• 18 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے خُلقِ عظیم کے تین درخشاں پہلو

تبرکات

حضرت مرزا بشیر احمدؓ

مؤرخہ 23 جنوری 1960ء کو جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں حضرت مرزا بشیر احمدؓ نے اپنا جو نہایت قیمتی اور بصیرت افروز مضمون پڑھا وہ احباب کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ مضمون روزنامہ الفضل ربوہ میں 9 تا 11 فروری 1960ء تین اقساط میں شائع ہوا۔ اب 60سال کے بعد ایک قسط میں اس شمارے کی شان میں اضافہ کر رہا ہے

(ایڈیٹر)

آج حضرت میرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام، مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر نصف صدی سے کچھ اوپر گزرتا ہے۔ میں اس وقت قریباً پندرہ سال کا تھا اور یہ وقت پورے شعور کا زمانہ نہیں ہوتا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاقِ فاضلہ کے تین خاص پہلو اس قدر نمایاںہو کر میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں کہ گویا میں اب بھی اپنی ظاہری آنکھوں اور اپنے مادی کانوں سے ان کے بلند وبالا نقوش کو دیکھ رہا اور ان کی دلکش دلآویز گونج کو سن رہا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلقِ عظیم کے یہ تین پہلو (اول) محبتِ الٰہی (دوم) عشقِ رسول اور (سوم) شفقت علیٰ خلق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی تین پہلوؤں کے چند جستہ جستہ واقعات کے متعلق میں اس جگہ کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرا یہ بیان ایک طرح سے گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کا رنگ رکھتا ہے اور کوزہ بھی وہ جو بہت چھوٹااور بڑی تنگ سی جگہ میں محصور ہے۔ مگر خدا چاہے تو ایک مختصر سے بیان میں ہی غیر معمولی برکت ڈال سکتا ہے۔

وَمَا تَوْفِیْقُ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ وَ ھُوَالْمُسْتَعَانُ فِیْ کُلِّ حَالٍ وَّ حِیْنٍ۔

محبت الٰہی

سب سے پہلے اور سب سے مقدم محبت الٰہی کا نمبر آتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو خالق و مخلوق کے باہمی رشتہ کا مضبوط ترین پیوند اور فطرتِ انسانی کا جزوِ اعظم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس روحانی پیوند کا بہت عجیب و غریب رنگ میں آغاز ہوا۔ اس کا تصور ایک صاحبِ دل انسان میں وجد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا جوانی کا عالم تھا جبکہ انسان کے دل میں دنیوی ترقی اور مادی آرام و آسائش کی خواہش اپنے پورے کمال پر ہوتی ہے۔ اورحضور کے بڑے بھائی صاحب ایک معزز عہدہ پر فائز ہو چکے تھے اور یہ بات بھی چھوٹے بھائی کے دل میں ایک گونہ رشک یا کم از کم نقل کا رجحان پیدا کر دیتی ہے۔ ایسے وقت میں حضرت مسیح موعودؑ کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ جو ہمارے دادا صاحب سے ملنے آیا تھا حضرت مسیح موعودؑ کو کہلا بھیجا کہ آج کل ایک ایسا بڑا افسر برسرِ اقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں۔ اس لئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتا ہوں۔ یہ سکھ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضرہوا اور ہمارے دادا صاحب کا پیغام پہنچا کر تحریک کی کہ یہ ایک بہت عمدہ موقع ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے جواب میں بلاتوقف فرمایا حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر

’’میری نوکری کی فکر نہ کریں۔ میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں‘‘

(سیرت المہدی جلد اول)

یہ سکھ زمیندار حضرت دادا صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کر واپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے تو یہ جواب دیا ہے کہ ’’میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں۔‘‘ شائد وہ سکھ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس جواب کو اس وقت اچھی طرح سمجھا بھی نہ ہوگا۔ مگر دادا صاحب کی طبیعت بہت نکتہ شناس تھی۔ کچھ دیر خاموش رہ کر فرمانے لگے کہ اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نوکر ہو چکا ہوں تو پھر ٹھیک ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔ اور اس کے بعد کبھی کبھی حسرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ ’’سچا رستہ تو یہی ہے جو غلام احمد نے اختیار کیا ہے۔ ہم تو دنیاداری میں الجھ کر اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں۔‘‘ مگر باوجود اس کے وہ شفقتِ پدری اور دنیا کے ظاہری حالات کے ماتحت اکثر فکر مند بھی رہتے تھے کہ میرے بعد اس بچہ کا کیا ہوگا؟ اور لازمہئ بشری کے ماتحت حضرت مسیح موعودؑ کو بھی والد کے قربِ وفات کے خیال سے کسی قدر فکر ہوا۔ لیکن اسلام کا خدا بڑا وفادار اور بڑا قدر شناس آقا ہے۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ہمارے دادا صاحب کی آنکھیں بند ہوں خدا نے اپنے اس نوکرِ شاہی کو جس نے اپنی جوانی میں اس کا دامن پکڑا تھا اس عظیم الشان الہام کے ذریعہ تسلی دی کہ:

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ،

(تذکرہ صفحہ 20ایڈیشن چہارم)

یعنی اے میرے بندے! تو کس فکر میں ہے؟ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ یہ الہام اس شان اور اس جلال کے ساتھ نازل ہوا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں ایک فولادی میخ کی طرح پیوست ہو کر بیٹھ گیا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست کیا کر سکتا تھا؟ اور فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھ پر خدا کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ ناممکن ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں۔

(خلاصہ کتاب البریّہ جلد 13صفحہ195-194حاشیہ)

بلکہ ایک جگہ اس خدائی کفالت کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی شکر کے انداز میں فرماتے ہیں کہ:

لُفاَظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکْلِیْ وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 596)

یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دسترخوانوں سے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک ہوا کرتے تھے۔ مگر آج خدا کے فضل سے میرے دسترخوان پر خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں۔

یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر مسجد میں یا اپنے چوبارے میں نماز اور روزہ اور تلاوتِ قرآن مجید اور ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے اور اندر سے ہماری تائی صاحبہ جن کے ہاتھ میں سارا انتظام تھا بچا ہو ا روکھا سوکھا کھانا آپ کو بھجوایا کرتی تھیں۔ خدائی نصرت اور خدائی کفالت کے اس عجیب و غریب واقعہ میں ہماری جماعت کے نوجوانوں اور خصوصاً واقف زندگی نوجوانوں کے لئے بھاری سبق ہے کہ اگر وہ بھی پاک و صاف نیت اور توکل علی اللہ کے خالص جذبہ کے ساتھ خدا کے نوکر بنیں گے تو وہ رحیم و کریم آقا جو سب وفاداروں سے بڑھ کر وفادار اور سب قدر شناسوں سے زیادہ قدر شناس ہے وہ انہیں بھی کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے اور وہ اس کے ہاتھ کو تھامنے سے انکار کرتے ہوئے اسے بے سہارا چھوڑ دے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : ؎

تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا
کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا
تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا
کہ جس کا تُو ہی ہے سب سے پیارا

(اپنے بچوں کی آمین)

غالباً یہ بھی اسی سکھ زمیندار کا بیان ہے جس نے حضرت مسیح موعودؑ کو ہمارے دادا کی طرف سے نوکری کا پیغام لا کر دیا تھا کہ ایک دفعہ ایک بڑے افسر یا رئیس نے ہمارے دادا صاحب سے پوچھا کہ سنتا ہوں کہ آپ کا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے مگر ہم نے اسے کبھی دیکھا نہیں۔ دادا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا تو ہے مگر وہ تازہ شادی شدہ دلہنوں کی طرح کم ہی نظر آتا ہے۔ اگر اسے دیکھنا ہوتو مسجد کے کسی گوشہ میں جاکر دیکھ لیں۔ وہ تو مسیتڑ ہے اور اکثر مسجد میں ہی رہتا ہے اور دنیا کے کاموں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہماری تائی صاحبہ کبھی کبھی بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کی خداداد ترقی کو دیکھ کر اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ میرے تایا (یعنی ہمارے دادا صاحب) کو کیا علم تھا کہ کسی دن غلام احمد کی خوش بختی کیا پھل لائے گی۔

(سیرۃ المہدی و تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحب و سیرۃ مسیح موعودؑ مصنفہ عرفانی صاحب مخلوطاً)

خاکسار جب بھی یہ روایت سنتا ہے تو مجھے لازماً رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آجاتی ہے جس میں آپؐ فرماتے ہیں کہ:

رَجُلٌ کَانَ قَلْبُہ، مُعَلَّقاً بِالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی یَعُوْدَ اِلَیْہِ

(سنن ترمذی کتاب الزھد عن رسول اللہ)

یعنی وہ شخص خدا کے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں ہے جس کا دل ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے۔

مسجدمیں دل لٹکے رہنے سے یہ مراد ہے کہ ایسا شخص خدا کی محبت اور اس کی عبادت میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ اس کا زیادہ وقت مسجد میں ہی گزرتا ہے اور اگر وہ کسی کام وغیرہ کی غرض سے مسجد سے باہر آتا ہے تو اس وقت بھی وہ گویا اپنا دل مسجد میں ہی چھوڑ آتا ہے کہ کب یہ کام ختم ہو اور کب میں اپنے نشیمن میں واپس پہنچوں۔ ہونے والے مامورین کی یہ بات ایسے حالات سے تعلق رکھتی ہے کہ جب وہ اپنے دعویٰ سے قبل ریاضات اور عبادات میں مشغول ہوتے ہیں ورنہ دعویٰ کے بعد تو ان کی زندگی مجسم جہاد کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ جس کا ہر لمحہ باطل کا مقابلہ کرنے اور ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے میں گزرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں خدا کی محبت اتنی رچی ہوئی اور اتنا غلبہ پائے ہوئے تھی کہ اس کے مقابل پر ہر دوسری محبت ہیچ تھی اور آپ ارشاد نبویؐ کا کامل نمونہ تھے کہ:

اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ والْبُغْضُ فِی اللّٰہِ

(سنن ابو داؤد کتاب السنۃ باب مجانب اھل الاھواء و بُغْضُھُمْ)

