• 5 مئی, 2024

جرمنی کے پہلے مبلغ مکرم مولانا مبارک علي بنگالي

جرمنی کے پہلے مبلغ
مکرم مولانا مبارک علي بنگالي کي خدمات پر ایک طائرانہ نظر

(جرمنی میں پہلے مبلغ احمدیت کی آمد پر سو سال مکمل ہونے پر قارئین الفضل کی خدمت میں ہدیہ تبریک)

دور اوّلين کے مبلغين اسلام کي طرح دور آخرين کے مبلغين احمديّت بھي ہر ملک و ديار ميں پہنچے اور قرباني و ايثار کي نئي داستانيں رقم کرتے ہوئے ہر جگہ اسلام کا جھنڈا گاڑا۔ انہي ميں سے ايک خدمتِ دين کے جذبہ سے سرشار جرمني تشريف لانے والے پہلے مبلغ سلسلہ مکرم مولوي مبارک علي خان بنگالي تھے۔ جنہوں نے ستمبر 1922ء برلن پہنچتے ہي اپنے کام کا آغاز کر ديا۔ آپ نے ايک گھر کرائے پر حاصل کرکے اسے جماعت کا مرکز بنايا۔ جرمن سوسائٹي ميں تعلقات پيدا کئے۔ يہاں پہلے سے رہائش پذير مسلمانوں سے تعارف حاصل کرکے ان کي قائم کردہ تنظيموں سے منسلک ہوئے۔ آپ کي تمام تر کاوشوں کا مرکز مسجد کي تعمير تھا جس کے لئے آپ روزِ اوّل سے ہي سرگرم عمل تھے۔ چنانچہ حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ نے آپ کي ان کوششوں کي تفصيل يوں بيان فرمائي:
’’تمام بھائيوں اور بہنوں کو علم ہوگا کہ ہمارے عزيز بھائي ماسٹر مبارک علي صاحب بي اے بي ٹي جو ساڑھے چار سو روپيہ ماہوار کي معقول ملازمت چھوڑ کر تبليغ اسلام کے ليے لنڈن گئے ہوئے تھے، وہ آج کل جرمن کے پايۂ تخت برلن ميں ہيں۔ ان کے جرمن جانے کي يہ وجہ ہوئي کہ مجھے مدّت سے خيال تھا کہ اس جنگ کے بعد جو قوميں مغلوب ہوں گي، وہ ايسي حالت کو پہنچ جائيں گي کہ ان کو آرام و راحت کا ذريعہ سوائے اللہ تعاليٰ کي مدد کے اَور کچھ نظر نہ آئے گا اور ان ميں تبليغ کرنے کے ليے يہ بہترين وقت ہوگا۔ چنانچہ ايسا ہي ثابت ہوا۔ اس کے بعد جنگ کے اثرات کے ماتحت روس ميں ايسے تغيرات پيدا ہوگئے کہ اس کا تعلق بقيہ دنيا سے کٹ گيا اور جرمن کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط ہوگئے۔ اس سے مَيں نے خيال کيا کہ علاوہ اس کے کہ جرمني اب اسلام کي تعليم کو سننے کے ليے باقي يوروپين قوموں سے زيادہ تيار ہے، اس ملک ميں تبليغ کا مرکز بنانے سے روس ميں تبليغ کا راستہ بھي کھل جائے گا جس کے متعلق حضرت مسيح موعودؑ کي زبردست پيشگوئياں ہيں۔ پس ان خيالات سے متأثر ہوکر اور ضرورت وقت کو محسوس کرکے ميں نے ماسٹر مبارک علي صاحب کو جرمن بھيجا تاکہ وہ وہاں کے حالات پر پورے طور پر غور کرکے رپورٹ کريں۔ ان کي رپورٹيں نہايت اميدافزا ثابت ہوئي ہيں بلکہ ان کو تو اس ملک ميں کاميابي کا اس قدر يقين ہوگيا کہ وہ متواترمجھے لکھ رہے ہيں کہ وہاں ايک مسجد اور مکان بنوايا جائے‘‘

(الفضل قاديان 15 فروري 1923ء)

جرمني ميں جماعت کا پہلا مرکز

حضرت مولوي مبارک علي صاحبؒ نے ستمبر 1922ء ميں لندن سے برلن پہنچنے کے فوراً بعد سب سے پہلے جو کمرا کرايہ پر حاصل کيا اس کا ايڈريس حسبِ ذيل تھا۔

(Jonker. The dynamics of adaptive globalisation in entangled Religions 1 2014,P.132

