• 17 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 36)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 36)

پاکستان نیوز نے اپنی 4 جولائی 2007ء کی اشاعت میں تین تصاویر کے ساتھ ہماری یہ خبر دی ہے۔

اسلام کسی سے نفرت نہیں بلکہ محبت سکھاتا ہے۔ امام شمشاد

چرچ میں رہنے والے راہبوں کو بھی دن میں پانچ چھ بار عبادت کرنا ہوتی ہے

چینو کیلیفورنیا۔ (پ ر) جون 18 بروز پیر مسجد بیت الحمید چینو میں احمدیہ مسلم کمیونٹی اور کیتھولک عیسائی فرقہ کے درمیان ایک دوستانہ سیمینار ہوا۔ اس اجتماع میں سو سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ اس کا اہتمام امام شمشاد ناصرکی کوششوں سےہوا۔ اس کا مقصد مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور اپنے اپنے عقائد کی اچھی باتوں کو پیش کرنا تھا۔ مسجد کے تقدس کو قائم کرنے کی خاطر عیسائی عورتوں نے اپنے سر دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے تھے۔ اخبار نے لکھا۔

3 تصاویر کے نیچے یہ لکھا ہوا ہے۔ کیلیفورنیا میں احمدیہ کمیونٹی اور کیتھولک عیسائی فرقے کے درمیان ایک سیمینار ہوا۔ سیمینار میں فریقین کے اکابرین نے شرکت کی۔ تصویر میں سیمینار کے شرکاء نظر آرہے ہیں۔ اس کی مزید تفصیل پہلے دوسرے اخبارات میں بھی گذر چکی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان پوسٹ نے اپنی اشاعت 28 جون تا 4 جولائی میں 4 تصاویر کے ساتھ نصف سے زائد صفحہ پر ہماری جلسہ سیرة النبی ﷺکی خبر شائع کی ہے۔ تصاویر میں ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب پوڈیم پر تقریر کر رہے ہیں جبکہ ہیڈ ٹیبل پر مونس چوہدری صاحب انور محمود خان صاحب اور خاکسار سید شمشاد احمد ناصر بیٹھے ہیں۔ دوسری تصویر میں مونس چوہدری صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ تیسری تصویر میں خاکسار تقریر کر رہا ہے۔ چوتھی تصویر سامعین اور شاملین کی ہے۔

خبر کی سرخی اور متن قریباً وہی ہے جو اس سے پہلے گذر چکی ہے۔ یہ خبر ہمارے جلسہ سیرت النبی ﷺ کی ہے۔ جلسہ کے شروع ہونے کے وقت تلاوت کے بعد نظم حضرت مسیح موعودؑ کی پڑھی گئی تھی۔

؎وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے

کے 6 اشعار بھی خبر میں درج ہیں۔ اور آئینہ کمالات اسلام سے حضرت مسیح موعودؑ کا حوالہ بھی درج ہے۔ اور آخر میں درود شریف بھی ہے۔

پریس ڈسپیچ وکٹرول ڈیلی پریس نے اپنا ایک سپیشل نمبر شائع کیا جس کا عنوان تھا۔ ’’یوم آزادی‘‘

اس میں ایک سٹوری لکھی گئی تھی جس میں دیگر مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے بیانات اور انٹرویوز شائع ہوئے تھے۔ خاکسار کا بھی مختصراً انٹرویو شائع ہوا۔ جس میں خاکسار نے بتایا اخبار لکھتا ہے کہ ’’امام شمشاد جو مسلمان عالم ہے نے کہا ہے امریکہ بہت بڑی قوم ہے کیوں کہ یہاں پر آزادی ہے۔ انسان اپنے عقیدہ کے مطابق اپنے عمل آزادی کے ساتھ بجا لاسکتا ہے۔‘‘

پاکستان ٹائمز کیلی فورنیا نے اپنی اشاعت 28 جون 2007ء صفحہ 13 پر قریباً پورے صفحہ کی خبر 12 تصاویر کے ساتھ دی۔ خبر کا متن یہ ہے۔

نفرت کسی سے نہیں محبت سب سے۔ اسلام کا حقیقی پیغام

مسجد بیت الحمید چینو میں کیتھولک عیسائی فرقہ کے پادری اور ممبران کی آمد پر ایک دوستانہ سیمینار