یعنی سچے مومن کی ہر محبت اور ہر ناراضگی خدا کی محبت اور خدا کی ناراضگی کے تابع اور اسی کے واسطے سے ہوتی ہے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ اپنی ایک فارسی نظم میں خدا کی حقیقی محبت کا پیمانہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ:

ہرچہ غیرے خدا بخاطر تُست
آں بُتِ تُست اے باِیماں سست
پُر حذر باش زیں بتانِ نہاں
دامنِ دل زِ دستِ شاں بُرہاں

(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ128-127)

یعنی جو چیز بھی خدا کے سوا تیرے دل میں ہے وہ (اے سست ایمان والے شخص) تیرے دل کا ایک بُت ہے۔ تجھے چاہئے کہ ان مخفی بتوں کی طرف سے ہوشیار رہ اور اپنے دل کے دامن کو ان بُتوں کی دست بُرد سے بچا کر رکھ۔

یہ ایک عجیب نظارہ ہے کہ اِدھر حضرت مسیح موعودؑ نے خدا کی خاطر دنیا سے مُنہ موڑااور اُدھر خدا نے آپ کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرنی شروع کر دیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ اس نے دونوںجہاں آپ کی جھولی میں ڈال دئیے۔ مگر آپ کی نظر میں خدا کی محبت اور اس کے قرب کے مقابل پر ہر دوسری نعمت ہیچ تھی۔ چنانچہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

اے سر و جان و دل و ہر ذرہ ام قربانِ تو
بر دِلم بکشا زِ رحمت ہر درِ عرفانِ تو
فلسفی کز عقل مے جوید تُرا دیوانہ ہست
دُور تر ہست از خِردِہا آں رہ پنہانِ تو
از حریمِ تو ازیناں ہیچ کس آگہ نشد
ہَر کہ آگہ شُد شُد از احسانِ بے پایانِ تو
عاشقانِ روئے خود را ہر دو عالم مے دہی
ہر دو عالم ہیچ پیشِ دیدۂ غِلمانِ تو

(چشمۂ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 392-391)

یعنی اے وہ کہ تجھ پر میرا سر اور میری جان اور میرا دل اور میرا ہر ذرہ قربان ہے تو اپنے رحم و کرم سے میرے دل پر اپنے عرفان کا ہر رستہ کھول دے۔ وہ فلسفی تو دراصل عقل سے کورا ہے جو تجھے عقل کے ذریعہ تلاش کرتا ہے کیونکہ تیرا پوشیدہ رستہ عقلوں سے دور اور نظروں سے مستُور ہے۔ یہ سب لوگ تیری مقدّس بارگاہ سے بے خبر ہیں۔ تیرے دروازہ تک جب بھی کوئی شخص پہنچا ہے تو صرف تیرے احسان کے نتیجہ میں ہی پہنچا ہے۔ تُو بے شک اپنے عاشقوں کو دونوں جہان بخش دیتا ہے مگر تیرے غلاموں کی نظر میں دونوںجہانوں کی کیا حقیقت ہے؟ وہ تو صرف تیرے منہ کے بھوکے ہوتے ہیں۔

دوست ان شعروں پر غور کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ کس ناز سے فرماتے ہیں کہ اے میرے آسمانی آقا ! تو نے بے شک مجھے گویا دونوںجہانوں کی نعمتیں دے دی ہیں مگر مجھے ان نعمتوں سے کیا کام ہے؟ مجھے تو بس تُو چاہئے۔ یہ وہی بات ہے کہ حضرت موسیٰؑ کو خدا نے نبوت دی۔ فرعون جیسے جبّار بادشاہ پر غلبہ بخشا۔ ایک قوم کی سرداری عطا کی مگر پھر بھی ان کی پُکار یہی رہی کہ ’’رَبِّ اَرِنِیْ اُنْظُرْ اِلَیْکَ‘‘ (الاعراف:144) یعنی خدایا تیرے احسانوں کے نیچے میری گردن دبی ہوئی ہے مگر ذرا اپنا چہرہ بھی دکھا دیجئے! یہی حال اپنے محبوب آقا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلّیت میں حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:

در دو عالم مرا عزیز توئی
وآنچہ میخواہم از تو نیز توئی

(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 16 روحانی خزائن جلد 1)

یعنی دونوں جہانوں میں میرا تو بس تُو ہی محبوب ہے اور میں تجھ سے صرف تیرے ہی وصال کا آرزو مند ہوں۔

قرآن مجید سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے بے نظیر معنوی اورظاہری محاسن کی وجہ سے بے حد عشق تھا۔ مگرباوجود اس کے قرآنی محبت کی اصل بنیاد بھی خدا ہی کی محبت پر قائم تھی۔ فرماتے ہیں:

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم)

یعنی قرآن کی خوبیاں تو ظاہروعیاں ہیں مگر اس کے ساتھ میری محبت کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ اے میرے آسمانی آقا! وہ تیری طرف سے آیا ہوا مقدس صحیفہ ہے جسے بار بار چومنے اور اس کے گرد طواف کرنے کے لئے میرادل بے چین رہتا ہے۔

ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیل گاڑی میں بیٹھ کر قادیان سے بٹالہ تشریف لے جا رہے تھے (اور یہ سفر بیل گاڑی کے ذریعہ قریباً پانچ گھنٹے کا تھا) حضرت مسیح موعودؑ نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورہ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورۃ کو استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے ازلی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہے ہیں۔

(سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ106)

جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو اس کثرت اور اس تکرار کے ساتھ اپنی وفات کے قرب کے بارے میںالہام ہوئے کہ کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جاتے۔ مگر چونکہ آپ کو خدا کے ساتھ کامل محبت تھی اور اُخروی زندگی پر ایسا ایمان تھا کہ گویا آپ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ آپ ان پے در پے الہاموں کے باوجود ایسے شوق اور ایسے انہماک کے ساتھ دین کی خدمت میں لگے رہے کہ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔ بلکہ اس خیال سے اپنی کوششوں کو تیز سے تیز تر کر دیا کہ اب میں اپنے محبوب سے ملنے والا ہوں اس لئے اس کے قدموں میں ڈالنے کے لئے جتنے پھول چُن سکوں، چُن لُوں۔

یہ اسی طرح کی کیفیت تھی جس کے ماتحت آپ کے آقا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں شوق کے ساتھ فرمایا تھا کہ:

اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم)

یعنی خدایا! اب میںتیرے قدموں میں حاضرہو رہا ہوں اور تیری قریب ترین معیت کا آرزو مند ہوں۔

خدا نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس محبت کو ایسی قدر شناسی سے نوازا تھا کہ جو اسی کی بے پایاں رحمت کا حق اور اس کی بے نظیرقدر شناسی کے شایانِ شان ہے۔ چنانچہ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:

اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ۔ اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْنَ رَّسُوْلِ اللّٰہِ

(تذکرہ صفحہ 53،442،490ایڈیشن چہارم)

یعنی چونکہ اس زمانہ میں تُو میری توحید کا علم بردار ہے اور توحید کے کھوئے ہوئے متاع دنیا میں دوبارہ قائم کر رہا ہے۔اس لئے اے مسیح محمدی! تُو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے کہ میری توحید اور تفرید۔ اور چونکہ عیسائیوں نے جھوٹ اور افتراء کے طور پر اپنے مسیح کو خدا کا اصلی بیٹا بنا رکھا ہے اس لئے میری غیرت نے تقاضا کیا کہ میں تیرے ساتھ ایسا ہی پیار کروں کہ جو اولاد کا حق ہوتا ہے۔ تاکہ دنیا پر ظاہرہوکہ محمد رسول اللہ کے شاگرد تک اطفال اللہ کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں۔اور چونکہ تو میرے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت میں دن رات مستغرق اور اس کی محبت میں محو ہے۔ اس لئے میں تجھے اپنے اس محبوب کے روحانی فرزند کی حیثیت میں اپنی لازوال محبت اور اپنی دائمی معیت کے تمغہ سے نوازتا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس محبت اور اس معیت اور اس غیرت پر ناز تھا۔ چنانچہ جب آپ کو 1904-05ء میں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں یہ اطلاع ملی کہ ہندو مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ آپ کو قید کرانے کی داغ بیل ڈال رہا ہے تو آپ اس وقت ناسازی طبع کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے۔ یہ الفاظ سنتے ہی جوش کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ:

وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے

(سیرۃ المہدی حصہ اول)

چنانچہ اپنے ایک شعر میں بھی فرماتے ہیں کہ: ؎

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارونزار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم)

اور اسی نظم میںدوسری جگہ فرماتے ہیں کہ : ؎

سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار

دوستو! میں خدا کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی بے نظیر محبت اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ خدا کی لازوال محبت کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک آپ کو دکھا رہا ہوں۔ اب اس بیج کو اپنے دلوں میں پیدا کرنا اور پھر اس پودے کو خدائی محبت کے پانی سے پروان چڑھانا آپ لوگوں کا کام ہے۔ قرآن کے اس زرّیں ارشاد کو کبھی نہ بھولو کہ:

الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ

(البقرہ:166)

یعنی مومنوں کے دلوں میں خدا کی محبت سب دوسری محبتوں پر غالب ہونی چاہئے

محبتِ الٰہی کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ ایک جگہ ایسے رنگ میں گفتگو فرماتے ہیں کہ گویا آپ اس محبت کی شراب طہور میں مخمور ہو کر اپنے خدا سے ہمکلام ہو رہے ہیں۔ فرماتے ہیں :

’’میں ان نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں (مگر دنیا انہیں نہیں دیکھتی لیکن اے میرے خدا) میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تُو ہی میرا خدا ہے۔ اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ ایک شِیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا۔‘‘

(ضمیمہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ511)

اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کو گواہ رکھ کر فرماتے ہیں :

’’دیکھ! میری روح نہایت توکّل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے۔سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں۔ لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس کے لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں۔‘‘

(ضمیمہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 511)

