• 18 مئی, 2024

This week with Huzoor (24 جون 2022ء)

This week with Huzoor
24 جون 2022ء

گزشتہ ہفتہ (مورخہ 18 جون 2022ء) آسٹریلیا کے خدام بیت المبارک برسبن میں جمع ہوئے جہاں سے انہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ ان خدام نے مختلف سوالات کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےجو رہنمائی حاصل کی اس کی تفصیل ذیل میں ہے۔

سوال: پیارے حضور میرا سوال تھا کہ آپ جماعت کے کام اور دفتر میں مصروف ہوتے ہیں تو آپ اپنی فیملی کے لیے کس طرح وقت نکالتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’جب میں کھانے کے لیے بیٹھتا ہوں تو اس وقت میرے گھر والے بھی ساتھ آ جاتے ہیں اور وہیں ہم باتیں کر لیتے ہیں۔گھریلو باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور دوسری باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔تربیت کی باتیں بھی ہو جاتی ہیں، علمی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور یہ سب سے بہترین وقت ہوتا ہے۔‘‘

سوال: پیارے حضور اگر مستقبل میں کسی ملک میں جماعت کی اکثریت ہوجائے اور وہاں جماعت کی حکومت قائم ہو جائےتو کیا خلیفہ وقت اس ملک کی حکمرانی کریں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’خلیفہ وقت ایک روحانی پیشوا ہے۔ وہ کہیں بھی کسی ملک کی حکمرانی نہیں کرے گا۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا، مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار۔‘‘ ’’خلیفہ وقت کا کام ہے روحانی تربیت کرنا۔ایک ملک میں (اکثریت قائم) ہو جائے گی تو دوسرے ملک میں بھی ہو جائے گی۔ تو تیسرا ملک کہے گا آپ سے تو میں اختلاف کر ہی نہیں سکتا،خلیفہ وقت کی بیعت کی ہوئی ہے۔پھر تیسرا ملک ہو جائے گا اور چوتھا ملک ہو جائے گا۔تو جو پولیٹیکل سسٹم ہے یا گورنمنٹل سسٹم ہے، یہ ایک علیحدہ نظام چلتا جائے گا،اور خلیفہ وقت سب کو روحانی طور پر گائیڈ کرنے والا ہو گا۔اس کو حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی لیے قرآن کریم نے اس طرح کی بات کہہ دی کہ مسلمانوں کے دو مختلف گر وپ یا حکومتیں لڑ پڑیں تو ان میں مل کر صلح کروائیں، اور ان کی جنگ کو روکیں۔اور اگر وہ نہ رکیں تو سختی کریں۔اور جب وہ باز آ جائیں توپھرظلم نہ کرواور انصاف کرواور ان کو establish ہونے دو۔یہاں (اس آیت میں) مسلمان حکومتوں کا ذکر ہے۔اس کامطلب ہے حکومتیں قائم رہیں گی۔اس زمانے میں جب قرآن کریم نازل ہوا آنحضرت ﷺ کی صرف ایک حکومت تھی،پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی ایک تھی،بعد میں مسلمانوں میں ملوکیت کا زمانہ آیا تب بھی بڑی سطح پر مسلمانوں کی ایک ہی حکومت رہی اور بعد میں کچھ چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہو گئیں۔لیکن یہ پیشگوئی تھی کہ حکومتیں اس طرح قائم ہو جائیں گی۔اس وقت روحانی پیشوا کے طور پر حضرت مسیح موعودؑ کے آنے کے بعدخلیفہ وقت کا کام ہو گاکہ روحانی طور پر تربیت کرے اور روحانی طور پر گائیڈ کرے۔اگر کہیں ان کے اختلافات ہوں، آپس میں لڑ پڑیں۔ہمسائےبھی آپس میں لڑ پڑتے ہیں، دو بھائی بھی آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ تو پھر ان میں صلح کروا دیں۔اس لیے حکومت کرنا خلیفہ وقت کا کام نہیں ہے۔‘‘