Dahlmannstrasse 9

حضرت مولوي صاحب کي رہائش والي يہ سڑک برلن کے ايک نئے اور عالمي سطح پر معروف محلہ Charlottenburg ميں واقع تھي۔ دنيا بھر کے سياح اس علاقہ کو ديکھنے آيا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اس محلے کو برلن ميں ايک خاص اہميت حاصل تھي۔ چنانچہ حضرت مولوي صاحب کو ابتداء سے ہي اعليٰ تعليم يافتہ طبقہ ميں تبليغي مواقع کثرت سے ملے۔ بعد ميں مولوي صاحب نے ايک دوسرے محلّہ ميں کرائے پر مکان حاصل کرکے اسے اپنا مرکز بنايا جس کا ايڈريس حسب ذيل تھا:

Kleiststrasse 29, Berlin W62

اس مکان ميں مولوي مبارک علي صاحب 1924ء کے آخر تک رہے۔

(ڈائري مولوي مبارک علي صاحب، 1923ء صفحہ36)

مسلمانوں کي ايک مقامي تنظيم ميں شموليت

حضرت مولوي مبارک علي صاحبؒ کي برلن ميں ابتدائي سرگرميوں کا اہم پہلو مقامي حلقوں ميں اپنے تعلقات بنانے کي کوشش تھا۔ چنانچہ آپ برلن ميں مقيم مسلمانوں سے رابطے کرنے ميں بہت جلد کامياب ہوگئے اورمحض چند ہفتوں ميں ہي 4 نومبر 1922ء کو آپ برلن ميں قائم مسلمانوں کي تنظيم Islamische Gemeinde zu Berlin e.v کے باقاعدہ ممبر بن گئے۔ اس کے باني دراصل عبدالجبار اور عبدالستار خيري نامي دو ہندوستاني بھائي تھے۔ اُس زمانہ ميں ايک بڑي تعداد ميں انگلستان مخالف مصري بھي برلن ميں مقيم تھے جن کي اپني تنظيم بھي

Ägyptisch National Redikale Gruppe

کے نام سے قائم تھي جس کا صدر ايک مصري ڈاکٹر منصور رفعت نامي شخص تھا۔ منصور رفعت کا تعلق بھي خيري برادارن کي قائم کردہ تنظيم سے تھا۔ اوّل الذکر تنظيم کے باني مذکورہ بالا خيري برادران اور منصور رفعت نے بعد ميں جماعت کي مخالفت ميں ايک اہم رول ادا کيا اور جماعت کو انگريزوں کا خود کاشتہ پودا قرار دے کر غالباًجرمن حکومت کے منظورنظر بننے کي کوشش کي۔ حضرت مولوي مبارک علي صاحبؒ کا اس تنظيم ميں شامل ہونے کا مقصد محض تبليغ کي خاطر مقامي حلقوں ميں روابط اُستوار کرنا تھا۔ آخري مرتبہ اس تنظيم کے اجلاس منعقدہ جولائي 1923ء ميں آپ نے شرکت کي۔

(Jonker. The dynamics of adaptive globalisation in entangled Religions 1 2014,P.132)

عمومي روابط کے علاوہ جن معروف شخصيات سے مولوي صاحب کے قريبي روابط کا مختلف ذرائع سے علم ہوتا ہے، ان ميں Prof.Ruska، Prof. Georg Kampffmeyer، Nufti Bey, Dr. Schoemls، امام حافظ شکري بے، ضياءبے، پروفيسر فرينزي، امام ادريس شامل ہيں۔

انہي وسيع تر تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے مسجد خديجہ برلن کے افتتاح کے موقع پر سيّدنا حضرت خليفةالمسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمايا:
’’بہر حال خلاصہ يہ ہے کہ 05 اگست1923ء کو مسجد برلن کا سنگ بنياد رکھا گيا۔ جس ميں جرمني کے وزيرداخلہ اور وزير برائے رفاہ عامہ،ترکي اور افغانستان کے سفراء، متعدد اخبار نويس اور بعض ديگر معززين شامل تھے اور مہمانوں کي تعداد 400 تھي اور احمدي اس زمانے ميں صرف چار تھے۔ يہ اُس وقت حال تھا ليکن اتنے وسيع تعلقات تھے۔ يہ تھي اُس وقت کے مبلّغِين کي کوشش کہ اتنے وسيع تعلقات تھے اور يہ سب بڑي بڑي شخصيات اُس وقت مسجد کي بنياد کے لئے تشريف لائيں اور بہرحال مسجد کا سنگِ بنياد رکھا گيا‘‘

(خطبات مسرور جلدششم صفحہ422 خطبہ جمعہ 17؍اکتوبر 2008ء)