پھر اسی محبت الٰہی کے جوش میں اپنے اور اپنے مخالفوں کے درمیان حق و انصاف کا فیصلہ چاہتے ہوئے اپنی جان اور اپنے مال و متاع اور اپنی عزت و آبرو اوراپنے جمیع کاروبار کی بازی لگاتے ہوئے خدا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اور کس جذبہ اور ولولہ سے فرماتے ہیں : ؎

اے قدیر و خالق و ارض و سما
اے رحیم و مہربان و رہنما
اے کہ میداری تو بر دلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تو مے بینی مرا پُرفسق و شرّ
گر تو دیدستی کہ ہستم بد گہر
پارہ پارہ کن منِ بدکار را
شاد کن، ایں زمرہئ اغیار را
آتش افشاں بر در و دیوارِ من
دشمنم باش و تبہ کُن کارِمن
در مرا از بند گانت یافتی
قبلہئ من آستانت یافتی
در دِلِ من آں محبت دیدہئ
کز جہاں آں راز را پوشیدئہ
بامن از روئے محبت کار کُن
اند کے افشاءِ آں اسرار کُن
اے کہ آئی سوئے ہر جویندئہ
واقفی از سوز ہر سوزندئہ
زاں تعلق ہا کہ با تو داشتم
زاں محبت ہا کہ در دِل کاشتم
خود بروں آ از پئے ابراءِ من
اے تو کہف و ملجاء و ماوائے من
آتشے کاندر دِلم افروختی
وز دمِ آں غیر خود را سوختی
ہم ازاں آتش رُخِ من بر فروز
ویں شبِ تارم مبدّل کُنْ بروز

(حقیقتہ المہدی، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 434)

یعنی اے میرے قادرو قدیر خدا! اے وہ جو زمین و آسمان کا واحد خالق و مالک ہے۔اے وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا اور ان کی ہدایت کا بے حد آرزو مند ہے۔ہاںاے میرے آسمانی آقا! جو لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اگر تو دیکھتا ہے کہ میرا اندرونہ فسق و فساد اور فتنہ و شر کی نجاست سے بھرا ہوا ہے۔ اگر تو مجھے ایک بد فطرت اورایک ناپاک سیرت انسان خیال کرتا ہے تو میں تجھے تیرے جبروت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھ بدکار کو پارہ پارہ کر کے رکھ دے اور میرے مخالفوں کے دلوںکو ٹھنڈا کر۔تو میرے درو دیوار پر اپنے عذاب کی آگ برسا اور میرا دشمن بن کر میرے کاموں کو تباہ و برباد کر دے۔ لیکن اگر تو جانتا ہے کہ میں تیرا اور صرف تیرا ہی بندہ ہوں۔اور اگر تو دیکھ رہا ہے کہ صرف تیراہی مبارک آستانہ میری پیشانی کی سجدہ گاہ ہے۔ اگر تو میرے دل میں اپنی بے پناہ محبت پاتا ہے جس کا راز اس وقت تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ تو اے میرے پیارے آقا ! تو مجھے اپنی محبت کا کرشمہ دکھا اور میرے عشق کے پوشیدہ راز کو لوگوں پر ظاہر فرمادے۔ ہاں اے وہ جو کہ ہر متلاشی کی طرف خود چل کے آتا ہے اور ہر اس شخص کے دل کی آگ سے واقف ہے جو تیری محبت میں جل رہا ہے۔ میں تجھے اپنی اس محبت کے پودے کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میں نے تیرے دل کی گہرائیوں میں لگا رکھا ہے کہ تو میری بریّت کے لئے باہرنکل آ۔ ہاںہاںاے وہ جو میری پناہ اور میرا سہارا اور میری حفاظت کا قلعہ ہے۔وہ محبت کی آگ جو تُو نے اپنے ہاتھ سے میرے دل میں روشن کی ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں تیرے سوا ہردوسرا خیال جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ تُو اب اسی آگ کے ذریعہ میرے پوشیدہ چہرے کو دنیا پرظاہر کر دے اور میری تاریک رات کو دن کی روشنی میں بدل دے۔

اس عجیب و غریب نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ جس بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے وہ اتنی ظاہر و عیاں ہے کہ اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ ان اشعار کے الفاظ اس اسفنج کے ٹکڑے کا رنگ رکھتے ہیں جس کے رگ و ریشہ میں مصفّیٰ پانی کے قطرات اس طرح بھرے ہوئے ہوں کہ اسفنج کو پانی سے اور پانی کو اسفنج سے ممتاز کرنا ناممکن ہو جائے۔ مگر میں ان اشعار کی تحدّی اور خدائی نصرت پر کامل بھروسہ کے پہلو کے متعلق دوستوںکو ضرور تھوڑی سی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ اشعار جیسا کہ ہماری جماعت کے اکثر واقف کار اصحاب جانتے ہیں 1899ء میں کہے گئے تھے جس پر اس وقت ساٹھ سال کا عرصہ گزر ا ہے۔ جس کا زمانہ پانے والے اس وقت ہزاروں لاکھوں لوگ موجودہوں گے اور یہ عرصہ قوموںکی زندگی میں گویا کچھ بھی نہیں۔ مگر اس قلیل عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ان غیرت دلانے والے متحدّیانہ الفاظ کے نتیجہ میں جس غیر معمولی رنگ میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود آپ کے سلسلہ کو ترقی دی اور اس کی نصرت فرمائی اور اسے پھیلایا اور اسے اوپر اٹھایا ہے۔ اس کا چھوٹا سا نظارہ ہمارے سالانہ جلسوںمیں نظر آتا ہے۔ جبکہ دو تین سو کی تعداد سے ترقی کر کے جماعت احمدیہ کے نمائندے (نہ کہ کل افراد) جو آج کل جلسہ سالانہ کے موقع پر مرکزِ سلسلہ میں جمع ہوتے ہیں خدا کے فضل سے قریباً ستر اسّی ہزار کی تعداد کو پہنچ جاتے ہیں اور احمدیت کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا کے اکثر آزاد ملکوں میں بلندو بالاہوکر لہرارہا ہے۔اور جو لوگ اس سے پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ گالیاں دیتے تھے وہ آج مسیح محمدی کے خدام کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ پر درود و سلام بھیج رہے ہیں۔

یٰۤاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔

(الاحزاب:57)

بالآخر میں اپنے مضمون کے اس حصہ کے متعلق جو محبتِ الٰہی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے صرف یہ بات کہہ کر اسے ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی محبت کا جذبہ آپ کی ذات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو اس بات کی بھی انتہائی تڑپ تھی کہ یہ عشق کی چنگاری دوسروں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے۔ چنانچہ آپ اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’کشتی نوح‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں۔ کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں۔ اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22-21)

دوستو! ان الفاظ پر غور کرواور اس محبت اور اس تڑپ کی گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرو جو ان الفاظ کی تہہ میں پنہاں ہے۔ آپ یقینا اس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر اندازہ بھی آپ اپنے ظرف کے مطابق کریں گے اس کے نتیجہ میں لازماً آپ کی روحانیت میں علیٰ قدرِ مراتب غیر معمولی بلندی اورغیرمعمولی ترقی اور غیر معمولی روشنی پیدا ہوگی۔

عشقِ رسول ؐ

محبتِ الٰہی کے بعد دوسرے نمبر پر عشقِ رسولؐ کا سوال آتا ہے۔ سو اس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عدیم المثال تھا۔ آپؑ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ:

بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمّرم
گر کُفر ایں بود بخدا سخت کافرم

(ازالۂ اوہام)

یعنی میں خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں۔ اگر میرا عشق کسی کی نظر میں کفر ہے تو خدا کی قسم! میںایک سخت کافر انسان ہوں۔

یہ خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھرمیں پیداہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں۔بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں۔ مگر میں نے ایک دن مرکرخدا کو جان دینی ہے۔ میں اسی آسمانی آقا کو حاضروناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعودؑ کی آنکھوں میں آنسوؤںکی جھلی نہ آگئی ہو۔ آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رؤاں رؤاں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات ؐ کے عشق سے معمور تھا۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی مسجد جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جا تے تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سنا تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسان بن ثابتؓ کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے:

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیْ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

(دیوان حسان بن ثابت)

یعنی اے خدا کے پیارے رسولؐ! تُو میری آنکھ کی پُتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی۔

راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت! یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اس وقت حسان بن ثابت ؓ کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ ’’کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا‘‘

دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سخت سے سخت زمانے آئے۔ ہر قسم کی تنگی دیکھی۔ طرح طرح کے مصائب برداشت کئے۔ حوادث کی آندھیاں سر سے گزریں۔ مخالفوں کی طرف سے انتہائی تلخیوں اور ایذاؤں کا مزا چکھا۔ حتیٰ کہ قتل کے سازشی مقدمات میں سے بھی گزرنا پڑا۔ بچوں اور عزیزوں اور دوستوں اور اپنے جاں نثار فدائیوں کی موت کے نظارے بھی دیکھے مگر کبھی آپ کی آنکھوں نے آپ کے قلبی جذبات کی غمازی نہیں کی۔ لیکن علیحدگی میں اپنے آقا رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق (اور وفات بھی جس پر تیرہ سو سال گزر چکے تھے) یہ محبت کا شعر یاد کرتے ہوئے آپ کی آنکھیں سیلاب کی طرح بہہ نکلیں۔ اور آپ کی یہ قلبی حسرت چھلک کر باہر آگئی کہ ’’کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا‘‘

قادیان میں ایک صاحب محمد عبداللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے نظاروںکی تصویریں دکھا کر اپنا پیٹ پالا کرتے تھے۔ مگر جوش اور غصے میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے اور حضور کو گالیاں دی ہیں۔ پروفیسر صاحب طیش میں آکر بولے کہ اگر میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بے ساختہ فرمایا ’’نہیں نہیں ایسا نہیں چاہئے۔ ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب اس وقت غصے میں آپے سے باہرہورہے تھے۔ جوش کے ساتھ بولے واہ صاحب واہ !یہ کیا بات ہے۔آپ کے پیر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی شخص بُرا بھلا کہے تو آپ فوراً مباہلہ کے ذریعہ اسے جہنم تک پہنچانے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں؟ پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کس نے صبر کیا ہے اور کس نے کرنا ہے؟ مگر اس چھوٹے سے واقعہ میں عشقِ رسولؐ اور غیرتِ ناموسِ رسولؐ کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی۔