سوال: پیارے حضور! ٹیٹو بنوانا قدیمی آسٹریلیا کی قبائلی ثقافتوں میں اہم ہے۔ کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے جیسے بھی انسان کو بنایا ہے انسان کو وہ تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت شکل و صورت،بدن اور صحت وغیرہ سب عطا فرمایاہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو اپنے بدن پر تصاویر لگانے سے کیوں تبدیل کرنا چاہتا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے لیے جائزنہیں ہے۔لیکن بہر حال وہ لوگ جو یہ کام پہلے سے ہی کر چکے ہوں اوربعد میں اسلام قبول کرتے ہیں، ہم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔انہیں ہمارے نظام میں مکمل طور پر شامل کیا جائے گا۔اس کے متعلق کچھ خدشات کا اندیشہ بھی ہے کہ ایک معین عمر کے بعد لوگوں کے ٹیٹو مسخ ہو جاتے ہیں۔پھر وہ انہیں مٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے۔بعض ٹیٹو ایسے ہیں جو مستقل طور پر لگے رہتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو عارضی طور پر لگے رہتے ہیں۔دونوں قسم کے ٹیٹو اسلام میں جائز نہیں ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ لوگ جنہوں نے ٹیٹو بنوائے ہوں اور بعد میں اسلام اور احمدیت قبول کر لیں تو انہیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان ٹیٹوز کی وجہ سے آپ کا اسلام قبول نہیں ہو سکتا۔وہ جو کچھ کر چکے ہیں وہ سب ماضی میں ہو چکا ہے۔لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تخلیق کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔آپ کو اس تخلیق کو اسی طرح قبول کرنا چاہیے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔‘‘

سوال: پیارے حضور میں نے پچھلے سال بیعت کی تھی اور میرے والدین نے میرے اس فیصلے کو سراہا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ خود اسلام میں داخل ہوں گے۔ میرا دل ہے کہ مستقبل میں میرا احمدی گھرانا ہو اس لیے آپ کی راہنمائی طلب کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے والدین کو اپنے عقائد کے متعلق کیسے تعلیم دے سکتا ہوں تا کہ مستقبل میں نااتفاقیوں سے گریز کیا جاسکے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’جب آپ ایک احمدی لڑکی سے شادی کریں گے اور آپ کے بچے ہوں گے اور جب آپ ایک ایسے ماحول یا جگہ پر رہ رہے ہوں گے جہاں آپ کے والدین بھی رہتے ہیں۔پھر بجائے اس کے کہ آپ چھوٹی موٹی باتوں پر ان سے بحث کریں۔آپ صرف انہیں اتنا بتائیں کہ ہمارے درمیان جو بنیادی اخلاق کی باتیں ہیں وہ ایک ہی ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔ہم کہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ،ہر قسم کی بری بات سے بچو۔اور اگر آپ کے والدین احمدی نہیں ہیں تب بھی وہ اس سے اتفاق کریں گے۔ اردگرد کا ماحول بھی آپ کے بچوں پر اثر انداز ہو گا۔اگر آپ ان کی تربیت کے بارے میں محتاط نہیں۔ چنانچہ آپ کو خاص خیال رکھنا ہو گا کہ ان کی کیسے ایسے ماحول میں تربیت کی جائے جہاں وہ اپنے مذہب کے بارے میں جانتے ہوں۔چنانچہ آپ کو پہلے با عمل مسلمان بننا ہو گا۔آپ کی بیوی کو بھی با عمل مسلمان بننا ہو گا۔ یہ بنیادی بات ہے۔اور اس طرح آپ اپنے بچوں کے سامنے اپنا نمونہ قائم کر سکیں گے۔اور پھر انہیں پڑھائیں اور بتائیں کہ اسلام کیا ہےاور ہم کیوں مسلمان ہیں؟اور اگر وہ آپ سے پوچھیں کہ ہمارے دادا،دادی کیوں مسلمان نہیں ہیں؟تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ چنانچہ جس مذہب کو بھی انہوں نے پسند کیا انہوں نے اسے اپنا لیا۔لیکن ہم نے جس کو عمدہ محسوس کیا ہم نے اس مذہب کو اختیار کر لیا اور انہیں بتائیں کہ ہم نے کیوں یہ مذہب اپنایا ہے، ہمیں اسلام کیوں پسند ہے۔چنانچہ اس طرح آپ اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں۔اسی طرح آپ اپنے والدین کو اسلامی تعلیمات کی خوبصورتی کے بارے میں بتائیں۔جب انہیں اسلامی تعلیمات کی خوبیوں کا علم ہو گا تو وہ ہمیشہ اس بات کو سنیں گے جو آپ کہہ رہے ہوں گے۔جب آپ اپنی سابقہ زندگی سے مختلف ہوں گے اوروہ آپ میں خاص تبدیلی دیکھیں گے تو پھر وہ جان جائیں گے کہ ہمارا بیٹا صراط مستقیم پر ہے۔ان کے لئے دعا بھی کریں۔ جیسے والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہےاسی طر ح سے بچوں کی دعائیں بھی اگر وہ اپنے والدین کے لیے کرتے ہیں تو قبول ہوتی ہے۔اس لیے ان کے لیے دعا کیا کروکہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو کھول دے۔مگر اس کے لیے آپ کو سب سے پہلے اپنے نفس کا تزکیہ کرنا ہو گا۔ایک با عمل مسلمان بننا پڑے گاپھر اپنے بچوں کے سامنے ایک نمونہ پیش کریں۔پھر ان کی تربیت کریں۔ اس کے لیے آپ کو مجاہدہ کرنا ہو گاورنہ آپ کے بچوں پر اس معاشرہ کا اثر ہو گا اور وہ اسلام کی تعلیمات سے دور ہو جائیں گے‘‘۔