تعمير مسجد کا منصوبہ

حضرت مولوي مبارک علي صاحبؒ کے جرمني آنے کا سب سے بڑا مقصد اور مشن مسجد کي تعمير تھي۔ چنانچہ آپ نے ابتداء سے ہي اس پر بڑے جوش وجذبہ سے کام کيا اور اللہ تعاليٰ نے آپ کي اس مساعي ميں برکت بھي ڈالي اور محض تين ماہ کي قليل مدت ميں کاميابي حاصل کرلي۔ آپ کي ان کامياب کوششوں کے بارہ ميں الفضل قاديان ميں ناظر صاحب بيت المال کي طرف سے 20؍نومبر 1922ء کے الفضل کے شمارہ ميں صفحہ اول پر درج ذيل اعلان شائع ہوا:

‘‘جرمني ميں مسجد احمديہ

بہت عرصہ سے جرمني ميں مسجد احمديہ کے لئے خريد زمين و ديگر انتظام تعمير کي کوشش کي جارہي تھي۔ اب ستمبر گذشتہ سے مولوي مبارک علي صاحب اسي کام کے لئے وہاں تشريف لے گئے ہيں اور اُن کا خط آيا ہے کہ بفضلہ تعاليٰ 2 ايکڑزمين خريدنے کا اِنتظام کرليا ہے۔ ايکسچينج کي وجہ سے اس وقت خريد زمين اور تياري مسجد کے لئے کل خرچ کا اندازہ بيس ہزار روپيہ تک ہے۔

حضرت خليفةالمسيح (ايدہ اللہ بنصرہ) کا منشاء مبارک ہے کہ بجائے جماعت ميں عام تحريک کرنے کے چند دوست بہت جلد اس رقم کو پورا کرديں تاکہ ايکسچينج کا فائدہ حاصل ہوسکے۔ يہ چندہ مسجد احمديہ جرمني کے نام پر 15؍دسمبر 1922ء تک جمع ہوجانا چاہئے۔

(والسلام نياز مند ناظر بيت المال)‘‘

(الفضل قاديان 20 نومبر 1922ء صفحہ 1)

چنانچہ 16 فروري 1923ء کو مولوي مبارک علي صاحب نے مسجد کے لئے Witzleben کے اسٹيشن کے بالمقابل Dresselstrasse اور Riehlstraße کے سنگم پر 200 پونڈ ميں زمين خريد کرلي۔

(Höpp, Gerhard Berlin für Orientalisten ein Stadtführer, Berlin 2002, P. 20)

آپ نےاس منصوبہ پر اس مستعدي سے کام کيا کہ چند ہفتوں ميں مسجد کا نقشہ برلن کے ايک مشہور آرکيٹيکٹ A.K.Hermann سے تيار کروا کے منظوري کے لئے متعلقہ محکمہ ميں جمع کروا ديا۔

مقامي ذرائع ابلاغ ميں تشہير

زمين کي خريد کے بعد نقشہ کي تياري کے ساتھ ساتھ مولوي صاحب نے مقامي ميڈيا کے ذريعہ عوامي حلقوں ميں مسجد کي تعمير کے متعلق معلومات فراہم کرني شروع کر دي تھيں۔ چنانچہ تقريب سنگِ بنياد سے بھي پہلے تعمير مسجد کے حوالہ سے مختلف اخبارات ميں خبريں شائع ہوئيں، مثلاً Berliner Lokal Anzeiger نے 19 جون 1923ء کي اشاعت ميں ’’Kaiserdamm پر ايک عجيب تعمير‘‘ کے عنوان سے ايک خبر شائع کي۔ پھر اسي اخبار نے اپني 7؍اگست 1923ء کي اشاعت ميں مسجد سے متعلق ’’برلن ميں ہندوستان‘‘ کے عنوان سے تفصيلي خبر شائع کي۔

