• 13 جون, 2025

شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم

شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کے متعلق
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان افروز واقعات

بانئ جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مرز اغلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعو دو مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے گم شدہ ایمان کو پھر دلوں میں قائم فرمایا۔ اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک گروہ نےایمان کی حلاوت کو محسوس کیا۔ اور دنیا کے سامنے اسلامی اقدار اور اخلاق کے لازوال نمونے قائم کئے۔ آج اس مضمون میں بانئی جماعت احمدیہ کے مقدس صحابہ کرام یعنی اصحابہ احمد کے شعائراللہ کی تعظیم و تکریم کے حوالہ سے چند ایمان افروز واقعات کا پیش کرنا مقصود ہے۔

شعائر اللہ دراصل وہ چیزیں کہلاتی ہیں جن کے مشاہدہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کا شعور اور عرفان حاصل ہو۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں درج ذیل مقامات پر ’’شعائر اللہ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں:

البقرہ:159
المائدہ: 3
الحج: 33 اور 37

ان چاروں مقامات میں شعائر اللہ سے مراد مناسک حج لئے ہیں۔ جو اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ جیسے بیت اللہ، صفا، مروہ۔

مناسک حج کو شعائر اللہ قرار دینے کی یہ بھی حکمت ہے کہ اس میں وہ تمام مقدس اشیاء آجاتی ہیں جن پر اسلام کی بنیاد کھڑی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاپ۔ اس کا شعور حاصل کرنا۔ سیدنا حضرت محمد مصطفٰیﷺ، قرآن کریم، قبلہ، خانہ کعبہ، صفاو مروہ، حجر اسود، عرفات، مزدلفہ، جمرات، تلبیہ، قربانی، نفس کی قربانی وغیرہ وغیرہ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے لفظ ’’شعائر‘‘ کو شعور سے لیا ہے۔ آپؓ آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ (المائدہ: 3) کے تحت فٹ نوٹ(foot note) میں تحریر فرماتے ہیں:
شعائر جمع ہے شعور کی یعنی وہ شعور جس سے اللہ تعالیٰ سمجھ میں آجائے وہ تعظیم والی چیزیں جیسے قرآن مجید۔ حدیث۔ بیت اللہ۔ قربانی کی اونٹنیاں ہیں یا انبیاء اور امام اور مجدّد وغیرہ مقدس حضرات۔

(قرآن کریم مترجم حضرت میر محمد سعید ازدرس قرآن (حضرت خلیفۃ المسیح حاجی مولوی نورالدین صفحہ222)

اسی لئے آپ نےسورۃ البقرہ آیت 159 کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’بےشک صفا اور مروہ کے پہاڑ اللہ کی باتوں کا شعور حاصل کرنے کے لئے ہیں۔‘‘

اور سورۃ الحج آیت 37 کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’قربانیوں کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی باتوں کے شعور حاصل کرنے کا سبب بنایا ہے۔‘‘

شعائر اللہ کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
’’شعائر، شعیرہ کی جمع ہے اس کے معنی علامت، آیت اور نشان کے ہوتے ہیں اور عبادات کے مقررہ طریقوں کو بھی شعیرہ کہتے ہیں۔ یہاں (البقرہ آیت 159) علامت کے معنیٰ مراد ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ305 زیر آیت البقرہ: 159)

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے کرام کی تفاسیر کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حرمت کے مہینے بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’پھر حرمت کے مہینے وہ بھی شعائر اللہ ہیں۔ ان سے خدا کا شعور حاصل ہوتا ہے کہ کس قدر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ74)

قربانی کے جانور (اونٹنیاں) ھَدْیَ وَالْقَلَآئِدَ (وہ نذر و نیاز جو اللہ ہی کے واسطے کعبہ میں بھیجی جائیں)