سوال: حضور میرا سوال ہے کہ ہم جنریشن گیپ کو کس طرح ختم کر سکتے ہیں جو فیملیز اور جماعتوں کے نقصان کا باعث بن رہا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’بچپن سے ہی آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرنا ہو گی۔انہیں بتائیں کہ مذہب کیا ہے،انہیں بتائیں کہ وہ احمدی مسلمان کیوں ہیں۔ اگر آپ ان میں مذہب کی اہمیت کو اجاگرکریں گےاور انہیں مذہب کے ساتھ لگاؤ ہو گا تو وہ مذہب کے بارہ میں زیادہ سیکھنا چاہیں گےاور جب وہ مذہب کے بارہ میں باوجود جنریشن گیپ ہونے کےمذہب کے متعلق سیکھیں گےتو اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔تو ایک چیز تو یہ ہے کہ انہیں مذہب کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔اور یہ صرف اور صرف تب ہو گا کہ جب آپ ان کی تربیت کریں گےاور اپنا نیک نمومہ ان کے سامنے پیش کریں گے۔دیکھیں وہ تعلیم یافتہ ہیں۔جب وہ آپ سے سوالات کرتے ہیں توبجائے یہ کہنے کے کہ اس قسم کا سوال نہ کرو (ان کا جواب دیں)۔اسلام تو کہتا ہے کہ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کے معاملات میں تسلی کروائیں اور اگر آپ کے پاس دینی علم نہیں ہے تو پھرکسی مربی سے پو چھ سکتے ہو کہ میرے بچوں کا یہ سوال ہے، اس کا جواب دیدیں۔اور اگر سوال دنیاوی علم کے بارے میں ہے کہ ہم کس طرح دنیا اور دین کی مصالحت کر سکتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ کتب کا مطالعہ کرنا پڑے،تو انہیں کہو کہ وہ بھی پڑھیں۔جماعت کے لٹریچر میں بھی ایسی کتابیں موجود ہیں جو پڑھی جا سکتی ہیں۔پس اس طرح سے آپ نسلوں میں فاصلوں کو کم کر سکتے ہیں۔ لیکن بچوں کے ساتھ بہت دوستانہ تعلق ہونا چاہیے۔آج کل بچوں کی یہ عادت ہے اور یہ اچھی عادت ہے کہ وہ پوچھتے ہیں ’’کیوں‘‘ اورا ٓپ کو اس ’’کیوں‘‘ کا جواب دینا ہے۔ خواہ مذہب کے بارے میں ہو یا دنیاوی امور کے متعلق۔ توان کا جواب دینے کے لیے اپنے علم کو بھی بڑھانا ہو گا۔تو اس بات کا سارابوجھ جماعت پر نہیں ڈال دینا۔ خود بھی اٹھانا ہو گا۔‘‘

سوال: میں حضرت مسیح موعودؑ کی توقعات پر کس طرح پورا اتر سکتا ہوں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’باقاعدگی سے پنجوقتہ نماز ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام کے مطابق بنائے جو اس کی حضرت مسیح عودؑ کی اپنی جماعت سے توقعات ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کریں، اس کے معانی جانیں اوامر و نواہی سے باخبر ہوں اور ان پر عمل کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کے حوالے سے جو بھی لٹریچر میسر ہو اس کو پڑھنے کی کوشش کریں۔تو اس طرح سے آپ حضرت مسیح موعودؑ کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں، اور ایک اچھے احمدی بن سکتے ہیں۔‘‘

