تربیت کرنے کے لیے اس بات کابھی خیال رکھتیں کہ گھر کے بچے اور دوسری یتیم لڑکیاں جو آپ کے گھر پل رہی تھیں، اچھی عادتوں والے بچوں کے ساتھ ہی کھیلیں تاکہ ان میں کسی دوسرے گندے بچے کی بری عادت نہ پڑے اور بچے بری صحبت سے دور رہیں ۔۔۔۔۔ آپ جب بھی کسی بچے کی کوئی بری بات دیکھتیں تو اس طرح نصیحت فرماتیں کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے اور خواہ مخواہ دوسروں کے سامنے شرمندگی بھی نہ اُٹھانی پڑے۔‘‘
(سیرت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا،ازصاحبزادی امۃ الشکورصاحبہ، شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ،صفحہ نمبر8)
بیوی بچوں کی محبت میں اعتدال ہو اور اولاد کی خواہش اور اس کی محبت خدا سے تعلق پر اثر انداز نہ ہو۔بچپن سے ہی بچوں کودینی علوم سکھانے چاہیںتاکہ ان میں دین اور نیکیوں کی طرف رغبت پیدا ہو اور بچپن کی عمر اس کے لئے بہترین زمانہ ہے۔
اولاد بڑوں کا ادب اور ان کا کہا ماننے والی ہو
’’حضرت امّاں جان کے دل میں استاد کی بہت عزت تھی اور آپ کی یہی کوشش ہوتی کہ بچوں کے دل میں بھی استاد کا احترام ڈالا جائے اور بچے اپنے استاد کی عزت کریں۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے استاد تھے۔ ایک دن ان کی بیوی حضرت امّاں جان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ میاں صاحب جو اس وقت ابھی بہت چھوٹے تھے ایک ربڑ کا سانپ لیے ہوئے آگئے اور ایک دم سے اسے ان کے سامنے چھوڑ دیا۔ اس طرح اچانک ایک سانپ دیکھ کر وہ خوف سے کانپنے لگیں۔ حضرت امّاں جان نے ان کی حالت دیکھ کر انہیں تسلّی دی کہ ’’بہو! یہ تو ربڑ کا سانپ ہے تم ایسے ہی ڈر رہی ہو۔‘‘ اور ساتھ ہی اپنے بیٹے سے فرمایا ’’میاں محمود! یہ تمہارے استاد کی بیوی ہیں۔ یہ تم نے کیا کِیا؟‘‘ وہ شرمندہ ہوگئے اور معافی مانگ کر بولے ’’امّاں جان مجھ سے بھول ہوگئی۔‘‘
(سیرت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا، از صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ، شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان،صفحہ نمبر8)
بچوں کو غیر نصابی سر گرمیوں میں بھی حصہ لینے دینا چاہیے نیز والدین بچوں میں دینی کاموں کی عادت پیدا کریں۔ قرآن کریم کی محبت ان کے دل میں پیدا کریں اور شروع عمر سے ہی بچے کو ناظرہ قرآن کریم اور ترجمہ سکھا دینا چاہیے۔
بچوں کو جفاکشی ،مشقت اور ظاہری حالت کی درستی کی عادت ڈالیں۔انسان کی ظاہری حالت کا اثر، اس کے اخلاق اور اندرونی حالت پر پڑتا ہے۔
بچوں کو جمعہ پر لائیں، دروس اور مختلف تربیتی کلاسز میں بچوں کو ضرور شامل کریں جبکہ صحبت صالحین بھی مہیا کرنے کی کوشش کریں۔ان سب باتوں کے حصول کے لئے ،ایم ۔ٹی ۔اے سب سے بہترین ذریعہ ہے۔بچوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات و خطابات ،کلاسز اور دیگر پروگرام لازمی سنائیں اور بعد میں بچوں سے وقتاً فوقتاً اس کا جائزہ بھی لیتے رہیں۔بچپن سے سیکھی ہوئی چیزوں کا اثر دل پر پڑتا ہے۔اس لئے بچپن سے ہی انہیں ایم۔ٹی۔اے دیکھنے کا عادی بنا دیں ،تاکہ وہ خلیفہ وقت کی محبت و الفت اور الٰہی تربیت سے بچپن میں ہی رنگین ہو جائیں اور ان کی دنیا و آخرت سنور جائے۔
ذیلی تنظیمیں بچوں کی تربیت کے لئے نگرانی کا فریضہ ادا کریں۔
بچوں کا ہر روزکا، چوبیس گھنٹوں کا پروگرام متعین کریں اور اس پر عملدر آمد کروائیں نیز بچوں میں وقت کی پابندی کی عادت ڈالیں۔
بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا قتل اولاد ہے۔بچوں کو تعلیم دلوائیں،یہ بچوں کا والدین پر حق ہے۔
بچوں میں صبرو شکر کی عادت پیدا کریں اور انہیں قناعت شعار بنائیں۔
اولاد کی صحت ،غذا اور ورزش کی طرف توجہ دینی چاہیے،بچوں کو گوشت کم اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کرانا چاہیے، ان کی اچھی صحت کے لئے ضروری ہے کہ انہیں دودھ پینے کے لئے دیں۔ انسان کی خوراک کا اثر اس کے اخلاق پر پڑتا ہے جبکہ اچھی صحت دینی اور دنیاوی کاموں کے لئے نہایت ضروری ہے۔
بچوں میں گناہ کے متعلق آگاہی پیدا کریں اور اس سے نفرت پیدا کریں۔
والدین کو اپنے بچے کی غلطی ماننی چاہیے اور سچ کو اپنا شعار بنائیں۔
بچوں کو عمدہ اخلاق و آداب سکھائیں، بچوں کو خلافت اورنظام جماعت کا احترام سکھائیں، تربیت اولاد کے لئے، بحیثیت گھر کے سربراہ،مرد کی بہت اہم ذمہ داری ہے۔
سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور چیزوں سے اپنی اولاد کو بچائیں
پس آج کےدور میں، والدین کے لیے اپنی اولاد، خاندان، نظام، اصول و ضوابط سب کو برےاثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہو جائے تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لہذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ دشمنان اسلام اس فن سے بہ خوبی آشنا ہیں کہ آوارہ ذہن، سیکولر اور مادہ پرستی کی خوراکیں کس طرح خوش رنگ بنا کر پیش کریں۔ چنانچہ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، موبائل برائیوں کو پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت انتہا ئی ضروری ہے۔ اور انہیں خود بھی جدید ایجادات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ بچوں کی احسن رنگ میں نگرانی کر سکیں اوربچوں کو ان کے مفید پہلوؤں سے آگاہ کر سکیں۔
ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے:
’’یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میںتنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیتِ اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔‘‘
آج یہ بات کس قدر درست نظر آتی ہے۔ بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور میں والدین کو ’’خصوصاً‘‘ اپنے اوقات کار، گھر کے نظام، بچوں کی دلچسپی پر توجہ دینی ہو گی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔ رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو، اپنی اولاد اور گھر کے افراد کا، اور رنگوں سے نکال کر صِبْغَةَ اللّٰہ میں رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنےکے لیے کافی ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)
٭…٭…٭
(سلطان نصیر احمد)