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح قربانیوں کے جانور ہیں کہ وہ سکھاتے ہیں کہ اسی طرح انسان کو اپنے آقا کے حضور جان دینی چاہیے۔ دنیا کے آقاؤں کے لئے جان دیتے ہیں پس دنیا و آخرت کے آقا زمین و آسمان کے مالک پر جان کیوں نثار نہ کریں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ74)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’پھر فرماتا ہے وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ۔ اور تُو ان کو بتادے کہ قربانیوں کو ہم نے شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ یعنی وہ انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے۔ پس قربانی کے دنوں میں قربانیوں کو صف در صف کھڑا کرکے اُن پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے کام آئیں۔ چنانچہ جب وہ ذبح ہوکر اپنے پہلوؤں پر گر جائیں۔ تو خود بھی اُن کا گوشت کھاؤ اور صابر غریب اور مضطر غریب کو بھی کھلاؤ۔ یہ سب مال ہم نے تم کو دیا ہے تاکہ اس کو غریبوں پر خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے جو حج بیت اللہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور بتایا ہے کہ یہ قربانیاں شعائر اللہ میں داخل ہیں اور تمہارے لئے ان قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی برکت رکھی گئی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ53-54)

اس مختصر تمہید کے بعد آئیے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کے چند ایمان افروز واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ابتدا میں ایک روایت شعائر اللہ کے قیام کے بارے میں ایک روایت حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام اور ایک واقعہ حضرت ام المؤمنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا بھی شامل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان واقعات کو پڑھ کر ہمیں بھی ان شعائر اللہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کا استعمال

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ لکھتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے کسی حوالے وغیرہ کا کوئی کام میاں معراج دین صاحب عمر لاہوری اور دوسرے لوگوں کے سپرد کیا۔ چنانچہ اس ضمن میں میاں معراج دین صاحب چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر لکھ کر بار بارحضرت صاحب سے کچھ دریافت کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے کہ یہ تلاش کرو یا فلاں کتاب بھیجو وغیرہ۔ اسی دوران میں میاں معراج دین صاحب نے ایک پرچی حضرت صاحب کو بھیجی اور حضرت صاحب کو مخاطب کر کے بغیر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ لکھے اپنی بات لکھ دی۔ اور چونکہ بار بار ایسی پرچیاں آتی جاتی تھیں۔ اس لئے جلدی میں ان کی توجہ اس طرف نہ گئی کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بھی لکھنا چاہیے حضرت صاحب نے جب اندر سے اس کا جواب بھیجا تو اس کے شروع میں لکھا کہ آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ لکھنا چاہیے تھا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنی جماعت کی تعلیم و تادیب کا کتنا خیال تھا۔ اور نظر غور سے دیکھیں تو یہ بات معمولی بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مسلّم سچائی ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں ادب و احترام اور آداب کا خیال نہ رکھا جاوے تو پھر آہستہ آہستہ بڑی باتوں تک اس کا اثر پہنچتا ہے اور دل پر ایک زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے علاوہ ازیں ملاقات کے وقت اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنا اور خط لکھتے وقت اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ لکھنا شریعت کا حکم بھی ہے۔‘‘

’’نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دستور تھا کہ آپ اپنے تمام خطوط میں بِسْمِ اللّٰہِ اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ لکھتے تھے اور خط کے نیچے دستخط کر کے تاریخ بھی ڈالتے تھے۔ میں نے کوئی خط آپ کا بغیر بِسْمِ اللّٰہِ اور سلام اور تاریخ کے نہیں دیکھا۔ اور آپ کو سلام لکھنے کی اتنی عادت تھی کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ ایک دفعہ کسی ہندو مخالف کو خط لکھنے لگے تو خود بخود اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ لکھا گیا۔ جسے آپ نے کاٹ دیالیکن پھر لکھنے لگے تو پھر سلام لکھا گیا چنانچہ آپ نے دوسری دفعہ اسے پھر کا ٹالیکن جب آپ تیسری دفعہ لکھنے لگے تو پھر ہاتھ اسی طرح چل گیا۔ آخر آپ نے ایک اور کاغذ لے کر ٹھہر ٹھہر کرخط لکھا۔‘‘

(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ۔ روایت نمبر270-269 صفحہ299 سیرت المہدی جلد اوّل مرتبہ)

حضرت اُمّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کا جَزَاکُمُ اللّٰہُ کا کہنا

اُمّ المؤمنین حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ زوجہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ایک شعائر اللہ میں سے تھیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعہ پر فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی ہے اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اس لئے میں اسے شعائر اللہ سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں اور جو وہ کہے مان لیتا ہوں۔‘‘

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حصہ اوّل صفحہ229)

آپ کی عادت مبارکہ میں یہ بات شامل تھی کہ آپ اسلامی شعائر کو بروقت اور برمحل استعمال کرتی تھیں۔ چنانچہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب سیرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ میں آپ کے جَزَاکُمُ اللّٰہُ کہنے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
’’یہ ایک عجیب بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ حضرت اُمّ المؤمنین جس کسی مخلص کو جَزَاکُمُ اللّٰہُ فرما دیتیں تو وہ اپنے مقاصد میں کامیاب و بامراد ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فیض کو تمام جماعت احمدیہ کے لئے عام کر دے۔‘‘

( سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حصہ دوئم صفحہ340)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی سیرت کے قرآن مجید، قبلہ اور عید الاضحی کے دن کی تعظیم کے متعلق چند واقعات

قرآن کریم

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم کی بہت تعظیم ہے کہ یہ شعائر اللہ میں سے اعظم ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ148)

پھر فرمایا:
’’جن چیزوں سے اللہ پہچانا جاتا ہے ان کی بے حرمتی مت کرو۔ ہم نے قرآن مجید سے خدا کو پہچانا۔ اس لئے اس کی بے حرمتی جائز نہیں۔ بھلا یہ حرمت ہے کہ اس پر پاؤں رکھ لو یا اور کتابوں کے نیچے رکھو یا یونہی صفوں پر ڈال دیا جاوے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ74)

قرآن مجید کی عزّت اور قرآن مجید سے محبت کے حوالہ سے آپؓ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک ہر روز اس کو کئی رنگ میں پڑھا نہیں لیتا۔ مجھے آرام اور چین نہیں آتا بچپن ہی سے میری طبیعت خدانے قرآن شریف پر تدبر کرنے والی رکھی ہے۔ اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں۔

(حقائق الفرقان جلد4 ص83)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ عنہ قرآن مجید سے محبت اور اس کی عظمت کے قیام کے سلسلہ میں زبانی باتوں پر ہی اکتفا نہ فرماتے تھے۔ بلکہ آپ کی ساری زندگی قرآنی احکامات کی آئینہ دار تھی۔ اس حوالہ سے ایک واقعہ درج ہے:

30جنوری 1904ء کو قادیان سے دو معزز مہمان رخصت ہونے والے تھے وہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بغرض ملاقات حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا:
’’آپ کی باتیں بھی بہت ہی دلچسپ اور مزیدار ہیں‘‘

اس پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا:
’’میں قوّال کی نسبت فعّال کو پسند کرتا ہوں‘‘

یعنی بہت کہنے والے کے مقابلہ میں کرنے والے کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘

(الحکم 17 جنوری 1904ء)

قبلہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبلہ کی تعظیم اور اس کی طرف پاؤں کر کے سونے کے حوالہ سے فرماتے ہیں:
’’یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے۔ سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی۔ فرمایا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لئے قرآن شریف پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا ہے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد3 صفحہ307)

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’پاؤں قبلہ کی طرف کرکے سونا تعظیم کعبہ کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ‘‘

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ148)

بیت اللہ کی تعظیم

بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ خدا تعالیٰ کے شعائر اللہ میں سے ایک اہم شعائر ہے۔ بیت اللہ نے دنیائے اسلام کو ہر جہت سے مرکزیت میں پرو رکھا ہے اس لئے بعض علماء نے اسے سب سے بڑا شعیرہ قرار دیا ہے۔ حقیقت میں حضرت حاجرہؑ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس قربانی کا ذکر ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں کو اللہ کے حکم پہ بے یارومددگار وادی مکہ میں چھوڑ آئے تھے اور حضرت حاجرہؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی پیاس بجھانے کی خاطر صفا ومروہ کے سات چکر لگائے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ کے ذریعہ پانی مہیا کیا تھا۔ ان مقامات کو اللہ تعالیٰ نے نشانیاں قرار دیا اور کہا کہ جو طاقت رکھیں وہ ان جگہوں پر اس تاریخ کو سامنے رکھ کر جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا شعور حاصل کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ یہ ہے فلسفہ ان شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقام عرفات پر
کی جانے والی ایک اہم دعا