سوال: کچھ خدام غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کی نسلیں بھی غیر احمدیوں سے ہی شادی کرتی ہیں۔ہم کس طرح اس سے بچ سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اگر آپ اپنی نسل کو بچانا چاہتے ہیں اور اپنی نسلوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتے ہیں اور ان کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ تو پہلی چیز یہ ہےکہ آپ خود اپنی دینی تعلیم کو بڑھانے کی کوشش کریں۔آپ کوخود اس بات کا علم ہو کہ مذہب کیا ہے اور پھر آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہونی چاہیےہیں۔اگر آپ کی خواہشات اور ترجیحات صرف دنیا کے لئے ہیں۔ تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو بعض لڑکے کر رہے ہیں، کہ وہ غیر از جماعت لڑکیوں کے ساتھ شادی کررہے ہیں۔اگر آپ کی ترجیح دین ہے جس کا آپ اپنے عہد میں اقرار کرتے ہیں، کہ میں دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا،تو پھر آپ کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ آپ ایک احمدی لڑکی سے شادی کریں۔چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے،گزشتہ ملاقات میں میں نے یہی بات کی تھی، کہ انسان کسی عورت سے اس کے حسن، اس کے مال، اس کے خاندان کی وجہ سے شادی کرتا ہے۔لیکن انسان کو ان عورتوں سے شادی کو ترجیح دینی چاہیے جو نیک اور دیندار ہوں اور جو روحانی لحاظ سے اچھی ہوں۔چنانچہ اگر لڑکے ایسی لڑکیوں کو ترجیح دیں تو لڑکیاں بھی نیک بننے کی کوشش کریں گی۔وہ اپنے دینی علم کو بڑھانے کی کوشش کریں گی۔اور یوں آپ اپنی نسل اورآئندہ نسل کی حفاظت کر سکتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ جب آپ شادی کرنے جا رہے ہوں تو صرف دنیاوی خواہشات ہی آپ کی ترجیح نہ ہوں۔آپ کو اور کئی چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے،جیسے اپنا دین،اپنا ماحول،اپنی حیثیت اور اپنی آئندہ نسل کو کبھی نہ بھولیں۔ اسی لئے خطبہ نکاح کے موقع پر جن آیات کی ہم تلاوت کرتے ہیں ان میں سے ایک آیت یہ ہے کہ آپ کو دیکھنا چاہیے کہ آپ اپنے آگے مستقبل میں کیا بھیج رہے ہیں۔اور مرا د یہ ہےکہ آپ اپنے بچوں کی کیسے تربیت کریں گے۔اگر آپ کی بیوی دیندار نہیں یا اس کا کوئی اور دین ہے یا اس کے مذہب کے بارے میں مختلف تصورات ہیں،یا اس کا کوئی روحانی معیار نہیں تو آپ کی نسل بھی خراب ہو جائے گی،نہ صرف جماعت سے باہر شادی کرتے وقت بلکہ جماعت میں رہتے ہوئے بھی۔آپ کو ایسی لڑکیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو اچھی فطرت رکھتی ہوں، نیک ہوں اور دیندار ہوں۔سو اس طرح ہم اپنی آئندہ نسل کی حفاظت کر سکتے ہیں۔‘‘

