حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرتﷺ کی اتنی غیرت تھی کہ آپ معمولی سی زیادتی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ آپ کو ایسی باتیں سن کر جس قدر غم اور تکلیف پہنچتی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ آپ ایسے شخص کی شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے جس نے آنحضرتﷺ کے متعلق کوئی نازیبا بات کی ہو۔ اور جب عیسائی مشنریوں نے آنحضرتﷺ کے خلاف بعض بہتان گھڑے اس زمانے میں تو آپ کی انتہائی کرب اور تکلیف کی کیفیت ہوتی تھی۔
آپ خود بھی اس کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ: ’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں۔ اور اپنے اس دجل کے ذریعے ایک خلق کثیر کو گمراہ کرکے رکھ دیاہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھے نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک کی شان میں کرتے رہتے ہیں ان کے دلآزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیرالبشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔ خداکی قسم اگر میری ساری اولاد، اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور مَیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔ پس اے میرے آسمانی آقا !توُ ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلا سے نجات بخش‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 15)
پس یہ ہے وہ غیرت جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں تھی اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت اور آپ کی محبت کے وہ معیار ہیں جو آپ اپنی جماعت کے ہر فرد میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس تعلیم کا ہی اثر ہے کہ یہ محبت جماعت کے دلوں میں پیدا ہوئی اور پھر جماعت اس محبت کے زیر اثر ہی آج دنیا کے کونے کونے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے کے لئے کوشاں ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں اس غیرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام جماعت کے ذریعہ پہنچایا جا رہا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ پہنچایا جاتا رہے گا۔ یہ پیغام پہنچانے کے طریق اور دنیا کو چیلنج دینے کی جرأت جیسے کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے۔
آپ کو آنحضرتﷺ کے ساتھ جو عشق تھا اور آپ کے لئے جو غیرت تھی اس کا اظہار اس سے پہلے کے اقتباس سے ہو چکا ہے جو الفاظ میں نے پڑھے ہیں۔ آپ ؑ نے دنیا کو واضح الفاظ میں یہ چیلنج دیا ہے کہ تمہارا جو کچھ بھی مذہب ہو، تمہاری جتنی بھی طاقت اور وسائل ہوں، تم جتنا مرضی ہنسی ٹھٹھا کر لو لیکن یاد رکھو کہ اب دنیا میں غالب آنے والا مذہب صرف اور صرف اسلام ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو! جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلا ل کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں‘‘۔
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ141)
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج اس مسیح محمدی کی جماعت زندہ خدا اور زندہ مذہب اور جاہ جلال کے نبی کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی جو کوشش کر رہی ہے، یہ جماعت، جماعت احمدیہ اس کی راہ میں مسلمان کہلانے والے رکاوٹیں اور مشکلیں ڈال رہے ہیں، ان کے خلاف الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔
(خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء)