• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍جنوری 2023ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍جنوری 2023ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی الله عنہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں ایک رؤیا کا ذکر فرماتےہوئے آخر پر لکھاکہ خدا تعالیٰ بہت سے اُن کے قائمقام پیدا کر دے گا، آپؑ نے اپنی رؤیا سے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ مجھے امید ہے کہ آپؓ کی شہادت کے بعد الله تعالیٰ بہت سے اُن کے قائمقام پیدا کر دے گا، ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر اِس کا نمونہ دکھا دیا اور قائمقامی کا حق ادا کر دیا ہے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ، سورۃ الفاتحہ نیز سورۃ البقرہ کی آیات 155 تا 157 کی تلاوت باترجمہ پیش کرنے کے بعد ارشاد فرمایا! الله تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے بارہ میں یہ اُس کا فرمان ہے کہ وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔

الله تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی

جماعت احمدیہ میں گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے الله تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں پیش کی جا رہی ہیں، کیا اُن کی قربانیاں رائیگاں گئیں؟ نہیں! بلکہ جہاں الله تعالیٰ بمطابق اپنے وعدہ اِن شہداء کے مقام کو بلند کرتا رہا وہاں جماعت کو پہلے سے بڑھ کر ترقیات سے نوازتا رہا۔اِن شہیدوں نے جہاں اگلے جہان میں وہ مقام پایا جو اُنہی کا حصہ ہے اور اُن کے درجات ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہیں، وہاں اِس دنیا میں بھی ہمیشہ کے لئے اُن کے نام روشن ہیں اور اِن کا الله تعالیٰ کی راہ میں جان دینا نہ صرف اپنے لئے بلکہ جماعت کی زندگی کا بھی باعث بن رہا ہے۔ یہی تو ہیں جو پیچھے رہنے والوں کی زندگی اور ترقیات کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں، پھر وہ مُردہ کس طرح ہو سکتے ہیں؟

بعد میں آکر پہلوں سے سبقت لے گئے

اپنی دنیاوی زندگیوں کی قربانی دے کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے والے بن گئے ہیں، جنہوں نے جان، مال، وقت کو قربان کرنے کا جب عہد کیا تو پھر نبھایا اور ایسا نبھایا کہ بعد میں آکر پہلے آنے والوں سے سبقت لے گئے، الله تعالیٰ اِن میں سے ہر ایک کو اُن بشارتوں کا وارث بنائے جو الله تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانیاں کرنے والوں کو دی ہیں۔

تفصیلات المناک واقعہ شہادت

برکینا فاسو کا شہر ڈوری جہاں مہدی آباد نئی آبادی قائم ہوئی تھی وہاں جماعت ہے، گیارہ جنوری کوعشاء کے وقت نو احمدی بزرگوں کو مسجد کے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام احمدیت سے انکار نہ کرنے کی بناء پر ایک ایک کر کے شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ! رپورٹ کے مطابق بوقت عشاء چار موٹر سائیکلوں پر آٹھ مسلح دہشت گردمسجد میں آئے تو آذان ہو رہی تھی، اُس وقت تک کچھ نمازی آ چکے تھے اور باقی ابھی آ رہے تھے، آذان ختم ہونے کےبعد دہشت گردوں نے مؤذن سے احباب کے مسجد میں جلد آنے کا اعلان کروایا کہ کچھ لوگ آئے ہیں اُنہوں نے بات کرنی ہے۔ جب نماز کا وقت ہو گیا تو امام ابراہیم بدگا صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمیں نماز پڑھ لینے دیں لیکن اُنہوں نے اجازت نہ دی۔ اُنہوں نے امام صاحب سے جماعت احمدیہ کے عقائد کے متعلق کافی سوالات کئے جن کے جوابات امام صاحب نے تسلی اور بہادری سے دیئے اور بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور آنحضرت صل الله علیہ و سلم کو ماننے والے ہیں، حضرت عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام امام مہدی اور مسیح موعود کے طور پر آئے ہیں۔ آخر پر مسلح افراد نے یہ باتیں سن کر کہا کہ احمدی مسلمان نہیں بلکہ پکے کافر ہیں اور نعوذ بالله! آپؑ کے دعویٰ کو جھوٹا قرار دیا۔

میرا سر قلم کرنا ہے تو کر دیں لیکن مَیں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا

پھر دہشت گردوں نے مسجد میں موجود احباب و خواتین سمیت ساٹھ سے ستّر نمازیوں میں سے بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے الگ الگ گروپ بنائے، بلحاظ عمر گروپس بنانے کے بعد اُنہوں نے بڑی عمر کے افراد سے مسجد کے صحن میں آنے کا کہا، اُس وقت دس انصار مسجد میں موجود تھے جن میں سے ایک معذور کو یہ کہہ کر بٹھا دیا گیا کہ تم کسی کام کے نہیں ہو بیٹھے رہو ۔ مسجد کے صحن میں کھڑا کر کے امام ابراہیم بدگا صاحب سے کہا! اگر وہ احمدیت سے انکار کر دیں تو اُنہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا:میرا سر قلم کرنا ہے تو کر دیں لیکن مَیں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا، جس صداقت کو مَیں نے پا لیا ہے اِس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ، ایمان کے مقابلہ میں جان کی حیثیت کیا ہے؟ اُنہوں نے امام صاحب کی گردن پر بڑا چاقو رکھا اور اُن کو لِٹا کر ذبح کرنا چاہا لیکن مزاحمت اور کہنے پر کہ مَیں لیٹ کر مرنے کی نسبت کھڑے رہتے ہوئے جان دینا پسند کروں گا، امام صاحب کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔

سب احمدی بزرگوں نے پہاڑوں جیسی استقامت کا مظاہرہ کیا

امام صاحب کو بےدردی سے شہید کرنے کے بعد دہشت گردوں نے خیال کیا کہ باقی لوگ خوفزدہ ہو کر ایمان سے پھر جائیں گے، چنانچہ اُنہوں نے اگلے احمدی بزرگ سے کہا کہ احمدیت سے انکار کرنا ہے یا تمہارا بھی وہی حشر کریں جو تمہارے امام کا کیا ہے؟ اُس بزرگ نے بڑی دلیری اور بہادری سے کہا کہ احمدیت سے انکار ممکن نہیں ہے، جس راہ پر چل کر ہمارے امام نے جان دی ہے ہم بھی اِسی راہ پر چلیں گے۔ اِس پر اُنہیں بھی سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔پیچھے رہ جانے والے افراد سے بھی فردًا فردًا یہی مطالبہ کیا گیا کہ امام مہدیؑ کا انکار کر دیں اور احمدیت چھوڑ دیں تو اُنہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور زندہ چھوڑ دیا جائے گا۔سب احمدی بزرگوں نے پہاڑوں جیسی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرأت اور بہادری سے شہادت کو گلے لگانا قبول کر لیا، کسی ایک نے بھی زرا سی کمزوری دکھائی اور نہ ہی احمدیت سے انکار کیا، ایک کے بعد ایک شہید گرتا رہا لیکن کسی کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر یقین محکم اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور ایمان کا عَلم بلند رکھتے ہوئے الله کے حضور اپنی جانیں پیش کر دیں۔

ہر شہید کو کم و بیش تین گولیاں ماری گئیں

نو شہداء میں دو جڑواں بھائی بھی شامل تھے، جب آٹھ افراد کو شہید کیا جا چکا تو آخر پر سب شہداء سے چھوٹے چوالیس سالہ آگوما آگ عبدالرحمٰن صاحب سے دہشت گردوں نے پوچھا کہ تم جوان ہو، احمدیت سے انکار کر کے اپنی جان بچا سکتے ہو۔ اُنہوں نے بڑی شجاعت سے جواب دیا: جس راہ حق پر چل کر میرے بزرگوں نے قربانی دی ہے، مَیں بھی اپنےامام اور بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ایمان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں، اِس پر اُنہیں بھی بڑی بے دردی سے چہرہ پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ دہشت گردوں کے مسجد میں آنے سے لے کر سوال و جواب، عقائد پر تفصیلی بحث اور ساری کاروائی کر کے مسجد سے نکلنے تک کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بنتا ہے، اِس دوران بچے اور باقی افراد جس کرب اور تکلیف سے گزرے ہوں گےاُس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اُن کے سامنے اُن کے بزرگوں کو شہید کیا جا رہا تھا۔

تدفین شہداء

دہشت گردوں نے مسجد میں ڈیڑھ گھنٹہ گزار کر اِس قدر خوف کی فضاء پیدا کی تھی کہ جس مقام پر شہادتیں ہوئیں شہداء کی نعشیں رات بھر وہیں پڑی رہیں کیونکہ خدشہ تھا کہ دہشت گرد گاؤں سے باہر نہیں گئے اور اگر کوئی نعش اٹھانے گیا تو اُسے بھی مار دیا جائے گا، قریبی آرمی کیمپ سے باوجود اطلاع کے کوئی آیا اور نہ ہی اسکیورٹی اداروں کا کوئی فرد صبح تک وہاں پہنچا، شہداء کی تدفین 12؍جنوری کی صبح دس بجے پھر مہدی آباد میں کر دی گئی۔

احمدیت کے نو چمکتے ستارے

مزید برآں حضورانورایدہ الله نے مختصرًا اِن شہداء بالترتیب اڑسٹھ سالہ امام الحاج ابراہیم بدگا صاحب، اکہتر سالہ جڑواں بھائیوں الحسن آگمالی ائیل صاحب و حسین آگمالی ائیل صاحب (زعیم انصار الله ڈوری)، سڑسٹھ سالہ عبدالرحمٰن آگ حمیدو صاحب، سڑسٹھ سالہ صُلح آگ ابراہیم صاحب، انسٹھ سالہ عثمان آگ سودے صاحب، ترپن سالہ آگالی آگماگوئیل صاحب، ترپن سالہ موسیٰ آگ ادراہی صاحب اور چوالیس سالہ آگوما آگ عبدالرحمٰن صاحب (نائب امام الصلوٰۃ مہدی آباد) کا تعارف پیش کیا نیز ارشاد فرمایا! یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں، اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ کر گئے ہیں، الله تعالیٰ اِن کی اولادوں اور نسلوں کو بھی اخلاص و وفاء میں بڑھائے۔ دشمن سمجھتا ہے کہ اِن کی شہادتوں سے یہ اِس علاقہ میں احمدیت ختم کر دے گا لیکن پہلے سے بڑھ کر اِنْ شَآءَ اللهُ احمدیت یہاں بڑھے اور پنپے گی۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل: ببات کفالت خاندان شہداء حسب سابق سیّدنا بلال فنڈ کی مدّ میں ادائیگی کی یادہانی کروانے کے بعدحضور انور ایدہ الله نے دو مخلص موصیان ڈاکٹر کریم الله زیروی صاحب و اہلیہ امة الطیف زیروی صاحبہ آف امریکہ دختر (امة الرشید شوکت صاحبہ مدیر مصباح ربوہ و ملک سیف الرحمٰن صاحب) کا تذکرۂ خیر کیا نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک بشمول شہداء اِن مرحومین کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی