• 27 جولائی, 2024

سفر کینیا کی خوشگوار یادیں

گزشتہ سال اگست کے مہینہ میں جب پاکستان میں گرمی اور حبس اپنے عروج پر تھی ایسے سخت موسم میں ہمیں نیروبی،کینیا کے سفر کا موقع میسر آگیاجہاں کے خوبصورت اور خنک موسم نے ہمارے سفر کو خوشگوار بنا دیا۔ نیروبی میں یہ موسم سرما کے ایام تھے لیکن وہاں کا موسم سرما ہمارے سرما سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ یہ سرما ہمارے ہاں جاتی ہوئی سردی اور آتے ہوئے موسم بہار کے مماثل ہو گا۔

مشرقی افریقہ کی طرف یہ میرا پہلا سفر تھا۔ قبل ازیں اقلیم افریقہ کی طرف سن 2000ء میں جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کے لئے مصری ایئرلائن کے ذریعہ سفر اختیار کرنے کی وجہ سےقاہرہ میں ایک رات قیام کرنے کا موقع ملا تھا۔ قاہرہ قیام کے وقت میری مرحومہ والدہ محترمہ اور طارق محمود ظفر صاحب مربی سلسلہ بھی میرے ہمسفر تھے اور اتفاق سے سفر نیروبی طارق محمود ظفر صاحب امیر و مشنری انچارج کینیا کی بیٹی جو میری بھانجی ہیں کی شادی میں شرکت کے لئے اختیار کیا گیا تھا۔ وجہ سفر تو شادی میں شرکت تھی لیکن نیروبی میں بیتے دس یوم سیر و تفریح،جماعتی تاریخ اور مشاہدات فطرت کے لحاظ سے بھر پور گزرے۔ بعض مشاہدات اور معلومات کے حوالے سے میں قارئین کو بھی شریک سفر کر رہا ہوں۔

کینیا کا مختصر تعارف

مشرقی افریقہ کا ملک جمہوریہ کینیا خط استوا پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں موسمی سختی نہیں پائی جاتی۔ اس کے جنوب مشرق میں بحر ہند، جنوب میں تنزانیہ، مغرب میں یوگنڈا،شمال مغرب میں سوڈان، شمال میں ایتھوپیا اور شمال مشرق میں صومالیہ واقع ہیں۔ کینیا کا نام کینیا پہاڑ کے نام پر رکھا گیا ہے جو کینیا کا سب سے بلند اور افریقہ کا دوسرا بڑا پہاڑ ہے۔

نیروبی کینیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر معروف شہروں میں ممباسہ، نکورو، کسوموں اور میرو شامل ہیں۔ کینیا کی سرکاری زبان سواحیلی اور انگریزی ہے۔ 2021ء کے مطابق یہاں کی آبادی پانچ کروڑ سے زائد ہے۔ نیروبی اور ممباسہ بین الاقوامی ایئر پورٹ ہیں جبکہ ممباسہ معروف بندرگاہ ہے۔ کینیا کی کرنسی کینیائی شلنگ ہے جو اس وقت پاکستانی دو روپے کے قریب ہے۔ ملک کی معیشت کا انحصار زراعت، معدنیات اور سیاحت (بالخصوص سفاری) پر مبنی ہے۔ چائے، کافی، پٹ سن اہم فصلیں ہیں۔ کینیا بہت سی جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ مثلاً شیر، ہاتھی، زرافہ، زیبرا، جنگلی بیسٹ، جنگلی بھینس وغیرہ۔ مسائی مارا ریزرو وائلڈ لائف کا سب سے معروف علاقہ ہے۔ یہاں جولائی تا اکتوبر سیاح لاکھوں جنگلی بیسٹ اور زیبروں کی نقل مکانی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مسائی مارا کی پر کشش سفاری دنیا بھر کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

