’’جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرارِ ملکوتی سے حصّہ ہے۔‘‘
(الہام حضرت مسیح موعودؑ 1891ء)
جب ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے مشاہدہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذاہب عالم کے پیروکاروں نے جس جگہ بود و باش کیا وہاں انہوں نے عبادتِ الٰہی کی غرض سے عبادتگاہوں کو بنایا۔ پس خواہ وہ ہندوؤں کے مندر ہوں، بدھ مت کے سٹوپا ہوں، عیسائیوں کے گرجے ہوں، یہودیوں کے معبد ہوں یا رومی و یونانی معبد ہوں جن میں مختلف خدا ؤں کی پوجا کی جاتی تھی، ہر قوم، ہر تمدن بلکہ ہر تہذیب میں ایک ایسی جگہ عبادت کیلئے مخصوص کی جاتی تھی جو لوگوں کی تسکین دل کا باعث بنتی تھیں اور جہاں وہ غور و خوض کرکے وصل یار حاصل کر پاتے۔
بیتِ عتیق
قرآن کریم کے مطابق بیتِ عتیق (خانہ کعبہ) جس کے بارہ میں اب نئی تحقیق کے پیش نظر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بالکل دنیا کے وسط میں واقع ہے خدا تعالیٰ کی عبادت کیلئے سب سےپہلا گھر تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾
یعنی کہ بنی نوع انسان کیلئے جو سب سے پہلا گھر بنایا گیا تھا وہ مکہ معظمہ کے مبارک مقام پر واقع ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر جو لِلنَّاسِ وضع کیا گیا ہے، بنایا گیا ہے مکّہ میں ہے۔ مختلف روایات اور قرآنِ کریم کی آیات میں جو مفہوم مختلف جگہوں میں بیان ہوا ہے اس سے میرے ذہن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب ہمارے آدمؑ کی پیدائش اور بعثت ہوئی (میں نے ہمارے آدم کے الفاظ اس لیے استعمال کیے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لاکھ کے قریب آدم اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں جو آدم سے پہلے گزرے تھے۔ ان کی اولاد میں سے بعض کو اولیائے امّت نے اپنے کشف میں دیکھا بھی ہے جس کا انہوں نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے) اُس وقت دنیا ایک مختصر سے خطہ میں آباد تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے سب انسانوں کے لیے اپنی حکمت کاملہ سے آدم پر یہ وحی فرماکر بیت اللہ کی تعمیر کروائی، ایک گھر بنوایا اور اُس گھر کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ متعلق کردیا جو اُس آدم کی اولاد میں سے تھے۔ لیکن بعد میں جب یہ نسل بڑھی اور پھیلی اور دنیا کے مختلف خطّوں کو انہوں نے آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحانی اور ذہنی نشو و نما کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہر قوم اور ہر خطّہ میں علیحدہ علیحدہ نبی بھیجنے شروع کیے تا ان کو ان راہوں پر چلانے کی کوشش کریں جن راہوں پر چل کر خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اپنی استعداد کے مطابق عبودیّت کی ذمہ داریوں کو نبھا سکتا ہے اور احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ سے اوپر انبیاء گزرے ہیں۔ تو جس آدم کی اولاد اس طرح منتشر اور متفرق ہوگئی تھی علیحدہ علیحدہ قوم بن گئی تھی جن کے اپنے اپنے نبی تھے انہوں نے اس گھر کی طرف توجّہ دینی چھوڑدی جو خدا کا گھر اور تمام بنی نوع انسان کے لیے کھڑا کیا گیا تھا اور اس سے اس قدر بے توجّہی برتی کہ حوادث زمانہ کے نتیجہ میں اور مرمّت اور آبادی نہ ہونے کی وجہ سے اس گھر (بیت اللہ) کے نشان تک مٹ گئے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشا پورا ہونے کا وقت آیا کہ پھر تمام دنیا عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ جمع کردی جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو از سرِ نو تعمیر کرنے اور اس گھر کی حفاظت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور ان کی نسل کو وقف کردینے کا فیصلہ کیا تا ایک قوم اس بیت اللہ سے تعلّق رکھنے والی ایسی پیدا ہوجائے جن کے اندر وہ تمام استعدادیں پائی جاتی ہوں جو اُس قوم میں پائی جانی چاہئیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی پہلی مخاطب ہو۔ چنانچہ اڑھائی ہزار سال تک دعاؤں کے ذریعہ سے اور وقف کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم تیار ہوئی جو اگر خدا تعالیٰ کی بن جائے تو اس کے اندر تمام وہ استعدادیں پائی جاتی تھیں جن سے وہ روحانی میدانوں میں بنی نوع انسان کی راہ نمائی اور قیادت کرسکے اور چونکہ یہ استعدادیں اور قوتیں اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں، ان کے غلط استعمال سے فتنہ عظیمہ بھی پیدا ہوسکتا تھا۔اس لیے جب تک وہ گمراہ رہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدّت سے مخالفت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی ایذا پہنچائی کہ پہلی کسی امّت نے اپنے نبی کو اس قسم کی ایذانہیں پہنچائی۔ غرض ان کے اندر استعدادیں بڑی تھیں۔ ایک وقت تک وہ چُھپی رہیں۔ ایک وقت تک شیطان کا ان پر قبضہ رہا، لیکن جب وہ سوئی ہوئی استعدادیں بیدار ہوئیں اور انہوں نے اپنے ربّ کو پہچانا تو دنیا نے وہ نظّارہ دیکھا کہ اس سے قبل کبھی بھی انسان نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اس قسم کی قربانیوں کا نظّارہ نہیں دیکھا تھا۔ غرض یہ وہ قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قربانیوں اور ان کی دعاؤں اور ان کی نسل کی قربانیوں اور ان کی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 31؍مارچ 1967ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
