• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم اردو کلام

حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم اردو کلام
در کلام تو چیزیست کہ شعراء در آں دخلے نیست
(تیرے کلام میں ایسی چیز ہے جس میں شعراء کو دخل نہیں)

ہر شعر خواہ وہ کسی بھی صنف نظم سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں شعر کہنے والے کے حالات و واقعات اور اس ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے، جس میں وہ پروان چڑھتا اور عقل و شعور کی عمر کو پہنچتا ہے۔ اکثر اوقات شعر کہنے والا شعر کہنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا، مگر شعر کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ان حالات کاتاثر ہوتا ہے، جو اس پر گزر جاتے ہیں یا جن کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ مستقبل میں پیش آ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس و قت وہ ذہنی طور پر ان خیالات و حالات سے دور ہو تا ہے۔ مگر وہ اس کے لاشعور میں موجود رہتے ہیں۔ اس لئے ناگہاں وہ شعر کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود اگرچہ شعر گوئی کو عام شاعروںسے ہٹ کر سمجھتے تھے۔ اس لئے کہ آپ کا مقصد شعر گوئی سے نہ ذاتی تفنن طبع تھا اور نہ کسی مجلس و محفل میں شعر سنا کرداد و تحسین پانا تھا۔ آپ نے اپنے ایک شعر میں اس کی طرف واضح طور پر اشارہ فرما دیا۔

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

آپ کی اس خاکساری کو بارگاہ خداوندی میں قبول کیاگیا اور آپ کو الہام الٰہی کے ذریعہ یوں داد دی گئی۔

’’درکلام تو چیزیست کہ شعراء در آں دخلے نیست‘‘

(تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم)

تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔

آپ کے شعر کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ نہایت اختصار سے اس کے پس منظر کا کچھ تذکرہ کر دیا جائے۔ تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ عام شعراء کی ڈگر سے ہٹ کر آپ نے کس ضرورت کے تحت اشعار کہے۔

آپ کی سیرت کا ابتدائی باب یہ بتاتا ہے کہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ آپ کو عوامی مجلسوں میںجانے سے طبعاً کراہت تھی۔ چونکہ عوامی مجالس میں ہر نوع اور ہر خیال کے حامل انسانوں سے میل جول رہتا ہے اور انسان ان کی صحبت کا کچھ نہ کچھ اثر قبول کر لیتا ہے۔ چنانچہ آپ کو الٰہی تصرف کے زیر اثر بچپن ہی سے عبادت و ریاضت کا شوق دامنگیر ہوا۔ آپ کا زیادہ وقت خانہ خدا میں گزرتا تھا۔ آپ کی یہ لگن اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ آپ کھانے کے اوقات میں بھی اکثر خانہ خدا میں ہوتے اور آپ کے والد بزرگوار کھانے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اس ’’مسیتڑ‘‘ کے لئے کچھ بھجوا دو۔

اس پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم آپ کے شعر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو آغاز سے انجام تک ایک ہی تصویر ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جسے دیکھ کر ہم آپ کی شعری کاوش کے مقصد کو بآسانی پا سکتے ہیں۔ آپ کے شعری مجموعے، جو اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں مرتب ہو چکے ہیں۔ ان کے عنوانات ہی بتا رہے ہیں کہ آپ نے شعر گوئی کے کوچے میں کیوں اور کس لئے قدم رکھا؟ چونکہ اس وقت ہمارے زیر نظر صرف آپ کا اردو کلام ہے۔ اس لئے ہم فی الحال اردو تک ہی محدود رہیں گے۔ یاد رہے کہ بعض اوقات اساتذہ کرام کا اثر بھی شعر گوئی پر ابھارتا ہے۔ مگر آپ نے اپنے تعلیمی تذکرے میں اس کی طرف قطعاً کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ اس لئے آپ اس تاثر سے بھی خالی ہیں اور خالص اپنے ماحول سے ہی اپنی شاعری کا آغاز کرنے والے ہیں۔ بعض اوقات شاعر اپنے دور کے بعض شعراء سے متاثر ہوتا ہے۔ مگر آپ اس تاثر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ آپ کے دور کے بعض محترم احباب بھی کوئے شعر و ادب میں در آئے تھے اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں خوب ناموری حاصل کی تھی۔ مگر نہ آپ ان سے متاثر ہوئے اور نہ انہوں نے کسی بھی انداز میں شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے آپ کی طرف تنقید و تعریض کا اشارہ کیا۔ انہوںنے قریباً قریباً ولادت تا وفات آپ ہی کا زمانہ پایا۔ ذیل میں ہم چند مشاہیر کے اسمائے گرامی معہ سن ولادت و وفات درج کرتے ہیں۔ تاکہ قارئین کو حضور کی شعر گوئی کا پس منظر سمجھنے میں اور آسانی ہو جائے۔

