• 11 مئی, 2024

سچے عاشق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مولوی سکندر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن قادیان میں آ کر رہنے سے پہلے بندہ یہاں آیا ہوا تھا۔ (یہ مستقل رہائش سے پہلے ایک دن یہاں آئے تھے) صبح سیر کے لئے حضرت اقدس تشریف لے گئے تو بندہ بھی ساتھ ہو لیا۔ کہتے ہیں بھینی بھانگر کے مقابلے پر بسراواں والے راستے جا رہے تھے کہ راستے میں جناب نے فرمایا کہ جو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ نہیں سکتے، جن کے چھوڑنے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا، جیسے حقہ نوشی، افیم، بھنگ، چرس وغیرہ تو ایسا آدمی بڑی باتوں کو کس طرح چھوڑ سکے گا جس کے چھوڑنے سے ماں باپ، بھائی برادر، دوست، آشنا ناراض ہوں۔ جیسے مذہب کی تبدیلی۔ (یعنی احمدیت قبول کرنا کس طرح برداشت کریں گے۔ اس کے بعد تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں) اگر ان چھوٹی تکلیفوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو بڑی تکلیفیں کس طرح برداشت کرو گے؟ کہتے ہیں کہ بندہ اُس وقت حُقّہ پیا کرتا تھا۔ اسی جگہ سنتے ہی قسم کھا لی کہ حُقّہ نہیں پیوں گا تو اس طرح حقہ چھوٹ گیا۔ پہلے مَیں زور لگا چکا تھا اور نہیں چھوٹا تھا۔ (تو یہ وہ تعلق اور محبت تھی جس نے مجبور کیا کہ اس برائی سے جان چھٹ گئی)۔

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد1 صفحہ18-19 روایت مولوی سکندر علی صاحبؓ)

حضرت شکر الٰہی صاحب احمدی بیان کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابھی بچہ تھا، عمر تقریباً بارہ یا تیرہ سال کی ہو گی۔ دین سے بالکل بے بہرہ تھا۔ غالباً پرائمری کی کسی جماعت میں گورداسپور ہائی سکول میں تعلیم پایا کرتا تھا۔ اُس وقت مولوی عبدالکریم مخالف پارٹی کا مقدمہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اصحاب کے ساتھ ہائی سکول کے شمال کی جانب بالکل متصل تالاب تحصیل والے کے رونق افروز ہوا کرتے تھے اور خاکسار مدرسہ چھوڑ کر آپ کی رہائش کے پاس کھڑا رہتا تھا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا رہتا تھا۔ ایک آپ کے عاشقِ صادق کا نام بچہ ہونے کے باعث مَیں نہیں جانتا، لیکن یہ کہتے ہیں اس بات پہ مجھے حیرت تھی کہ ایسے ایک عاشقِ صادق تھے آپ کے کہ اُن کے دائیں ہاتھ میں بڑا پنکھا پکڑا ہوا ہوتا تھا اور بڑے زور سے ہلاتے رہتے تھے۔ (دیر تک کھڑا رہتا، اُن کو دیکھتا رہتا اور پنکھا اسی ہاتھ میں رہتا اور وہ چلاتے رہتے۔ حیران ہوتا کہ ہاتھ تھکتے نہیں ہیں)۔ ہلاتے بھی آہستہ نہ تھے بلکہ بڑے زور سے جیسے بجلی کے کرنٹ زور سے ہلاتی ہے۔ کیونکہ موسم گرمیوں کا تھا۔ دوبارہ سہ بار آتا اور اُسی صاحب کو دیکھتا رہتا کہ کیا جادو ہے۔ پنکھا بڑا ہے اور سارا دن ایک ہی ہاتھ سے ہلا رہے ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ سچے عاشق تھے۔

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ113 روایت شکر الٰہی صاحب)

حضرت مدد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں۔ اُن دنوں مَیں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا۔ (یہ فوج میں جونیئر کمیشن افسر کا ایک رینک ہوتا تھا) تو میری اس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے میں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں۔ کیونکہ میری پہلے بیعت 1895ء یا 96ء کی تھی۔ کہتے ہیں یہ بیعت جو تھی وہ ڈاک کے ذریعے ہوئی تھی۔ نیز میرا اُن دنوں قادیان میں آنے کا پہلا موقع تھااس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پیدا ہوئی کہ ہو نہ ہو ضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جائے۔ اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا شایدموقع ملے یا نہ ملے۔ لہٰذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان ہی چلا جاؤں اور حضور کو دیکھ آؤں اور بعدہٗ وہاں سے واپس آ کر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں۔ مَیں قادیان کو جان کر یہاں آیا لیکن جونہی یہاں آ کر میں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی مَیں آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہرگز نہ جاؤں۔ یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا۔ یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا۔ میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار روپیہ بھی ہو گئی تو کیا ہو گا؟ لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی اور مبارک چہرہ ہرگز نظر نہ آئے گا۔ مَیں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آ جائے تو حضور ضرور ہی تیرا جنازہ پڑھائیں گے جن سے تیرا بیڑا پار ہو جائے گا۔ اور اللہ بھی راضی ہو جائے گا۔ اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا۔ میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے در پرجا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کرتا مگر دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جائیں اور اپنے دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت ہی تنگ کرتا رہتا ہے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا۔ وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریراً جواب میں فرمایا کہ آپ نے بہت ہی اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کراتے رہتے ہو جس پر میں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں۔ ان شاء اللہ پھر بھی کرتا رہوں گا‘‘۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4 صفحہ95-96روایت مدد خان صاحب)

حضرت محمد اسماعیل صاحبؓ ولد مولوی جمال الدین صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مَیں قریباً بیس سال کا تھا کہ گورداسپور میں کرم دین جہلمی… کے مقدمے کا حکم سنایا جانا تھا۔ میں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا۔ وہاں پر ایک کوٹھی میں حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے۔ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے اور وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام الدین صاحب سیکھوانی اور چوہدری عبدالعزیز صاحب بھی موجود تھے۔ میں نے جا کر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آ کر ثواب میں سے حصہ لے لیا۔ حضور کا معمولی اور ادنیٰ خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4 صفحہ150 روایت محمد اسماعیل صاحب)

(خطبہ جمعہ 11؍ مئی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

فضل عمر سپورٹس ریلی۔مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2021