• 23 جولائی, 2025

ذکر خیر سید محمود احمد شاہ صاحب ؒ

تعارف

حضرت سید محموداحمد شاہ صاحبؒ کا تعلق فتح پور ضلع گجرات سے تھا۔ہمارے علاقہ میں چند ایک ایسے دیہات ہیں جہاں کے بیشتر باسی ،خاندان سادات سے ہیں۔انہی دیہاتوں میں سے ایک گاؤں محمدی پور ہے۔ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب کا تعلق اس گاؤں سے تھا۔جہاں سے ہجرت کرکے فتح پور میں آکر آباد ہوگئے تھے۔

حسن اتفاق سے ہمارےدادا جان حضرت میاں عبدالکریم صاحب کا گھر بھی شاہ صاحب کےگھر کے بالکل ساتھ تھا۔جس کی وجہ سے دیواروں کے علاوہ چھت کا ایک ہی حصہ بھی آپس میں ملا ہواتھا۔ حضرت میاں صاحب شاہ صاحب کے ارادت مندوں اور شاگردوں میں سے تھے۔جس کی برکت سے ہمارے دادا جان کو بھی قبول حق کی نعمت مل گئی اور پھر اس برکت سے ہمیں بھی احمدیت کے چشمہ سے سیراب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔الحمدللہ

ہمارے گاؤں میں احمدیت

اللہ کے فضل سے،فتح پور ضلع گجرات کی ایک معروف جماعت ہے۔یہ گاؤں گجرات شہر کی شمالی جانب تقریباً سولہ کلو میٹر کے فاصلہ پر اعوان شریف روڈ پر واقع ہے۔یہی سڑک آگے چھمب جوڑیاں بارڈرز تک جاتی ہے۔یہ وہی معروف مقام ہے جہاں پر پاک وہند کی دونوں جنگوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔جہاں ہندوستانی فوج کو سخت ہزیمت اور ذلت اٹھانی پڑی تھی۔1971ء کی جنگ میں پاکستانی آرمی کے ایک مایہ ناز سپوت ،احمدی جنرل افتخار جنجوعہ صاحب نے اسی مقام پر وطن عزیز کی پاسداری میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے جام شہادت نوش کیا۔اب اس مقام کانام چھمب جوڑیاں سے تبدیل کرکے مکرم جنرل افتخار شہید کی یاد میں ، افتخار آباد رکھ دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ یہی وہ بارڈر ہےجہاں جنرل اختر حسین ملک کو 1965ء کی جنگ میں غیر معمولی کامیابی ملی تھی۔ جس کے نتیجہ میں ہندوستان کا ایک وسیع و عریض علاقہ پاکستان کے تسلط میں آگیا تھا۔لیکن اس دور کے ارباب اختیار نے نہ معلوم وجوہ کی بنا پر اچانک قیادت جنرل یحي خان کے حوالے کردی۔آج تک مبصرین اس اچانک تبدیلی کاجواز پانے سےقاصر ہیں۔

فتح پور میں جماعت احمدیہ کا قیام

اس جماعت میں سب سے پہلی بیعت مکرم سید محمود شاہ صاحب کی ہے۔بعدازاں ان کے اسوہ حسنہ اور تبلیغ کے نتیجہ میں ایک فعال جماعت بن گئی۔پھروہ بزرگ باوجود مصائب اور مشکلات کے شجر احمدیت سے وابستہ و پیوستہ رہے اور جو سعید روحیں خلافت حقہ کے شیریں چشمہ سے سیراب ہوتی رہیں۔ان کی اولادیں آج دنیا بھر میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔الحمدللہ

تعلیم وتربیت کا حسین انداز

ہماری جماعت کے بزرگوں کا یہ طریق تھا کہ نماز عشاء سے قبل مسجد میں تشریف لاتے اور کافی دیر تک مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے۔جس سے نئی نسل کو بہت ساری باتوں کا علم ہوجاتا تھا۔آج سوچتے ہیں کہ یہ کیسا ہی خوب انداز تھا جس سے بہت ساری باتیں نئی نسل سیکھ جایا کرتی تھی۔ان مجالس سےہم نے بہت سی باتیں سیکھی ہیں۔انہی مجالس میں حضرت محمود شاہ صاحب کے بارے میں کبھی کبھی سلسلہ کلام چل نکلتا۔جس میں ان کا ذکر خیر ہوتا تھا۔مکرم شاہ صاحب کے بارے میں ہم نےاپنے بزرگوں سے بہت کچھ سنا ہےہمارے مرحوم والدین اکثر کسی نہ کسی حوالے سے ان کے اوصاف حسنہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔

شخصیت

حضرت شاہ صاحب کے بارے میں ہم نے جواپنے ماحول اور بزرگوں سے سنا ہے۔ اس سے جو شخصیت ذہن میں ابھرتی ہے کہ وہ ایک ایسے عالم باعمل انسان تھے جن کا اپنے حلقہ احباب پر بہت زیادہ نیک اثر تھا۔میں نے اپنے محلہ کی غیر از جماعت بزرگ خواتین اور مردوں سے بھی شاہ صاحب کی بارعب شخصیت ،علم ودانش اور بزرگی کے بارے میں بہت تعریفی کلمات سن رکھے ہیں۔

اذان

کہتے ہیں کہ شاہ صاحب کی آواز خاصی بلند تھی۔ صبح کی اذان کی آواز ماحول میں سکوت کی وجہ سےقریبی دیہاتوں تک سنی جاتی تھی۔

داستان قبول حق

روایات سے یہ بات علم میں آتی ہے۔کہ آپ کو اپنے علم ومعرفت کی روشنی یہ احساس پیدا ہوا کہ جس مہدی موعود اور مصلح کی ہم انتظار میں ہے۔آج کا دور اس کی نشان دہی کررہاہے۔قرآن و حدیث اور بزرگان دین کی بیان کردہ علامات کو زمین اورآسمان سے ظاہر وباہر ہے۔اتفاق سے انہی ایام میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے وہ اس موعود کی تلاش اور جستجو میں لگ گئے۔چند ایک واقعات کچھ یوں بیان کئے جاتے ہیں۔

آپ نےزمین پر خلق خدا کے اعمال وکردار میں اور آسمان پر ستاروں کی گردش میں ایسی علامات کا مشاھدہ کیا،جو ان کے علم کے مطابق ظہور امام مہدی علیہ السلام کی علامات میں سے تھیں۔جس کا ذکر انہوں نے اپنے ارادت مندوں اور شاگردوں سے بھی کیا اور انہیں بتایا کہ میرے علم کے مطابق وہ موعود پیدا ہو چکے ہیں یا ان کا زمانہ قریب ہے۔

ایک روایت کے مطابق ایک روز کسی کام کے سلسلہ میں آپ گجرات شہر گئے ہوئے تھے۔وہاں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شائع کردہ معروف سبز اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔جس کے ذریعہ سے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی مہدویت کا علم ہوا۔

ایک اور روایت کے مطابق ،ایک روز آپ کسی کام کے سلسلہ میں قریبی قصبہ جلال پور جٹاں تشریف لے گئے۔آپ نے دیکھا کہ بازار میں کچھ لوگ ایک آدمی کو زدوکوب کررہے ہیں اور اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔شاہ صاحب نے کسی آدمی سے پوچھاکہ آپ لوگ اسے کیوں مار رہے ہیں۔اس نے بتایا کہ یہ کہتا ہے امام مہدی آگیا ہے۔شاہ صاحب نے کہاکہ پھر اسے کیوں ماررہے ہیں۔آپ کو اسے نہیں مارنا چاہیے۔تمہیں تو دعوی کرنے والے کوپکڑنا چاہیے۔آپ نے لوگوں سے اس کی جان چھڑائی اور اپنے ساتھ ایک قریبی ریسٹورنٹ میں لے آئے۔اس کے لئے لسّی منگوائی اور اس کے بعد تفصیل کے ساتھ مدعی مہدویت کے بارے میں استفسار کیا۔اس نے اپنے علم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے بارے میں بتادیا۔

اس واقعہ سے یہ احساس جنم لیتا ہے کہ شاہ صاحب ایک ہمدرد، با اثر اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔کیونکہ باوجود ایک مسافر ہونے کے انہوں نے اس مظلوم احمدی کو سربازار ان اوباشوں سے بچایا۔

یاد رہےکہ جلال پور جٹاں ایک معروف قصبہ ہے۔جس نے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کافی کردار ادا کیا ہے۔جماعت احمدیہ کا ایک معروف مخالف ڈاکٹر عبدالغنی تھا۔جس نے افغانستان میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب کی شہادت میں ایک بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔جس کےنتیجہ میں اللہ تعالی نے اس شخص کو ایسی سزا دی جو تاابد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔فاعتبروا یا أولی الابصار۔

کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اپنے عقیدت مندوں میں ایک بزرگ چودھری شاہ محمد صاحب نمبردار کو تحقیق کی خاطرقادیان بھیجا۔شاہ محمد صاحب قادیان گئے۔لیکن انہوں نے بیعت نہیں کی۔اس لیےکہ شاہ صاحب نے انہیں تاکید کی تھی کہ بیعت کرنے میں جلدی نہیں کرنی ہے۔

شاہ محمد صاحب نے واپس آکر ساری کیفیت بیان کردی۔جس کے بعد شاہ صاحب نے خود جانے کا فیصلہ فرمایا۔

قادیان پہنچے،زیارت ہوئی اورپھربیعت کرکے فدائین میں شامل ہوگئے۔

ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب کے قادیان پہنچنے سے قبل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاہ صاحب کا نام بیعت کنندگان میں لکھنے کا ارشاد فرمادیا تھا۔

مکرم نصراللہ ناصر صاحب نے اپنی کتاب تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا میں مکرم سید محمودشاہ صاحب کا نمبر206 لکھا ہے اور ان کی بیعت کا سال 1897ء تحریر کیا۔

شاہ صاحب گاؤں کی جامعہ مسجد میں امام الصلوۃ کی خدمت پارہے تھے۔اسی دوران انہوں نے بیعت کرلی۔جس کے بعد فطری طور پر مخالفت شروع ہوگئی۔اپنے بیگانے ہوگئے۔ابتدا میں کچھ لوگوں نے ساتھ دیا مگر بعد میں خوف خلق سے دور چلے گئے۔ لیکن اس دوران کچھ باوفا دوست ساتھ رہےجو بعد میں ایک جماعت بن گئی۔اس کے بعد پھر آپ نے الگ نماز ادا کرنی شروع کردی۔اس دوران کچھ عرصہ تک ہمارے مکان کی چھت پر بھی نماز ادا کی جاتی رہی۔کیونکہ ہماری چھت شاہ صاحب کے گھر سے ملحقہ تھی۔

مکرم چودھری تنویر احمد صاحب سابق صدر جماعت فتح پور نے بتایاکہ ان کے دو بزرگ جو شاہ صاحب کے مرید تھے۔انہیں جب علم ہوا کہ لوگ شاہ صاحب کی مخالفت کررہے ہیں۔تو وہ ان کے پاس آئے اور اس مخالفت کی وجہ کے بارے میں استفسار کیا۔شاہ صاحب نے انہیںحضرت امام مہدی علیہ السلام کے دعوی کے بارے میں بتایا۔اس پر وہ کہنے لگے۔اگر یہ بات ہے تو میں اذان دیا کروں گا اور آپ نماز پڑھایا کریں۔پھر ہم دیکھتے ہیں کون ہے جو آپ کو روکے۔ اس پر ان دونوں بزرگوں نے بیعت کرلی اور بفضل تعالی ان کی نسل آج تک بڑے خلوص کے ساتھ جماعت سے وابستہ رہ کر خدمت دین کی توفیق پارہی ہے۔

روایت ہےکہ شاہ صاحب ایک دعا گو وجود تھے۔گاؤں کےلوگ آپ کو ایک بزرگ مانتے تھے۔ایک دفعہ بارش نہ ہونے کی وجہ سےسب لوگ بہت پریشان تھے۔اس پر نماز استسقاء کے لئے شاہ صاحب کی خدمت میں درخواست کی گئی۔جس پر شاہ صاحب نے یہ گاؤں کی مشرقی جانب ندی کےکنارے نماز استسقاء ادا کی۔نماز میں بہت گریہ و آہ وزاری کی گئی۔کہتے ہیں ابھی نماز ختم نہیں ہوئی تھی کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور جس کے نتیجہ میں ہر سو جل تھل ہوگئی۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا ایک خط آپ کی فیملی کے پاس تھا۔یہ خط مجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب قادیان تشریف لے گئے ہیں۔واپسی سے قبل حضرت اقدس سے ملاقات کے لئے درخواست کی ہے۔جس کے جواب میں آپ علیہ السلام نے بوجہ نا سازی طبع معذرت فرمائی تھی۔

سفرآخرت : مکرم حضرت شاہ صاحب کی وفات 1920ء میں فتح پور میں ہوئی۔ اجتماعی قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔لیکن ان کی قبر پر کتبہ نہ ہونے کی وجہ ان کی شناخت اب ممکن نہیں ہے۔

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

اللہ تعالی ان مقدس بزرگوں اور سعید روحوں کوجنت الفردوس میں ارفع مقام سے نوازے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: منور احمد خورشید (مربی سلسلہ انگلستان))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2020