کینیا کے علاقے پر سینکڑوں سال اہل فارس اور عربوں نے حکومت کی ہے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں کا نفوذ بھی ہوا۔ ریلوےلائن بچھانے کے کام نے انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں بر صغیر سے لوگ کام کےلئے یہاں آئے۔ 1920ء میں برطانیہ نے اس کو اپنی باقاعدہ کالونی قراردے دیا جس کا خاتمہ 1963ء میں کینیا کی آزادی کے ساتھ ہوا اور افریقی نیشنل یونین کے سربراہ جناب جمومو کینیاٹا کینیا کے پہلے صدر بن گئے اور وفات( 1978ء) تک صدر رہے۔ ان کو قومی ہیرو اورملک کے بانی کی حیثیت حاصل ہے۔ مذہبی آبادی کے لحاظ سے عیسائی اکثریت میں ہیں۔ مسلم آبادی 10 فیصد ہے۔

کینیا روانگی

کینیا کے بارے میں مختصر مگر جامع معلومات کے بعد یقیناً کینیا کی سیر کے لئے آپ کی دلچسپی بڑھ گئی ہوگی۔ جب تک آپ کینیا نہیں جا پاتے تب تک ہماری سیر کی روداد کے ہمسفر رہئے۔ یہ روداد آپ کو کینیا کی سیر کے لئے مہمیز لگانے کا سبب ہو گی۔

17؍اگست بروز بدھ سفری تیاری اور روانگی کا دن تھا۔ اپنی اہلیہ درثمین، بڑے بھائی خالد وحید صاحب اور بڑی ہمشیرہ ناصرہ صاحبہ بھی میرے ہمسفر تھے۔ کووڈ19 کے مختلف اثرات ہوائی سفروں پر براہ راست مرتب ہوئے تھے ان میں حفاظتی تدابیراور ویکسینیشن کی دستاویزات کی تیاری کے ساتھ ساتھ مسافروں کو مہنگے ہوائی ٹکٹس کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قدرے ارزاں ٹکٹ کا سامان کر دیا تھا جب ہم شارجہ کی ایئر عریبیہ کے ذریعہ فیصل آباد سے براستہ شارجہ نیروبی کے لئے روانہ ہوئے۔ فیصل آباد سے شارجہ کے لئے روانگی کے وقت تاریخ تبدیل ہو چکی تھی اور ہم 18؍اگست کو فیصل آباد سے شارجہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ایئر بس کے آرام دہ جہاز میں محض تین گھنٹوں میں علی الصبح چار بجے شارجہ ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ اب یہاں پانچ گھنٹے ایئر پورٹ پر ہی گزارنے تھے۔

شارجہ ایئر پورٹ پر مسافروں کے لئے بہت سی سہولیات کا انتظام تھا۔ نماز فجر کا وقت ہو چکا تھا مختلف لاؤنجز میں مساجد کی سہولت موجود تھی جہاں قرآن کریم کے بہت سے نسخے بھی موجود تھے۔ اس سہولت سے فائدہ لیتے ہوئے نماز فجر کی ادائیگی اور تلاوت کا حظ اٹھایا۔ اب نیروبی روانگی کے لئے تیار ہوئے ایئر عریبیہ کی فلائٹ بر وقت صبح 9 بجے شارجہ سے نیروبی کے لئے روانہ ہوئی۔ اب ہم بر اعظم ایشیا سے بر اعظم افریقہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہم سورج کے ساتھ ساتھ رہے اور بحر ہند ہمارے نیچے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔

شارجہ سے نیروبی کی ہوائی مسافت پانچ گھنٹے کی تھی۔ ہم بر وقت نیروبی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اتر کر امیگریشن کے مختلف مراحل سے گزرنے لگے۔کووڈ19 کی وجہ سے ایئر پورٹس پر امیگریشن کے ساتھ ایک مزید مرحلے کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ یہاں آپ کو کرونا ویکسینیشن کے ثبوت دکھانے ہوتے ہیں۔ ہم اس مرحلے میں تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بڑے اطمینان اور احترام کے ساتھ سر خرو ہو کر نکلے۔ ہم جلد ہی امیگریشن کے مراحل طے کرتے ہوئے ایئر پورٹ سے باہرآئے تو محترمی طارق محمود ظفر صاحب سواری کے ہمراہ ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ نیروبی کی کشادہ سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہم Muranga روڈ پر واقع جماعت کینیا کے مرکزی مشن ہاؤس پہنچے۔