  1. منشی امیر احمد امیر مینائی : ولادت 1828ء ، وفات 1903ء
  2. نواب مرزا خان داغ : ولادت 1831ء ، وفات 1908ء
  3. مولانا (ڈپٹی) نذیر احمد دہلوی:ولادت 1831ء،وفات 1912ء
  4. مولانا محمد حسین آزاد : ولادت1832ء ،وفات 1910ء
  5. مولانا الطاف حسین حالی:ولادت 1837ء ، وفات 1914ء

آپ کا سن ولادت 1835ء اور آپ کا وصال 1908ء میں ہوا۔ اب ذرا موازنہ کیجئے کہ مذکورہ بالا محترمین شعر و ادب کے کس کس کوچے میں کام کرتے رہے اور حضور کا جذبہ شعر گوئی کس قسم کی خدمت کے لئے وقف رہا؟ اس سارے پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم آپ کے اردو کلام سے متعلق مذکورہ پس منظر کی روشنی ہی میں اپنے ناچیز و ناقص خیالات تحریر کرتے ہیں۔

آپ کا اردو کلام کتابی صورت میں مدون ہو کر ’’درثمین‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ جماعت احمدیہ کے چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے اور مردو زن سبھی پوری دلچسپی سے اپنے امام زمان کا کلام پڑھتے اور نجی مجالس یا جماعتی جلسوں میں سناتے رہتے ہیں۔ اس لئے آپ کا اردو کلام خصوصاً بار بار نت نئے انداز میں چھپتا رہا ہے۔ اس وقت خاکسار کے زیر نظر آپ کا اردو کلام ہے۔ اس پر کچھ اظہار خیال کیا جاتا ہے۔

’’درثمین‘‘ اردو کا جو ایڈیشن خاکسار کے سامنے ہے۔ اس کی پہلی نظم کا عنوان ہے۔ ’’نصرت الٰہی‘‘ یہ 1880ء میں ‘‘براہین احمدیہ‘‘ میں شائع ہوئی۔ براہین احمدیہ کے لکھنے کی غڑض یہ تھی کہ حقیقت کتاب اللہ القرآن اور نبوت محمدیہ کی صداقت نمایاں کرکے منکرین دین پر حجت پوری کر دی جائے۔ چنانچہ مذکورہ کتاب کے دوران جہاں نثری تحریر کے ساتھ آپ نے منظوم کلام کو موزوں سمجھا نثر کی طرح بے ساختہ شعر گوئی سے کام لیا اور اسے داخل تحریر کر دیا۔ مثلاً پہلی ہی نظم، جس کا عنوان ‘‘نصرت الٰہی‘‘ ہے۔ اس کے اندراج سے پہلے جو چند جملے آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔ وہ اس نظم سے کلی مطابقت رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ آپ کا منظوم کلام اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے ارتجالاً چلا آتا تھا۔ مذکورہ نظم کا سیاق یوں ہے۔

’’یہ وہ برگزیدہ قوم ہے کہ جن کے اقبال کی انہیں کے زمانہ میں آزمائش ہو چکی ہے۔ وہ اقبال نہ بت پرستوں کے روکنے سے رکا اور نہ کسی اور مخلوق پرست کی مزاحمت سے بند رہا۔ نہ تلواروں کی دھار اس شان و شوکت کو کاٹ سکی نہ تیروں کی تیزی اس میں کچھ رخنہ ڈال سکی۔ وہ جلال ایسا چمکا جو اس کا حسد کتنوں کا لہو پی گیا۔ وہ تیر ایسا برسا جو اس کا چھوٹنا کئی کلیجوں کو کھا گیا۔ وہ آسمانی پتھر جس پر پڑا۔ اسے پیس ڈالتا رہا اور جو شخص اس پر پڑا ۔ وہ آپ ہی پیسا گیا۔‘‘

(براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 106)

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے
وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خسِ رہ کو اڑاتی ہے
وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے
کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے
کبھی ہو کر وہ پانی ان پہ اک طوفان لاتی ہے
غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے
بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے

آپ کے کلام کا پس منظر تحریر کرنے کے بعد خاکسار نے آپ کی ایک ابتدائی نظم کا سیاق و سباق تحریر کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا منظوم کلام کس شان سے آمد کا جامہ پہن کر برمحل اترا کرتا تھا۔ مذکورہ چاروں اشعار معانی و مطالب کا دریا ہیں تو زبان میں و بیان میں سہل ممتنع کے درجے پر ہیں۔ اس لئے ان چار شعروں میں جو مضمون پیش کیا گیا وہ اس سے بہتر انداز میں پیش ہو ہی نہیں سکتا۔ اس ایک مثال کے بعد اول خاکسار آپ کے اردو کلام کے عنوانات درج کرتا ہے۔ تاکہ اول سے آخر تک آپ کے کلام کے مضامین و مطالب کو سمجھنا آسان ہو جائے اور وہ پس منظر جو اوپر تحریر کیا گیا اس کی روشنی میں آپ کے کلام کا جائزہ لینا کسی حد تک ممکن ہو سکے۔ تو لیجئے! ایک نظر موضوعات مجموعہ اردو پر ڈالئے:

نصرت الٰہی، دعوت فکر، فضائل قرآن مجید، عیسائیوں سے خطاب، اوصاف قرآن مجید، حمد رب العالمین، سرائے خام، چولہ بابا نانک، محمود کی آمین، خداتعالیٰ کا شکر اور دعا بزبان حضرت اماں جان، ام الکتاب، معرفت حق، بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین، جوش صداقت ، نسیم دعوت، پیشگوئی زلزلہ عظیمہ، انذار، قادیان کے آریہ ، اتمام حجت، انذار و تبشیر، محاسن قرآن کریم، مناجات اور دعوت حق، درس توحید، پیشگوئی جنگ عظیم ، بدظنی سے بچو، ہجوم مشکلات میں کامیابی حاصل کرنے کاطریق۔

خاکسار نے چیدہ چیدہ موضوعات کا اندراج کیا ہے۔ جب کہ ان کے علاوہ مختصر نظمیں، الہامی اشعار اور مصرعے بھی ہیں۔ ان تمام موضوعات و عنوانات میں جن مضامین کا احاطہ کیا گیا، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

درس توحید، خداتعالیٰ کی محبت، دین کی صداقت، قرآن کریم کی محبت اور آنحضرت ﷺ سے والہانہ عشق و محبت کے نمونے ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ بے نظیر دلائل و براہین کے ساتھ پیغام حق پہنچایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اخلاقی نصائح، دینی معارف و نکات، اور بے مثل دعائیں بھی ملتی ہیں۔ الغرض آپ کے کلام اردو کا مجموعہ ہر لحاظ سے جامع ہے۔ اردو ادب میں اس کی نظیر تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے۔ ہر نظم برجستہ و برمحل ہے۔ جیسا کہ اوپر ایک مختصر نظم کا سیاق و سباق درج کرکے اس کے مضمون اور مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ اگر احباب پسند کریں تو آپ کی کتب میں سے تمام منظومات کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرکے نہ صرف لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ بلکہ علمی اضافہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

پس آپ کا اردو کلام اول سے آخر تک حکمت و معرفت کے نکات پاکیزہ اور حسین مرقع ہے۔ بلکہ تمام کی تمام نظمیں روحانی تشنہ کامی کی سیرابی کے جام لبالب پیش کرتی ہیں۔ ایک شعر تو کجا ایک لفظ بھی آپ کے کلام میں ایسا نہیں ملتا، جو آپ کے کلام کے مزاج کے خلاف آیا ہو۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا کلام معانی و مطالب کے لحاظ سے مئے عرفان کا ایک شفاف شیشہ ہے۔

