• 21 ستمبر, 2025

آج کی دعا

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۷﴾

(البقرہ: 287)

ترجمہ: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے لئے ہے جو اس نے کمایا اور اس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے (بدی کا) اکتساب کیا۔ اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر (ان کے گناہوں کے نتیجہ میں) تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

یہ قرآنِ مجید کی اللہ کی پناہ میں آنے اور اس کے رحم اور بخشش کے حصول کی عظیم الشان بہت پیاری دعا ہے۔

سید ومولیٰ، خیرالبشر، خاتم النبیین، پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَرَأَ بِالْاٰیَتَیْنِ مِنْ اٰخِرِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ

یعنی جس نے رات کے وقت سورۃ بقرہ کی دو آیات پڑھیں تو وہ دونوں آیات اس کے لئے کافی ہو گئیں۔

(بخاری، کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرۃ حدیث 5009)

ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور اس کا رحم اور بخشش مانگنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا تو پھر ایمان میں یہ ترقی ہوتی ہے جو کافی ہوتی ہے اور عبادات اور نیک اعمال کی طرف پھر توجہ پیدا ہو گی۔ ورنہ اگر یہ خیال ہو کہ صرف آیات پڑھ لینا کافی ہے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جاتا پھر یہ کیوں کہا کہ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ۔ یعنی انسان اگر اچھا کام کرے گا تو اس کا فائدہ اٹھائے گا اور اگر برا کام کرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔

صرف آیت کے یا ان آیات کے الفاظ دوہرا لینے سے تو مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ یہاں توجہ اس طرف کروائی کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھنی پڑے گی اور جب یہ توجہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی اپنے بندے پر پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی ایمان میں ترقی اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر رہی ہو گی اور اس کی بخشش کا سامان کرے گی نہ کہ پھر جس طرح عیسائی کہتے ہیں اس کو کسی کفارے کی ضرورت ہوگی۔ پس روزانہ پھرجس طرح یہ آیت پڑھنے سے نیکیوں کے کمانے کی طرف توجہ رہے گی۔ ایک مومن رات کو جائزہ لے گا کہ کون کون سی نیکیاں مَیں نے کی ہیں اور کون کون سی برائیاں کی ہیں۔ پھر اگر نیکیوں کی زیادہ توفیق ملی ہو گی، اگر شام نے یہ گواہی دی ہو گی کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا تو شکر گزاری کے جذبے کے تحت ایک مومن پھر اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکے گا اور ایک مومن کو کیونکہ نفس کے دھوکے کا بھی خیال رہتا ہے اس لئے وہ پھر خداتعالیٰ سے یہ عرض کرتا ہے کہ اگر میرا جائزہ جو مَیں نے شام کو لیا ہے نفس کا دھوکہ ہے تو پھر بھی مجھ پر رحم کر اور بخش دے اور مجھے نیکیوں کی توفیق دے اور اگر کھلی برائیاں سارے دن کے اعمال میں نظر آ رہی ہیں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش اور رحم کے لئے ایک مومن جھکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 16؍ جنوری 2009ء)

(مرسلہ: مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

فضل عمر سپورٹس ریلی۔مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2021