مشن ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے سے پہلے ہی احمدیہ مسجد نیروبی کے خوبصورت مینار نظر آئے جس سے دل اللہ کی حمد سے معمور ہو گیا۔ یہ خوبصورت مسجد1931ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ یہاں تعمیر ہونے والی پہلی باقاعدہ مسجد تھی۔ اس پر شکوہ عمارت کو دیکھنے سیاح بھی یہاں کا رخ کرتے تھے۔ ایسٹ افریقہ میں جماعت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں قائم ہو گئی تھی اور اصحاب احمد کی یہاں آمد سے اس کا قیام ہوا تھا۔ تاہم ایسٹ افریقہ کے پہلے مبلغ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب تھے جو 1934ء میں یہاں بھجوائے گئے۔

خوبصورت احمدیہ مسجد نیروبی اور مشن ہاؤس کمپاؤنڈ دیکھ کر ہی ہماری تمام تر سفری تھکان اتر چکی تھی لیکن نیروبی کے یکسر مختلف اور خوشگوار موسم نے طبیعت میں خوشگواری کا احساس بڑھا دیا۔ یہاں کا درجہ حرارت کم سے کم 12-13 اور زیادہ سے زیادہ 20-22 سینٹی گریڈ کے درمیان تھا جس کی وجہ سے ہم یہاں سرمائی پارچہ جات کے استعمال پر مجبور ہوئے۔ خوشگوار موسم نے ہمارے دورہ کینیا کو پر لطف بنا دیا تھا۔

ہمارا قیام و طعام احمدیہ مشن ہاؤس نیروبی کے کمپاؤنڈ میں تھا یہاں کی سب سے بڑی مومنانہ سہولت یہ تھی کہ پنجوقتہ نماز باجماعت اذان کی آواز کے ساتھ آپ کو گھر بیٹھے میسر تھی۔ مشن ہاؤس کی کشادگی کی بدولت ہمارے علاوہ دیگر آنے والے مہمانوں کا قیام و طعام بھی یہیں تھا۔ یہ مہمان انگلستان، امریکہ اور کینیڈا سے تشریف لائے تھے۔ سبھی اس روحانی تروتازگی کے ماحول سے مستفیض ہو رہے تھے۔ مسجد سے ملحقہ مشن ہاؤس کی عمارت تین منزلہ ہےجس میں امیر صاحب کی رہائش، گیسٹ ہاؤس، لائبریری، ذیلی تنظیموں کے دفاتر اور نچلی منزل احمدیہ ہال پر مشتمل ہے۔ اس کا افتتاح 27؍اپریل 2005ء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کینیا کے دوران فرمایا تھا۔

تین دن بعد ہونے والی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے پہنچنے والا ہمارا پہلا قافلہ تھا۔ دیگر مہمانان جو یورپ و امریکہ سے آرہے تھے وہ بھی رخت سفر باندھ چکے تھے۔ بیرون ممالک کے مہمانوں کی آمد مکمل ہونے پر جن کی تعداد تیس سے زائد تھی مشن ہاؤس جلسہ سالانہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مشن ہاؤس کی کشادگی اور اس کے میزبانوں نے مہمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کا گمان نہیں ہونے دیا۔ اگلا روز جمعة المبارک کادن تھا۔ محترم امیر صاحب کینیا کی اقتداء میں جمعہ ادا کیا جس میں مرد و زن شامل تھے۔ اس موقع پر مقامی احمدیوں سے ملاقات ہوئی جن میں ایشیائی اور افریقی دونوں نسلوں کے احمدی شامل تھے۔ نیروبی میں احمدیوں کی ایک تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جن کے بزرگ انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے شروع میں برٹش انڈیا سے پہلے یہاں روزگار کے لئے آئے تھے۔ اب ان کی اولادیں تو کثیر تعداد میں انگلستان یا دیگر ممالک میں آباد ہو چکی ہیں لیکن ایک تعداد ابھی بھی کینیا بالخصوص نیروبی میں موجود ہے۔ جمعہ کا خطبہ انگریزی زبان میں تھا جبکہ نمازوں کے بعد مختلف دروس سواحیلی زبان میں ہوتے تھے۔ یہ دونوں کینیا کی سرکاری زبانیں ہیں۔ روزمرہ نمازیں عموماً یہاں ایک مقامی معلم صاحب پڑھاتے تھے اور سواحیلی میں درس دیا کرتے تھے۔