اب آپ کے کلام معجزہ بیان کا تذکرہ کچھ زبان و بیان اور شعری خوبیاں سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ مثال ہے ’’کیا پدی اور کیاپدی کا شوربا‘‘ اس لئے قلم لرزاں، تو دل ترساں ہے کہ کہیں اس عاجز کی خام خیالی ٹھوکر نہ کھائے۔ اس لئے نہایت عجز وانکسار سے آپ کے کلام سے بعض اشعار تحریر کرکے ان کے ظاہری و باطنی محاسن پیش کرنے کی ایک ناکام کوشش کر رہا۔ اللہ کرے کہ اس دشوار مرحلے سے گزرنے میں کامیاب ہو جاؤں۔

حمد باری تعالیٰ

حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی
ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی

خدا کے علاوہ ہر چیز فنا کا شکار ہونے والی ہے۔ اسی لئے آپ نے نہایت کھلے انداز اور آسان پیرائے میں فرمایا کہ کیسے بھی حالات ہوں دنیا والے کچھ بھی سلوک کریں۔ انسان کو ہر حالت میں خدائے واحد پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اس لئے کہ جب کوئی انسان تمام سہارے چھوڑ کر خدا کا ہو جاتا ہے تو وہ ہر حالت میں اس کی پشت و پناہ بن جاتا ہے۔ اہل دنیا اپنے عناد کے باوجود اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ آپ نے اس مضمون کو اپنے دو شعروں میں نہایت عمدگی و سادگی سے یوں پیش فرمایا۔ ؎

لوگوں کے بغضوں سے اور کینوں سے کیا ہوتا ہے
جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے
بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت
اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے

یہ 1894ء کا کلام ہے۔ اس دور کی زبان میں ’’اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے‘‘ ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ چاروں مصرعے شستہ و برجستہ اور رواں ہیں۔ مگر چوتھے مصرعے نے ان دونوں شعروں میں کمال درجے کی بلاغت سمو دی ہے۔ توحید کا مضمون بیان کرنا اورسادگی کا انتہائی درجہ اپنانا آپ ہی کا حصہ ہے۔ دوسرا کوئی کیا اپنائے گا؟

درس توحید کے بعد اپنا حال بیان فرماتے ہیں کہ آپ کس حد تک خدائے واحد کے عشق سے سرشار ہیں۔ اس طرح کہ آپ اپنے وجود کوا س کے وجود میں ضم کر چکے ہیں۔

جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا
شکر للہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل
کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا

یہ دونوں اشعار اپنے ارفع مضمون اور زبان کے معیار سے کسی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ مضمون ہے کہ گویا معرفت کا جام لبالب ہے۔ جسے پیتے ہی ایک عارف اپنے وجود سے بے نیاز ہو کر اپنے محبوب حقیقی کے وجود میں ضم ہو کر اپنے وجود کی نفی کا اعلان کرتا ہے اور الفاظ ہیں کہ واقعی ’’لعل بے بدل‘‘ ہیں۔ مضمون جتنا بلند ہے الفاظ اتنے ہی آسان ہیں۔

اب ذرا چند شعر ’’حمد رب العالمین‘‘ کے نمونے کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ انداز غزل کا ہے۔ مگر غزل اس کا مقابلہ کیا کر سکتی ہے؟ آپ فرماتے ہیں۔ ؎

چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
اس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا
خوب رویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا
چشمِ مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا
شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا

یہ نظم مرصع پندرہ اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع سے مقطع تک ہر شعر ایسا ہے کہ جان غزل اس پر نثار ہوئی جاتی ہے۔ یہ 1882ء کا نمونہ ہے۔ ذرا اس دور کی چند غزلیں لے کر اس حمد کو ان میں شامل کرکے کسی غیر جانبدار اور ناآشنا نقاد کے سامنے رکھ دیجئے اور کہیے کہ ذرا ان غزلوں پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر کچھ ارشاد فرمائیے۔ تو پھر دیکھیں کہ وہ اس نظم کو کس انداز میں کیسے کیسے پڑھتا اور اس پر ہزار جان سے نثار ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف عارف باللہ کا عاشقانہ انداز ہے۔ بلکہ بعض نادر تشبیہیں بھی ہیں۔ جو اردو شاعری میں تلاش کرنے سے بھی مل نہیں سکتیں۔ مثال کے طور پر ‘‘خوب رو’’ کی ملاحت کو ’’حسن مطلق‘‘ کا حصہ قرار دینا، ’’ہر گیسوئے خمدار‘‘ کو سائل کا ہاتھ قرار دے کر اسے ’’حسن مطلق‘‘ کی طرف پھیلے ہوئے دکھانا اور ہر ’’حسین کی چشم مست‘‘ میں ’’حسن مطلق‘‘ کا جلوہ دکھانا وغیرہ۔