1886ء میں جب حضرت صوفی احمد جان صاحب ؓحج بیت اللہ کے لئے تشریف لے جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو ایک خط میں لکھا کہ:
اس عاجز نا کارہ کی ایک عاجزانہ التماس یا درکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل الله تعالی میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباد اللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت وغربت کے ہاتھ بحضور دل اٹھا کر گزارش کریں کہ:۔

اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ، پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور و رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کر ا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی ڈوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار۔ اور اپنے ہی کامل متعین میں مجھے اٹھا۔ اے ارحم الر احمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود وسلام و برکات نازل کر۔ آمین یا رب العالمين۔

(مکتوبات احمد جلد3 صفحہ27)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا پہلی بار خانہ کعبہ کو دیکھنا اور ایک دعا کرنا

حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو اللہ کے فضل سے حج بیت اللہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ آپ پہلی بار خانہ کعبہ کو دیکھنے پر کی جانے والی اپنی دعا کر ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ
’’آپ نے کسی روایت میں سُن رکھا تھا کہ جب بیت اللہ نظر آئے تو اُس وقت جو دعا بھی کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اس لئے آپ نے یہ دعا کی کہ
’’الٰہی! میں تو ہر وقت محتاج ہوں اب میں کون سی دُعا مانگوں۔ پس میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ جب میں ضرورت کے وقت تجھ سے دعا مانگوں تو اُس کو قبول کر لیا کر۔‘‘

(حیات نور اردو صفحہ52)

عید الاضحی کی تعظیم

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے یوم النحر (عید الاضحیہ) کو شعائر اللہ میں داخل فرمایا ہے۔ ایک دفعہ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طلبہ کو عید کے روز کھیل کے لئے قادیان سے باہر بھجوایا جارہا تھا۔ جب اس کی اطلاع حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کو ہوئی تو حضور کو یہ اطلاع سخت ناگوار گزری اور فرمایا:
’’میں تو ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتا اور جائز نہیں سمجھتا کہ عید کے دن سفر کیا جائے اور پھر سفر بھی کھیلوں کے لئے ہرگز نہیں جانا چاہیئے……… یہ دن سنت ابراہیمی کا ایک ایسا دن ہے جو شعائر اللہ میں داخل ہے اس کی عظمت مومن کا فرض ہے۔‘‘

(ارشادات نور جلد دوم صفحہ278-279)

حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی ؓ
اور شعائر اللہ کا قیام

حضرت مولانا برہان الدین جہلمی صاحبؓ ایک عالم باعمل تھے، جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت نے چار چاند لگادئیے۔ آپ کے علم و مقام و مرتبہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے آپ کی وفات کے بعد یہ خیال فرمایا کہ نئے علماء تیار کئے جانے چاہئیں اور اس غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدرسہ احمدیہ میںشاخ دینیات کی بنیاد رکھی۔

آپ کی فطرت میں سادگی، عاجزی، اخلاص و وفا اور توکل علی اللہ کا مخصوص رنگ نظر آتا ہے تو دوسری طرف خدمت شعائر اللہ کے قیام کے لئے آپ رات دن کوشاں نظر آتے ہیں۔ آئیے چند ایک واقعات دیکھیں۔

حضرت برہان الدین جہلمی صاحب اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا استعمال

مولوی مہر دین صاحب واقعہ بیان کرتے ہیں :
’’میں ایک روز حسبِ معمول جہلم سبق کے لئے مو لو ی صاحب کے ہاں حا ضر ہوا تو معلوم ہواکہ آپ ڈپٹی راجہ جہاں دادخان کی کو ٹھی پر گئے ہوئے ہیں۔ میں ۔۔۔۔۔ ڈپٹی صا حب کی کو ٹھی پرپہنچا دروازے پر ان کا نو کر کھڑا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ اند ر جولال دا ڑھی والا انسان (مولو ی برہان الدین صاحب) بیٹھا ہے۔ اس کو جا کر کہہ دو مہر الدین لالہ موسیٰ والا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

عرض کرتا ہے۔ جواب میں آپ نے پیغام بھیجا کہ اس کو اندرآ نے دو۔میں نے وہاں پہنچ کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

