• 24 اپریل, 2024

میرے آقائے دو جہانؐ کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آج کل پریس اور دوسرا الیکٹرونک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ جو ہے، اس پر مسلم اور غیر مسلم دنیا میں ایک موضوع بڑی شدت سے موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور یہ ہے ناموسِ رسالت کی پاسداری یا توہینِ رسالت کا قانون۔ ایک سچے مسلمان کے لئے جو حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے سخت بے چینی کا باعث ہے کہ کسی بھی رسول کی، کسی بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اہانت کی جائے اور اس کی ناموس پر کوئی حملہ کیا جائے۔ اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا سوال ہو جنہیں خدا تعالیٰ نے افضل الرسل فرمایا ہے تو ایک حقیقی مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی گردن تو کٹوا سکتا ہے، اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے تو دیکھ سکتا ہے، اپنے مال کو لٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ کی توہین تو ایک طرف، کوئی ہلکا سا ایسالفظ بھی نہیں سن سکتا جس میں سے کسی قسم کی بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔

بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا مسلم دنیا میں، خاص طور پر پاکستان میں بعض حالات کی وجہ سے یہ موضوع بڑا نازک موڑ اختیار کر گیا ہے اور اس وجہ سے دنیا کی نظریں آج کل پاکستان پر گڑی ہوئی ہیں۔ علاوہ اور بہت ساری وجوہات کے یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اور مغربی ممالک کے بعض سربراہان بھی اور پوپ بھی اس حوالے سے پاکستان کی حکومت سے مطالبات کر رہے ہیں۔ آج کل یہ مغربی یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک پریس میں مسلمانوں کو اور اسلام کو ایک بھیانک، شدت پسند، عدمِ برداشت سے پُر گروہ اور مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دنیا میں پاکستان، افغانستان یا بعض اور مسلم ممالک کی مثالیں اس حوالے سے بہت زیادہ دی جانے لگی ہیں۔ بہر حال مَیں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ ناموسِ رسالت کے قانون کی مسلمانوں کے نزدیک کتنی اہمیت ہے؟ اور اس کی کیا قانونی شکل ہونی چاہئے؟ یا اس حوالے سے غیر مسلم دنیا کیا فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اور بعض حالات میں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے۔

مَیں تو آج صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر اگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِیْنَ (الحجر:96) یقیناً ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافی ہیں، کی گرفت میں آ جائے گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر لے گا۔ میرے آقائے دو جہانؐ کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ آپؐ کے مقام، آپؐ کے مرتبے، آپؐ کی عزت کو ہر لمحہ بلند تر کرتے چلے جانے کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (الاحزاب: 57) کہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ پس یہ ہے وہ مقام جو صرف اور صرف آپؐ کو ملا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اَورنبی کی شان میں استعمال نہیں ہوئے۔ اور اس مقام کو اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرتؐ کے عاشقِ صادق نے سمجھا ہے اور ہمیں بتایا ہے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے۔ آپ نے ہر قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 57)۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبی پر‘‘۔

فرمایا کہ: ’’اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسولِ اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپؐ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیروں تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپ کی روح میں وہ صدق و صفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 24-23 مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2021