اگرچہ اس خبر کی تفصیل کچھ پہلے گذر چکی ہے لیکن اس اخبار نے چند زائد باتیں بھی لکھی ہیں مثلاً اخبار لکھتا ہے کہ سب سے پہلے مہمان عیسائی لیڈر پادری کیری بلیو اور پھر امام شمشاد ناصر کو باری باری اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی۔ مسٹر بلیو جو کہ نیو پورٹ بیچ کیتھولک چرچ کے سربراہ ہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ کہ وہ امام شمشاد ناصر اور مسجد بیت الحمید کی انتظامیہ اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہیں یہاں آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے عیسائیت اور اسلام میں بہت سی مشترک باتوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے چرچ میں رہنے والوں راہبوں اور ننز کو بھی دن میں پانچ یا چھ بار عبادت کرنا ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دراصل وہ بھی ایک ہی خدا کو ماننے والے ہیں۔ اس کے بعد مسجد بیت الحمید کے امام شمشاد ناصر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے نبی پاک ﷺ کے اسوہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپؐ نے عیسائیوں کو مسجد میں آنے اور اپنے طریق پر ایک خدا کی عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔ امام شمشاد نے مزید بتایا کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام پر دہشت گردی کا الزام مستشرکین نے لگایا ہے اور بدقسمتی سے بعض متشدد قسم کے مسلمانوں نے اپنے عمل سے مستشرکین کے اس اعتراض کو تقویت دی۔ تقریر کے اختتام پر امام شمشاد نے قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ، اسلامی اصول کی فلاسفی اور آنحضرت ﷺ کی سیرت پر خطبات مسرورکی کاپی مسٹر بلیو کی خدمت میں پیش کئے۔ جس کے بدلے میں مسٹر بلیو نے خوبصورت پیلے گلاب کا پودا امام شمشاد کو امن و محبت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ ایک گھنٹہ سے زائد دلچسپ سوال و جواب کا پروگرام بھی ہوا۔ سوالات میں آخرت اور دوزخ و جنت کےبارے میں بھی سوال ہوئے۔ امام شمشاد نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح بیمار کو صحت کی بحالی کے لئے ایک ڈاکٹر کی مدد لینی ضروری ہوتی ہے اور زیادہ بیمار ہوجائے تو ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح پر بیمار روحوں کو بھی اُن کی بیماری کے مطابق دوزخ میں رہنا پڑے گا جیسے کم بیمار کو کم وقت کے لئے ہسپتال میں رہنا پڑتا ہے اور زیادہ بیمار کو زیادہ وقت کے لئے۔ اسی طرح قیامت کے دن انسانوں کے ساتھ سلوک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے عقیدے کے مطابق جنت دائمی ہے اور دوزخ اس وقت تک ہےجب تک تمام دوزخی جنت میں جانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ انہوں نے مزید کہا توبہ اور استغفار صرف ماضی کے گناہوں کے لئے نہیں بلکہ آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے بھی کی جاتی ہے۔ پروگرام کے اختتام پر عیسائی حضرات اپنی بس پر سوار ہو کر واپس چلے گئے جب کہ کچھ عیسائی مہمان نماز عشاء میں بھی شامل ہونے(دیکھنے کے لئے) کے لئے رک گئے۔ خبر کے آخر پر مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا گیا ہے۔

12 تصاویر کی تفصیل یوں درج ہے۔ ایک تصویر کے نیچےلکھا ہے عیسائی پادری کیری بلیو سیمینار سے خطاب کررہے ہیں۔ ایک تصویر کےنیچے یہ لکھا ہے امام شمشاد ناصر عیسائی پادری کیری بلیو کو اسلامی کتب پیش کر رہے ہیں۔ ایک تصویر کے نیچے لکھا ہے سیمینار میں آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ سیمینار میں ایک خاتون امام شمشاد سے سوال پوچھ رہی ہیں۔ امام شمشاد ناصر سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔ ایک اور تصویر کےنیچے یہ لکھا ہے امام شمشاد ناصر عیسائی لیڈر پادری کیری بلیو سے بات چیت کر رہے ہیں۔

ایک تصویر کے نیچے کیری بلیو امام شمشاد ناصر کو پھول پیش کر رہے ہیں۔ وغیرہ

پاکستان کرونیکل نے اپنے انگریزی سیکشن میں 29 جون 2007ء کی اشاعت میں پورے صفحہ پر صرف تصاویر میں ہی خبر شائع کی ہے۔ اور یہ خبر جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے کیتھولک عیسائی فرقہ کے پادری اور گروپ کی مسجد بیت الحمید میں آمد اور دوستانہ سیمینار کے بارے میں ہے۔ اخبار نے پورے صفحہ پر 13 تصاویر لگائی ہیں اور ہر تصویر کے نیچے عنوان دیا ہے۔ تصاویر قریباً وہی ہیں جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔

ہفت روزہ اردو لنک نے اپنی اشاعت 29 جون 2007ء میں صفحہ 5 پر ¼صفحہ پر ایک تصویر کے ساتھ خبر شائع کی ہے۔ خبر کا عنوان یہ ہے۔

’’اسلام کسی سے نفرت نہیں بلکہ محبت سب سے سکھاتا ہے‘‘۔ امام شمشاد ناصر

تصویر میں ہیڈ ٹیبل پر ایک طرف عاصم انصاری صاحب صدر لاس اینجلس ان لینڈ ایمپائر، خاکسار سید شمشاد احمد ناصر سوالات کا جواب دیتے ہوئے، پادری بلیو کیتھولک اور مونس چوہدری صاحب ہیں۔ خبر کا متن قریباً وہی ہے جس کا ذکر دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

پاکستان کرونیکل نے اپنی اشاعت انگریزی سیکشن میں صفحہ اول پر ایک تصویر کے ساتھ انٹر فیتھ میٹنگ کی خبر دی ہے۔ جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ انہوں نے خبر کا یہ عنوان لگایا ہے۔

Inter Faith Meeting at Baitul Hameed Mosque

یعنی مسجد بیت الحمید میں بین المذاہب میٹنگ کا انعقاد

اخبار نے رنگین تصویر لگائی ہے جس میں خاکسار پادری بلیو (کیتھولک) کو اسلامی کتب کا تحفہ پیش کر رہا ہے۔ خبر کا متن قریباً انگریزی میں وہی ہے جو اوپر گذر چکا ہے۔

پاکستان جرنل نے اپنی اردو کی اشاعت میں 29 جون 2007ء صفحہ 3 پر ایک تصویر کے ساتھ مندرجہ بالا خبر شائع کی ہے۔ یعنی کیتھولک فرقہ کے ساتھ سیمینار کی۔ جو تصویر شائع ہوئی ہے اس میں عاصم انصاری صاحب، خاکسار سید شمشاد ناصر سوالوں کا جواب دیتے ہوئے۔ پادری کیری بلیو اور مونس چوہدری صاحب بیٹھے ہیں۔ خبر کا متن وہی ہے جو گذر چکا ہے۔

پاکستان کرونیل نے اپنی انگریزی اشاعت 29 جون 2007ء صفحہ 3 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ انگریزی میں خاکسار کا مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے۔

Return to Shame, Modesty and Moral

یعنی ’’ہمیں شرم و حیا، عفت اور اخلاق کی طرف واپس آنا پڑے گا۔‘‘

خاکسار نے اس مضمون میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انسانی زندگی میں کچھ اخلاقی قوانین ہیں جن کے بغیر معاشرہ میں رہنا ممکن نہیں ورنہ انسان اور حیوان میں کچھ فرق باقی نہیں رہے گا۔