سوال: پیارے حضور آج کل لوگ قرض لے کر گھر کی اور کاروبار کی اشیاء خریدتے ہیں جیسے کہ گاڑی، فرنیچر اور دیگر سامان وغیرہ۔ اسی طرح کچھ احمدی احبا ب بطورفائننس بروکر اس طرح کا کاروبار کرتے ہیں تو کیا یہ دونوں طریق جائز ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ اس طرح کے قرض خرید کر تواپنے آپ کو پھنسانے والی بات ہی ہے۔پھر قرضے میں ہی انسان فوت ہو جاتا ہے،قرضے میں مر جاتا ہے۔قرضہ تو اترتا کوئی نہیں جب جاتا ہے تو کریڈٹ کارڈ کا ایک انبار چھوڑ کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اگر کوئی انسان بھوکا مر رہا ہو تو وہاں اجازت دی کہ سؤر کا گوشت کھا سکتے ہو،بلکہ بعض اوقات مردار بھی کھا لیتے ہو، لیکن جب ایسی حالت نہیں ہے تو صرف اس لیے کہ فلاں میرا دوست ہے، اس کے پاس نئی کار ہے تو میں قرض لے کر نئی کار خرید لوں۔تو وہ چیز بالکل غلط ہے یایہ کہ وہ گھر میں نیا فرنیچرلے کر آیا ہے یا صوفہ سیٹ لے کر آیا،نئی ڈائنگ لے کر آیا اور لوگ اس کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں اس لیے میں بھی لوں۔بیوی کہتی ہے کہ تم کیوں نہیں لے سکتے؟ تم بھی تو آخر بینک سے قرض لے کر لے سکتے ہو۔تو یہ چیزیں غلط ہیں۔اور پھر انسان اسی طرح قرضے میں ڈوبتا ہوادنیا سے چلا جاتا ہے۔اس لیے سوائے اس کے کہ کوئی جائز ضرورت ہو، اس طرح کے قرض جائز نہیں ہیں۔ ہاں مثال کے طور پر اگر ایک انسان ہے اس کا اپنا گھر نہیں ہے،کرایہ پر لیا ہوا ہے۔وہ کرایہ دے رہا ہے اس گھر کااور بینک سے لون لیکروہ گھر خریدتا ہے اور کیونکہ وہ ادئیگی نہیں کر رہا ہوتااس لیے بینک والے کہتے ہیں کہ اچھا۔ اگر اس مکان کی تم اتنے عرصے میں ادئیگی کرو گے تو یہ قیمت ہو گی۔ پس وہ کرایہ کی رقم مورگیج کے طور پر ادا کرتا ہے۔تو یہ ایک جائز ضرورت ہے، اس کو رہنے کے لیے ضرورت ہے۔اگر وہ ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح اگر سستی کار سے یا سستے فرنیچر سے گزارا ہو سکتا ہےتو پھر ضرورت کیا ہے بلا وجہ اپنے آپ کو قرضے میں ڈالنے کی۔اور پھر ان چیزوں کے لیے سود پر قرضہ لینا، توسودتویسے ہی حرام ہے۔ اس کے بغیر گزارہ بھی ہو جاتا ہے۔گھر میں یہ ہے کہ آپ کرایہ بینک کو دے رہے ہیں قیمت لگانے کی وجہ سے۔گو ایک لحاظ سے یہ بھی جائز ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے کہ ’’مثلاَ اگر کوئی شخص کسی چیز کی قیمت اتنی مقرر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم اتنے مہینوں کے بعد ادا کرو گے تو اس کی قیمت اتنی ہو گی تو اس حد تک جائز ہے۔ لیکن یہ دیکھنے والی بات ہے کہ ضرورت کیا ہے؟ اگر صرف دنیا کے دکھاوے کے لیےضرورت ہے تو ناجائز ہےاور اگر گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہے تو پھر وہ جائز بن جاتی ہے اس لیے آج کل جو سسٹم ہے بینکنگ کاوہ بھی اتنا اپ سیٹ ہو گیا ہوا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ یہ بھی زیر و زبر ہوا ہےاس کو نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔لیکن یہاں پھر وہی بات کہ دنیا وی خواہشات اگر مقدم ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ پہلے میں نے کہا تھا،اپنی preference کو دیکھنا ہو گا۔تو اس طرح بعض دفعہ چیز غلط بن جاتی ہے۔اگر ضروریات ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے کرنا ہے تو وہ جائز ہو جاتی ہیں۔‘‘

سوال: اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماَ بتا یا تھا کہ ‘‘چمک دکھلاؤں گا تم کومیں اس نشاں کی پنج بار’’پیارے حضور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ الہام دو بار جنگ ِعظیم کی صورت میں پورا ہو چکا ہے۔تو کیا باقی تین دفعہ بھی پورا ہونا جنگ ِعظیم کا ہونا ہے یا وہ کسی اور صورت میں پورا ہو گا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’حضرت مسیح موعودؑ نے تو زلزلے کو بہت بڑا نشان قرار دیا ہے۔ پھر دو جنگِ عظیم بھی ہو چکی ہیں۔ پھر طاعون ہے وہ بھی ہو چکا ہے۔وہ بھی نشان تھا۔تو ہوسکتا ہے کوئی تیسری جنگ عظیم ہو جو پانچواں نشان ہو، بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ یہ جنگ کی صورت میں ہو گا۔ویسے تو کوئی بڑا واضح قسم کا ایسا نشان جس کی اپنی ایک طاقت ہو وہ نظر آرہا ہو، جس طرح طاعون ہوا، جنگ عظیم ہوئی، یا زلزلے بعض دفعہ آئے۔ لیکن اگر زلزلے بعض علاقوں میں آئے تو ان کو بھی نہ گنو۔تو ہو سکتا ہے یہ pandemic جو COVID کاپھیلا تھا یہ بھی تو ایک نشان ہی ہو سکتا ہے۔ یا اگلی جو جنگ آنی ہے یہ بھی ایک نشان ہو سکتا ہے۔ تواللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ جنگ عظیم بھی ان میں سے ایک نشان ہو گا۔‘‘

(ٹرانسکرپشن و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