• 3 مئی, 2024

حضرت میاں نظام الدینؓ

حضرت میاں نظام الدین ٹیلر ماسٹرؓ
ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور

حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ ولد میاں نبی بخش صاحب راجپوت درزی ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازاً 1865ء میں پیدا ہوئے۔ پیشہ کے لحاظ سے درزی تھے۔ گو کہ حضرت اقدس علیہ السلام سے غائبانہ تعارف براہین احمدیہ کے دور میں ہی ہوگیا تھا اور پھر 1895ء میں حضور علیہ السلام کے سفر ڈیرہ بابا نانک کے موقع پر زیارت کا شرف بھی پایا لیکن آپ نے 1906ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ آپ کی بیان کردہ مختصر روایات رجسٹر روایات صحابہ میں محفوظ ہیں جہاں آپ بیان کرتے ہیں:
’’قبل از بیعت جبکہ کمترین 19 یا 20 سال کی عمر میں تھا تو کتاب براہین احمدیہ امرتسر میں رجب علی کے چھاپہ خانہ میں پہنچی تو جلی خط کا پہلا اشتہار کتاب مذکور ممدوح کا۔ مولوی نور احمد صاحب (جو ڈیرہ بابا نانک صاحب کے باشندے تھے) کی نظر میں گذرا۔ پھر وہ اشتہار اپنے ہمراہ ڈیرہ میں لائے اور عام پبلک میں نہایت تحدی سے فرمایا کہ کتاب جب شائع ہو گی تو ایسا انقلاب پیدا کرے گی کہ تختہ زمین ہلا دے گی۔ مولوی صاحب مرحوم کی وہ آواز اب تک میرے کان میں گونج رہی ہے۔ زیادہ تر اسی آواز نے کمترین کو مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں پر ڈالا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ نیز فدوی کے والد صاحب مرحوم کو بھی خاندان نبوت سے بوجہ خدمت ادائیگی کے گہرا تعلق تھا۔ خصوصیت سے گورداسپور میں جناب مرزا غلام قادر صاحب و جناب محمد حیات خان صاحب جج کے پارچات وغیرہ سلائی کا کام کرتے رہے۔

دوسرا واقعہ حسب ذیل ہے۔ 1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام واسطے زیارت چولہ صاحب ڈیرہ بابا نانک صاحب تشریف فرما ہوئے۔ اس وقت خاکسار بھی ساتھ تھا۔ حضور انور مسجد چوہدری عبدالستار صاحب کی میں ٹھہرے۔ حضور کے ہمراہ حسب ذیل خدام موجود تھے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل ؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم و مولوی محمد علی صاحب و خواجہ کمال الدین صاحب و شیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ۔ کمترین کے ہمراہ اور بھی دوست تھے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب موصوف نے مجھ سے حالات چولہ صاحب دریافت فرمائے۔ تو کمترین نے حسب واقفیت خود عرض کر دی۔ اس وقت تھانے دار صاحب ولایت اللہ خان صاحب بھی تشریف لے آئے (اور) ہم سب نے (کھانا) کھلانے کے متعلق عرض کی تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ کھانا کھا چکے ہیں۔ تھانیدار صاحب نے عرض کی کہ حضور کس غرض کے واسطے تشریف فرما ہوئے ہیں۔ جواباً فرمایا کہ چولا صاحب کی زیارت کے لئے پھر تھانیدار صاحب نے عرض کی کہ اردل میں بندہ بھی حاضر ہے۔ بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع خدام چولہ صاحب کے دربار میں تشریف فرما ہوئے۔ اصل مالک چولہ صاحب کا موجود نہ تھا۔ اس کے نائب موجود تھے۔ انہوں نے بہت سے رومالوں سے چولہ صاحب کھولا اور صرف ایک کونہ ظاہر کیا۔ حضور نے فرمایا کہ اور کھولنا چاہئے اور پھر اور کھولا تو معلوم ہوا کہ قدرے گرد پڑی ہوئی ہے۔ حضور نے اپنے دامن سے گرد کو چھاڑ دیا اور فرمایا کہ اور کھولو تو انہوں نے توجہ نہ کی پھر حضور نے فرمایا کہ ان کو کچھ دینا چاہئے۔ تو حضرت مولوی صاحب نے اپنی جیب سے دو روپیہ نکال کر دے دئیے۔ پھر اور کھولا گیا پھر شیخ صاحب نے دو روپیہ اور دے دئیے غرضیکہ سات خدام نے یکے بعد دیگرے چودہ روپیہ دئیے۔ اس طرح سب کا سب چولہ صاحب کھولا گیا اور حضور کے حکم سے چولا کے حروف وغیرہ شکل و شباہت کو نوٹ کر لیا گیا۔ پھر حضور معہ خدام مسجد میں واپس تشریف لے گئے۔ نماز ظہر و عصر جمع کر کے ادا کی۔ پھر کمترین اور ساتھیوں نے ایک رکوع قرآن کریم کی تلاوت کے متعلق عرض کی۔ تو مولوی صاحب عبدالکریم صاحب نے نہایت خوش الحانی سے تلاوت فرمائی چونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی۔ اس لئے بہت لوگ جمع ہو گئے اور سن کر نہایت محظوظ ہوئے۔ بعد ازاں حضور مع خدام یکوں پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔ ہم لوگ بھی پیچھے پیچھے بھاگے۔ حضور نے یکہ کھڑا کر کے فرمایا کہ آپ کو تکلیف ہوتی ہے واپس چلے جائیں۔ نہایت مہربانی سے واپسی کا حکم صادر فرمایا۔ حسب الحکم کمترین معہ ساتھیوں کے واپس چلے گئے۔

تیسرا واقعہ: طاعون کی پیشگوئی کے موقع پر موضع شکارماچھیاں سے مولوی رلدو صاحب کی بیوی اور پانچ، چھ اور عورتیں طاعون سے (مرعوب) ہو کر کمال سردی اور بارش کے موقع پر بیعت کی غرض کے لئے (حضرت) مسیح موعود ؑ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں …..حضور نے مہربانی اور عنایت سے عرض منظور فرما کر بیعت کے زمرہ میں داخل فرما لیا ….

چوتھا واقعہ: جب حضور اپنی عمر کے آخری ایام میں شہر لاہور میں تشریف لے جا رہے تھے تو بٹالہ میں شب باشی فرمائی۔ رات کے وقت مولوی صاحب احمد دین ساکن نارووال جو نہایت مخلص اور کمترین کے مہربان دوست تھے۔ حضور کے پاؤں دبا رہے تھے اور عرض کرنے لگے کہ حضور ضلع گورداسپور میں بہت کم احمدی ہیں۔ جواباً فرمانے لگے کہ ہے تو درست مگر جگہ خالی کوئی نہیں مثلاً پٹھان کوٹ میں بھی ہیں اور دینانگر و گورداسپور میں اور بٹالہ میں اور کلانور میں بھی ہیں اور ایک آدمی ڈیرہ بابا نانک میں بھی ہے۔ اگلے روز مولوی احمدی دین صاحب کمترین کے پاس ڈیرہ بابا نانک میں تشریف لائے۔ تو عاجز کو مبارک باد دی اور فرمانے لگے کہ زہے طالع کہ آپ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد میں ہیں۔