بلکہ انسان اگر اخلاق کو صحیح طور پر نہیں اپناتا تو وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، دانشمندی اور سوچ عطا کی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے قدرت کی طرف سے اسے شرم وحیاء اور اخلاق اپنانے کی سمجھ عطا ہوئی ہے۔ خاکسار نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کچھ دن پہلے بھی کسی نے بتایا کہ وہ سائیکل پر سوار کہیں جارہا تھا تو پیٹرول پمپ کے پاس سے اس کا گذر ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان اور ایک عورت آپس میں ایک دوسرے کا منہ چوم رہے ہیں۔ انہیں اس بات میں قطعاً شرم محسوس نہیں ہورہی تھی۔ کیوں کہ اس معاشرے میں اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن مذہبی لحاظ سے اسے دیکھا جائے تو یہ بالکل غلط بات ہے اور ناجائز ہے۔ پھر انسان اور حیوان میں آخر فرق کیا رہ گیا ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال دی گئی ہے۔ نہ جانے روزانہ ایسی کتنی مثالیں لوگوں کے مشاہدے میں آتی ہیں اور صرف یہی نہیں سکول کے طلباء و طالبات میں خواہ وہ پرائمری سکول کے مڈل سکول کے یا ہائی سکول کے ہوں یہ باتیں بوس و کنار بالکل عام ہے جسے بالکل عار نہیں سمجھا جاتا۔ نہ ہی اسے عیب اور برائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس سے آپ سوسائٹی میں اخلاق اور حیاء کے معیار ناپ سکتے ہیں۔ آخر ہماری نئی نسل یہ باتیں کس سے سیکھ رہی ہیں۔ آخر ان بے شرمی، بداخلاقی اور بے حیائی کی باتوں اور عمل کو سو سائٹی میں کون پھیلا رہا ہے؟ ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت کے لئے بڑے گہرے فکر کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ کیا اس قسم کی عیاشی کو مطمح نظر بنانا ہے یا اخلاق کی قدروں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس لئے اس سلسلہ میں مَیں پہلے تو والدین سے کہوں گا کہ وہ اپنی ناقدانہ اور دانشمندانہ عقل کو بروئے کار لاتے ہوئےبچوں کی صحیح پرورش اور تربیت کریں۔ صرف غلط بات دیکھ کر یہ کہہ دینا It is ok کہ یہ ٹھیک ہے۔ بالکل غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد رکھا ہے جو اس قسم کی حرکتوں سے تو بہرحال پورا نہیں ہوسکتا۔ جانور اگر اس قسم کی حرکتیں کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اندر سوچنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن انسان کو خدا نے عقل دی ہے اس لئے اسے سوچنا چاہئے کہ غلط اور صحیح کیا ہے؟

تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ مرد اور عورت کو آپس میں شادی کرنی چاہئے تاکہ وہ اپنی عفت اور حیاء اور اخلاق کو بچا سکیں۔ بدقسمتی سے اس وقت ہر بری بات کے بچاؤ کے لئے ’’آزادی‘‘ کے لفظ کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ اسلام کو بھی اس کی انہی باتوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب وہ اخلاقی تعلیم کو عام کرنے کی بات کرتا ہے۔ عفت و حیاء کو اپنانے کی بات کرتا ہے، اسلام کو عورت پر ظلم کرنے والا مذہب قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر ہم تاریخ کو دیکھیں تو آپ کو پتہ لگے سو سال سے زائد عرصہ پہلے چرچ میں یہ سب کچھ اسی طرح تھا۔ یعنی مرد اور عورت الگ الگ بیٹھتے تھے۔ آپس میں اکٹھے نہیں بیٹھتے تھے۔ کیوں کہ تمام مذاہب اخلاق اور حیاء کا سبق دیتے ہیں۔ مکس اجتماع میں عفت اور حیاء ختم ہوجاتی ہے اور انسان کی نظریں بہک جاتی ہیں۔ اور گناہ کے ارتکاب کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس آزادی کےنتیجہ میں شادی سے پہلے ہی نوجوان بچیاں حاملہ ہوجاتی ہیں اور پھر اسقاط حمل ہوتے ہیں اور جنسی بیماریاں بھی جڑ پکڑ رہی ہیں۔ اس لئے ہمیں سوچنا پڑے گا اور یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی سوسائٹی بھی بد اخلاقی اور بے حیائیوں کے قائم کر کے روحانیت حاصل نہیں کر سکتی جب کہ روحانی سوسائٹی بے حیائی کو جنم لینے سے پہلے ہی روک دیتی ہے۔ اب وقت ہے ان لوگوں کے لئے جو اخلاق کو اپنانا چاہتے ہیں اور عفت اور حیاء کو اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ اس بات پر خوب غور کریں اور سوچیں اور اپنا جائزہ لیں کہ ہمیں اسلامی حیاء، عفت اور پاکدامنی کی اسلامی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا تب جا کر ان اقدار کی حفاظت ہوسکے گی۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 29جون2007ء صفحہ 60 پر ایک تصویر کے ساتھ انگریزی میں ہماری خبر شائع کی ہے۔ یہ خبر کیتھولک عیسائی فرقہ کے ساتھ مسجد بیت الحمید میں بین المذاہب سیمینارکی ہے۔ جس کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔ تصویر میں خاکسار پادری بلیو کو اسلامی کتب کا تحفہ پیش کر رہا ہے۔