قرآن مجید کے فضائل و اوصاف

توحید باری تعالیٰ کے بعد جگہ جگہ آپ کے کلام میں اس مضمون کا دریا بہتا ہوا دعوت نظارہ دیتا ہے۔ہر شخص میں یہ طاقت کہاں کہ وہ اس دریائے مواج کا شنا ور بن کر اس کی تہہ سے موتی ڈھونڈ لائے۔ وہ شاید اس کا سطحی نظارہ کرنے کی تاب بھی نہ لا سکے۔ یہ اس شید اکا کام ہے جو دس ہزار مرتبہ سے زیادہ دفعہ اس دریا کے پار اتر چکا ہو۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ آپ کس کس شان کے لعل بے بدل نکال کر پیش کرتے ہیں۔ نمونے کے چند اشعار تحریر کئے جاتے ہیں۔

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے
کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لولوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے
خدا کے قول سے قول بشر کیوں کر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے
٭٭٭
یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
٭٭٭
وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں
ہو گی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں
اس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا
ہر سینہ شک سے دھو دیا، ہر دل بدل دیا
قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے
بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے
دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر
سب قصہ گو ہیں نور نہیں ایک ذرہ بھر
پر یہ کلام نور خدا کو دکھاتا ہے
اس کی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے
٭٭٭
نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
٭٭٭
شکرِ خدائے رحماں، جس نے دیا ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا یہی ہے
پہلے صحیفے سارے لوگوں نے سب بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے، نوشتہ نیا یہی ہے
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

آپ نے قرآن مجید کے فضائل و اوصاف کو نہایت انوکھے انداز میں نظم کیا ہے۔ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد قرآن کی شان و عظمت کو بیان کرنے کا کوئی ایسا نمونہ ملتا ہے۔ مذکورہ اشعار میں سے آخری شعر آپ کی قرآن مجید سے انتہائی عقیدت و محبت کو بیان کرتا ہے۔ اس سے بہتر انداز اور بہتر الفاظ میں قرآن مجید سے عشق کا اظہار کرنا ممکن نہیں۔ اللہ اللہ! قرآن کو کعبہ قرار دے کر ہمہ وقت اس کا طواف کرنا اور اس مقدس آسمانی صحیفے کو چومتے رہنا آپ کی دلی آرزو ہے۔ مذکورہ اشعار نہ صرف معانی کے اعتبار سے بلکہ الفاظ کے اعتبار سے بھی ممتاز و وقیع مقام رکھتے ہیں۔

مختصر یہ کہ ان اشعار میں قرآن مجید کو بے نظیر و یکتا کلام پاک قرار دیا گیا ہے۔ آپ نے دنیا کے سب سے مہنگے اور خوبصورت لعل و گوہر کی مثال دے کر انہیں بھی حقیر اور بے قیمت قرار دیا ہے۔ وجہ بیان فرمائی ہے کہ قرآن سراسر خدا کا کلام ہے اور کسی انسان کا کلام کیونکر اس کا ہم پلہ ہو سکتا ہے۔ قرآن خدا کی معرفت کے لبالب جام پلاتا ہے، معارف کے شیریں پھل دیتا اور ہر شک و شبہ کو دل سے دھو ڈالتا ہے۔ یہ خدا نما ہے اور خدا کا نور ہے۔ باقی تمام کتابیں قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہیں جب کہ قرآنی نور اپنے نشانوں کے جلووں سے خداتعالیٰ کا دیدار کراتا اور تشنہ کامی کا سامان کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ پہلے سارے صحیفوں سے ہر لحاظ سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ ان صحیفوں کو انسانوں نے بگاڑدیا ہے۔ الغرض مذکورہ اشعار میں قرآن کی عظمت و بزرگی اور فضلیت و وقعت کا ایک دریا رواں ہے۔ مطالب کی طرح ان اشعار کی زبان بھی ہر انداز سے معیاری ہے اورمضمون کا حق خوب ادا کرتی ہے۔ جہاں جہاں کسی تشبیہ کا استعمال ہوا ہے وہ بھی خوب ہے۔ مثال کے طور پر سابقہ کتب کو غنچے قرار دینا اور قرآن مجید کو ‘‘گل شگفتہ‘‘ سے بیان کرنا یہ لطیف اشارہ اپنے اندر رکھتا ہے کہ سابقہ کتب قران مجید کے نزول کے بعد ‘‘بند غنچوں‘‘ کی طرح اپنا اثر زائل کر چکی ہیں۔ جب کہ قرآن مجید ایک گل شگفتہ کی طرح گلشن ہستی میں اپنی مہک پھیلا رہا ہے۔

