• 19 اپریل, 2024

یادوں کے دریچے

یادوں کے دریچے
(مصنف ۔ منور احمد خورشید تبصرہ بر کتاب)

مصنف کتاب ہٰذا جناب منور احمد خورشیدآف لندن نے اپنے آبائی گاؤں فتح پور ضلع گجرات پاکستان کا تعارف کرواتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ہمارے گاؤں کے قریب ایک ندی بہتی تھی جس کا پانی اتنا شفاف تھا کہ اس میں سورج منعکس ہو کر نظر آتا تھا۔ اس مادی ندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک روحانی ندی بھی جاری کی۔ جس کا مبدا ء حضرت سید محمود احمد شاہؓ تھے۔جنہوں نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس روحانی ندی سےایک رستہ(راجباہ) حضرت میاں عبدالکریمؓ تھے۔ جن کے نسل کے ایک چشم و چراغ مکرم مولانا منور احمد خورشید مصنف یادوں کے دریچے ہیں جو اپنے نام خورشید کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کی بہتی چھالیں مارتی ندی میں منعکس ہو کر منوربن کر دنیا بھر میں احمدیت کا نور پھیلانے کا مؤجب بنے۔

مکرم خورشید صاحب نے اپنی یہ کتاب دو دفعہ مجھے بجھوائی۔ پہلی دفعہ نام تجویز کرنے کے لئے اور دوسری بار تبصرہ اور رائے دینے کے لئے۔ خاکسار نے ہر دو بار اس کتاب کو جستہ جستہ اور پھر تفصیل سے پڑھا۔ وا قعتاً یہ کتاب یادوں کے دریچے کا حق ادا کر رہی ہے کیونکہ اس کتاب کو پڑھ کر دو باتیں فوراً ذہن میں ابھرتی ہیں۔ اوّل یا تو مولانا منور احمد خورشید کا حافظہ بلا کا ہے کہ زندگی میں بیتے واقعات کو ایسے حسین انداز میں یکجا کیا ہے کہ رشک آتا ہے۔اور یا مولانا خورشید کو ڈائری لکھنے کی ایسی پختہ عادت ہے جو ایک مربّی کا حسن ہے۔خلفائے کرام بھی گاہے بگاہے مبلغین و مربّیان کو ڈائری لکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہےہیں۔ جو مربیان کو اپنی سمت درست کرنے اور کوتاہیوں و کمزوریوں پر قابو پانے کے کام آتی ہے۔ لاریب مکرم خورشید صاحب کا یہ کام باقی مربیان کے لئے قابل تقلید ہے۔

موصوف اس سے قبل ارض بلال کے نام سے اپنی کتاب میں افریقہ میں اپنی یادوں کو جمع کر چکے ہیں۔ اور 400 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب میں پاکستان میں میدان عمل کی یادیں اور افریقہ کی ایمان افروز یادوں کو یکجا کیا ہے۔یہ یادیں ایک قاری کے لئے ایمان و علوم کو بڑھانے کا مؤجب ہوں گی۔قادیان سے ایک آواز اللہ، اس کے رسول و قرآن کے نام کو بلند کرنے کے لئے جاری ہوئی اور 130 سالوں میں یہ آواز 20 کروڑ سے زائد آوازوں میں تبدیل ہو گئیں۔ان میں سے تیس ممالک میں بسنے والےاحمدیوں کی ایمان افروز داستانیں اس کتاب کا حصہ ہیں۔موصوف نے قرآنی آیات، احادیث، محاوروں اور اشعار کا استعمال بطور عنوان بہت بر محل اور با موقع کیا ہے۔ نیز سبق آموز کہاوتوں اور کہانیوں کا اپنے ساتھ بیتے واقعات میں ایڈجسٹ کرنا موصوف کا ہی خاصہ معلوم ہوتا ہے۔

میں نے اپنی رائے کے لئے ایمان کو جلا بخشنے والے بہت سے واقعات قارئین کے لئے اس کتاب سے نوٹ کئے تھے۔ مگر طوالت کے باعث ان کا ذکر مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم جماعت احمدیہ اور مشاہیر احمدیت کے متعلق چند ایک ریمارکس دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک غیر احمدی نے قریشی احمد شفیع آف میانوالی کے متعلق کہا کہ اگر مرزا صاحب اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو بخدا تمہارا مقام صحابہ کا ہے۔

(صفحہ 167)

ایک فون آپریٹر نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات کی اطلاع کی کنفرمیشن پر کہا۔ بزرگ سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور فون کے پیسے نہ لئے۔

(صفحہ 196)

ایک غیر احمدی ڈاکٹر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔ ہم سب مسلمانوں کو اسلام کے اس بطل جلیل پر فخر ہے۔

(صفحہ 245)

پروفیسر کابا نے کہا :
اس صدی میں جو آدمی ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں نہیں جانتا۔ میرے نزدیک تو وہ انسان کہلانے کا بھی حقدار نہیں ہے۔

(صفحہ 313)

مکرم منور احمد خورشید خاکسار سے جامعہ میں تین سال سینئر تھے۔ جامعہ میں بھی ملاقات ہوتی رہی۔ پھر دارالبرکات میں طلبہ جامعہ کی رہائش گاہ کہکشاں ہاؤس میں بھی علیک سلیک رہی۔ مگر فیلڈ میں میری ان سے پہلی ملاقات کھاریاں احمدیہ مسجد میں ہوئی۔ ان کو میں نے فل فارم میں دیکھا۔ اور اب ان کی دونوں تصانیف پڑھ کر ان کے جوہر دیکھنے کو ملے۔ ان کی کتاب میں درج ان کی خوبیاں پڑھ کر خاکسار کے لبوں پریہ دعا رہی کہ اے اللہ! موصوف کی قربانیوں کو قبول فرما۔ ان کو اجر عظیم عطا فرما اور آپ کی اس تصنیف کو نافع الناس بنا۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

فضل عمر سپورٹس ریلی۔مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2021