پنڈت لیکھرام کو کون نہیں جانتا۔ وہ آریہ سماج کے بہت بڑے مذہبی لیڈر تھے اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے بد ترین دشمن بھی تھے۔ جن کی زبان اسلام اور مقدس بانئ اسلام کی مخالفت میں قینچی کی طرح چلتی اور چھری کی طرح کاٹتی تھی۔ انہوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر کھڑے ہو کر اسلام اور مقدس بانی اسلامؐ پر گندے سے گندے اعتراض کئے اور ہر دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو ایسے دندان شکن جواب دئیے کہ کوئی کیا دے گا۔ مگر یہ صاحب رُکنے والے نہیں تھے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام کا یہ مقابلہ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مباہلہ پر ختم ہوا۔ جس کے نتیجہ میں پنڈت جی حضرت مسیح موعودؑ کی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھتے ہوئے اور ہزاروں حسرتیںاپنے سینہ میں لئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہی پنڈت لیکھرام کا یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں ایک سٹیشن پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام کا بھی ادھر سے گزر ہو گیا۔ اور یہ معلوم کر کے کہ حضرت مسیح موعودؑ اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں پنڈت جی دنیا داروں کے رنگ میں اپنے دل کے اندر آگ کا شعلہ دبائے ہوئے آپ کے سامنے آئے۔ آپ اس وقت نماز کی تیاری میں وضو فرما رہے تھے۔ پنڈت لیکھرام نے آپ کے سامنے آکر ہندوانہ طریق پر سلام کیا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گویا کہ دیکھا ہی نہیں۔ اس پر پنڈت جی نے دوسرے رُخ سے ہو کر پھر دوسری دفعہ سلام کیا اور حضرت مسیح موعودؑ پھر خاموش رہے۔ جب پنڈت جی مایوس ہو کر لوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت مسیح موعودؑ نے پنڈت لیکھرام کا سلام نہیں سنا ہوگا حضور سے عرض کیا کہ پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ:

’’ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے!!!‘‘

(سیرۃ المہدی و سیرۃ مسیح موعودؑ مصنفہ عرفانی صاحب)

یہ اس شخص کا کلام ہے جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے مجسم رحمت تھا۔ ہندوؤں میں اس کے روز کے ملنے والے دوست تھے اور سکھوں میں اس کے دوست تھے اور عیسائیوں میں اس کے دوست تھے اور اس نے ہر قوم کے ساتھ انتہائی شفقت اور انتہائی ہمدردی کا سلوک کیا۔ مگر جب اس کے آقا اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کا سوال آیا تو اس سے بڑھ کر ننگی تلوار دنیا میں کوئی نہیں تھی۔

اسی قسم کا ایک واقعہ لاہور کے جلسہ ’’وچھو والی‘‘ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ آریہ صاحبان نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے ہر مذہب و ملت کو دعوت دی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے باصرار درخواست کی کہ آپ اس بین الاقوامی جلسہ کے لئے کوئی مضمون تحریرفرمائیں۔ اور وعدہ کیاکہ جلسہ میں کوئی بات خلافِ تہذیب اور کسی مذہب کی دلآزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہو گی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نورالدین کو جو بعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اوّل مقرر ہوئے بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا۔ اور ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں اسلام کے محاسن بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش رنگ میں بیان کئے گئے تھے۔ مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس بندۂ خدا نے اپنی قوم کے وعدوںکو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتنا زہراُگلا اور ایسا گند اُچھالا کہ خدا کی پناہ۔ جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود ؑ کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپ حضرت مولوی نورالدین اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بارجوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہاگیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے؟ اور کیوں نہ فوراً اٹھ کر باہر چلے آئے؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے؟ اور پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ:

اِذَاسَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ

(النساء:141)

یعنی اے مومنو! جب تم سنو کے خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیاجاتا ہے اور ان پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اُٹھ جایا کروتا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ اندازِ گفتگو کو اختیار کریں۔

اس مجلس میں حضرت مولوی نورالدیؓن (خلیفہ اوّل) بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پرندامت کے ساتھ سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم اور ندامت سے کٹی جارہی تھی۔

(سیرۃ المہدی حصہ اول)

خان بہادر مرزا سلطان احمد کو جماعت کے سب یا کم از کم اکثر دوست جانتے ہیں۔ وہ ہماری بڑی والدہ صاحبہ کے بطن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے لڑکے تھے جو ڈپٹی کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور دنیا کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر حضور کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ حضور سے علیحدہ ہی رہے اور حضورؑ کے خاندانی مخالفوں سے اپنا تعلق قائم رکھا۔ گو بعد میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے زمانہ میں بیعت کر لی اور اس طرح آپ نے ہم تین بھائیوں کو چار کر دیا۔ بہر حال خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے غیر احمدی ہونے کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے اخلاق و عادات کے متعلق کچھ دریافت کروں۔ چنانچہ میرے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا کہ:

’’ایک بات میں نے والد (یعنی حضرت مسیح موعودؑ) میں خاص طور پر دیکھی ہے۔ وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر کوئی شخص آنحضرتؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سُرخ ہو جاتا تھااور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی میں نہیں دیکھا۔ اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دہرایا۔‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ اول)

یہ اس شخص کی شہادت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل نہیں تھا۔ جس نے حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی جوانی سے لے کر حضورؑ کی وفات تک دیکھا۔ جس نے اسّی سال کی عمر میں وفات پائی۔ جس کے تعلقات کا دائرہ اپنی معزز ملازمت اور اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے نہایت وسیع تھا اور جو اپنے سوشل تعلقات میں بالکل صحیح طور پر کہہ سکتا تھا کہ:

’’جفتِ خوش حالاں و بد حالاں شدم‘‘

مگر حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں غیر احمدی ہونے کے باوجود اس کے عمر بھر کے مشاہدہ کا نچوڑ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا۔‘‘

ایک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پرلیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نَوَّ رَاللّٰہ مَرقَدَھَا اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا۔ حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے۔ حج کو چلنا چاہئے۔ اس وقت زیارتِ حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعودؑ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپؑ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ حضرت نانا جان کی بات سن کر فرمایا:

’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے۔ مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا؟‘‘

(روایات نواب مبارکہ بیگم صاحبہ)

یہ ایک خالصتاً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے۔ لیکن اگر غور کیاجائے تو اس میں اس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشقِ رسولؐ کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے قلبِ صافی میں موجزن تھیں۔ حج کی کس سچے مسلمان کی خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاکؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے۔ اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؐ کی آل و اولاد اور آپؐ کے صحابہؓ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کامہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑ اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ ؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں سے چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا:

’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘

پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسیؓن کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا ’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم ؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘ اس وقت آپؑ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔ اور یہ سب کچھ رسولِ پاک ؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔

(روایات نواب مبارکہ بیگم)

چنانچہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:

تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے مامور میرا ہر ذرّہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 225)

یہ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر وہ منظوم اور منثور کلام جو آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں رقم فرمایا ایسے شہد کے چھتے کا رنگ اختیار کر گیا تھا جس میں شہد کی کثرت کی وجہ سے عَسَلِ مصفّٰی کے قطرے گِرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں اور کس محبانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ : ؎

عجب نوریست در جانِ محمدؐ
عجب لَعلیسْت در کانِ محمدؐ
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ
دریں رہ گر کُشَنْدم در بسوزند
نتابم رُو زِ ایوانِ محمدؐ
تو جانِ ما منور کر دی از عشق
فدایت جانم اے جانِ محمدؐ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 649)

یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں خدا نے عجیب نور ودیعت کر رکھا ہے اور آپؐ کی مقدس کان عجیب و غریب جواہرات سے بھری پڑی ہے۔ اگر اے منکرو! تم محمدؐ کی صداقت کی دلیل چاہتے ہو تو دلیلیں تو بے شمار ہیں مگر مختصر رستہ یہ ہے کہ اس کے عاشقوں میں داخل ہو جاؤ۔ کیونکہ محمد ؐ کا وجود اس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ واللہ! اگر آپ ؐ کے رستہ میں مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے اور میرے ذرّہ ذرّہ کو جلا کر خاک بنا دیا جائے تو پھر بھی میں آپؐ کے دروازے سے کبھی منہ نہیں موڑوں گا۔ سو اے محمدؐ کی جان! تجھ پر میری جان قربان۔ تو نے میرے روئیں روئیں کو اپنے عشق سے منور کر رکھا ہے۔

اسی طرح اپنی ایک عربی نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : ؎

أُنْظُرْ اِلَییَّ بِرَحْمَۃٍ وَ تَحَنُّنٍ
یَا سَیِّدِیْ اَنَا اَحْقَرُ الْغِلْمَانٖ
یَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخُلْتَ مَحَبَّۃً
فِیْ مُھْجَتِیْ وَمَدَارِکِیْ وَ جَنَانِیْ
مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِیْ
لَمْ اَخْلُ فِیْ لَحْظٍ وَّ لاَ فِیْ اٰنٖ
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلاَ
یَالَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ لطَّیَرَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 594)

یعنی اے میرے آقا! میری طرف رحمت اور شفقت کی نظر رکھ۔ میں تیرا ایک ادنیٰ ترین غلام ہوں۔ اے میرے محبوب تیری محبت میرے رگ و ریشہ میں اور میرے دل میں اورمیرے دماغ میں رَچ چکی ہے۔ اے میری خوشیوںکے باغیچے! میں ایک لمحہ اور ایک آن بھی تیری یاد سے خالی نہیں رہتا۔ میری روح تو تیری ہو چکی ہے مگر میرا جسم بھی تیری طرف پرواز کرنے کی تڑپ رکھتا ہے۔ اے کاش! مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی۔

