مجھ پہ بخشش کی اک نظر کر دے
ہر خطا میری درگزر کر دے
نور کی کرنوں کے اجالے سے
ظلمتِ شب کو مختصر کر دے
بخش کر دولتِ ہنر مولا!
مجھ کو دنیا میں معتبر کر دے
دے فلک تک رسائی آہوں کو
پیدا نالوں میں تُو اثر کر دے
پیش ہے دشمنوں کی عیاری
زیر ہونے کو ہوں زبر کر دے
راحتِ جان یہ سفر کر کے
زندگی غم کی مختصر کر دے
تیری قدرت کا معجزہ ہے یہ
پتھروں کو بھی تُو گہر کر دے
مجھ کو راحت ملے جہاں میں بھی
مثلِ جنت مرا یہ گھر کر دے
آسماں چھوئے مولا! بشرؔیٰ بھی
دست و بازو کو باہنر کر دے
(بشریٰ سعید عاطف۔ مالٹا)