چائے کے باغات کی سیر

چائے اور کافی کی پیداوار میں براعظم افریقہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ کینیا چائے کی پیداوارکا بڑا ملک ہے۔ افریقہ کی 60 فیصد چائے کینیا میں پیدا ہوتی ہے۔ کینیا میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹر سے زائد رقبے پر چائے کی کاشت ہوتی ہے اور سالانہ ساڑھے تین لاکھ میٹرک ٹن چائے کی پیداوار حاصل ہوتی ہے جس میں تقریباً 90 فیصد برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔

کینیا کے مخصوص موسم اور یہاں کی سرخ مٹی جس میں بہت سی معدنیات پائی جاتی ہیں کی وجہ سے کینیا کی چائے کا ذائقہ اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔ موسم اور مٹی اس کی پیداواری اضافے کا بھی موجب بنتی ہے۔ چائے کے باغات دلفریب قدرتی نظارہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں چائے کے باغات تا حد نظر نشیب و فراز کے ساتھ اس کے قدرتی حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ کینیا کی سیر کرنے والے جہاں جنگلی حیات کی سفاری کرتے ہیں وہاں چائے کے باغات کی سیر سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ہم فیملی ممبران کے ساتھ چائے کے باغات کی سیر کے لئے دو دفعہ گئے۔ 20؍اگست ہفتہ کے روز اپنی اہلیہ، خالد بھائی اور ہمشیرہ ناصرہ وڈاکٹر صالحہ کے ہمراہ نیروبی سے تقریباً 30کلو میٹر دور ٹیگونی (Tigoni) کے علاقے میں ٹی گارڈنز کا دلفریب نظارہ کیا۔ تا حد نظر چائے کی کاشت زرخیز زمین میں ایک ترتیب کے ساتھ کہیں ہموار زمین کہیں نشیب اور کہیں فراز،کہیں کھائیوں سے ہوتے ہوئے باغات بلندی کی طرف پہاڑوں پر اگے ہوئے تھے۔ مزدور چائے کی نوخیز پتیوں کو اتار کر اپنے ساتھ باندھے ہوئے ٹوکرے میں ڈال رہے تھے۔ جب یہ ٹوکرا بھر جاتا تو کھیتوں کے اندر بنے ہوئے کھلیان میں ان کو ڈال آتے جہاں چائے ٹرالیوں پر لاد کر اسے فیکٹریوں میں چائے تیار کرنے کے لئے بھجوایا جا رہا تھا۔

چائے کے باغات میں مزدور ایک ترتیب سے اپنے مقررہ حصہ میں نوخیز پتیوں کو بڑی مہارت کے ساتھ چن رہے تھے۔ پتے اتارنے والے ایک مزدور نے بتایا کہ ہم فی کلو کے حساب سے پتیوں کی مزدوری لیتے ہیں۔ ایک کلو پتیوں کی مزدوری 10 شلنگ ملتی ہے(پاکستانی بیس روپے سے بھی کم) دن بھر میں اوسطاً 70کلو پتیاں اتار لیتے ہیں اور یوں 700 شلنگ مزدوری بن جاتی ہے۔ مردوزن دونوں ہی چائے کی نوخیز پتیاں اتارنے میں مصروف عمل تھے۔ چائے کا پودا دو سال میں تیار ہو جاتا ہے۔ دو سال بعد اس کے نوخیز پتے اتارنے شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ پتے قریبی فیکٹریوں میں بھجوا دئیے جاتے ہیں جہاں ان کو سکھانے کے بعد چائے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں چائے کا ذائقہ لذیذ اور منفرد بنانے کے لئے ان پتیوں کو مختلف مراحل سے گذارتی ہیں۔ چائے کے باغات سے پتیاں اتارنے کا عمل سال بھر جاری رہتا ہے۔ ہم نے خوبصورت، دلکش اور حسین نظاروں پر مشتمل چائے کے باغات کی سیر سے حظ اٹھایا اور کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بھی کیا۔ قدرت کے ان حسین نظاروں سے جی نہیں بھرتا۔ چنانچہ دو روز کے بعد ایک بار پھر ہم نیروبی کے مضافات کی سیر کو اپنے عزیزوں کے غول میں نکلے۔ ایک کوسٹر دن بھر کے لئے کرایہ پر حاصل کی تھی جس میں یورپ، امریکہ، کینیڈا اور پاکستان کے عزیز مہمانوں پر مشتمل قافلہ تھا۔ اس تفریحی دورہ میں ٹی گارڈنز کی سیر بھی شامل تھی۔ چائے کے باغات کے نظاروں کے ساتھ وہاں موجود ایک ٹی فیکٹری کا بھی رخ کیا جہاں فیکٹری کے آؤٹ لیٹ سے پتی خریدی اور پھر وطن واپسی پر اس کے تحائف دوست احباب میں دئیے۔ چائے کے باغات کی سیر کا تجربہ بہت ہی یادگار اور حسین تھا۔

