• 27 اپریل, 2024

تعارف سورۃ لقمان (31ویں سورۃ)

تعارف سورۃ لقمان (31ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 35 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

جمہور علماء کے مطابق یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ مکی دور کے وسط میں یا جیسا کہ بعض کے نزدیک نبوت کے چھٹے یا ساتویں سال میں۔ سابقہ سورت الروم اس نوٹ پر ختم ہوئی تھی کہ قرآن کریم ان تعلیمات کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے جو انسان کی روحانی ترقی سے تعلق رکھتی ہیں۔مگر کفار کے پاس حق کو پہچاننے والی آنکھیں نہیں ہیں اور ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔ وہ پے درپے نشانات دیکھتے ہیں مگر بار بار یہی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں اور جھوٹ گھڑتے ہیں۔ موجود سورت کا آغاز اس حقیقت کے بیان سے کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹے نہ ہیں اور یہ کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حکیم اور علیم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔یہ نہایت پر حکمت ہے اور ایک سچے متلاشی حق کو سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔ سابقہ سورت میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ اسلام کا مقصد کامیاب و کامران ہوگا اور کفار کو شکست اور ذلت اور رسوائی کا سامنا ہوگا۔موجودہ سورۃ میں اعلی اخلاقی اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عمل کر کے فرد واحد اور قومیں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں اور عظمت اور شان و شوکت حاصل کر سکتی ہیں۔

مضامین کا خلاصہ

یہ سورۃ اپنے آغاز میں ہی حتمی کامیابی درست عقائد اور صحیح عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ایک عالمگیر ضابطہ اخلاق کو ایک عجمی حکیم حضرت لقمان کی زبانی بیان کرتی ہے ۔جن میں بنیادی خلق توحید کا اقرار ہے اور یہ کہ دیگر تمام اعلی تفکرات اس عقیدہ سے پھوٹتے ہیں۔ دوسرا اصول جو توحید باری تعالی کے بعد آتا ہے وہ انسان کے دوسرے انسان پر حقوق وفرائض (اپنی اہمیت کے لحاظ سے )ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم انسان کی اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ ان دونوں بنیادی احکامات کے مابین ایک مسلمان کو سکھایا گیا ہے کہ وہ اپنے خدا کے سامنے پوری اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ جھکے اور اس اطاعت اور فرمانبرداری میں کسی دوسری وفاداری کو حائل نہ ہونے دے۔ یہاں تک کہ والدین کی اطاعت کو بھی نہیں۔ مگر کسی صورت بھی اسے اجازت نہ ہے کہ وہ اپنے والدین سے حسن اخلاق اور ادب کو ترک کرے۔

پھر یہ بتایا گیا ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی عملی صورت نماز ادا کرنے اور اس کو حقوق العبادکو بجا لانے اور اچھائی پر عمل کرنے اور بدی سے بچنے میں ہے۔یہ سورۃ مزید بتاتی ہے کہ جب ایک سچا مسلمان حق کے پرچار کے مقدس اور پرمشقت فریضہ کو انجام دیتا ہے اور لوگوں کو تقوی کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے تو مشکلات اور مصائب اس کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اور اسے اس مخالفت، گالم گلوچ اور ظلم و تعدی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس کو بتایا گیا ہے کہ مخالفت اور ظلم و تعدی، صبر اور حوصلہ سے برداشت کرنی چاہیے۔ جب شدید مخالفت اور ظلم و تعدی سے اس کا حوصلہ پست نہیں ہوتا تو اس اعلی اور مقدس فریضہ کی ادائیگی کے باعث کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اور لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے ساتھ اپنی وفا کے عہد باندھتا ہے۔

لوگوں کے سراہنے اور پر جوش تائید کے اس وقت میں اسے اپنے ذہنی سکون کو کھونا نہیں چاہیے اور تکبر اور گھمنڈ والے رویے سے محتاط رہنا چاہیے۔ یہ سورۃپھر قانون فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہے اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ قوانین اسلام کی تائید کرتے ہیں۔اس کا اختتام اس تنبیہ پر ہوا ہے جو کفار کو کی گئی ہے کہ ایسا وقت آنے کو ہے کہ ان کی دولت اور جاہ و جلال اور طاقت اور مرتبت ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔یہاں تک کہ ان کی اولادیں اسلام قبول کریں گی اور اس کی تائید میں اپنی دولت خرچ کریں گی۔

(مرسلہ: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2020