پاکستان ٹائمز کیلیفورنیا نے اپنی اشاعت 5جولائی 2020ء صفحہ 13 پر 8 تصاویر کے ساتھ خدام الاحمدیہ کے ساتھ اجتماع جو سلی کین ویلی میں 26 تا 27 مئی 2007ء مسجد بیت البصیر میں منعقد ہوا تھا کی خبر بڑی تفصیل کے ساتھ شائع کی ہے۔ خبر کی تفصیل اور متن قریباً قریباً وہی ہے جو اس سے قبل باقی اخبارات کے حوالے سے لکھی جاچکی ہے۔

ہفت روزہ نوائے پاکستان نے اپنی اشاعت 5 جولائی تا 11 جولائی 2007ء صفحہ 1 پر ایک چھوٹی سے اطلاع شائع کی ہے۔ یہ اطلاع بھی قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ اس کا عنوان ہے۔ ’’تردید ادارہ نوائے پاکستان‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ نوائے پاکستان میں پچھلے دنوں متواتر دو ہفتے سے احمدیہ فرقے سے تعلق رکھنے والا شمشاد ناصر کے کالم ’’شان اسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ادارہ نوائے پاکستان اور ادارہ کے چیف ایڈیٹر جہانگیر لودھی کی نقائص علمی کی بناء پر یہ مضمون شائع ہوئے ادارہ نوائے پاکستان اور ادارہ سے تعلق رکھنے والے تمام عملے کا تعلق ایمان ختم نبوتؐ پر ہے۔ حضرت محمدؐ آخری نبی اور آپؐ کے بعد کسی نبی کے نہ آنے پر مکمل ایمان ہے اور کسی احمدیہ فرقے یا گروپ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے گناہ معاف فرمائے۔ آمین

ہمارا وضاحتی نوٹ: اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کے اعلان سے ہم پرکسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑتا جہاں تک عقائد کا تعلق انہوں نے بیان کیا ہے۔ یہ لوگ اپنے ہی عقیدہ کی خود تردید کر رہے ہیں۔ یہ ان کا واقعی نقص علم ہے کہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ جماعت احمدیہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت ﷺکو خاتم النّبیین تسلیم کرتی اور یقین رکھتی ہے۔ کیوں کہ جماعت احمدیہ کا قرآن کریم پر مکمل یقین ہے کہ یہ خدا کی آخری کتاب ہے اور اسی کتاب میں آنحضرت ﷺ کو سورۃ الاحزاب میں خاتم النّبیین کا لقب عطا فرمایا گیا ہے۔ جب یہ لوگ یہ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ حضرت محمدؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کسی نبی کے نہ آنے پر مکمل یقین ہے تو یہ اپنے اس بیان میں جھوٹے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا واقعی تمہارا یہ ایمان ہے؟ کیاآپ لوگ حضرت عیسیٰ ؑکی آمد کے قائل نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو پھر یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آپؐ کے بعد کسی نبی کے نہ آنے پر مکمل یقین ہے۔ انہیں چاہئے کہ جماعت احمدیہ کی کتب اور عقائد کا مطالعہ خود کریں۔ سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کریں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ باقی مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی نسبت زیادہ ایمان، یقین اور ادراک کے ساتھ آنحضرت ﷺکو خاتم النّبیین یقین کرتی ہے۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔ آپ لوگ تو ایک اسرائیلی نبی کی آمد کے قائل ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم میں آیا ہے کہ وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ۔ وہ کیسے مسلمانوں کے نبی بن جائیں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا عقیدہ ایک ہی ہے آپ اسرائیلی نبی کی آمد کے قائل ہیں اور ہم احمدی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکی امت سے ہی اللہ تعالیٰ آپؐ کی کامل اتباع میں اسے امام مہدی اور مسیح موعود بنا کر بھیجے گا نہ کہ بنی اسرائیل سے! پس غور کریں اور فکر کریں۔ سوچیں تو مسئلہ کا حل آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

میں یہاں پر قارئین کی خاطر ایک دو حوالے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے اس ضمن میں پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکو خاتم النّبیین نہیں مانتے۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوت، یقین، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ﷺکو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصّہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سُنا ہوا ہے مگر اُس کی حقیقت سے بے خبرہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتاہے، اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت ﷺکو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خداتعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوّت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ بجزاُن لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 342)

پھر فرمایا: ’’میں بڑے یقین اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺپر کمالاتِ نبوّت ختم ہوگئے۔ وہ شخص جُھوٹا اور مُفتری ہے جو آپؐ کی نبوّت سے الگ ہو کر کوئی صداقت پیش کرتا ہے اور چشمۂ نبوّت کو چھوڑتا ہے۔ مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت ﷺکے سوا آپؐ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتا ہے۔ اور آپؐ کی ختمِ نبوّت کو توڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت ﷺکے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس مُہرِ نبوّت محمدؐی نہ ہو۔‘‘

(الحکم 10 جون 1905ء صفحہ 2)

(ماخوذ از محضر نامہ صفحہ 82)

پاکستان کرونیکل نے اپنی اشاعت 6جولائی 2007ء صفحہ 59پر خاکسار کا مضمون انگریزی میں بعنوان

’’حیاء اور اخلاقیات‘‘

Modesty and Moral

شائع کیا۔ مضمون بالکل وہی ہے جس کا اس سے قبل ذکر ہوچکا ہے۔

انڈیا پوسٹنے بھی اپنی اشاعت 6 جولائی 2007ء صفحہ 80 پر خاکسار کا مضمون بعنوان

Let’s Return to Shame, Modesty and Morals

’’ہمیں چاہیئے کہ ہم شرم و حیاء، پاکدامنی و عفت اور اخلاق کی طرف واپس آئیں‘‘

خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ مضمون میں خاکسار نے انگریزی دان طبقہ کو یہاں کی سوسائٹی کے حالات بتا کر اخلاق، عفت، پاکدامنی اور حیاء کی طرف واپس آنےکی دعوت دی ہے تا روحانیت میں ترقی ہو اور معاشرہ اصلاح پذیر ہو۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی 6 جولائی 2007ء کی اشاعت میں صفحہ13 پر 4 تصاویر کے ساتھ ہمارے جلسہ سیرۃ النبی ﷺکی تفصیل کے ساتھ خبر شائع کی ہے۔ اسی خبر میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم کلام سے 6 اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد، دلبر میرا یہی ہے
سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

اور آخر پر آئینہ کمالات اسلام سے اقتباس درج ہے۔

ڈیلی بلٹن جو یہاں کا انگریزی کا دوسرا بڑا اخبار ہے کی 7 جولائی 2007ء کی اشاعت میں صفحہ A-10پر خاکسار کا مضمون انگریزی میں اس عنوان سے شائع ہوا ہے۔

Life Not Worth Living Without Moral Discipline

’’ہماری زندی اخلاقی اقدار اور ڈسپلن (نظم و ضبط) کے بغیر کچھ نہیں‘‘

مضمون وہی ہے جو اس سے قبل علاقہ کے دوسرے اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ لوگوں کو اخلاقی قدروں کی طرف رجحان کرنے اور اسلامی تعلیم کے حسن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اور مکس پارٹیز وغیرہ سے اجتناب کرنے اور روایات کو زندہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 13 جولائی 2007ء صفحہ B-21پر ہماری خبر ایک تصویر اور اس عنوان سے شائع کی ہے۔

Religion: Interfaith Seminar

Held at Chino Mosque

’’بین المذاہب کانفرنس کا چینو کی مسجد میں انعقاد‘‘

سٹاف رائٹر کے ذریعہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ کیتھولک فرقہ کے پادری اور اسکے پیرو کار مسجد بیت الحمید میں میٹنگ کے لئے آئے تھے۔ اس میٹنگ، سیمنیار کی تفصیل اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے گذر چکی ہے۔ تصویر میں کیتھولک پادری خاکسار کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ امام شمشاد ناصر، پادری کیری بلیو کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔

دی سن جو کہ علاقہ کا ایک بڑا اور مشہور اخبار ہے نے اپنی اشاعت 11 جولائی 2007ء صفحہ B-5پر خاکسار کا مضمون انگریزی میں اس عنوان سے دیا۔

Shame, Modesty and Morals are at Core of Islam’s Teachings

’’شرم و حیاء، عفت و پاکدامنی اور عمدہ اخلاق ہی اسلام کی اصل تعلیم ہے‘‘

نصف سے زائد صفحہ پر خاکسار کا یہ مضمون ہے۔ اس کا ذکر اوپر پہلے گذر چکا ہے۔ الحمدللّٰہ کہ علاقہ کے ہر طبقہ میں اسلام کی حسین تعلیم خصوصاً پاکدامنی اور عفت کے حوالہ سے بیان کرنے کی احسن رنگ میں توفیق ملی۔