تقریب شادی

کینیا سفر کا محرک میری بھانجی عزیزہ ڈاکٹر باسمہ کی تقریب شادی تھا۔اس تقریب نے افریقہ اور اس کے قدرتی حسن کے مشاہدے کا سامان بھی کر دیا۔ شادی کی تقریب 21؍اگست کو رات آٹھ بجے احمدیہ ہال نیروبی میں منعقد ہوئی۔ پردے کی رعایت کے ساتھ ہال کو دو حصوں میں خواتین و حضرات کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ دولہا ڈاکٹر سعد کرامت اپنے والدین اور عزیزوں کے ہمراہ امریکہ سے آئے تھے۔ محترم امیر صاحب نے تقریب کی صدارت کے لئے مجھے حکم دیاتھا۔ تقریب کی مناسبت سے دونوں خاندانوں کے بزرگان اور اصحاب احمد کا تعارف کروا دیا تا نیا جوڑا اپنے اسلاف کی نیک اقدار اور روایات کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ ایک دن کے وقفہ کے بعد اسی جگہ تقریب ولیمہ منعقد ہوئی تھی۔

شادی کے موقع پر کینیا میں موجود بیشتر مربیان اور یہاں کے احباب جماعت سے ملاقات اور تعارف کا موقع میسر آگیا۔ جماعت کے خوبصورت نظام ضیافت کی ایک جھلک شادی کے موقع پر بھی نظر آئی۔ تقریب رخصتانہ اور ولیمہ کا کھانا رضاکاروں نے تیار کیا جن کی جلسہ سالانہ اور دیگر جماعتی تقریبات کی وجہ سے پختہ ٹریننگ ہو چکی تھی۔ سیکرٹری ضیافت وقار شیخ صاحب اور ان کے والد شیخ مشہود صاحب کی نگرانی اور عملی مساعی کے تحت کھانے کی تیاری ہوئی۔ کوئلوں پر نان بنانے کا تجربہ میرے لئے بالکل نیا تھا لیکن رضا کار خدام بڑی مہارت کے ساتھ یہ کام کر رہے تھے۔ تقریباً ایک میٹر قطر کے انگیٹھی نما چولہے میں کوئلے سلگھا کر اس کے اوپر جالی رکھ دی گئی اور بڑی تیزی کے ساتھ جالی پر نان ڈالتے گئے اور پکتے گئے۔گھر میں باربی کیو کرنے والے احباب چھوٹے پیمانے پر اس کا تجربہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔

مضافات نیروبی کے تفریحی مقامات کی سیر

نیروبی قیام کے دوران اپنے اوقات کو بھر پور مصرف میں لائے اور تفریحی مقامات کی سیاحت کرتے رہے۔ چائے کے باغات کا ذکر ہو چکا ہے۔ 22؍اگست کو عزیزو اقارب کے 18 رکنی وفد کے ہمراہ ایک کوسٹر میں دن بھر سیر کا پروگرام تھا۔ ایسا پروگرام ترتیب دیا گیا کہ بچوں، جوانوں اور بڑوں سبھی کی دلچسپی کا باعث ہو۔ ڈرائیور کے ساتھ ایک گائیڈ بھی موجود تھا۔ سب سے پہلے ہمیں نیروبی ڈاؤن ٹاؤن کا وزٹ کروایا گیا۔ نیروبی چونکہ دارالحکومت ہے اور یہ پہاڑی علاقہ بھی ہے اس لئے قدرتی طور پر بھی خوبصورت ہے اور اس کی تعمیر بھی بین الاقوامی معیار کی ہے۔ بلند و بالا عمارات، بڑے بڑے شاپنگ مالز، کشادہ سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک میں گذرتے ہوئے نیروبی شہر سے باہر نواحی علاقے میں قائم زرافہ سنٹر (Giraffe Centre) پہنچے۔ کینیا چونکہ جنگلی حیات کا مسکن ہے اس لئے سیاحوں کی دلچسپی کے لئے بہت سے مقامات بنائے گئے ہیں۔ زرافہ سنٹر دیکھنے کے لئے سیاحوں کو کافی گراں ٹکٹ خریدنا ہوتی ہے۔ لیکن زرافوں کے ساتھ آپ کی قربت اس گرانی کو بھلا دیتی ہے۔ سیاحوں کو دیکھتے ہی زرافے انتہائی دوستانہ ماحول میں ان کے قریب آجاتے ہیں۔ انہیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں ہمارا من پسند کھانا کھلائیں گے۔ جب ہم زرافہ سنٹر میں داخل ہوئے تو سیاحوں کے لئے ٹریک بنایا گیا ہے جس کے گرد باڈر لگا یا گیاہے۔ یہ ٹریک سطح زمین سے چند فٹ اونچا بنایا گیا ہے تا کہ دراز قد زرافے سے آپ کی سہولت کے ساتھ ملاقات ہو جائے۔ ناریل کےبیرونی سخت خول میں سیاح زرافوں کے لئے تیار شدہ دانے دار کھانا لیتے ہیں اور زرافے بڑے شوق اور دوستانہ انداز میں آپ کی ہتھیلی سے وہ کھانا مزے لے لے کر اپنی زبان سے اٹھا کر کھاتے جاتے ہیں۔ زرافہ ایک خوبصورت جانور ہے اس کے جلد کے نقوش من بھاتے ہیں اور اس میں طبعاً شرافت بھی پائی جاتی ہے۔ یہاں زرافوں کو کھانا کھلانے کے منظر نے بچوں بڑوں سب کو ہی بہت لطف دیا۔ زرافہ سنٹر میں موجود زرافوں کے بارے میں مکمل معلومات کی گیلری موجود تھی جہاں درج تھا کہ ان کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی۔ ان کے نام بھی رکھے گئے تھے۔ سیاحوں کے مقام پر ان کی جیبیں خالی کرنے کا سامان نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے! ہر ایسے مقام کی طرح یہاں بھی سوونیئر شاپس زرافہ سنٹر کے اندر اور باہر سڑک کنارے موجود تھیں جہاں سیاح اپنی سیاحت کو یادگار بناتے ہوئے وہاں کے تحائف خریدتے ہیں۔

زرافہ سنٹر میں خوب لطف اندوز ہونے کے بعد ہمارا قافلہ نیروبی کے نواح میں موجود ٹی گارڈنز کی سیر کو چلا گیا اور وہاں چائے کی فیکٹری سے چائے بھی خریدی۔ یہاں خوبصورت نظارے کرنے کے بعد شام ڈھلنے کو تھی کہ واپسی کا سفر شروع ہوا لیکن یہ کیسے ہو سکتا صرف سیر ہو اور سامان طعام نہ ہو۔ نیروبی پہنچنے سے پہلے سڑک کنارے قیام و طعام کے لئے رکے اور ہر ایک نے اپنی مرضی کے مطابق کھانے کا آرڈر کیا۔ نیروبی واپسی پر رات ہو چکی تھی اس لئے واپسی پر برقی قمقموں سے جگمگاتے نیروبی ڈاؤن ٹاؤن کا نظارہ بھی کروا دیا گیا۔ یوں تفریح، معلومات، قدرتی نظاروں اور مشاہدہ فطرت سے بھر پور دن ہم نے گزارا۔

آپ مشرقی افریقہ جائیں اور سفاری نہ کریں یہ ممکن نہیں۔ بلکہ بیشتر سیاح مشرقی افریقہ کا رخ جنگلی حیات کے مشاہدہ کے لئے ہی کرتے ہیں۔ ہمارے عزیزوں کا ایک بڑا وفد جنگلی حیات کی سفاری کے لئے مسائی مارا گیا تھا جہاں دو رات قیام کر کے جنگلی حیات کا ان کے مسکن میں قریب سے مشاہدہ کرتے رہے۔ میرے سمیت چار رکنی وفد نے نیروبی نیشنل پارک کی سفاری میں دن بھر گزارا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس کی تفصیلات اور نظارے الگ مضمون میں قلمبند کروں گا۔ ان شاء اللّٰہ

مسائی تمدن کینیا کی پہچان اوروہاں کی ثقافت و تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لئے سیاحوں کی دلچسپی کے لئے آپ کو نیروبی کے بڑے بڑے مالز اور عوامی مقامات پر مسائی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے ان کے تحائف /سوونیئرز پر مبنی سٹالز نظر آئیں گے۔ لکڑی اور پتھر سے بنی مسائی کلچر کی اشیاء لوگ اپنے سفر کو یادگار بنانے کے لئے خرید کرتے ہیں۔

25؍ اگست کو ہم تفریح کے لئے نیروبی سے 15 کلو میٹر دور Paradise Lost گئے۔ یہ نیروبی کے نواحی علاقے میں ایک قدرتی مقام ہے جس میں سیاحوں کی دلچسپی کے بہت سے مواقع ہیں۔ ایک جھیل خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔ قدرتی آبشار بھی ہے اور سٹون ایج کے غار بھی یہاں موجود ہیں۔ یہاں ایک احاطے میں کچھ جانور بھی رکھے گئے ہیں جس میں اونٹ، شترمرغ، لامہ اور گھوڑے شامل ہیں۔ خوبصورت پودے بالخصوص کیکٹس کی نادر اقسام قدرتی حسن میں اضافے کا باعث ہیں۔پیراڈائزلاسٹ میں تفریح کے لئے داخلہ ٹکٹ لینا ضروری ہے۔ یہ یاد رہے کہ داخلہ ٹکٹ ہر جگہ مقامی لوگوں اور سیاحوں کےلئے بالکل مختلف ہوتا ہے مثلاً نیروبی نیشنل پارک کا ٹکٹ غیر ملکی سیاحوں کے لئے 60 ڈالرز اور مقامی لوگوں کے لئے تین ڈالر کے مساوی مقامی کرنسی ہے۔ پیرا ڈائز لاسٹ میں تفریح کے لئے زپ لائن کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہاں غار قدرتی بنے ہوئے ہیں اور ان کے اوپر آبشار ہے۔ خوبصورت جھونپڑیاں قدرتی اشیاء سے بنا کر ان کے گرد بنچ رکھے گئے ہیں۔ یہ جھونپڑیاں خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ آپ بڑے آرام کے ساتھ تین چار گھنٹے اس تفریحی مقام پر گزار سکتے ہیں۔

ہماری سیر اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 26؍ اگست جمعة المبارک کا روز اور ہمارے قیام نیروبی کا آخری دن تھا۔ یہ دن ہم نے بھر پور گزارا۔ جمعہ سے قبل محترم امیر صاحب کے ساتھ ہم احمدیہ قبرستان نیروبی گئے۔ مشن ہاؤس سے اندازاً تین کلو میٹر کے فاصلے پر عین شہر کے اندر یہ قبرستان ہے جو تقریباً سو سال قبل احباب جماعت نےحاصل کیا تھا۔ اس کی تاریخی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب بھی مدفون ہیں جو جماعت کینیا کے بانی مبانی تھے۔ ان کی قبروں پر دعا کرنے کا موقع ملا۔ ان اصحاب کے تعارف پر مبنی ایک مضمون علیحدہ سے قلمبند کروں گا۔ ان شاء اللّٰہ

جمعہ کا یہ دن میرے لئے بھی یادگاری تھا۔ محترم امیر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ پڑھا دیں۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ ارض بلال میں پہلی بار اور پھر یہ کہ میں نے اردو میں خطبہ دیا اور ایک مربی عدنان ہاشمی صاحب اس کا ترجمہ سواحیلی میں ساتھ ساتھ کر رہے تھے۔ اعتصام بحبل اللہ، باہمی الفت و محبت اور خلفائے کرام کی جماعت سے محبت کو موضوع سخن بنایا۔