اس دوران تعمير مسجد کي اجازت کے ليے قانوني مراحل طے ہونے کے بعد 27 جولائي 1923ء کو مسجد کي تعمير کي اجازت بھي حاصل ہوگئي تو اُسي دن بنيادوں کي کھدائي کا کام شروع ہوگيا تھا جس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے اسي دن کے خطبہ جمعہ ميں ان الفاظ کے ساتھ فرمايا:
’’تھوڑا عرصہ ہوا ميں نے اِسي مسجد ميں کھڑے ہوکر اپنا منشاء ظاہر کيا تھا کہ برلن ميں مسجد تعمير کي جائے۔ اور يہ بھي کہا تھا کہ گو ہماري جماعت پہلے ہي کمزور ہے اور اخراجات کا بہت بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر اس کا بھي جو کمزور حصہ ہے اس کے سرمائے سے مسجد بنے۔ گويا دنيا ميں سب سے زيادہ کمزور جماعت جو ہے اس کابھي کمزور حصہ (يعني مستورات جو اس لحاظ سے بھي کمزور ہيں کہ ان کي کوئي عليحدہ کمائي نہيں ہوتي اور اس لحاظ سے بھي کہ مردوں جتنا علم نہيں ہوتا) يہ اس کام کو کرے تاکہ يہ ايک زبردست نشان ہو… پس يہ کس قدر شکر کا مقام ہے کہ ايک قليل عرصہ ميں قليل جماعت کي قليل تعداد اور کمزور حصہ نے مطلوبہ سرمايہ سے بھي زيادہ جمع کر ديا۔ اور مسجد بننے کا کام شروع ہوگيا۔ آج مَيں نے اس بات کا ذکر اس لئے کيا ہے کہ مَيں نے لکھا تھا جب مسجد کي بنياد رکھنے کا کام شروع ہو تو يہاں تار ديں تاکہ جماعت دعا کرے۔ آج تار آگئي ہے جس ميں لکھا ہے کہ آج کے دن 9بجے بنياديں کھدني شروع ہو جائيں گي۔ چونکہ وہاں يہاں کي نسبت بعد ميں سورج طلوع ہوتا ہے اس لئے وہاں کے 9بجے کے يہ معنے ہيں کہ اس وقت جو جمعہ کي نماز کا وقت ہے وہاں 9 بجيں گے اور گويا اِس وقت وہاں بنياديں کھودي جا رہي ہوں گي۔ چونکہ يہ خصوصيت سے قبوليت دعا کا وقت ہے اس لئے ميں جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کريں خداتعاليٰ اس کام کو بابرکت کرے اور جس طرح عيسائيت اِن ممالک ميں پھيلي اس سے بڑھ کر اسلام پھيلے اور جس طرح ہم نے وہاں مسجد بننے کي خوشخبري سن لي ہے اُسي طرح اسلام کي ترقي اور عظمت کا نظارہ بھي اپني زندگي ميں ديکھ ليں۔

(خطبات محمود جلد8 صفحہ146-147 خطبہ جمعہ 27 جولائي 1923ء)

اس مسجد کے ليے مولوي مبارک علي صاحبؒ نے کوششوں کا آغاز کيا ہي تھا کہ برلن ميں موجود مسلمانوں کي طرف سے جماعت کي مخالفت شروع ہوگئي۔ خيري برادران اور ان کے ساتھي اس ميں پيش پيش تھے جو اس مخالفت ميں بڑھتے ہي چلے گئے۔

مسجد کي تقريب سنگ بنياد

مسجد کي تقريبِ سنگِ بنياد 6 اگست 1923ء بروز سوموار شام پانچ بجے منعقد ہوئي۔ آپ نے تقريب کے لئے 500 دعوت نامے مختلف شخصيات کو بھجوائے۔ (الفضل قاديان 5؍اکتوبر 1923ء) مقامي مسلمانوں کي طرف سے جماعت کي مخالفت کے باجود اس تقريب ميں تقريباً 400مہمان شامل ہوئے جن ميں جرمن وزارت داخلہ کے (Staatssekretär-state secretary) سٹرڈاکٹر فروئنڈ Dr. Freund جوکہ اس وقت کے وزيرِداخلہ کے تحت کام کرتے تھے اور اسي طرح صوبہ Brandenburg کے Oberpräsident يعني صوبائي وزيرِاعليٰ ڈاکٹرمائر Dr. Maier بھي تھے۔ (Deutsche Allgemeine Zeitung 7.8.1923) اس کے علاوہ افغانستان کے سفير غلام صديق خان۔ حکومت ترکي کي طرف سے مقرر کردہ امام حافظ شکري بے (Hafiz Sükrü Bey)، برلن يونيورسٹي سے ايراني پروفيسر مرزا حسن اور سيد محمد ہاشم افغان سٹوڈنٹس کي نمائندگي ميں شامل تھے اسي طرح امام عالم ادريس جن کو بخارا کے امام کے طور پر لکھا ہوا ہے اور مشہور جرمن مستشرق Georg Kampffmeyer بھي موجود تھے۔ (Deutsche Allgemeine Zeitung 8.8.1923) اس تاريخي تقريب ميں مولوي مبارک علي صاحب سميت چار احمدي شامل ہوئے۔ ان ميں ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحب اور ان کے بھائي(نام معلوم نہيں ہوسکا) اور محمد اسحاق خان صاحب ابن مستري قطب الدين صاحب شامل تھے۔ (مؤخرالذکر Dresden سے اس تقريب ميں شموليت کے لئے بطور خاص آئے تھے) (الفضل قاديان 5؍اکتوبر 1923ء) تقريب کے دوران مصري ڈاکٹر منصور رفعت نے تقريب کے دوران شور مچايا جس پر پوليس نے اسے ساتھيوں سميت تقريب سے زبردستي نکال دياجس کے بعد تقريب جاري رہي۔ (Vossische Zeitung 7.8.1923)