وَ جُعِلَتْ لِيَ الْأرْضُ مَسْجِدًا
رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’مجھے خدا کی طرف سے پانچ ایسی باتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی اور نبی کو عطا نہیں ہوئیں‘‘ (صحیح بخاری کتاب التیمم)۔ ان میں سے ایک امتیازی نشان یہ تھا کہ تمام زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بطور مسجد بنائی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے ہم اس بات کو اخذ کرتے ہیں کہ تبلیغ اسلام کی کتنی اہمیت ہے اور اس حوالہ سے قیامِ مسجد کی اس میں کتنی ضرورت ہے کہ یہ بھی ایک ذریعہ ہے جس سے تمام دنیا کو اسلام کی سچی، پر امن اور خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا جاسکتا ہے، نیز یہ مساجد وہ جگہیں ہیں جس میں عبادت کرکے انسان خدا تعالیٰ کا سچا عابد بن سکتا ہے۔ پس جیسا کہ حضورؒ نے بتایا کہ مسلمانوں کو عموماً اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصاً اہل مکہ کی سفاکانہ سازشوں اور روّیوں کا نشانہ بننا پڑا لیکن یہ مخالفت کا بازار جو گرم ہو رہا تھا وہ ہر گز مسلمانوں کے دلوں سے اَحَدْکی صدا نہ مٹا سکا اور نہ ہی وہ ان کی عبادتوں میں کوئی خلاء پیدا کرسکا۔ بلکہ ابتداء میں مسلمان ایک گھرجسے ’’دار ارقم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، میں اپنی عبادات کرتے تھے اور احادیث میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سامنے جاکر اپنی عبادات بجالاتے تھے۔پس آفات و مصائب کے بادل کے چھا جانے کے باوجود مسلمانوں نے قیامِ توحید میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنے کا حکم فرمایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہجرت کے دوران جو سب سے پہلا کام آپ نے سر انجام دیا تھا وہ مسجد قبا کی تعمیرتھی۔ مدینہ کے شمال میں 3 میل کے فاصلہ پر یہ شہر قُبا واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیر فرمائی۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَرِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾
(التوبہ: 109)
یعنی کہ پس جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور (اس کی) رضا پر رکھی ہو کیا وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھوکھلے ڈَھے جانے والے کنارے پر رکھی ہو۔ پس وہ اسے جہنم کی آگ میں ساتھ لے گرے اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
بعض راستباز علماءِ سلف نے اس آیت کو اس واقعہ پر تطبیق کیا اور شاید اسی وجہ سے اس مسجد کا دوسرا نام مسجد تقویٰ بھی آتا ہے۔ پس یوں تو اس نازک سی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کو اہمیت دی کیونکہ دراصل یہی ایک تقویٰ کا گہوارہ ہے جس سے انسان روحانی نشوو نما حاصل کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے ساتھ ایک زندہ اور پختہ تعلق قائم کر سکتا ہے۔ پس یہ عظیم فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک مسجد اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لئے ایک اہم بنیاد ہے۔ سو دراصل مسجد ایک ایسی جگہ ہے جو روحانیّت، اخلاقیات اور حصولِ ہدایت کیلئے مختص کردی گئی ہے۔ پھر مدینہ منوّرہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں بھی مساجد بنائی گئیں۔ پس یہ مساجد صرف مسلمانوں کیلئے نہیں تھیں بلکہ ذکر ملتا ہے کہ ایک دفعہ ایک وفد نجران سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے آیا۔ گفتگو کے دوران ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ اس پر آنحضورﷺ نے ان کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت عنایت فرمادی۔پس دراصل یہ مسجد آزادئ مذہب کا پرچار کرنے کا بھی ذریعہ ہیں۔
اِنَّ مَسْجِدِیْ ھَذَااٰخِرُ الْمَسَاجِد
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا کہ اِنِّ مَسْجِدِیْ ھَذَااٰخِرُ الْمَسَاجِد (مرشد ذوی الحجاء و الحاجہ،شرح ابن ماجہ، کتاب الاذان، باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ) یعنی کہ اب جو مساجد تعمیر کی جائیں گی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بر عکس نہیں ہوں گی بلکہ اس آیت کی مظہر ہوں گیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا یعنی ایسی مساجد جس میں اللہ کا بکثرت ذکر کیا جاتا ہے اور صرف اور صرف انتشارِ توحید اور عبادت الٰہی کی غرض سے قائم کی جائیں گی۔ نہ ان کی بنیادیں اس مسجد پر ہوں گی جس کا نام قرآن کریم نے مسجدِ ضرار رکھا یعنی وہ معبد جو ایذا رساں ہو۔ تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد منافقین نے تعمیر کی تھی، جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی مساجد کی بنیادیں غیر اللہ کے نام پر رکھی جائیں گی۔ پس جوں جوں اسلام پھیلتا چلا گیا وہاں وہاں مسلمانوں نے بڑی شاندار اور خوبصورت مساجد سے ان مفتوح جگہوں اور علاقوں کو آراستہ کیا۔ مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے متعلق مسلمانوں کو یہ بھی تنبیہ فرمائی تھی کہ۔۔۔یعنی اس وقت مسجد یں تو بھری ہوئی ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی اور اس کے برعکس فتنہ اور فساد کی آماجگاہوں کی صورت اختیار کرلیں گی۔لیکن اس کے ساتھ اس کا تریاق بھی بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمائے گا جو اسلام کی پژمردہ حالت کو دوبارہ شان و شوکت بخشے گا اور اسلام کا دوسرے ادیان پر غلبہ ثابت کردیگا۔