نوٹ: عموماً اخبارات کی پالیسی یہی ہوتی ہے کہ اگر ایک مضمون کہیں کسی اور اخبار میں شائع ہوگیا ہے تو وہ اسے اپنے اخبارات میں شائع نہیں کرتے۔ لیکن آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایسا نہیں ہے۔ خبریں بھی، مضامین بھی علاقہ میں ہر اخبار میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوئے ہیں۔ اور ہر طبقہ تک آواز پہنچائی گئی ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

اس مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ امام شمشاد مذہبی منسٹر ہیں اور مبلغ ہیں جو مسجد بیت الحمید سے تعلق رکھتے ہیں جو چینو میں واقع ہے۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 13جولائی 2007ء City News سیکشن کے صفحہ 4 پر 3 تصاویر کے ساتھ انٹر فیتھ کی میٹنگ نصف سے زائد صفحہ پر دی۔ ایک تصویر میں ہماری ٹیم کے افراد عیسائی فرقہ کیتھولک کے لوگوں کو خوش آمدید کر رہے ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک خاتون سامعین میں بیٹھی ہے۔ اور سوال کر رہی ہے اور تیسری تصویر ہیڈ ٹیبل کی ہے جس پر عاصم انصاری صاحب، خاکسار اور پادری بلیو اور مونس چوہدری بیٹھے ہیں۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ امام شمشاد سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔ باقی تفصیل وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے لکھی جاچکی ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 13جولائی 2007ء صفحہ 24پر اس عنوان سے خبر دی ہے۔

Love of Country Part of Islamic Faith

’’وطن کے ساتھ محبت مذہب اسلام کا حصہ ہے۔ ایمان کا حصہ ہے‘‘

اخبار نے لکھا کہ 4 جولائی کے حوالہ سے امام شمشاد نے خاص طور پر ایک تقریر کی جس میں 4 جولائی کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ اسلام امن کے حوالہ سے ایک اہم تعلیم مسلمانوں کو دیتا ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں وہ اس ملک کے قوانین کی ہر لحاظ سے پابندی کریں۔ اخبار نے لکھا کہ امام شمشاد نے اپنے خطاب میں قرآن کریم کی سورة النساء کی آیت 60 کو بیان کیا کہ اسلام اور قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی رہیں اس ملک کے قوانین کی پابندی کریں۔ اور امن کے ساتھ رہیں۔ اطاعت کرنے والے ہوں۔ اس ضمن میں امام شمشاد نے بانیٔ اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی وہ مشہور حدیث بھی بیان کی جس میں کہا گیا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ۔ وطن کے ساتھ محبت ایمان کا حصہ ہے۔ امام شمشاد نے مزید کہا کہ اس وقت جب کہ ہم یوم آزادی منا رہے ہیں اور اس میں ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری طرح آزادی بھی میسر ہے اس لئے ہمیں اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے نیز ہمیں ان لوگوں کی بھی مدد کرنی چاہئے جہاں اس قسم کی آزادی میسر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ جیسے ہم مادی لحاظ سے سپر پاور ہیں روحانیت اور اخلاق میں بھی سپر پاور بن جائیں۔ انہوں نے سامعین سے کہا کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب گورنمنٹ انگریزی اور جہاد کا بھی مطالعہ کریں جو ایک سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔ جس میں بانیٔ جماعت احمدیہ نے نصائح کی ہوئی ہیں کہ ایسی حکومت جو اپنے لوگوں کے لئے امن مہیا کرتی ہو اور آزادی مہیا کرتی ہو۔ اس کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں، اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ قانون کا احترام کرے۔ اور اتھارٹی اور حکام کی اطاعت کرے اور اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺکی تعلیم کے مطابق عمل کرے۔ اخبار نے خاکسار کی تقریر کرتے ہوئے تصویر بھی شائع کی ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 20 جولائی 2007ء صفحہ B-20پر ایک مختصرا خبر شائع کی ہے۔ اس عنوان سے

Imam Reaffirms Love of Country on Independence Day

’’امام۔ یوم آزادی کے موقع پر ’’وطن سے محبت‘‘ کے بارے میں زور دار الفاظ میں تلقین کرتا ہے‘‘

خبر کا متن قریباً قریباً وہی ہے جو دوسرے اخبار کے حوالہ سے اوپر گذر چکا ہے۔

دی سن نے اپنی اشاعت یکم اگست 2007ء صفحہ B-5 پر خاکسار کے حوالہ سے جلسہ سالانہ یوکے 2007ء (اکتالیسواں جلسہ سالانہ برطانیہ) کے بارے میں مضمون کی صورت میں خبر شائع کی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے۔

Local Muslim Community Intent on Spreading Good Will.