جرمن زبان ميں اوّلين کتاب

مسجد کي تعمير شروع ہونے پر رفعت منصور نے جماعت کے خلاف بعض پمفلٹ شائع کرنے شروع کئے جن ميں جرمن عوام کو جماعت کے خلاف اُبھارنے کے لئے مختلف قسم کے الزامات لگائے مثلاً جماعت احمديہ انگريز کي ايجنٹ ہے، وغيرہ۔ اسي طرح افغانستان کے سفير کو مسجد کے سنگِ بنياد کي تقريب ميں شرکت کي وجہ سے سخت تنقيد کا نشانہ بنايا۔

(Mansur Rifet: Die Ahmadia۔ Sekte,Berlin August 1923. Mansur Rifet:Der Verrat der Ahmadis and Heimat und Religion, Berlin September 1923)

(Mansur Rifet: Die Ahmadia۔ Agenten, Berlin Nov.1924)

انگريز کے ايجنٹ ہونے کے اعتراض کا جواب حضرت مصلح موعودؓ نے اُسي وقت بڑي تفصيل سے مولوي مبارک علي صاحب کے نام ايک خط ميں ديا تھا جس کا متن الفضل 21ستمبر 1923ء ميں شائع ہوا۔ اس تفصيلي مضمون کا جرمن ترجمہ محترم مولوي صاحب نے

Ahmadija-Bewegung oder Reiner Islam

’’تحريک احمديت يا حقيقي اسلام‘‘ کے عنوان سے شائع کرايا۔ علاوہ ازيں ايک اور پمفلٹ بھي شائع کيا جس کا عنوان مندرجہ ذيل تھا۔

(Rifet, Mansur: Vollständiger Zusammenbruch der Ahmadia۔ Sekte,Berlin 1924)

Zurückweisung der Anschuldigung, die Anhänger der Ahmadia Bewegung seien Vorkämpfer des englischen Imperialismus

مولوي مبارک علي صاحب کي واپسي

ابھي مسجد کي کچھ ديواريں بننا شروع ہوئي ہي تھيں کہ جرمني ميں معاشي بحران نے شدّت اختيار کرلي جس کي وجہ سے يہ منصوبہ شرمندۂ تعمير نہ ہوسکا۔ اس کے بعد 1924ء ميں اس مشن کو بند کرنے کا فيصلہ ہوا تو محترم مولوي مبارک علي صاحب پہلے لندن اور پھر قاديان واپس تشريف لے گئے۔

يہ درست ہے کہ مسجد کي تعمير اور مشن کے قيام کا يہ منصوبہ اُس وقت شرمندۂ تعبير نہ ہو سکا ليکن سر زمين جرمني اولوالعزم حضرت مصلح موعودؓ کے ہميشہ پيش نظر رہي۔ چنانچہ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَيۡءٍ قَدۡرًا کے مطابق جنگ عظيم دوم کے بعد دنيا کا منظر بدلا اور حالات نے پلٹا کھايا تو جرمني ميں جماعت احمديہ کے احيائے نَو کا نظارہ ہم سب نے ديکھا جب مکرم شيخ ناصر احمد صاحب نے متعدد بار جرمني کا دورہ کيا پھر 1949ء ميں مکرم چودھري عبداللطيف صاحب کے ذريعہ يہاں مشن کا باقاعدہ قيام ہوا۔ اس کے بعد خدا کي تقدير نے وہ دن دکھائے جب ہمبرگ و فرانکفرٹ ميں ايک کے بعد دوسري مسجد تعمير ہوئي اور 2008ء ميں برلن ميں بھي مسجد خديجہ تعمير ہوئي۔ اب اللہ تعاليٰ کے فضل سے شہر شہر مساجد تعمير ہو چکي ہيں اور ہر سو احمدي آباد ہو چکے ہيں، الحمدللہ۔ يہ سب نظارے دراصل ہمارے بزرگ مبلغين سلسلہ کي ابتدائي زمانے کي قربانيوں کے شيريں ثمرات ہيں، اللہ تعاليٰ ان بزرگان کو اجر عظيم بخشے، ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ان کي نسلوں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلائے۔ آمين۔

(محمد انیس دیالگڑھی۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