• 23 جولائی, 2025

سود کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا فیصلہ

تبرکات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ

مسلمان تجّار کی مشکلات کا حل

یوں تو بعض صورتوں میں سودی روپے کے اشاعت اسلام میں خرچ کئے جانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ فتاویٰ احمدیہ میں شائع ہوچکاہے اور اکثر احباب اس سے آگاہ ہوں گے لیکن حال میںہی حضرت اقدس کا ایک خط میاں غلام نبی صاحب سیٹھی مہاجر سے ملا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ١٨٩٨ء میں سیٹھی صاحب کو اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔ جبکہ وہ راولپنڈی میں تجارت کا کام کرتے تھے۔ اس خط سے چونکہ سود کے مسئلے کے متعلق بعض نئے پہلوؤں سے روشنی پڑتی ہے اور مسلمان تجار کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اس لئے احباب کی اطلاع کے لئے یہ خط شائع کیا جاتا ہے ۔ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:-

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ‘ونصلی علٰے رسولہ الکریم

محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتاہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوفِ الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کردے گا۔ اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعتِ دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتوےٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے، وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سُود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیّال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے۔ لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرّہ ذاتی نفع کے خداتعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے۔ یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے، جو چیز اُس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے ۔ بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو، وہ خداتعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم اُن سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتوےٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے۔ اور پھر خداتعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسِلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کواللہ تعالیٰ دیکھتاہے وہ جزا دے گا۔ ہاں ماسوا اِس کے دُعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔

والسلام
خاکسار: مرزا غلام احمدازقادیان
٢٤ اپریل ١٨٩٨ء

’’سُود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے۔ یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سُود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیاہے) خرچ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ۔‘‘

خاکسار عرض کرتا ہے ۔کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اس خط سے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں:

نمبر(١) سودی آمد کا روپیہ سُود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑجاوے تو اس کے واسطہ یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے۔ مسلمان تاجر جو آج کل گردوپیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سُود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کرسکتے ہیں۔

نمبر(٢) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپیہ سے الگ حساب رکھ کر جمع کرنا چاہیئے تاکہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اُس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے۔

نمبر(٣) سُود کاروپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اُسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے۔

نمبر(٤) سودی آمد کا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہوسکتا ہے۔ جن میں کسی شخص کا ذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً طبع واشاعت لٹریچرمصارف ڈاک وغیرہ ذالک۔

نمبر(٥) دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جاسکتے ہیں جس کا استعمال گوافراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضامندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں۔ یعنی ان کے حصُول میں کوئی رنگ جبر اور دھوکے کانہ ہو۔ جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈاکہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتاہے۔

نمبر(٦) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتوے کی مویّدہے۔

نمبر(٧) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی شخص اپنے آپ عمداً سُود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتوےٰ صرف اس صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپیہ کا وارث بن جاوے۔

نمبر(٨) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میں جو طریق سُودکے لین دین کا قائم ہوگیاہے۔ اور جس کی وجہ سے فی زمانہ بغیرسودی لین دین میں پڑنے کے تجارت نہیں کی جا سکتی۔ وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینامذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہوگا۔ کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کوجو ایک تاجر تھے اور اسی قِسم کے حالات اُن کو پیش آتے تھے، اس فتوے کے اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قرار دیا ہے۔ گویا حضرت صاحب کامنشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو غرض رعایت بنا کر کاروبار نہ کرے لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گردوپیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے۔ تو اس میں مضائقِہ نہیں اور اسی صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ سُود میں ملوث ہونے کے اندیشہ سے مسلمان تجارت چھوڑدیں۔ یا اپنے کاروبار کو معمولی دوکانوں تک محدود رکھیں۔ جن میں سود کی دقت بالعموم پیش نہیں آتی۔ اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کرلیں۔

نمبر(٩) اس فتوےٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کو سود کے لئے بنک بھی جاری کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں اگر مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے ۔ تو بشر طیکہ مذکورہ بالا حرج نہیں۔

نمبر(١٠) جو شخص اس فتوے کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے۔ اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عنداللہ ثواب کا مستحق ہوگا۔

نمبر(١١) ایک اصولی بات اس خط میں موجود ہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے۔ اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایاہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کرلینی کافی ہے کہ آنکھیں کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے یہ نہیںکہ ان کے سامنے بالکل نہ آئے کیونکہ بعض صورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیئے کہ خدا سے دُعا کرتا رہے کہ وہ اُسے ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے بچپن میں دیکھا تھاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے جو غیر محرم ہوتی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کرتا تھاکہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں۔ لیکن بڑے ہوکر سمجھ آئی کہ وہ دراصل اسی حکمت سے تھا۔

ایک بات حضرت صاحب کے خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ نازک وقت جو اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میں سب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت و نصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے۔ اس اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے دستخط کے صرف۔ غ۔ کا حرف درج فرمایا۔ جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں۔

(مطبوعہ الفضل یکم نومبر1927ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2020