حضور بیعت کی اعلان کے بعد لدھیانہ میں تشریف فرما ہوئے۔ وہاں درزیوں کی مسجد جو کہ سڑک پر واقعہ ہے۔ حضور مسجد میں تقریر فرما رہے تھے اور شہر میں مولویوں کا شور برپا تھا۔ ایک مولوی سوداگروں کی دکان پر مجلس لگائے تقریر کر رہا تھا۔ جو شخص آج مرزا کو قتل کر دے وہ سیدھا بہشت میں داخل ہو گا تو ایک دیہاتی بول اٹھا کہ یہ تو بڑا سہل کام ہے ایک روز مرنا تو ہے۔ وہ ڈانگ لے کر باہر مسجد میں چلا گیا۔ وہاں پہنچا تو حضور تقریر کر رہے تھے۔ باہر دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو اس کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے ڈال دیا کہ سن تو لیں۔ سنتا رہا۔ سنتے سنتے نہایت متغیر ہو گیا اور قدموں پر جاگرا اور کہنے لگا کہ میری بیعت منظور فرمائیں۔ …..میاں نظام الدین درزی صحابی مسیح موعود ڈیرہ نانک والا۔ حال وارد (محلہ) دارالرحمت قادیان۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر6 صفحہ230-234)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنے ایک دورہ 1909ء کی رپورٹ میں ڈیرہ بابا نانک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں میاں نظام الدین صاحب کے مکان پر ٹھہرا جنہوں نے بہت اخلاص سے خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔‘‘ (بدر 18؍مارچ 1909ء صفحہ2) آپ تلاش معاش کے سلسلے میں کچھ عرصہ ملائیشیا بھی گئے جہاں Taiping شہر میں مقیم رہے، مکرم غلام محمد صاحب کارکن دار الصناعۃ قادیان (اصل سکونت قادر آباد ضلع امرتسر) بیان کرتے ہیں:
’’جبکہ میری عمر تیس برس کو پہنچی تو میں اس ملک سے ہی نکل گیا۔ تیسویں برس میں جزیرہ ملایا میں پہنچا اور ان دنوں گو سب کچھ بچشم خود دیکھا تھا تا ہم ابھی احمدیت کا سخت مخالف تھا۔ اسی حالت میں قریباً تیرہ چودہ برس گزر گئے تو اتفاقیہ میری تبدیلی ایک شہر میں ہوئی جس کا نام ٹیپنگ ’’(Taiping)‘‘ تھا۔ وہاں پر ایک درزی جس کی عمر اس وقت قریباً پچاس برس کی ہو گی۔ بازار میں جاتے ہوئے اس کی دکان پر پہنچا اور قمیص سلائی کرنے کو کہا۔ اس نے کپڑا میرے ہاتھ سے لے لیا اور میرا ناپ لے لیا اور میں وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے وہاں پر ایک رسالہ پڑا ہوا دیکھا تو اس میاں درزی سے جن کا نام میاں نظام الدین تھا اور ڈیرہ بابا نانک کے رہنے والے تھے، دریافت کیا کہ یہ رسالہ کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا۔ تب میں نے کہا کہ بڑے میاں میں اپنے ہمراہ لے جاؤں اور اس کو پڑھ کر دیکھ لوں؟ انہوں نے کہا کہ اسی جگہ پڑھ سکتے ہو۔ گھر لے جانے کو نہیں دوں گا۔ کیونکہ احمدیت کی کتابیں جس کے ہاتھ آتی ہیں واپس نہیں ملتیں۔ میں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس دے دوں گا۔ تب میاں نظام الدین صاحب نے فرمایا کہ لے جاؤ۔ میں لے گیا اور مطالعہ کرتا رہا ….. اور اسی وقت بیعت کا خط لکھ دیا۔ میاں نظام الدین صاحب درزی بھی حال میں قادیان میں ہی ہیں۔ میاں غلام رسول صاحب درزی پہلے جو احمدیہ چوک میں میاں کرم الٰہی بزاز کھارے والے کی دکان پر کام کرتے تھے اور حال میں بڑے بازار میں کام کرتے ہیں ان کے والد صاحب ہیں۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر6 صفحہ230-234)

بعد ازاں آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے جہاں محلہ دارالرحمت میں رہائش رکھی۔ آپ نے 25؍اگست 1947ء کو بعمر 81 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 2908) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہٗ

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ ٹوگو 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2023