حضرت محمد ﷺ سے عشق کا اظہار

آپ کے منظوم کلام میں تیسرا بڑا مضمون ہے۔ جس پر آپ نے دل کھول کر لکھا ہے۔ اس مضمون میں بھی آپ نے اپنے ذاتی تجربے کی بنا نئے انداز سے عشق کے باب میں اچھوتے خیالات کا اضافہ فرمایا ہے۔ آپ نے شعراء کی روایتی انداز کی نعت گوئی سے ہٹ کر اپنی راہ خود نکالی ہے۔ اس لئے آپ کا یہ انداز بھی خالص ذاتی ہے۔ آپ نے روایتی شعراء کی نظموں کے مطالب و معانی اور زبان و بیان دونوں کو ایک طرف رکھ کر ایک نیا اور سادہ انداز اپنا کر اپنی دلی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اس جگہ نمونے کے لئے ایک شعر تحریر کیا جاتا ہے۔

اس نور پر فدا ہوں، اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے، میں چیز کیا ہوں، بس فیصلہ یہی ہے

روایتی نعت گو مدینے جا کر گلی کوچوں کا دیدار کرنے کا طالب ہوتا، روضے کی جالی کو فرط عقیدت سے چومنے کی بات کرتا ہے اور انتہائے آرزو یہ کہ اسی کوچے میں جان دینے کی تمنا کرتا ہے۔ کبھی آپؐ کے حسن و صورت کا ذکر کرکے روشن مکھڑے، کالی زلفوں اور ان کی مہک کا مضمون باندھتا ہے۔ الغرض جو کچھ وہ حسن مجازی میں دیکھتا ہے۔ وہی کچھ وہ حسن رسالت ؐ میں تلاش کرتا ہے۔ لیکن آپ کی نعت گوئی میں آپ کا ذاتی تجربہ عشق شامل ہے۔ آپ نے حلفاً اپنے ایک عربی شعر میں اپنے آقا کی ملاقات کا شرف پانے کا بیان یوں فرمایا ہے۔

ترجمہ:۔ بخدا میں نے اس کے حسن و جمال کا اپنی ان آنکھوں سے، اس جگہ پر بیٹھ کر مشاہدہ کیا ہے۔

محبوب سے ملاقات کا یہ شرف حاصل کرنا ہی کسی نعت گو کے بس میں کہاں؟ یہ تو صرف اسی کو میسر آتا ہے جو اپنے آپ کو حقیقت میں اس کا اہل بنا دے۔ اسی طرح آپ نے اپنے ایک فارسی شعر میں حضرت شہ لولاک ؐ سے اپنی عقیدت کا یوں اظہار کیا ہے۔ ؎

می پریدم سوئے کوئے او مدام
من اگر می داشتم بال و پرے

آپ نے اپنی ایک نظم بعنوان ’’ام الکتاب‘‘ میں فرمایا ہے ؎

اے دوستو! جو پڑھتے ہو ’’اُم الکتاب‘‘ کو
اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو

ان سطور کے بعد اب خاکسار قارئین کے لئے حضور کے وہ نعتیہ اشعار پیش کرتا ہے جنہیں آپ نے بارہا پڑھا ہو گا۔ مگر امید ہے کہ آج مذکورہ سطور کے مطالعے کے بعد آپ کو ان اشعار کا مطالعہ ایک نیا سرور دے گا۔ لیجئےکچھ منتخب نعتیہ اشعار حاضر ہیں۔

آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
جب سے یہ نور ملا، نورِ پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے

غور کیجئے آپ نے ’’ذات حق‘‘ سے ملنے کا وسیلہ نور پیمبری ہی کو قرار دیا ہے۔ یہی مضمون ہے ’’سورہ آل عمران‘‘ کی آیت 32: کا۔ گویا آپ نے اس آیت کو رہنما بنا کر اس مقام کو پایا ہے۔ لیجئے نعتیہ اشعار کا مزید انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔

مصطفیؐ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جان کو مدام
دل کو وہ جامِ لبالب ہے پلایا ہم نے
اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں
لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے
مورد قہر ہوئے آنکھ میں اغیار کی ہم
جب سے عشق اس کا تہِ دل میں بٹھایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور میرا ہر ذرہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے
نقشِ ہستی تیری الفت سے مٹایا ہم نے
اپنا ہر ذرہ تیری رہ میں اڑایا ہم نے
شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے
تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے
چھو کے دامن ترا ہر دام سے ملتی ہے نجات
لا جَرم در پہ ترے سَر کو جھکایا ہم نے
دلبرا! مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے

مذکورہ بالا نعتیہ اشعارِ جن نکات پر مشتمل ہیں۔ پوری نعتیہ شاعری میں اس کی مثال نہیںملتی۔ جس طرح مذکورہ اشعار کے معانی و مطالب ایک سچے عاشق کی دلی کیفیت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان اشعار کی زبان و بیان اور الفاظ کی سادگی اور صفائی دل میں اثر کرتی چلی جاتی ہے۔ ہمارا مقصد موازنہ نہیں ہے۔ اگر مقصد یہ ہوتا تو ایسے نعتیہ اشعار یہاں درج کر دیتے جن کے معانی سمجھنے کے لئے بھی ہر قاری کو لغت کی ورق گردانی کرنا پڑتی۔ دراصل شعر تو وہی ہے کہ سنتے ہی دل میں اتر جائے۔ ورنہ محض تشبیہ و استعارہ اور زبان و بیان کے گورکھ دھندے میں قاری کو الجھانا شعر نہیں کہلاتا۔ کیونکہ شعر تو نام ہی پرتاثیر کلام کا ہے۔ مذکورہ اشعار کے اس معیار کو ہرلحاظ سے پورا کرتے ہیں۔ یہ سب اشعار بھی زبان کے اعتبار سے سہل ممتنع کی خوبی رکھتے ہیں۔

چند نعتیہ اشعار بطور نمونہ اور تحریر کئے جاتے ہیں۔ ان کے معانی و مطالب بھی آسان اور عام فہم ہیں۔

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے
سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرُ الوریٰ یہی ہے
پردے جو تھے ہٹائے اندر کی راہ دکھائے
دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں، اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے، میں چیز کیا ہوں، بس فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

اب چند متفرق نعتیہ اشعار درج کئے جاتے ہیں۔

الہامی شعر ؎

زندگی بخش جام احمدؐ ہے
کیا ہی پیارا یہ نام احمدؐ ہے
لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا
سب سے بڑھ کر مقام احمدؐ ہے
باغ احمدؐ سے ہم نے پھل کھایا
میرا بستاں کلامِ احمدؐ ہے

دعائیہ مضمون پر مشتمل اشعار

اوپر ہم نے آپ کے کلام کے موضوعات درج کئے ہیں۔ مگر اس مضمون میں ہم سب موضوعات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے ہم نے ان میں سے بعض موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ اس وقت چوتھا موضو ع پیش کیا جا رہا ہے۔ جو دعائیہ اشعار پر مشتمل ہے۔ عبادت کے اندر ’’دعا‘‘ کا نمایاں دخل ہے۔ کیونکہ دعا کو رسول اللہ ﷺ نے ’’مخ العبادۃ‘‘ یعنی عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔ ہر مصیبت سے نجات پانے کے لئے دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے۔ اس لئے آپ نے اشعار میں دعا کو بھی نمایاں جگہ دی ہے۔ اب آپ کے دعائیہ اشعار کا انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کے دعائیہ اشعار بھی اپنے اندر ہر لحاظ سے ایک انفرادی شان رکھتے ہیں۔ اردو شاعری میں اس کا جواب نہیں مل سکتا۔ ؎

