• 3 مئی, 2024

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے

جامعہ احمدیہ برطانیہ کے ایک استادِ مکرم نے فون پر مجھے بتایا کہ کچھ دنوں سے میری طبیعت بہت خراب ہے اور میں Pain killer لے کر جامعہ میں گزشتہ پانچ دنوں سے پڑھانے جا رہا ہوں کیونکہ ہمارے پرنسپل صاحب نے ہم ٹیچرز کو کہا ہوا ہے کہ اگر طالب علم بیمار ہو تو اس کا اثر صرف اس اکیلے طالب علم پر ہو گا لیکن اگر استاد بیمار ہو تو 35 کے قریب طلباء متاٴثر ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔

جامعہ احمدیہ کے یہ استاد خاکسار سے بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک مضمون ترتیب پا رہا تھا۔ اس موقع پر امام ابو حنیفہؒ کا ایک واقعہ میرے ذہن پر غلبہ پا گیا کہ ایک دفعہ کچھ بچے بارش میں ایک گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے۔ بارش کی وجہ سے گراؤنڈ میں پھسلن ہو گئی تھی۔ امام صاحب کو بچوں پر ترس آیا اور بچوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ دیکھو بچو! احتیاط سے کھیلو کہیں اس پھسلن کی وجہ سے نقصان نہ ہو جائے۔ تو ان میں سے ایک بچے نے اما م صاحب کو جواباً کہا کہ امام صاحب ! ہم میں سے کسی کو چوٹ آئی تو اس سے صرف اسی کا نقصان ہو گا لیکن اگر آپ گرے تو پوری قوم کو نقصان ہو گا۔ یہ قصّہ، یہ کہاوت صرف ایک استاد یا کسی امام سے متعلقہ نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص اس کا مخاطب ہے جو کسی نہ کسی طور پر اپنے دائرہ میں نگران ہے حتٰی کہ گھریلو زندگی میں والد، والدہ، بڑی بہن، بڑا بھائی اور ہر بڑا عزیز بھی مخاطب ہے جو اپنی اپنی حیثیت میں اپنے گھر میں باقی افراد خانہ پر نگران ہے۔ ان کی کوئی ایک غلط حرکت یا سستی اور غفلت دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہے یا اس کے گرنے سے باقی افراد خانہ متاٴثر ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں بچہ بیمار ہو تو وہ اکیلا متاٴثر ہوتا ہے لیکن والدہ کے بیمار ہوتے ہی سارا گھر متاٴثر ہو جاتا ہے۔

ہماری جماعت میں ذیلی تنظیموں یا جماعتی عہدوں پر متعین حضرات و خواتین متذکرہ بالا کہاوت کے مخاطب ہیں۔ ایسے عہدیداروں کو عملی اعتبار سے دوسروں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔ ان کی کسی نہ کسی غلط حرکت یا روش سے دوسرے متاٴثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ہم نے بعض اوقات دیکھا اور سنا ہے کہ کسی کو نماز کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ وہ (فلاں عہدیدار) خود نماز نہیں پڑھتا تو مجھے وہ کیسے نصیحت کرتا ہے۔

گویا یہ ایک ایسا کامیاب گُر اور اصول ہے کہ معاشرہ کو اگر ہم حسین سے حسین تر بنانا چاہتے ہیں تو ہم سے عمر میں بڑوں اور عہدیداروں کو اپنے سے چھوٹے بلکہ تمام دوسرے لوگوں کے لیے نمونہ بننا ہو گا۔ آج ہم اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ اکثر اپنے بزرگ اساتذہ اور دیگر بزرگ رشتہ داروں کا ذکر کرتے ہی ان کی وہ حسین یادیں اور باتیں یاد آنے لگتی ہیں جو انہوں نے ہمارے لیے عملی نمونہ یا علمی رنگ میں یاد گار چھوڑیں یا ہم نے ان کی زندگیوں میں خاموش ان حرکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ

کہ آپ میں سے ہر کوئی چرواہا ہے جو اپنی رعیت بارے پوچھا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم میں سے کسی نہ کسی حیثیت میں بڑوں یا دوسروں پر نگران اور عہدیداروں کو اس اہم گُر کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دنیا میں بھی اس سنہری اصول کا فقدان نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ہر معاشرہ اور ماحول بد امنی کا شکار ہے۔ کیونکہ ہر دنیاوی لیڈر یہ سمجھتا اور کہتا نظر آتا ہے کہ میں درست ہوں۔ تم بھی میرے جیسے ہو جاؤ۔ جبکہ ہم میں سے ہر ایک استاد بھی ہے اور شاگرد بھی۔ ہم روزانہ ہی معاشرہ میں اپنے سے کم عمر بچوں حتٰی کہ گھروں میں دو تین سال کی عمر کے بچوں کی حرکات و سکنات اور توتلی زبان میں بولی سے سبق سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس رشتہ اور تعلق میں ہم میں سے اگر کوئی استاد کی حیثیت سے مذکورہ بالا اصول کو اپنائے تو اصلاح احوال آسانی سے ہو سکتی ہے اور محنت، شفقت اور دیانت داری عام ہو گی جو اسلامی معاشرہ کو تشکیل دینے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس اہم نکتہ کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ ٹوگو 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2023