حضرت صاحب کے خطبہ کو سماعت کرنے کے بعد اس سفر کی آخری سیر کے لئےہم Thika Water Falls دیکھنے روانہ ہوئے۔ یہ مقام Thika Highway A-2 پر نیروبی سے تقریباً 40 کلو میٹر دور واقع ہے۔ نیروبی مشن ہاؤس مورانگا روڈ پر ہے۔ بعد میں یہ روڈ Thika Highway بن جاتی ہے۔ اس پر 40 کلو میٹر کے فاصلے پر Blue Post Hotel ایک تفریحی مقام (Resort) ہے۔اس مقام پر ایک خوبصورت تعمیر کردہ ہوٹل، اس سے ملحقہ مشہور آبشار Thika Falls اور ہوٹل کے ساتھ ایک Zoo ہے جس میں مختلف جانور رکھے گئے ہیں۔ آبشارThika کا نظارہ بہت ہی خوبصورت ہے اور اس کے ارد گرد کے مناظر، درخت اور پودے بہت ہی دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔Huts نما بلو پوسٹ ہوٹل کا ڈیزائن قدرتی حسن کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ یہاں آپ دو تین گھنٹے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

27؍ اگست ہماری واپسی کا دن تھا۔ نیروبی میں گزرا ہوا ایک عشرہ ہم نے بھر پور گزارا ہے۔ قدرت کے حسین نظارے اور مظاہر فطرت کا مشاہدہ، اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور صناعی سے اس کی حمد سے دل لبریز ہو جاتا ہے۔ قبل از دوپہر نیروبی ایئر پورٹ روانگی ہوئی اور یہاں ایئر عریبیہ کی فلائٹ سے شارجہ اور وہاں محض ایک گھنٹے کے وقفہ سے جو کہ جہاز کی تبدیلی میں ہی صرف ہو گیا تھا،فیصل آباد کے لئے اڑان بھری۔ فیصل آباد پہنچے تو تاریخ اور موسم بدل چکا تھا۔ ایئر پورٹ پر عزیزم ڈاکٹر عقیل ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہ ہمیں نیروبی کے لئے الوداع کہنے بھی فیصل آباد ایئر پورٹ آئے تھے۔ علی الصبح ہم بخیریت اپنے گھر پہنچ گئے۔

مضمون کے اختتام سے قبل شکریہ احباب ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ شکر الٰہی تبھی ادا ہوتا ہے جب بندوں کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اس کے تحت سفری سہولت کاری اور مہمان نوازی کا حق ادا کرنے والے ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ہمیں اس غیر ملکی سفر پر بھیجنے کے لئے سبھی بچے پر جوش تھے لیکن عزیزم واصف نے ہم سے مخفی رکھتے ہوئے اپنے تئیں طے کر لیا تھا کہ اسے اگر ایک اپلائی کردہ نئی اضافی جاب مل گئی تو وہ ہمارے سفر کینیا کے ٹکٹ ادا کرے گا۔ الحمد للّٰہ کہ ہمارے ویزا آنے کے بعد اسے ایک غیر ملکی ایڈ پروگرام میں کنسلٹینسی مل گئی اور اس نے ہمارے ایئر ٹکٹس کے اخراجات ادا کئے۔ اللہ تعالیٰ اسے دین و دنیا کی حسنات سے نوازے۔ نیروبی میں ہمارے میزبان محترمی طارق محمود ظفر صاحب نے میزبانی کے ساتھ ہماری سیر و تفریح کے پروگرامز میں کمال سہولت کاری کا مظاہرہ کیا اور یہ فریضہ وہ ہمارے استقبال سے الوداع تک بڑی محبت کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ نیروبی قیام کے دوران ہماری ہمشیرہ عزیزہ خالدہ طارق اور اس کی بچیوں نے حق مہمان نوازی خوب ادا کیا۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء۔ کینیا کا قدرتی حسن اور یہاں کا خوبصورت موسم ہمیں مدتوں یاد رہے گا۔

(ایم۔ایم۔طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی