غلامان مسیح کنڈی ہلاتے کیوں نہیں ہو
در نصرت کھلے گا کھٹکھٹاتے کیوں نہیں ہو
کیوں ظلم عدو پرچپ کئے حیران بیٹھے ہو
دعا کو ہاتھ اب اپنے اٹھاتے کیوں نہیں ہو
ملی ہے معجزہ بن کر جو مہدی کے غلاموں کو
وہ شمشیر دعا ان پر چلاتے کیوں نہیں ہو
تمہارا ایک آنسو نار نمرودی پہ کافی ہے
جھڑی اشکوں کی پلکوں سے لگاتے کیوں نہیں ہو
بتایا تم کو مرشد نے تمہارا ایک مولا ہے
یہ روداد ستم اس کو سناتے کیوں نہیں ہو
وہ کہتا ہے میں آتا ہو ں بلائے گر مجھے کو ئی
مدد کے واسطے اس کو بلاتے کیوں نہیں ہو
وہ ہاتھی ابرہہ کے ہیں سہی ہو گا مگر تم بھی
ابابیلان مہدی ہو بتاتے کیوں نہیں ہو
دعا کی دیر ہے نصرت اتر آئے گی خالق کی
اٹھو سجدے مصلوں پر سجاتے کیوں نہیں ہو
لکھے اشعار نجمہ نے یہ اس کے دل کی باتیں ہیں
ترنم سے سر محفل سناتے کیوں نہیں ہو
(کنیز بتول نجمہ)