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کے وقت اسلام کی حالت اس یتیم بچہ کی طرح تھی جس کی کوئی کفالت کرنے والا نہیں تھا۔ مساجد بجائے ہدایت پھیلانے اور مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی بخشنے کے، فتنہ اور فساد کا مرکز بن گئیں تھیں۔پس اس منظر کو دیکھ کر اسلام کو ہر طرف سے نقصان پہنچایا جارہاتھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسلام سے برگشتہ ہو کر عیسائی کلیسیاؤں کے رکھوالی بن گئے تھے۔ مولانا حالی مسلمانوں کی بے چینی کے عالم کی تصویر کشی اپنے ایک شعر میں یوں کرتے ہیں:
؎رہا دین باقی نہ ایمان باقی
ایک اسلام کا رہ گیا نام باقی
(مسدس حالی بند نمبر 108)
پس اس کرب کی حالت میں خدا تعالیٰ کی رحمت نے جوش مارا اور اس نے اپنے جری اللہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا جس نے اسلام کو وہ تقویت دی کہ نہ کوئی عیسائی، نہ کوئی ہندو اور نہ کوئی لا مذہب آپؑ کا مقابلہ کرسکا۔ حضورؑ نے 1883ء (دعوایٴ ماموریت کے ایک سال بعد) میں مسجد مبارک کا سنگِ بنیاد رکھا جس کے بارے میں آپ کو مندرجہ ذیل الہامات ہوئے:
- اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ بَیْتُ الْفِکْرِ وَ بَیْتُ الذِّکْرِ وَ مَنْ دَخَلَہْ کَانَ اٰمِناً
- فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ۔وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِناً
- مُبَارِکٌ وَ مُبَارَکٌ وَّ کُلُّ اَمْرٍمُّبَارَکٍ يُّجْعَلُ فِیْہِ
پھر 1894ء اور 1895ء میں عالمگیر ی طور پر خسوف و کسوف کے نشانات ظہور پذیر ہوئے۔ اس وقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے یہ تحریر فرمایا کہ:
’’وَ قَدْ عَرَفْتَ أنَّ الْاِنْخِسَافَ وَ الْاِنْکِسَافَ تَوَجُّہٌ جَمَالِیّ وَتَجَلّ جَلالِیّ، وَفِیْہِ أنوارٌ لِنشأۃ ثانیۃ، و تَبَدُّلات روحانیۃ و ھو لبنۃ أولٰی لتأسیس نظام الخیر و تعمیر المساجد و تخریب الدیر، و تغلُب فیہ القویٰ السماویۃ علی القوی الأرضیۃ، و الأنوار المسیحیۃ علی الحِیل الدجّالیۃ، و یُری اللّٰہُ خَلْقَہ سراجًا وھّاجًا، فیدخلون فی دین اللہ أفواجًا، و کان قدرًا مقضیًا من ربّ العالمین۔‘‘
(نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد8 صفحہ237-238)
ترجمہ: اور تو پہچان چکا ہے کہ خسوف اور کسوف جمالی اور جلالی تجلی ہے اور یہ تجلی نشأۃ ثانیہ اور تبدلاتِ روحانیہ کے لئے ہے اور یہ نظامِ خیر کی بنیاد کے لئے پہلی اینٹ ہے اور نیز مساجد کی تعمیراور دیر کی خرابی کے لئے اور اس میں آسمانی قوتیں زمینی قوتوں پر غالب آجائیں گی اور مسیحی نور دجالی حیلوں سے بڑھ جائیں گے اور خداتعالیٰ اپنی خلقت کو ایک روشن چراغ دکھائے گا۔ پس وہ فوج در فوج دینِ الٰہی میں داخل ہوں گی۔
اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے تعمیر مساجد کیلئے اپنی جماعت کو ایک زور داراپیل کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور ہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو۔ تب خدا برکت دے گا۔یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصّع اور پکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کردینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔ خدا تعالیٰ تکلّفات کو پسند نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخیں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔ پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان عمارت کا شوق تھا۔ اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتاہے۔ شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔ غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ93)
دنیا بھرمیں مساجد کا قیام
پھر جب آپؑ کا وصال ہوا تو آپؑ کے بعد جاری نظام خلافت نے اس کام کو مزید آگے چلایا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ جہاں بھی مسیحِ محمدی کے متبعین اور پیروکاروں نے بود و باش کیا، وہاں انہوں نے خلفاء کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے، خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کی قربانی پیش کرتے ہوئے، نیز احمدی خواتین نے اپنے زیورات اور کنگن وغیرہ بھی راہ خدا میں پیش کرنے کی سعادت نصیب کرتے ہوئے مساجد تعمیر کیں۔ سو خواہ وہ یورپ ہو،ایشیا ہو، افریقہ ہو یا امریکہ یا جزائر ہوں دنیا کے تمام برّ اعظموں اور کونے کونے میں مساجد تعمیر کی جارہی ہیں،جن سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچار ہو رہا ہے اور جن میں خدا تعالیٰ کی بڑائی اور مجد کا بکثرت ذکر کیا جارہا ہے۔ الحمد للّٰہ اب تک جماعت ہائے احمدیہ کی مساجد کی مجموعی تعداد 20,356 ہے (مشن ہاؤسز کی تعداد اس کے علاوہ ہے)، جس میں سے کچھ مساجد جماعت نے خود تعمیر کیں اور کچھ مساجد بنی بنائی مل گئیں۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔ اب اس کا ایک مختصر نقشہ قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔
افریقہ
بینن: اس ملک میں جماعت کا قیام 1957ء میں ہوا۔ 27؍جنوری 1974ء کو Porto Nova کے مقام پر جماعت احمدیہ بینن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ پھر اسی سال 25؍اگست کو اس مسجد کا افتتاح ہوا۔اب تک اس ملک میں جماعت کی 255 مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔
گھانا: ہاں جماعت کا نفوذ 1921ء کو ہوا۔ Saltpond جو کہ غانا کے جنوب میں واقع ہے تقریباً 50 سال تک جماعت مرکز رہا۔ پھر بعد ازاں 1978ء میں مرکز کو Accra منتقل کردیا گیا جو کہ غانا کا دارالحکومت ہے۔ اب تک اس ملک میں 762سے زائد مساجد ہیں۔
لائبیریا: 1956ءمیں جماعت کا نفوذ اس ملک میں ہوا۔ 24؍جنوری 1984ء میں لائبیریا کے دار الحکومت منروویا میں ایک مسجد پر تعمیری کاروائی شروع ہوئی اور پھر اسی سال یکم جون کواس مسجد کا افتتاح ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے از راہ شفقت اس مسجد کا نام بیت المجیب رکھا۔ اس ملک میں 10 سے زائد مساجد ہیں۔
ماریشس: 1913ءمیں جماعت کا قیام اس ملک میں ہوا۔ پھر دس سال بعد یعنی1923ء میں Rose Hill کے مقام پر جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا افتتاح ہوا۔ اس جماعت میں دس سے زائد مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔
نائجیریا: یہاں پر جماعت کا قیام 1916ء میں ہوا۔ اب تک اس ملک میں 1400 مساجد ہیں۔خلافت احمدیہ کی پہلی صدی کی آخری مسجد اس ملک میں تعمیر ہوئی۔ اس کا نام مسجد مبارک رکھا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے 2008ء کے مغربی افریقہ کے دورہ پر اس کا افتتاح فرمایا۔
سیرا لیون: اس ملک میں جماعت کا قیام1937ءمیں ہوا۔ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے1556 مساجد ہیں جس میں سے کچھ جماعت نے خود تعمیر کروائیں اور باقی بنی بنائی ملیں۔
تنزانیہ: مشرقی افریقہ میں جماعت کا نفوس 1934ءمیں اس ملک میں ہوا۔ گو تو احمدیت کا پیغام اس ملک میں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے مبارک دور میں پہنچ گیا تھا جبکہ Zanzibar میں سلطان ماجد کے عہد میں بغاوت ہو گئی تھی۔ اس کے نتیجہ میں سلطان نے برطانوی گورنمنٹ سے فوجی امداد طلب کی۔ بعد ازاں کچھ سپاہی وہاں بھجوائے گئے جن میں کچھ احمدی افراد بھی شامل تھے۔ اس دوران ان سپاہیوں نے تبلیغِ حق کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ کچھ وقت بعد وہاں چند احمدی کلرک، ڈاکٹرز اور اکاؤنٹنٹس بھجوائے گئے جنہوں نے احمدیت کی خوب تبلیغ کی۔ ان میں سے کچھ صحابہ حضرت مسیح موعودؑ بھی تھے۔ اس ملک میں جماعت کی پہلی مسجد کا افتتاح 1947ء میں ہوا۔ یہ مسجد ’’مشرقی افریقہ کا تاج محل‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا باقاعدہ نام مسجد فضل رکھا۔ اس ملک میں اب تک 232 مساجد ہیں۔ اس ملک کو سیّدنا خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 100 مساجد بنانے کی تحریک بھی فرمائی۔
یوگینڈا: اس ملک میں جماعت کا نفوذ 1935ء میں ہوا۔ اسی سال یوگینڈا کے دارالحکومت کمبالا میں جماعت کی مسجد تعمیر ہوئی۔ پہلی اینٹ قادیان سے منگوائی گئی نیز سنگ بنیاد کی تقریب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی نگرانی میں ہوئی۔ اب تک اس ملک میں 35سے زائد مساجد ہیں۔
ایشیا
بنگلہ دیش: حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے زمانہ میں یعنی 1912ء میں بنگلہ دیش میں جماعت کا قیام ہوا۔ باوجود سخت مخالفت کے اس جماعت کو 30سے زائد مساجد بنانے کی توفیق ملی۔
انڈیا: دیارِ مسیحِ آخر الزمانؑ میں جماعت کا باقاعدہ قیام 1889ء میں ہوا۔ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 2100سے زائد مساجد تعمیر ہوئیں۔ 1876ء میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے مسجد اقصیٰ تعمیر کروائی تھی۔ 1900ء، 1910ء اور 1938ءمیں اس کی توسیع ہوئی، نیز 13؍مارچ 1903ء میں مسجد کے صحن میں مینارۃ المسیح کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کی تکمیل 1916ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کی زیرِ نگرانی میں ہوئی۔ اب تک 571 سے زائد مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔
انڈونیشیا: اس ملک میں جماعت کا قیام 1925ء میں ہوا۔اس ملک میں باوجود سخت مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو 390 سے زائد مساجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔
اسرائیل: مسجد محمود جس کا نام سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے نام پر رکھا گیا جماعت احمدیہ کبابیر کی پہلی مسجد ہے جو کہ 1931ء میں جبلِ مار الیاس (Mount Carmel) پر تعمیر کی گئی۔ پھر 1970ء کی دہائی میں اس کی توسیع کی گئی۔ اس پہاڑ کی تاریخی حوالہ سے بڑی اہمیت ہے۔ بائیبل کی رو سے اس پہاڑ پر حضرت الیاسؑ ایک غار میں جاکر عبادت کیا کرتے تھے نیز اسی پہاڑ پر انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔
یورپ