کہا۔ راجہ جہاں داد خاں نے کہا کہ یہ بھی احمدی ہے ؟میں نے کہا ہاں ۔۔۔۔۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ کیا گا ڑی میں کچھ وقت ہے؟ میں نے عرض کی پندرہ منٹ ہیں۔ راجہ صاحب نے کہاکہ آج تم نہ جا ؤ۔ یہاں ہی رہ جا ؤ۔ میں نے کہا وجود وقف کردیا ہوا ہے۔ اس لئے میں رہ نہیں سکتا۔اس جگہ پر ایک سیّد صاحب بھی تھے جو کہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے متعلق مولو ی صاحب سے منا ظرہ کر رہے تھے اور راجہ پیندے خاں صاحب دارا پوری بھی موجود تھے۔ سیّد صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب آپ مرزا صاحب کے فریب میں آگئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب نے کہا جب مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتا ب لکھی میں نے اس کتا ب کو پڑھا، تو میں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئند ہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس لئے میں اس کو دیکھ آؤں۔ میں ان کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپ ہو شیار پور تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے کہا بار بار آنامشکل ہے اس لئے ہوشیار پور جاکر دیکھ آؤں ۔۔۔۔۔۔ میں ہوشیار پورپہنچا۔ پو چھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی خادم آیا اور پوچھا کون ہو؟ میں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے آیا ہے۔ اس نے کہا کہ ٹھہرو۔ میں اجا زت لے لوں۔ جب وہ پوچھنے کے لئے گیا تو مجھے اس وقت فارسی میں الہام ہوا کہ
’’جہاں تم نے پہنچنا تھا پہنچ گیا ہے۔ اب یہاں سے نہیں ہٹنا‘‘

خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں۔ ان کو کہہ دیں پھر آئیں۔ خادم نے جب یہ مجھے بتلایا۔ تو میں نے کہا میں یہاں ہی بیٹھتا ہوں۔ جب فرصت ملے گی تب ہی سہی۔ جب خادم یہ کہنے کیلئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو حضرت صاحب کو عربی میں الہام ہو کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ جس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جلدی سے دروازہ کھول دو۔ میں جب حاضر ہوا تو حضور بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے۔ میں نے عرض کی مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا ہے کہ اس جگہ سے جانا نہیں۔ میں چند دن حضرت کے پاس رہا اور حضرت کے حالات دیکھے کہ تین وقت تک آپ نے کھانا نہیں کھایا اور نماز کے وقت جلدی سے باہر تشریف لاتے اور نماز ہمارے ساتھ ادا کر کے اندر تشریف لے جاتے۔ وہاں مرزا اعظم بیگ ہوشیارپوری مہتمم بندوبست تھا۔وہ میرا واقف تھا۔ میں ان سے ملنے گیا۔اس نے پو چھا مولوی صا حب آپ کیسے آئے؟ تو میں نے کہا کہ حضرت مرزاصاحب کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔اس نے پو چھا کہ کون سے مرزا صاحب۔ میں نے کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی۔ اس نے کہا کہ آدمی تو بہت اچھا تھا۔ لیکن خراب ہوگیا۔ میں نے کہا کس طرح۔اس نے کہا کہ بچپن کی حا لت میں لڑکو ں سے کھیلا نہیں کرتا تھا۔ اس کا والد اس پر ناراض ہی رہتا تھا کہ تم با ہر نہیں نکلتے میں نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ِ اس نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا کون سا موقع ہے۔ میں نے کہا جس زمانہ کا میں واقف نہیں تھااس کے متعلق تم نے شہادت دیدی کہ آپ بچپن میں ہی نیک تھے اور مو جودہ حالت میں نے خود دیکھ لی ہے۔

(بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ جولائی 1995ء صفحہ 26اور40 غیر مطبوعہ رجسٹر روایات نمبر3)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ایہہ نعمتاں کتھوں