ان اشعار میں جس محبت اور جس عشق اور جس تڑپ اور جس فدائیت کا جذبہ جھلک رہا بلکہ چھلک رہا ہے وہ کسی تبصرہ کا محتاج نہیں۔ کاش ہمارے احمدی نوجوان اس محبت کی چنگاری سے اپنے دلوں کو گرمانے کی کوشش کریں۔ اور کاش ہمارے غیر احمدی بھائی بھی اس عظیم الشان انسان کی قدر پہچانیں جس کے متعلق ہم سب کے آقا اور سردار حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

یُدَفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِیْ

(کتاب الوفاء ابن الجوزی)

یعنی آنے والے مسیح کو میری روح کے ساتھ ایسی گہری مناسبت اور ایسا شدید لگاؤ ہو گا کہ اس کی روح وفات کے بعد میری روح کے ساتھ رکھی جائے گی۔

عشق کا لازمی نتیجہ قربانی اور فدائیت اور غیرت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں یہ جذبہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ ایک جگہ عیسائیوں پادریوں کے ان جھوٹے اور ناپاک اعتراضوںکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات پر کیا کرتے ہیں کہ:

نَحْتُوْا لِلرَّسُوْلِ الْکَرِیْمِ بُھْتَانَاتٍ وَّ أَضَلُّوْا خَلْقًا کَثِیْرًا بِتِلْکَ الْاِفْتِرَائِ۔ وَمَا اٰذٰی قَلْبیْ شَیءٌ کَاسْتِھْزَآئِھِمْ فِیْ شَانِ الْمُصْطَفٰی وَ جَرْھِھِمْ فِی عَرْضِ خَیْرِ الْوَرٰی۔ واللّٰہِ لَوْ قُتِلَتْ جَمِیْعُ صِبْیَانِیْ وَ أوْلَادِیْ وَ أحْفَادِیْ بِأعْیُنِنِیْ۔ وَ قُطِعَتْ أَیْدِیْ وَ أَرْجُلِیْ وَ أُخْرِجَتِ الْحَدَقَۃُ مِنْ عَیْنِیْ۔ وَ أُبْعِدْتُّ مِنْ کُلِّ مُرَادِیْ وَ أَونِیْ وَ اَرَنِیْ۔ مَا کَانَ عَلَیَّ أَشُقُّ مِنْ ذَالِکَ۔ رَبِّ انْظُرْ اِلَیْنَا وَ اِلٰی مَا ابْتُلِیْنَا۔

’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس افتراء کے ذریعہ ایک خلقِ کثیرکو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے بھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسولِ پاک ؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلآزار طعن وتشنیع نے جو وہ حضرت خیرالبشرؐ کی ذاتِ والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کررکھا ہے۔خدا کی قسم! اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پُتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھوبیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پربھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔ پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاءِ عظیم سے نجات بخش۔‘‘

(ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ15)

کیا اس زمانہ میں اس غیرت اور اس فدائیت کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ اور یہ صرف منہ کا دعویٰ نہیں تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی اورزندگی کا ہر چھوٹا اوربڑا واقعہ اس عظیم الشان فدائیت پر عملی گواہ تھا۔ جسے آپ کے مخالف بھی شدید مخالفت کے باوجود قبول کرنے کے لئے مجبورتھے۔ چنانچہ آپؑ کی وفات پر جو تعزیتی مقالہ امرتسر کے غیر احمدی اخبار ’’وکیل‘‘ نے لکھا اس میں مقالہ نگار لکھتا ہے:

’’مرزا صاحب کی رحلت نے ان کے بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوںکو ہاں روشن خیال مسلمانوںکو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑاشخص ان سے جدا ہو گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا بھی جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا … مرزا صاحب کے لٹریچر کی قدروعظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اُڑا دئیے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اُڑنے لگا ۔۔۔ اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کُچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے اسلام کی خاص خدمت سر انجام دی ہے …آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہوجائے ناممکن ہے کہ مرزا صاحب کی یہ تحریریں نظر انداز کی جا سکیں۔‘‘

(اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر جون 1908ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بے مثال قلمی جہادجو آپؑ نے اسلام کی صداقت اور قرآن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے عمر بھر کیا وہ بے شک بظاہر علمی نوعیت کا تھا اور بادی النظر میں اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے پہلو سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ مگر غور کیا جائے تو اسلام کو رسول پاک ؐ سے اور رسولِ پاکؐ کو اسلام سے کسی طرح جدا نہیں کیاجاسکتا۔ پس دراصل یہ ساری خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کے ساتھ والہانہ محبت ہی کا کرشمہ تھی۔

یہی وجہ ہے کہ اپنی ان عدیم المثال خدمات کے باوجود جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک وفا شعار شاگرد اور ایک احسان مند خادم کی حیثیت میں اپنا ہر پھول آپؐ کے قدموں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ اور باربار عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آقا! یہ سب کچھ آپؐ ہی کے طفیل ہے میرا تو کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحقؑ سے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب سے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی۔ ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا۔‘‘

(تجلیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412-411)

ایک اور جگہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں:

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر مِرا یہی ہے
اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم)

ان اشعار میں حضرت مسیح موعودؑ نے جس رنگ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و افضال کی وسعت اور ان کے افاضہ اور اس کے مقابل پر اپنی عاجزی اور انکساری اور آپؐ کے انوار سے اپنے استفاضہ کا ذکرفرمایا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں۔ دنیا کی تمام برکتوں اورتمام نوروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات کی طرف منسوب کر کے اپنے آپ کوان انوار کے ساتھ اس طرح پیوست کیا ہے کہ جس طرح ایک بڑے طاقتور پاور اسٹیشن کے ساتھ بجلی کی تاریں مل کر دنیا کومنور کیا کرتی ہیں۔

اسی طرح آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات طیبات کا ذکر کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطّر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان (میں) سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمدؐ کی طرف بھیجی تھیں۔ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ598حاشیہ)

الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ایسا عشق تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپؑ کی جان اس عشق میں بالکل گداز تھی۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور اپنے حواسِ ظاہری و باطنی سے محسوس کیا کہ آپؑ کا ذرّہ ذرّہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خدائے محمد ؐ اور دین محمدؐ میں پر قربان تھا۔ آپؑ اپنی ایک نظم میں بڑے دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ: ؎

دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا
تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب
کیوں نہیں لوگو تمہیں خوفِ عقاب

(ازالۂ اوہام)

پس اس کے سوائے میں اس جگہ عشقِ رسولؐ کے بارے میں کچھ نہیں کہوںگا۔ کیونکہ ایک وسیع سمندر میں سے انسان صرف چند چُلُّو ہی بھر سکتا ہے۔ اس لئے اس عنوان کے تحت اب میرے لئے صرف یہی دعا باقی ہے کہ:

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰٰی مُحَمَّدٍ و عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ
وَعَلٰٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْح الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ

یٰۤاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا

(الاحزاب:57)

شفقت علیٰ خلق اللہ

اب میں خدا کے فضل سے اپنے اس مضمون کے تیسرے حصہ کی طرف آتا ہوں جو شفقت علیٰ خلق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اس مختصر سے مقالہ کے لئے (اول) محبتِ الٰہی اور (دوم) عشقِ رسولؐ اور (سوم) شفقت علیٰ خلق اللہ کے عنوان اس لئے منتخب کئے ہیں کہ ہمارے دین و مذہب کا خلاصہ اور ایک مسلمان کے ایمان و اخلاق کا مرکزی نقطہ ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مامور من اللہ کی روحانیت اور اس کے اخلاق اور اس کی قدرومنزلت کو پہچاننے کے لئے بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور کسوٹی نہیں۔ منبع حیات یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ گہرا پیوند ہو۔ پیغامِ الٰہی کے لانے والے رسول کی محبت روح کی غذا ہو اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی کا جذبہ دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ ’’بس ہمیں آمد نشانِ کامِلاں۔‘‘

میں نہایت اختصار کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبہئ محبتِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ کے متعلق بیان کر چکا ہوں۔ اب مختصر طور پر آپؑ کے جذبہ شفقت علیٰ خلق اللہ کے متعلق کچھ بیان کر تا ہوں۔ اس تعلق میں سب سے پہلے میرے سامنے وہ مقدس عہد آتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائی حکم کے ماتحت ہربیعت کرنے والے سے لیتے تھے اور جس پرجماعت احمدیہ کی بنیاد قائم ہوئی۔ یہ عہد دس شرائطِ بیعت کی صورت میںشائع ہوچکا ہے اور گویا احمدیت کا بنیادی پتھر ہے۔ اس عہد کی شرط نمبر4 اور شرط نمبر 9 کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ہربیعت کرنے والا:

’’عام خلق اللہ کو عموماًاور مسلمانوںکو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیںدے گا۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح اورعام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘

(اشتہارتکمیل تبلیغ مؤرخہ 12 جنوری 1889ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ160جدید ایڈیشن)

یہ وہ عہدِ بیعت ہے جو احمدیت میں داخل ہونے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی حکم کے ماتحت مقرر فرمایا اور جس کے بغیر کوئی احمدی سچا احمدی نہیں سمجھا جاسکتا۔ اب مقامِ غورہے کہ جو شخص اپنی بیعت اور اپنے روحانی تعلق کی بنیاد ہی اس بات پر رکھتا ہے کہ بیعت کرنے والا تمام مخلوق کے ساتھ دلی ہمدردی اور شفقت کاسلوک کرے گا اور اسے ہرجہت سے فائدہ پہنچانے کے لئے کوشاں رہے گا اور اسے کسی نوع کی تکلیف نہیں دے گا۔ اس کا اپنا نمونہ اس بارے میںکیسااعلیٰ اور کیسا شاندار ہونا چاہئے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بارہافرمایاکرتے تھے کہ میں کسی شخص کادشمن نہیں ہوںاور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے معمور ہے۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اورہندوؤں اورآریوں پر یہ بات ظاہرکرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے ایک والدۂ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔‘‘

(اربعین نمبر1، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344)

یہ ایک محض زبانی دعویٰ نہیں تھا بلکہ آ پ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ مخلوقِ خدا کی ہمدردی میں گزرتا تھا اور دیکھنے والے حیران ہو تے تھے کہ خدا کا یہ بندہ کیسے ارفع اخلاق کا مالک ہے کہ اپنے دشمنوں تک کے لئے حقیقی ماؤں کی سی تڑپ رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریمؓ جو آپؑ کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے اور بڑے ذہین اور نکتہ رس بزرگ تھے روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میںطاعون کا دور دورہ تھا اور بے شمار آدمی ایک ایک دن میں ا س موذی مرض کا شکار ہو رہے تھے انہوں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محوِ حیرت ہو گئے۔ حضرت مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ:

’’اس دعا میں آپؑ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھا۔ اور آپؑ اس طرح آستانۂ الٰہی پر گِریہ و زاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت دردِزہ سے بے قرار ہو۔ میں نے غور سے سنا تو آپؑ مخلوقِ خدا کے واسطے طاعون کے عذاب سے نجات کے واسطے دعا فرما رہے تھے اور کہہ رہے تھے الٰہی! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔‘‘

(سیرت مسیح موعودؑ شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحہ 365 مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی)

ذرا غور کرو کہ آپؑ کے مخالفوں پر ایک عذابِ الٰہی نازل ہورہا ہے اور عذابِ الٰہی بھی وہ جو ایک خدائی پیشگوئی کے مطابق آپؑ کی صداقت میں ظاہر ہوا ہے اور پیشگوئی بھی ایسی جس کے ٹلنے سے جلدباز لوگوں کی نظر میں آپؑ کی صداقت مشکوک ہو سکتی ہے۔ مگر پھر بھی آپؑ مخلوقِ خدا کی ہلاکت کے خیال سے بے چین ہوئے جاتے ہیں اور خدا کے سامنے تڑپ تڑپ کر عرض کرتے ہیں کہ خدایا ! تو رحیم و کریم ہے تو اپنی مخلوق کو اس عذاب سے بچا لے اور ان کے ایمان کی سلامتی کے لئے اپنی جناب سے کوئی اور رستہ کھول دے۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ جب آریہ قوم میں سے اسلام کا دشمن یعنی پنڈت لیکھرام آپؑ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا تو آپؑ نے جہاں اس بات پر خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اسلام کی صداقت کا زبردست نشان ظاہرہوا ہے طبعاً شکر اور خوشی کا اظہار فرمایا وہاں آپؑ کو پنڈت جی کی موت کا افسوس بھی ہوا کہ وہ صداقت سے محروم ہونے کی حالت میں ہی چل بسے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا، زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر (اس کے زخم ایسے ہوتے کہ) وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی وہ (بچ جاتا اور) زندہ ہو جاتا۔‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ28)

ایک دفعہ عیسائی مشنریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدامِ قتل کا سراسر جھوٹا مقدمہ دائر کیا اور ان مسیحی پادریوں میں ڈاکٹر مارٹن کلارک پیش پیش تھے۔ مگر خدا نے عدالت پر آپؑ کی صداقت کھول دی اور آپؑ اس مقدمہ میں جس میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر آریوں اور بعض غیر احمدی مخالفین نے بھی آپؑ کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ کسی طرح آپؑ سزا پا جائیں عزت کے ساتھ بری کئے گئے۔ جب عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جو بعد میں کرنیل کے عہدہ تک پہنچے اور ابھی حال ہی میں فوت ہوئے ہیں آپ ؑ سے مخاطب ہوکر پوچھا:

’’کیا آپؑ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر (اس جھوٹی کارروائی کی وجہ سے مقدمہ چلائیں؟ اگر آپ مقدمہ چلانا چاہیں تو آپ کو اس کا قانونی حق ہے۔‘‘ آپ نے بلا توقف فرمایا کہ ’’میں کوئی مقدمہ چلانا نہیں چاہتا میرا مقدمہ آسمان پر ہے۔‘‘

(سیرت مسیح موعودؑ مصنفہ عرفانی صاحب صفحہ 107)

مولوی محمد حسین بٹالوی رئیس فرقہ اہلِ حدیث کو کون نہیں جانتا۔ وہ جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست اور ہم مکتب ہوتے تھے اور حضور کی پہلی تصنیف ‘‘براہین احمدیہ’’پر انہوں نے بڑا شاندار ریویو بھی لکھا تھا۔ اور یہاں تک لکھا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں کوئی کتاب اس شان کی نہیں لکھی گئی مگر مسیح موعود کے دعوے پر یہی مولوی صاحب مخالف ہو گئے اور مخالف بھی ایسے کہ انتہا کو پہنچ گئے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا اور دجّال اور ضالّ قرار دیا۔ اور آپؑ کے مخالف ملک بھر میں مخالفت کی خطرناک آگ بھڑکا دی۔ انہی مولوی محمد حسین صاحب کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ ڈاکٹر مارٹن کلارک والے اقدامِ قتل والے مقدمہ میںآپؑ کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے۔ اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے وکیل مولوی فضل دین صاحب نے جو ایک غیر احمدی بزرگ تھے مولوی محمد حسین کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے ان کے خاندان اور حسب و نسب کے متعلق بعض طعن آمیز سوالات کرنے چاہے مگر حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں یہ کہہ کر سختی سے روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اور یہ الفاظ فرماتے ہوئے آپ نے جلدی سے مولوی فضل دین صاحب کے منہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ ان کی زبان سے کوئی نامناسب لفظ نہ نکل جائے۔ اور اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی۔ اس کے بعد مولوی فضل دین صاحب موصوف ہمیشہ اس واقعہ کا حیرت کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے اور اس کے جواب میں جب اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے اس پر بعض سوالات کئے جاتے ہیں تو آپ فوراً روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالات کی اجازت نہیں دیتا۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 247 و 248)

یہ وہی مولوی محمد حسین ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے کہ:

قَطَعْتَ وَ دَاداً قَدْغَرَسْنَاہُ فِیْ الصَّبَا
وَلَیْسَ فُؤَادِیْ فِیْ الْوَدَادِ یُقَصِّرُ

(براہین احمدیہ حصہ پنجم)

یعنی تو نے اس محبت کے درخت کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا جو ہم نے جوانی کے زمانہ میں اپنے دلوں نصب کیا تھا۔ مگر میرا دل تو کسی صورت میں محبت کے معاملہ میں کمی اور کوتاہی کرنے والا نہیں۔

دوستی اور وفادار ی کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل حقیقتاً بے نظیر جذبات کا حامل تھا۔ آپؑ نے کسی کے ساتھ تعلق قائم کر کے ان تعلقات کو توڑنے میں کبھی پہل نہیں کی اور ہر حال میں محبت اور دوستی کے تعلقات کو کمال وفاداری کے ساتھ نبھایا۔ چنانچہ آپؑ کے مقرب حواری حضرت عبدالکریمؓ روایت کرتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دن فرمایا میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہدِ دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہوجائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گِرا ہوا ہو تو ہم بلا خوف لَوْمَۃَ لاَ ئِمٍ اسے اٹھا کر لے آئیں گے۔ فرمایا عہدِ دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے۔ اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہئے۔ اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اس پر اغماض اور تحمل کا طریق اختیار کرنا چاہئے۔‘‘

(سیرت مسیح موعودؑ مصنّفہ حضرت مولوی عبدالکریمؓ صفحہ 44)

اسی روایت کے متعلق حضرت مولوی شیرعلی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت مخلص صحابی تھے بیان کرتے تھے کہ اس موقع پر حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر ایسا شخص شراب میں بے ہوش پڑا ہو تو ہم اسے اٹھا کر لے آئیں گے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے گا تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تاکہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو۔

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 93)

اس سے یہ مرادنہیں کہ نعوذباللہ شرابیوں اور فاسقوں اور فاجروں کو اپنا دوست بنانا چاہئے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہو اور وہ بعد میں کسی کمزوری میں مبتلا ہو جائے تو اس وجہ سے اس کا ساتھ نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ بلکہ وفاداری کے طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ احبابِ جماعت غور کریں کہ کیا وہ ان اخلاق پر قائم ہیں اور یاد رکھو کہ احمدیت کی اخوت کا عہد دوستی کے عہد سے بھی زیادہ مقدس ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایاہے کہ:

أُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوْماً

(بخاری کتاب الاکراہ)

یعنی ہردینی بھائی کی مددتمہارا فرض ہے خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم ہے

صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم کی مدد تو ہم سمجھتے ہیں مگر ظالم کی مدد کس طرح کی جائے؟ آپؐ نے فرمایا ظالم کی مدد اسے ظلم سے روکنے کی صورت میں کرو۔ مگر بہر حال اخوت کے عہد کو کسی صورت میں ٹوٹنے نہ دو۔