’’علاقہ کی لوکل مسلمان کمیونٹی خیر سگالی کے جذبات کو پھیلانے کی نیت اور ارادہ رکھتی ہے‘‘

اخبار نے لکھا: جماعت احمدیہ مسلم کمیونٹی کے افراد مسجد بیت الحمید میں برطانیہ کے 41 ویں جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہوئے۔ اس جلسہ کے اختتامی اجلاس میں جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور احمد نے خطاب کیا۔ برطانیہ میں موسم کے شدید خراب ہونے کے باعث، پھر بھی 25 ہزار سے زائد لوگ یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک سے یہاں حدیقۃ المہدی میں جلسہ کے لئے اکٹھے ہوئے۔ بہت سارے لوگ امریکہ سے بھی سفر کر کے جلسہ میں گئے۔

احمدیہ مسلم کمیونٹی کا آغاز حضرت مرزا غلام احمد آف قادیان انڈیا کے ذریعہ 1889ء میں ہوا۔ اس وقت جماعت احمدیہ دنیا کے 189 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے اس جلسہ کو دنیا میں لاکھوں افراد نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست دیکھا اور دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں تقاریر کے تراجم بھی ہوئے۔

یوکے کا جلسہ 1984ء کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ جب پاکستان میں احمدیوں کے خلاف آرڈیننس نکلا جس کے ذریعہ احمدیوں کو تبلیغ کرنے، عبادت کرنے، اسلامی روایات پر عمل کرنے پر مجرم قرار دیا جاسکتا ہے اور جرمانہ کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ اس آرڈیننس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے چوتھے روحانی پیشوا خلیفہ مرزا طاہر احمد نے پاکستان سے برطانیہ (لندن) ہجرت کی۔

حضرت مرزا مسرور احمد جو اس وقت جماعت احمدیہ عالمگیر کے پانچویں روحانی پیشوا ہیں نے بتایا کہ ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی۔ جنہوں نے ہمیں جہاد کے حقیقی معانی سمجھائے ہیں۔ جس کا مطلب اس زمانے میں یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ اور خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کریں۔ اس زمانے میں اصل جہاد یہی ہے۔

مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں دوران سال ہونے والی جماعت احمدیہ کی ترقیات کے بارہ میں بھی تفصیل سے آگاہ گیا۔ انہوں نے کہا اس سال 275,000 نئے لوگ جماعت احمدیہ میں تمام دنیا سے شامل ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے نئے سکول بنائے ہیں، ہسپتال اور کلینک بھی تعمیر کئے ہیں اور صاف پانی اور بجلی مہیا کرنے کے لئے افریقہ میں پراجیکٹ پر کام ہوا ہے۔ مرزا مسرور احمد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے بانی کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں چاہئے کہ اسلام کے پرامن پیغام کو امن اور محبت کے ساتھ ہر ایک کو پہنچائیں بغیر کسی امتیاز کے۔ نمازوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ تہجد کی نماز بھی ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے امن کے حصول میں مدد ملے گی اور جنت کا حصول بھی ہوگا۔

مرزا مسرور احمد نے یہ بھی کہا کہ اس زمانے میں تلوار کا جہاد غیر ضروری ہے بلکہ دلوں کی صفائی کرنے کا جہاد اب بھی قائم ہے۔ اورامن کے پیغام کو امن کے ساتھ پھیلانے کا جہاد اب بھی جاری ہے۔ آپ نے کہا کہ اگلا سال ہماری خلافت احمدیہ کے سو سال پورا ہونےکو منانے کا سال ہے۔ اس لئے جماعت کے ہر شخص کو اس کی کامیابی سے منانے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔

جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے حکومتی سطح اور مذہبی سطح کے سرکاری و غیر سرکاری معززین نے شرکت کی۔ جس میں لندن کے بشپ نے بھی تقریر کی اور اسی طرح یو ایس اے کونسلیٹ جرنل نے بھی شرکت کی اور اپنی تقریر میں کہا کہ وہ جماعت احمدیہ کی انسانیت کی خدمات کو سراہتے ہیں۔

مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ اگر آپ نے مزید معلومات حاصل کرنی ہیں تو امام شمشاد سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ فون نمبر بھی دیا ہوا ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