سیالکوٹ میں ہی ایک دوسرا واقعہ پیش آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس قادیان جانے لگے تو الوداع کہنے کے لئے حضرت مولوی صاحب بھی ساتھ آگئے۔ آپ جب اسٹیشن سے واپس آرہے تھے تو جو سلوک حضرت مولوی صاحب کے ساتھ کیا گیا اس کی مثالیں صرف قرونِ اولیٰ میں ہی نظر آتی ہیں۔ اس واقعہ کو خلفاء احمدیت نے متعدد دفعہ بیان فرمایا۔اس کی تفصیل حضرت مصلح موعود ؓ نے یوں بیان فرمائی ہے:
’’جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو چھوڑ کر واپس آرہے تھے تو انہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دِق کیا۔ مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے۔ جب وہ واپس جارہے تھے تو کچھ غنڈے ان کے پیچھے ہو گئے۔ اور ان پہ گند پھینکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنے والوں نے بعد میں بتایا کہ جب مولوی برہان الدین صاحب کو جبرًا پکڑ کر ان کے منہ میں زبردستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ایہہ نعمتاں کتھوں۔ مسیح موعودؑنے روز روز آ ناں وے؟ یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں۔ کیا مسیح موعودؑ جیسا انسان روز روز آسکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقع ملے۔‘‘

(الفضل 10؍اکتوبر1945ء صفحہ2)

مخالفین کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنا

ایک روز حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلم میں ایک کتابوں کی دکا ن پر کھڑے تھے۔ ایک غیر احمدی حافظ کو آپ نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا، حافظ صاحب نے سلام کا جواب نہ دیا اور کہا کہ مولو ی صاحب آپ مرزا صا حب کے ساتھ ہو گئے ہیں اور وہ قرآن کے خلاف ہیں اس لئے ہم آپ کا سلام قبول نہیں کرتے۔ حضرت برہان الدین صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کون سی آیت کے خلاف حضرت مرزا صاحب کا عمل ہے۔

حافظ صاحب نے کہا کہ آیت لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کے خلاف مرزا صاحب نے اس طرح کہاہے کہ انہوں نے لوگوں کے معبو دوں کو گالیاں دے کر سچے معبود کو گالیاں نکلوائی ہیں اور آپ ان کے ساتھ ہیں۔ اس لئے ہم آپ سے سلام نہیں کر سکتے۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کوئی ایسی آیت نکالو جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہو کہ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو برا نہ کہو۔ حافظ صاحب لا جواب ہو گئے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو کافر مشرک اور جہنمی کہاہے۔

(ماہنامہ انصار اللہ جولائی 1995ء صفحہ24)

حضرت مولانا محمد ابرہیم صاحب بقاپوریؓ
اور شعائر اللہ کی تلاش

حضرت مولانا محمدابرہیم صاحب بقاپوریؓ کی فطرت میں نیکی اور اپنے مولیٰ سے لو لگانے کی ایک تڑپ تھی۔ اللہ تعالیٰ کے مامور اور مرسل بھی خدا تعالیٰ کے شعائر ہوتے ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عرفان حاصل ہوتا ہے۔ حضرت مولانا محمد ابرہیم صاحب بقاپوریؓ ایسے ہی ایک سچے مامور و مرسل کی تلاش میں تھے چنانچہ آپ اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:
’’1904ء میں میں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا۔ ان سب کامضمون یہ تھا کہ میں زبان سے تو بے شک خداتعالیٰ کا اور حشرو نشر کامقر ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امر واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خداتعالیٰ کے وجود میں ہی شک ہے اس لئے مجھے ایسے مرشد کی تلاش ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جاگزیں ہوجاوے وغیرہ وغیرہ۔ دوسروں کی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے۔ آپ یہاں آجاویں۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ وَمَنْ اَتیٰٓ اِلَیَّ شِبْراً۔ پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہوگیا۔‘‘

(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ252تا253)

اختتام

جماعت احمدیہ کا بنیادی مقصد شعائر اللہ کاقیام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے سامنے ہمیشہ حضرت مصلح موعودؓ کا مندرجہ ذیل ارشاد بطور مطمع نظر ہونا چاہیے۔ حضرت المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنا،اس کے شعائر کی عظمت بجالانا، اس کی مقرر کردہ عزت والی جگہوں کی تعظیم کرنا اور اس کے نشانات کی حرمت کو قائم رکھنا خدا تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ بلکہ اس سے خود انسان کے اپنے دل میں نیکی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ میں وہ ترقی کرنے لگتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ46)

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ قادیان)

پچھلا پڑھیں

فضل عمر سپورٹس ریلی۔مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2021