قادیان میں ایک صاحب بڈھا مل ہوتے تھے۔ یہ صاحب بہت کٹر قسم کے آریہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی بڑی مسجدمیںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ایک مینار کی بنیاد رکھی تو قادیان کے ہندوؤں نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس شکایت کی کہ اس مینار کی تعمیر روک دی جائے کیونکہ اس سے ہماری عورتوں کی بے پردگی ہو گی۔ یہ ایک فضول عذر تھا کیونکہ اول تو مینار کی چوٹی سے کسی کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر اگر کوئی بے پردگی تھی بھی تو وہ سب کے لئے تھی جس میں احمدی جماعت بھی شامل تھی۔ بلکہ جماعت احمدیہ پر اس کا زیادہ اثر پڑتا تھا کیونکہ یہ مینار احمدیہ محلہ میںتھا۔ مگر ڈپٹی کمشنر نے حکومت کے عام طریق کے مطابق ہندوؤں کی یہ شکایت تحصیلدار صاحب بٹالہ کے پاس رپورٹ کے لئے بھجوا دی۔ تحصیلدار صاحب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعودؑ سے ملے اور مینار کی تعمیر کے متعلق حالات دریافت کئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاکہ ہم نے یہ مینار کوئی سیرو تفریح یا تماشے کے لئے نہیںبنایا بلکہ محض ایک دینی غرض کے لئے بنایا ہے تاکہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہو اور تا ایک بلند جگہ سے اذان کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی جائے اور روشنی کا انتظام بھی کیا جائے۔ ورنہ ہمیں اس پر روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تحصیلدار صاحب نے کہا یہ ہندو صاحبان بیٹھے ہیں۔ ان کو اس پر اعتراض ہے کہ ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی۔ حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا یہ اعتراض درست نہیں۔بلکہ ان لوگوں نے محض ہماری مخالفت میں یہ درخواست دی ہے ورنہ بے پردگی کا کوئی سوال نہیں۔ اور اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہے بھی تو وہ ہماری بھی ہے۔ پھر آپ نے لالہ بڈھا مل کی طرف اشارہ کیا جو بعض دوسرے ہندوؤں کے ساتھ مل کر تحصیل دار صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس آئے تھے اور فرمایا کہ یہ لالہ بڈھا مل بیٹھے ہیں۔ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ میرے لئے ان کو فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع پیدا ہوا ہو اور میں نے ان کی امداد میں دریغ کیاہو۔ اورپھر ان سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے نقصان پہنچانے کا انہیںکوئی موقع ملا ہو اور یہ نقصان پہنچانے سے رُکے ہوں۔ حافظ روشن علی صاحب جوسلسلہ احمدیہ کے ایک جیّد عالم تھے بیان کیا کرتے تھے کہ اس وقت لالہ بڈھا مل پاس بیٹھے تھے مگر شرم اور ندامت کی وجہ سے انہیں جرأت نہیںہوئی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بات کا جواب دینا تو درکنار حضور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ حقیقتاً یہ مخالفوں اور ہمسایوں پر شفقت کی ایک شاندار مثال ہے۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 152و153)

ہماری جماعت کے اکثر پُرانے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا مام دین اور مرزا نظام دین کو جانتے ہیں۔ یہ دونوں اپنی بے دینی اور دنیاداری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے بلکہ حقیقتاً وہ اسلام کے ہی دشمن تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی محض ایذارسانی کے لئے حضورؑ کے گھر کے قریب والی مسجد کے رستہ میں دیوار کھینچ دی۔ اور مسجد میں آنے جانے والے نمازیوں اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ملاقاتیوں کا رستہ بند کر دیا۔ جس کی وجہ سے حضورؑ کو اور قادیان کی قلیل سی جماعت احمدیہ کو سخت مصیبت کا سامنا ہوا اور وہ گویا قید کے بغیر ہی قید ہو کر رہ گئے۔ لاچار اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے وکلاء کے مشورہ سے قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی اور ایک لمبے عرصہ تک یہ تکلیف دہ مقدمہ چلتا رہا۔ اور بالآخر خدائی بشارت کے مطابق حضرت مسیح موعود ؑ کو فتح ہوئی اور یہ دیوار گرائی گئی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے حضورؑ سے اجازت لینے بلکہ اطلاع تک دینے کے بغیر مرزا امام دین اور مرزا نظام دین صاحب کے خلاف خرچہ کی ڈگری حاصل کر کے قرقی کا حکم جاری کرا لیا۔

اس پر مرزا صاحبان نے جن کے پاس اس وقت اس قرقی کی بے باقی کے لئے پورا روپیہ نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑی لجاجت کا خط لکھا اور یہاں تک کہلا بھیجا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعہ ہمیں کیوں ذلیل کرنے لگے ہو؟ حضرت مسیح موعودؑ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپؑ اپنے وکیل پر سخت خفا ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کرائی گئی ہے؟ اسے فوراً واپس لو۔ اور دوسری طرف مرزا صاحبان کو جواب بھجوایا کہ آپؑ بالکل مطمئن رہیں کوئی قرقی نہیںہو گی۔ یہ ساری کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ہے۔

(سیرت المہدی و سیرتِ مسیح موعودؑ صفحہ 115 تا 117)

دوست سوچیں اور غور کریں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے شرکاء جن کی دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی حضورؑ کو دکھ دینے کے لئے اور حضورؑ کی مٹھی بھر جماعت کو (اس وقت جماعت مٹھی بھر ہی تھی) پریشان کر کے منتشر کرنے کے لئے ایک خطرناک تدبیر کرتے ہیں اور پھر اس تدبیر کو کامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں اور جھوٹا سچا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔ مگر جب وہ ناکام ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی اطلاع کے بغیر ان پر خرچہ کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو بھاگتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور ظالم ہوتے ہوئے گلہ کرتے ہیں کہ ہم پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جارہا ہے ؟ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مظلوم ہوتے ہوئے بھی اپنے دشمنوں سے معذرت کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے وکیل نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ ڈگری جاری کرادی ہے۔ یہ سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے اس عدیم المثال سلوک کی اتباع میں تھا جو آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مفتوح اور مغلوب دشمنوں سے فرمایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:

اِذْھَبُوْآ اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ

(زرقانی و تاریخ اخمیس)

یعنی جاؤ تم آزاد ہو۔ میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہیں پھر اپنے دوستوںاور خادموں کے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجسم عفو و شفقت تھے۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنی تصنیف ’’سیرت مسیح موعود‘‘ میں حضرت مولوی نورالدیؓن (خلیفہ اوّل) کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کا عربی حصہ لکھ رہے تھے۔ حضور ؑنے مولوی نورالدیؓن (خلیفہ اوّل) کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے۔ وہ ایسا مضمون تھا کہ اس کی خداداد فصاحت و بلاغت پر حضرت کو ناز تھا۔ مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گِر گیا۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے اس دن غیر معمولی دیرہونے پر مجھے طبعاً فکر ہوا اور میں نے مولوی نورالدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت صاحب کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہورہی ہے۔ معلوم نہیں کیابات ہے۔ یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے ہی تھے کہ مولوی نورالدین کا رنگ فق ہو گیا کیونکہ یہ دو ورقہ مولوی نورالدین صاحب سے کہیں گر گیا تھا۔ بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اطلاع ہوئی تو حسبِ معمول ہشّاش بشّاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا تو درکنار اُلٹا اپنی طرف سے معذرت کرنے لگے کہ مولوی صاحب کومسوّدہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی۔ مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے۔ میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گم شدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرمادے گا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 278 ،279)

اس لطیف واقعہ سے ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ کے غیر معمولی جذبۂ شفقت اور دوسری طرف اپنے آسمانی آقا کی نصرت پر غیر معمولی توکل پر خاص روشنی پڑتی ہے۔ غلطی حضرت مولوی نورالدینؓ سے ہوئی تھی کہ ایک قیمتی مسودہ کی پوری حفاظت نہیں کی اور اسے ضائع کر دیا مگر حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت کا یہ مقام ہے کہ خود پریشان ہوئے جاتے ہیں اورمعذرت فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو مسودہ گُم ہونے سے اتنی تکلیف ہوئی ہے اور پھر توکل کا یہ مقام ہے کہ ایک مضمون کی فصاحت و بلاغت اور اس کے معنوی محاسن پر ناز ہونے کے باوجود اس کے کھوئے جانے پر کس استغنا کے رنگ میں فرماتے ہیں کہ کوئی فکر کی بات نہیں خدا ہمیں اس سے بہتر مضمون عطا فرما دے گا!! یہ شفقت اور یہ توکل اور یہ تحمل خدا کے خاص بندوں کے سوا کسی اور میں پایا جانا ممکن نہیں۔

ہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کا ایک قریبی عزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں آکر کچھ عرصہ رہا تھا۔ ایک دن سردی کے موسم کی وجہ سے ہمارے نانا جان مرحوم نے اپنا ایک مستعمل کوٹ ایک خادمہ کے ہاتھ اسے بھجوایا تا کہ یہ عزیز سردی سے محفوظ رہے۔ مگر کوٹ کے مستعمل ہونے کی وجہ سے اس عزیز نے یہ کوٹ حقارت کے ساتھ واپس کر دیا کہ میں استعمال شدہ کپڑا نہیں پہنتا۔ اتفاق سے جب یہ خادمہ اس کوٹ کو لے کر میر صاحب کی طرف واپس جا رہی تھی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے دیکھ لیا اور پوچھا کہ یہ کیسا کوٹ ہے اور کہاں لئے جاتی ہو؟ اس نے کہا میر صاحب نے یہ کوٹ فلاں عزیز کو بھیجا تھا مگر اس نے مستعمل ہونے کی وجہ سے بہت بُرا ماناہے اور واپس کردیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:

’’واپس نہ لے جاؤ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی۔ تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ ہم پہنیں گے۔ اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 22)

یہ ایک انتہائی شفقت اور انتہائی دلداری کا مقام تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ مستعمل کوٹ خود اپنے لئے رکھ لیا تاکہ حضرت نانا جان کی دل شکنی نہ ہو ورنہ حضرت مسیح موعودؑ کو کوٹوں کی کمی نہیں تھی۔ اور حضورؑ کے خدام حضورؑ کی خدمت میں بہتر سے بہترکوٹ پیش کرتے رہتے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ انتہائی سادگی اور بے نفسی کا بھی اظہار تھا کہ دین کا بادشاہ ہو کر اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تامّل نہیں کیا۔

انسان کے اخلاق کا ایک نمایاں پہلو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سلوک سے تعلق رکھتا ہے۔ میں اس معاملہ میں زیادہ بیان کرتے ہوئے طبعاً حجاب محسوس کرتا ہوں اس لئے صرف اس بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ارشادِ نبوی کا کامل نمونہ تھے کہ:

خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ

(ترمذی کتاب المناقب عن رسول اللّٰہ)