اے قادر و توانا آفات سے بچانا
ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا
کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت
کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت
دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میرے بندہ پرور کر ان کو نیک اختر
رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج و افسر
شیطاں سے دور رکھیو! اپنے حضور رکھیو!
جاں پُرزِ نور رکھیو! دل پُر سرور رکھیو
ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مباک سبحان من یرانی
میری دعائیں ساری کریو قبول باری
میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری

مذکورہ بالا اشعار میں مانگی جانے والی دعاؤں کی قبولیت کا رنگ اس قدر نمایاں ہے کہ کسی مثال یا وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے یہ دعائیں اگرچہ اپنی مبارک اولاد کے لئے کی ہیں۔ مگر آپ کی روحانی اولاد جماعت احمدیہ نے بھی آپ کی ان متضرعانہ دعاؤں کے طفیل خوب حصہ پایا ہے۔ ایک زمانہ گواہ ہے کہ خاندان کے معزز و محترم افراد اور بقیہ جماعت کے احباب نے جو بھی ترقی پائی ہے اور جس میدان میں بھی ناموری حاصل کی ہے۔ وہ آپ کی انہی دعاؤں ہی کاا ثر ہے۔ دوست تو دوست دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہر پہلو سے نمایاں ہے۔
اس موضوع پر ایک طویل نظم ہے جو 29صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اپنے مو ضوع پر جامع اور کامل نظم ہے۔ الفاظ و معانی کا خزانہ تو زبان و بیان کا لاثانی مرقع ہے۔ انداز اتنا رسیلا اور جاذب کہ قاری اول سے آخر تک پڑھتے ہوئے دلچسپی کو قائم رکھتا ہے۔ کیا مجال ہے کہ طوالت کے سبب اکتا جائے۔ ہر ایک شعر اپنی برمحل اہمیت کو خود ظاہر کرتا ہے۔ بلکہ ہر ایک بے مثل نگینے کی طرح اپنی اپنی جگہ پر جڑا ہوا ہے۔ اس لئے یہاں صرف چند منتخب اشعار ہی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ حظ اٹھانے کے لئے پوری نظم کا مطالعہ ایک ہی نشست میں کیا جائے تو یہ نظم اپنی خوبیوں کو خود ظاہر کرے گی۔ چند شعر حاضر ہیں۔

اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگار
اے میرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل
میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار
کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے
خاک میں ہو گا یہ سر گر تو نہ آیا بن کے یار
دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفیؐ
مجھ کو کر اے میرے سلطان کامیاب و کامگار
آسماں پر دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہے
ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار
آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار

یہ طویل نظم 29صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں مناجات سے شروع ہو کر مختلف انداز میں ابلاغ کے موضو ع کو اپنایا گیا ہے کچھ اور نمونے کے اشعار تحریر کئے جاتے ہیں۔

اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار
اس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرورِ روز گار
اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
اس قدر امر نہاں پر کس بشر کو اقتدار

یہ اشعار پہلی بار 1908ء میں طبع ہوئے تھے۔ اس وقت کی ترقی کا حال آپ نے تحریر فرمایا ہے۔ اب اس پر سو سال گزر چکے ہیں۔ اب بفضل اللہ یہ پیشگوئی اور بھی زیادہ شان سے پوری ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ اب احمدیت دنیا کے طول و عرض میں اس وسعت سے پھیل چکی ہے کہ اب ’’دنیائے احمدیت’’ پر سورج غروب نہیں ہوتا۔ یہ احمدیت کی صداقت پر دلیل ناطق ہے۔ ایک اور انداز میں پیغام حق پہنچاتے ہوئے فرماتے ہیں۔

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار
یاد وہ دن جب کہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دین
مہدیٔ موعودِ حق اب جلد ہو گا آشکار
کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش سے؟
کون تھا جس کو نہ تھا اس آنیوالے سے پیار؟

مختصر یہ کہ آپ کا مجموعہ اردو کلام گوناگوں ظاہری و باطنی خوبیوں سے معمور ہے۔ نہ زبان میں طاقت کہ وہ بیان کر سکے نہ قلم میں قوت کہ وہ تحریر کر سکے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یونہی تو آپ کو ’’سلطان القلم‘‘ کا لقب عطا نہیں فرمایا۔ فی الواقع آپ نظم و نثر میں اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ’’سلطان القلم‘‘ کا لقب آپ ہی کو زیبا ہے۔


(یعقوب امجد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