ڈنمارک: اس ملک میں جماعت کا نفوذ 1959ء میں ہوا۔ 1964ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت سیّدہ امّ متینؓ صدر لجنہ اماء اللہ نے اپنے خطاب میں لجنہ سے خلافتِ ثانیہ کے 50 سال مکمل ہونے کے سلسلہ میں ایک مسجد کیلئے صدقہ و خیرات پیش کرنے کی اپیل فرمائی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ مجوّزہ پلاٹ ڈنمارک میں ہے۔ چنانچہ اس اپیل پر لجنہ خواتین نے لبیک کہتے ہوئے 600,000 روپیہ اکٹھا کیا۔ بعد ازاں 6؍مئی 1966ء کے دن صاحبزادہ مرزا مبارک صاحب وکیل التبشیر نے نصرت جہاں مسجد کا سنگ بنیاد ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں رکھا۔ پھر ایک سال بعد 21؍جولائی 1967ء کادن آیا جو جماعت احمدیہ ڈنمارک کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مسجد نصرت جہاں کا افتتاح فرمایا اور پہلا جمعہ پڑھایا۔
فرانس: اس ملک میں جماعت کا قیام 1946ءمیں ہوا۔جماعت کی پہلی مسجد کا افتتاح سیدنا خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 10؍اکتوبر 2008ء کو فرمایا۔ اس موقع پر حضور نے فرمایا:
’’مجھے آنے سے پہلے ماجد صاحب نے بتایا کہ 28؍دسمبر 1984ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے دورہ فرانس کے دوران اپنے اس کشفی نظارہ کا پہلی دفعہ ذکر کیا تھا جس میں گھڑی پردس کے ہندسےکو چمکتے دیکھا تھا اور آپ کے ذہن میں اس کے ساتھ آیا تھا کہ یہ Friday the 10th کی تاریخ ہے۔ وقت نہیں ہے۔ تو آج بھی اتفاق سے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ Friday the 10th ہے اورفرانس کی پہلی مسجد کا افتتاح ہورہا ہے۔‘‘
جرمنی: جرمنی میں جماعت کا نفوذ 1923ء میں ہوا۔ جماعت احمدیہ جرمنی کی سب سے پہلے مسجد، مسجد فضلِ عمر تھی جس کا سنگ بنیاد 1957ء میں رکھا گیا۔ پھر جماعت کی صد سالہ جوبلی کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ جرمنی جماعت وہ پہلا یورپین ملک ہو جہاں جماعت کو 100 مساجد تعمیر کرنے کی سعادت نصیب ہو۔ پس اس حوالہ سے اب تک جماعت کی 76 مساجد تعمیر ہوگئی ہیں اور دنیا ہر سال دیکھتی ہے کہ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے بابرکت دورہ جات کے دوران جرمنی میں یا تو نئی مساجد کا افتتاح کرتے ہیں اور یا تو نئی مساجد کی سنگِ بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں۔
ہالینڈ: اس ملک میں جماعت کا قیام 1947ءمیں ہوا۔ 12؍مئی 1950ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین سے ہالینڈ کی مسجد کیلئے صدقہ و خیرات پیش کرنے کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ سنگ بنیاد 20؍مئی 1953ء کو رکھا گیا اور 9؍دسمبر 1955ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے مسجد کا افتتاح فرمایا۔ یہ مسجد خالصتاً لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیوں سے تعمیر کی گئی۔
ناروے: 1957ء میں جماعت کا اس ملک میں قیام ہوا۔ گو تو اس ملک میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یکم اگست 1980ء کو Oslo میں مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا تھا اور اس کا نام مسجد نور رکھا لیکن 30؍ستمبر 2011ء کو سیّدنا خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیت النصر کا افتتاح فرمایا جو کہ ایک باقاعدہ مسجد ہے اور مغربی یورپ کی دوسری بڑی مسجد کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بھی اوسلو میں واقع ہے۔
اسپین: اس ملک میں تاریخ اسلام کی داستانیں قلمبند ہیں۔ پس جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس وقت جب یورپ ایک تاریکی کےدور میں سے گزر رہا تھا اس کے بر عکس اسلام ایک زریں دور میں سے گزررہا تھا اور سپین کو مختلف علوم و فنون کو حاصل کرنے کیلئے بطور مرکز جانا جارہا تھا۔ مختصر یہ کہ جب مسلمانوں کے آپس کے تعلقات بگڑ گئے اور ان کی حکومت میں تفرقہ اور پھوٹ پیدا ہوگیا تو عیسائیوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خودتخت نشین ہوگئے۔ پس 10؍اکتوبر 1980ء سر زمینِ سپین کے لئے ایک تاریخی دن کا حامی ہے کیونکہ اس دن تمام امّت مسلمہ کیلئے ایک خوشخبری کا دن تھا جب 700 سال کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پیدروآباد کے مقام پر مسجد بشارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ پھر 10؍ستمبر 1982ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے اس مسجد کا افتتاح فرمایا۔اسپین میں جماعت کی دوسری مسجد 2013ء میں بالینسیا کے مقام پر تعمیر کی گئی، اس کا نام حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے بیت الرحمٰن رکھا۔
یوکے: اس ملک میں جماعت کا قیام 1912ء میں ہوا۔ فضل مسجد کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ 1920ء کی دہائی میں حضرت مصلح موعودؓ نے برلن کی مسجد کیلئے تحریک فرمائی تو اس وقت خواتین جو کہ تعداد میں کم تھیں ایک ماہ کے عرصہ کے اندر اندر اپنی زیورات اور گھر کا ساز و سامان قربان کرکے 100,000 روپے اکٹھے کیے۔ جب جرمنی حکومت نے کچھ روکیں حائل کردیں تھیں جس کی وجہ سے مسجد کا پلاٹ جماعت نے فروخت کردیا اور اس نتیجہ میں 50,000روپے مزید مل گئے۔ چنانچہ کل 150,000روپے مسجد فضل کے تعمیری کام پرصرف ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1924ء میں یوکے کا دورہ کیا۔ اس سلسلہ میں آپؓ نے 24؍اکتوبر کو مسجد فضل کا سنگ بنیاد رکھا، نیز خطبہ جمعہ بھی پڑھایا۔ اس کا افتتاح شیخ عبد القادر صاحب نے 13؍اکتوبر 1926ء کو کیا جو کہ لیگ آف نیشنز کے بھارتی وفد کے رکن تھے۔ اس مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں چار خلفاء نے نمازیں پڑھائی ہیں۔ جماعت احمدیہ یوکےکی دوسری مسجد بیت الفتوح کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے 19؍اکتوبر 1999ء کو رکھاتھا اور پھر اس کا افتتاح سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 13؍اکتوبر 2003ء کو فرمایا۔ یہ مسجد مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ The Independent Magazine میں اس مسجد کو دنیا کی پچاس جدید عمارات میں شمار کیا گیا۔ اس وقت یوکے میں 26 مساجد موجود ہیں۔
شمالی امریکہ
کینیڈا: 1963ء میں جماعت کا قیام اس ملک میں ہوا۔ 20؍ستمبر 1986ءکو حضرت خلیفہ المسیح الرّابعؒ نےکینیڈا کی پہلی مسجد، مسجد بیت الاسلام کا سنگ بنیاد ٹورنٹو کے مقام پر رکھا۔ پھر تقریباً چھ سال بعد 17؍اکتوبر 1992ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے اس کا افتتاح فرمایا۔ ملک بھر کے بلدیات نے اس دن کو Ahmadiyya Mosque Day قرار دیا، نیز اس ہفتہ کو ’’Ahmadiyya Mosque Week‘‘ قراردیا۔ اس مسجد کے علاوہ دو باقاعدہ مساجد کیلگری اور وینکوور میں تعمیر ہوئی ہیں۔
یو۔ایس۔اے: اس ملک میں جماعت کا قیام 1920ءمیں ہوا جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے جلیل القدر صحابی حضرت مفتی محمد صادقؓ صاحب تبلیغ اسلام کیلئے امریکہ پہنچے۔ اسی سال حضرت مفتی محمد صادقؓ صاحب نے Chicago میں ایک مشن ہاؤس خریدا جس کا نام بعد میں مفتی صاحبؓ کی یاد میں الصادق مسجد رکھا گیا اور یہ جماعت کیلئے بطور مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد 1952ء میں امریکہ کی جماعت نے Dayton, Ohio میں ایک پلاٹ لیا اور بعد ازاں 1972ء میں جماعت کی پہلی باقاعدہ مسجد تعمیر ہوئی۔ 1994ء میں جماعت کا مرکز Silver Spring, Maryland منتقل کردیا گیا جہاں 1980ء کی دہائی میں 8.75 Acres زمین خریدی گئی اور پھر 1994ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے مسجد بیت الرحمٰن کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔ اس ملک میں 40 سے زائد مساجد ہیں۔
جنوبی امریکہ
گوئٹے مالا: اس ملک میں جماعت کا باقاعدہ قیام صد سالہ جوبلی کے سال یعنی 1989ء میں ہوا۔ اسی سال 3؍جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے گوئٹے مالا کی پہلی مسجد بیت الاوّل کا افتتاح فرمایا۔
گیانا: جماعت کا قیام 1956ءمیں اس ملک میں ہوا۔ یہاں ایک مسجد ہے بیت النّور لیکن اس کی سنگِ بنیاد یا افتتاح کی تاریخ دستیاب نہ ہوسکی۔
سرینام: اس ملک میں بھی جماعت کا قیام 1956ء میں ہوا۔ اس ملک میں دو مساجد ہیں۔ سب سے پہلی مسجد بیت النّاصر 1971ء میں تعمیر ہوئی اور دوسری مسجد کا افتتاح 19؍فروری 1984ء میں ہوا۔
ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو: اس ملک میں جماعت کا نفوذ 1952ء میں ہوا۔ جماعت کی پہلی مسجد، مسجد رحیم کا 1959ء میں افتتاح میں ہوا۔ اس ملک میں اب تک پانچ سے زائد مساجد ہیں۔
مشرق بعید
آسٹریلیا: جماعت کا نفوس 1920ءکی دہائی میں اس ملک میں ہوا۔ اس ملک کے پہلے احمدی حضرت صوفی حسن خان صاحبؒ نے تحریری طور پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ جماعت کی پہلی مسجد بیت الہدیٰ کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے 30؍ستمبر 1983ء کو رکھا۔ پھر 14؍جولائی 1989ء کو اس مسجد کا افتتاح فرمایا۔ ابھی تک اس ملک میں 5 باقاعدہ مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔
فجی: اس ملک میں جماعت کا قیام 1960ء میں ہوا۔ جماعت کی پہلی مسجد، مبارک مسجد کا افتتاح 17؍دسمبر 1965ء کو شیح عبدالوحید صاحب نے کیا۔ جنوبی پیسیفک کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے اپنے پہلے مشرقِ بعید کے دورہ کے دوران موٴرخہ 18؍ستمبر 1983ء کوفرمایا۔ اس مسجد کا نام فضلِ عمر رکھاگیا۔ اب تک اس ملک میں تقریباً آٹھ مساجد ہیں۔
نیو زی لینڈ: یہاں کی جماعت 1987ءمیں قائم ہو ئی۔ اس ملک کے سب سے پہلے احمدی Professor Clemrent Wragge تھے جن کو لاہور میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے مئی 1908ء میں ملاقات کا شرف ملا اور بعد میں احمدی ہوگئے تھے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موٴرخہ یکم نومبر 2013ء کو اپنے مشرقِ بعید کے دورہ کے دوران Auckland کے مقام پر نیوزی لینڈ کی پہلی مسجد بیت المقیت کا افتتاح فرمایا۔
(نوٹ: ان مساجد کی تعداد میں جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے دوسرے دن کے خطاب کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ یہ خطاب الفضل آن لائن مؤرخہ 25؍نومبر 2022ء کی زینت بنا ہے)
خلفائے احمدیت کے زریں ارشادات
برائے قیام مسجد
• حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کسی کی طاقت مسجد کے متعلق ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خدا ہی کا نام لیتا ہے۔ ایسا کرکے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے۔ بارہویں صدی تک اسلام کی مسجدیں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سنی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں۔ پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اب تو کوئی حساب ہی نہیں۔ ان لوگوں کو یہ شرم نہ آئی کہ مکہ کی مسجد تو ایک ہی ہے اور مدینہ کی بھی ایک ہی۔ قرآن بھی ایک، نبی بھی ایک، اللہ بھی ایک، پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں؟ ان کو چاہئے کہ مسجدوں میں خوف الٰہی سے بھرے داخل ہوتے۔‘‘
(خطبات نور صفحہ 390، خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 1909ء)
• حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’بیشک اسلام میں مساجد بھی ہیں لیکن وہ مساجد اس لیے نہیں کہ وہ جگہیں نماز کے لیے زیادہ مناسب تھیں بلکہ مساجد صرف اس لیے ہیں کہ کسی نہ کسی جگہ پر لوگوں کو جمع ہوکر اجتماعی طور پر خدا تعالیٰ کی عبادت کریں وہ مسجد کہلاتی ہے اس کے لیے کسی شکل کی ضرورت نہیں نہ وہاں کوئی آلٹر ہے نہ مقدسوں کی کوئی نشانیاں ہیں سادگی سے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں ان کی عبادت تمام دنیوی آلائشوں سے منزّہ اور پاک ہوتی ہے۔ کوئی باجا نہیں ہوتا کوئی گانا نہیں ہوتا۔ کوئی ناچ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جبّے پہن کر پادری نہیں آتے۔ شمعیں جلائی نہیں جاتیں۔ سریلے ارغنونوں اور خوشبودار دھونیوں سے لوگوں کے دماغوں کو مسحور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ کھڑکیوں کے آگے لٹکے ہوئے پردے انسان کو ایک تاریک ماحول پیش کرکے ڈرانے کی کوشش نہیں کرتے۔بزرگوں کی تصویریں انہیں خدا تعالیٰ کی جگہ اپنی طرف بلا نہیں رہی ہوتیں۔ سب مسلمان وقت مقررہ پر ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں اور صفیں باندھ کریہ بتانے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جہاں ہم اپنے گھروں میں انفرادی نمازیں پڑھ کر آئے ہیں وہاں ہم قومی طور پر بھی خدا تعالیٰ کی عبادت قائم کرنے کیلئے حاضر ہیں بغیر کسی باجے گا جے کے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس کی ثنا کرتے ہیں اور اُس کے حضور میں دعائیں کرتے ہیں اور اپنی اصلاح اور روحانی اور جسمانی ترقی اور اپنے دوستوں اور عزیزوں اور باقی سب دنیا کی جسمانی اور روحانی ترقی کے لیے اس کے سمانے درخواستیں کرتے ہیں۔ ان کی اس سادہ نماز کی شان یہ ہوتی ہے کہ نماز کے وقت میں کوئی مومن اِدھر اُدھر نہیں دیکھ سکتا نہ نماز میں کسی اور سے بات کرسکتا ہے۔ غریب اور امیر ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے ساتھ اس کا خادم کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے اُس کا کنّاس بھی اُس کے ساتھ کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے۔ نماز کے وقت میں ایک جج اور ایک مجرم۔ ایک جرنیل اور ایک سپاہی پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کی طرف انگلی نہیں اُٹھا سکتا کوئی کسی کو اس کی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹاسکتا۔ تمام کے تمام خاموشی سے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور امام کے اشارے پر رکوع اور سجود اور قیام کے احکام کو پوراکرتے ہیں بعض وقت امام قرآن شریف کی آیتیں بلند آواز سے پڑھتا ہے تاکہ ساری جماعت ایک خاص نصیحت کو اپنے سامنے لے آئے اور نماز کے بعض حصوں میں ہر شخص اپنے اپنے طور پر مقررہ دعائیں یا وہ دعائیں جن کو وہ چاہتا ہے ادا کرتا ہے۔ مساجد مسلمانوں کے اجتماع کی جگہ بھی ہیں اور مساجد مسلمانوں کے تمام قسم کےمذہبی اور علمی کاموں کو سر انجام دینے کی جگہ بھی ہیں۔ مساجد اُن کے مدارس بھی ہیں اور مساجد اُن کے نکاح خانے بھی ہیں اور مساجد اُن کی قضا اور فیصلہ کے مقام بھی ہیں جہاں اُن کے مقدمات کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور مساجد جنگی اور اقتصادی تدابیرکےفیصلہ کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ نماز کے علاوہ ایک قسم کی عبادت جس میں ذکرِالٰہی کیا جاتا ہے وہ بھی ہے جبکہ انسان خاموشی سے بیٹھ کر اُس کو یاد کرتا ہے اور اس کی صفات کو اپنے دل میں جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ294)
• حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے 31؍مارچ سے لے کر 16؍جون 1967ء تک ایک خطبات کا سلسلہ شروع کیا جس میں آپؒ نے تعمیرِ بیت اللہ کے 23 مقاصد کابڑی گہرائی میں ذکر فرمایا۔ ان خطبات کو کتابی شکل میں ’’تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد‘‘ کے نام سے طبع کیا گیا ہے۔ 26؍مئی 1967ء کے خطبہ جمعہ میں آپؒ نے فرمایا:
’’بیت اللہ ایک مرکزی نقظہ ہے اور ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمہیں اس کے اظلال بھی بنانے پڑیں گے، یعنی اس کی نقل میں انہی مقاصد کےحصول کے لیے اسی قسم کی پاکیزگی اور طہارت کو پیدا کرنے کے لیے جگہ جگہ پر ایسے مراکز کھولنے پڑیں گے، جو بیت اللہ کے ظل ہوں گے اور ان کے قیام کی غرض وہی ہوگی، جو بیت اللہ کے قیام کی غرض ہے۔‘‘
• حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مسجد کی ظاہری تعمیر کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ جہاں تک ظاہری شان و شوکت کا تعلق ہے ہم تو اس میدان کے کھلاڑی ہی نہیں ہیں، نہ اس سے ہمیں کوئی فرق پڑتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں دیکھو! فلاں نے کتنی شاندار مسجد بنوائی ہے، ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے بہت شاندار بنوائی ہوگی لیکن ہمیں تو وہ شان چاہئے جس پر اللہ کے پیار کی نظر پڑے جسے خدا کے انبیاء کا دستور العمل شاندار قرار دے اور وہ شاندار عمارت تو جیسا کہ میں نے بتایا بڑی غریبانہ حالت میں تعمیر ہوئی تھی۔‘‘ حضورؒ کا اشارہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا جس کا آپؒ نے آگے کرکے یوں ذکر کیا: ’’دوسری طرف ایک اورعمارت تھی اگر یہ اول المساجد تھی (یعنی خانہ کعبہ) تو وہ آخر المساجد کہلائی اور وہ مسجد نبویؐ تھی جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں تعمیر فرمائی اور اس مسجد کی شان بھی سن لیجئے کہ کیا تھی۔ گھاس پھوس کی چھت تھی، فرش پر کوئی ٹائل نہیں تھے کوئی پختہ اینٹیں نہیں تھیں۔بارش ہوتی تو چھت ٹپکتی تھی تو کیچڑ ہوجاتا تھا اور اس کیچڑ میں سجدہ کرتے وقت لوگوں کے ماتھے اور ناک کیچڑ سے لت پت ہوجاتے تھے لیکن وہ مسجد خدائی نظر میں جو شان رکھتی تھی کسی دوسری مسجد کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍ستمبر 1983ء بمقام مسجد احمدیہ ناصر آباد سندھ)
ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ
اس مضمون کے آخر پر میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے چند ارشادات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو آپ نے مسجد مریم، آئرلینڈ کے افتتاح کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ہر مسجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اس مسجد میں آنے والے کا دل ہر قسم کے ظلموں اور حقوق غصب کرنے کے خیالات سے پاک ہے۔ یہ ہماری مساجد اس بات کا نشان اور مرکز ہیں کہ یہاں آنے والے دوسروں کے حقوق ادائیگی کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے والے ہیں اور ان حقوق کی ادائیگی کے لئے قربانی کرنے کے لئے جہاں اپنوں کے لئے ان کے دل رحم کے جذبات سے پُر ہیں وہاں دشمن کی دشمنی بھی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حق کی ادائیگی سے نہیں روکتی۔ یہ مساجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں یہ اس بات کا اعلان ہیں کہ مذہبی آزادی کا سب سے بڑاعلمبردار اسلام ہے اور اس کے اظہار کے لئے ہماری مسجدوں کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔ ہر شخص جو خدا کی عبادت کرتا ہے اسے مسجد میں عبادت کرنے میں کوئی روک نہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ ہماری مساجد اور اس میں آنے والا ہر احمدی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق ہر حقیقی مسلمان پر تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور فرض ہے اور اس ذمہ داری کا اداکرنا اس کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنی مسجد کی حفاظت کرنا۔ ہماری مسجد ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتی ہیں کہ مومن کے ایمان کا حصہ ملک سے وفاداری بھی ہے۔ ایک مومن اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ملک و قوم کا وفادار نہ ہو۔‘‘
• آپ نے مزید فرمایا: ’’میں نے شروع میں جو آیت (سورۃ توبہ آیت 18) تلاوت کی تھی اس میں بھی خدا تعالیٰ نے مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اس آیت کی وسعت خانہ کعبہ سے نکل کر ہر اس مسجد تک پھیلتی چلی جاتی ہے جو ان خصوصیات کے حامل لوگوں سے آباد ہوتی ہے جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ جو ایمان لانے والوں میں شامل ہیں۔ ان مومنوں میں شامل ہیں جن کے ایمان کے معیار اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائے ہیں۔ فرمایا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ۔ یعنی مومنوں کی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ کوئی دوسری دنیاوی محبت ان پر غالب نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ دنیاوی مفاد کو حاصل کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھول جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ یہ نہیں کہ اپنے کام کے بہانے کرکے نمازوں کو انسان بھول جائے۔ مالی مفادکا فائدہ اٹھانے کے لئے جھوٹ کا سہارالے لے۔ یہ کام کرتے وقت انسان کو سو چنا چاہئے کہ میری محبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ہے یا دنیاوی مفادات سے؟ اگر دنیاوی چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دُور لے جارہی ہیں تو دنیا کی محبت غالب آرہی ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے۔ وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔‘‘
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مساجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز اس سے ایک پختہ تعلق پیدا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
(ربیب احمد مرزا۔مبلغ سلسلہ ایم ٹی اے شعبہ ترجمانی لندن)