یعنی خدا کے نزدیک تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔

اس کی تشریح میں اس تاثر کو بیان کرنے میں حرج نہیں جو اس معاملہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جماعت کے دلوںمیں پایا جاتا تھا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ساری جماعت جانتی ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی تھے۔ایک دفعہ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ کسی امر میںاختلاف ہو گیا اور حضرت مفتی صاحب اپنی بیوی پر خفا ہوئے۔ مفتی صاحب کی اہلیہ نے اس خانگی ناراضگی کا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی بڑی بیوی کے ساتھ ذکر کیا۔ غالباً ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طرح بات حضرت اماں جان تک اور پھر حضرت مسیح موعودؑ تک پہنچ جائے گی۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب طبیعت کے بہت ذہین اور بڑے بذلہ سنج تھے۔ اس رپورٹ کے پہنچنے پر مفتی صاحب سے فرمایا ’’مفتی صاحب جس طرح بھی ہو اپنی بیوی کو منا لیں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ آج کل ملکہ کاراج ہے‘‘۔ لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ ان ایام میں ہندوستان پر ملکہ وکٹوریہ کی حکومت تھی اور حضرت مولوی صاحب کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ مستورات کے حقوق کابہت خیال رکھتے اور ان معاملات میں اپنے اہل خانہ کے مشورہ کو زیادہ وزن دیتے ہیں۔ مفتی صاحب مولوی صاحب کا اشارہ سمجھ گئے اور فوراً جا کر بیوی کو منالیا۔ اور اس طرح گھر کی ایک وقتی رنجش جنتِ ارضی والے سکون اور راحت میں بدل گئی۔

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 102)

انسان کے اہلِ خانہ میں اس کی اولاد بھی شامل ہے اور اس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ بہت بلندتھا۔ آپؑ اپنے بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اور بڑی محبت کا سلوک فرماتے تھے۔ مگر دوسری محبتوں کی طرف یہ محبت بھی محبتِ الٰہی کے تابع تھی۔ چنانچہ جب ہمارا سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ کوبڑی کثرت کے ساتھ قربِ وفات کے الہامات ہو رہے تھے۔ آپؑ نے انتہائی توجہ اور جان سوزی سے اس کی تیمار داری فرمائی اور گویا تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا۔ مگر جب وہ قضائے الٰہی سے فوت ہو گیا تو آپؑ نے اس کی وفات پر یہ شعر فرما کر کامل صبرکا نمونہ دکھاتے ہوئے پورے شرح صدر کے ساتھ راضی برضاءِ الٰہی ہو گئے۔ اور مرنے والے بچے کو اس طرح بھول گئے کہ گویا وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ فرماتے ہیں : ؎

برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

بچوں کی تربیت کے معاملہ میں حضرت مسیح موعودؑ نصیحت کرنے اور بُری صحبت بچانے کے علاوہ اولاد کے لئے دعاؤں پربہت زور دیتے تھے۔ چنانچہ جو اشعار آپ نے اپنے بچوں کے ختمِ قرآن کے موقع پر آمین کے رنگ میں فرمائے وہ اس روحانی طریقِ تربیت کی ایک بڑی دلکش مثال ہیں۔ میں یہاں صرف نمونہ کے طور پر چند شعر لکھتا ہوں۔ فرماتے ہیں : ؎

ہو شکر تیرا کیوں کر اے میرے بندہ پرور
تو نے مجھے دیئے ہیں یہ تین تیرے چاکر
تیرا ہوں میں سراسر تو میرا ربِّ اکبر
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی
یہ تین جو پِسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں
یہ میرے بار و بر ہیں تیرے غلامِ در ہیں
تُو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی
شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جاں پُر زِ نور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی

اور دوسری آمین میں فرماتے ہیں : ؎

میرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے
تیری درگاہ میں عجز و بکا ہے
مری اولاد جو تیری عطا ہے
ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
وہ سب دے اِن کو جو مجھ کو دیا ہے
عجب محسن ہے تُو بحرالایادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
نجات ان کو عطا کر گندگی سے
برات ان کو عطا کر بندگی سے
رہیں خوشحال اور فرخندگی سے
بچانا اے خدا بد زندگی سے
وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

یقینا ہماری کمزوریوں کے باوجود ہماری زندگیوں کی ہر برکت اپنی پاک دعاؤں کا ثمرہ ہے۔

انسان کے اخلاق میں مہمان کابھی ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اس تعلق میں ایک مختصر سی بات کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگرراولپنڈی میںدکان کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود ؑ سے ملاقات کے لئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا۔ رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزر گئی اور قریباً گیارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود ؑ کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میںحضور ؑ کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ مگر حضور ؑ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں۔ آپ یہ دودھ پی لیں۔ آپ کو شائد دودھ کی عادت ہو گی اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں۔ سیٹھی صاحب کہاکرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں! یہ خدا کا برگزیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذّت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے۔

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 255)

سیٹھی صاحب تو خیر مہمان تھے۔ مجھے ایک صاحب نے سنایا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ میں کبھی کبھی حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ خادم کے طور پر حضورؑ کے سفروں میں ساتھ چلا جایا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کاقاعدہ تھا کہ سواری کا گھوڑا مجھے دے دیتے تھے کہ تم چڑھو اور آپؑ ساتھ ساتھ پیدل چلتے تھے۔ یا کبھی میں زیاد اصرار کرتا تو کچھ وقت کے لئے خود سوار ہو جاتے تھے اور باقی وقت مجھے سواری کے لئے فرماتے تھے۔ اور جب ہم منزل پر پہنچتے تھے تو چونکہ وہ زمانہ بہت سستا تھا حضورؑ مجھے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کی دال روٹی منگوا کر یا چنے بھنوا کر گزارہ کرتے تھے۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 122 و 123)

حضرت مولوی عبدالکریم کاذکر اوپرگزر چکا ہے۔ وہ بہت ممتاز صحابی میں سے تھے اور انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی قریب کی صحبت کا بہت لمباموقع میسر آیا۔ وہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے اہلِ خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔میں حضورؑ کو ملنے اندرونِ خانہ گیا۔کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا۔ میں ایک چارپائی پر ذرا لیٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی۔ حضورؑ اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ جب میںچونک کرجاگا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔میںگھبراکرادب سے کھڑا ہو گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بڑی محبت سے پوچھا مولوی صاحب! آپ کیوں اُٹھ بیٹھے؟ میں نے کہا حضور ؑ نیچے لیٹے ہوئے ہیں اور میں اوپر کیسے ہو سکتا ہوں؟ مسکرا کر فرمایا آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میںتو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے۔ اللہ اللہ!!شفقت کا کیا عالم تھا۔

(سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریمؓ صفحہ 26)

اب ذرا غریبوں اور سائلوں پر شفقت کا حال بھی سن لیجئے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چُرا لئے۔لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑ گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ اس وقت اپنے کمر ہ میںکام کر رہے تھے۔ شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک غریب عورت چیتھڑوں میں کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولوں کی گٹھڑی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑکو واقعہ کا علم ہوا او ر اس غریب عورت کا حلیہ دیکھا تو آپ ؑ کا دل پسیج گیا۔ فرمایا یہ بھوکی اور کنگال معلوم ہوتی ہے۔ اسے کچھ نہ کہو بلکہ کچھ اور چاول دے کر رخصت کر دو۔

(سیرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب حصہ اول صفحہ 98)

اس واقعہ پر کوئی جلد باز شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بات تو چوری پر دلیری پیدا کرنے والی ہے۔مگردانا لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ جب مال خود حضرت مسیح موعودؑ کا اپنا تھا اور لینے والی عورت ایک بھوکوں مرتی اور کنگال عورت تھی تو یہ چوری پر اعانت نہیں بلکہ حقیقتاً اطعامِ مسکین میں داخل ہے۔ حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے حالات میں جبکہ چوری کرنے والا بہت غریب ہو اور انتہائی بھوک کی حالت میں کوئی کھانے کی چیز اٹھا لے تو اسے سارق نہیں گردانا بلکہ چشم پوشی سے کام لیا ہے۔

ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ سیر سے واپس آکر اپنے مکان میںداخل ہو رہے تھے کہ کسی سائل نے دور سے سوال کیا۔ مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گُم ہوکر رہ گئی اور حضرت مسیح موعودؑ اندر چلے گئے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوںکی آوازوں سے دور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز کی گونج اٹھی تو آپ ؑ نے باہر آکر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد آپ ؑ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ پر اسی سائل کی آواز آئی اور آپ ؑ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ میں کچھ رقم دی۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 286)

الغرض حضرت مسیح موعودؑ کا وجود ایک مجسم رحمت تھا۔ وہ رحمت تھا اپنے عزیزوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے ہمسائیوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے خادموں کے لئے اور رحمت تھا سائلوں کے لئے اور رحمت تھا عامۃ الناس کے لئے۔ اور دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا طبقہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے اس نے رحمت اور شفقت کے پھول نہ بکھیرے ہوں۔ بلکہ میں کہتاہوں کہ وہ رحمت تھا اسلام کے لئے جس کی خدمت اور اشاعت کے لئے اس نے انتہائی فائیت کے رنگ میں اپنی زندگی کی ہر گھڑی اور اپنی جان تک قربان کر رکھی تھی۔

بالآخر ایک جامع نوٹ پر اپنے اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں۔ ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل نے میری تحریک پر حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق اور اوصاف کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا۔ اس میںوہ فرماتے ہیں :

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت رؤف و رحیم تھے۔ سخی تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اشجع الناس تھے۔ ابتلاؤں کے وقت جبکہ لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیرِ نر کی طرح آگے بڑھتے تھے۔ عفو، چشم پوشی، فیاضی، خاکساری، وفاداری، سادگی، عشقِ الٰہی، محبتِ رسول ؐ، ادبِ بزرگانِ دین، ایفائے عہد، حسنِ معاشرت، وقار، غیرت، ہمت، اولوالعزمی، خوش روئی اور کشادہ پیشانی آپ ؑ کے ممتاز اخلاق تھے۔۔۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا۔ پھر آپؑ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔ مگرمیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آپؑ سے بہتر، آپؑ سے زیادہ خوش اخلاق، آپؑ سے زیادہ نیک، آپ ؑ سے زیادہ بزرگانہ شفقت رکھنے والا، آپ ؑ سے زیادہ اللہ اور رسولؐ کی محبت میں غرق رہنے والاکوئی شخص نہیں دیکھا۔ آپؑ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ سوم کی آخری روایت کا ملخص)

یہی میری بھی چشم دیدشہادت ہے اور اسی پر میں اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

(محررہ 3دسمبر 1959ء)
(روزنامہ الفضل ربوہ-10-9 11 فروری 1960ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