• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح مو عودؑ اور سرسید احمد خان باہمی روابط، تائید و حمایت اور اختلافات تاریخ کے آئینہ میں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سید صاحب تینوں باتوں میں میرے موافق رہے۔ اول حضرت عیسیٰ کی وفات کے مسئلہ میں۔دوم جب میں نے یہ اشتہار شائع کیا کہ سلطان روم کی نسبت گورنمنٹ انگریز ی کے حقوق ہم پر غالب ہیں تو سید صاحب نے میرے اس مضمون کی تصدیق کی اور لکھا کہ سب کو اس کی پیروی کرنی چاہئے۔سوم اس کتاب امہات المومینین کی نسبت ان کی یہی رائے تھی کہ اس کارد لکھنا چاہئے میموریل نہ بھیجا جائے کیونکہ سید صاحب نے اپنی عملی کاروائی سے رد لکھنے کو اس پر ترجیح دی۔ کاش اگر سید صاحب زندہ ہوتے تو میری اس رائے کی ضرور کھلی کھلی تائید کرتے‘‘

ایک پولیٹیکل مصالح شناس شخصیت سرسید احمد خان بانی دارالعلوم علی گڑھ کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے تعلقات زمانہ ملازمت سیالکوٹ سے لیکر ان کی وفات تک قائم رہے ۔ ان تعلقات کی تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی کیا جا ئے تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا ایک بہت نما یا ں پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ آپ کا ہر اتفاق اور اختلاف سچائی کی خاطر تھا۔ دنیا میں آپ کو کسی کی ذات سے کوئی دشمنی نہ تھی۔ دوسرے یہ کہ آپ نے اپنے اس مقام سے سرمو انحراف نہ کیا جس پر خدا تعالیٰ نے بطور حَکم و عدل کے آپ کو قا ئم فرما یا تھا۔ سرسید احمد خان کا ذکر حضور کے ساتھ سب سے پہلے آپ کے دورانِ قیا م سیالکوٹ 1868-1864 میں آتا ہے۔ شمس العلماء سید میر حسن (جو علامہ اقبال کے استاد تھے ) حضرت مسیح موعود کی سرسید احمد خان کے ساتھ خط و کتابت کے متعلق لکھتے ہیں۔

’’مرزا صاحب کو کہا کہ سرسید احمد خان نے تورات اور انجیل کی تفسیر لکھی ہے۔ آپ ان سے خط و کتابت کریں۔ اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا ۔اسی سال سرسید احمد خان نے قرآن مجید کی تفسیر شروع کی تھی ۔ تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی ۔جب میں اور شیخ اللہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے ۔ تو اثنائے گفتگوسرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔ اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا ۔راقم نے کہا کہ تین رکوع کی تفسیر آگئی ہے۔ جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے۔کل جب آپ آویں تفسیرلیتے آویں جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا‘‘

سرسید احمد خان سے حضور کے تعلق کا دوسرا ذکر تقریبََا دس سال بعد آتا ہے اس کے اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ 1875ء میں ہندومذہب میں زندگی کی ایک لہر آریہ سماج کے نام سے اُٹھی اور دیکھتے دیکھتے ہندو، مومن اور عیسائی بھی اس کے ممبر بن گئے ۔آریہ سماج کے بانی پنڈت دیا نندسر سوتی (وفات اکتوبر 1883ء) کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ہندو مت کے بنیادی عقائد پر مباحثہ کی دعوت دی اور ان کے عقائد کو وید کی رو سے غلط قرار دیا۔ پنڈت صاحب خود تو آخری دم تک مباحثہ کیلئے آمادہ نہ ہوئے البتہ امر تسر کے ایک وکیل باوا نرائن سنگھ نے لاہور کے اخبار ’’آفتاب پنجاب‘‘ کے کالموں میں حضرت بانی سلسلہ کے ساتھ بحث کا اعلان کر دیا۔ حضرت مرزا صاحب نے جو اب کیلئے ’’سفیر ہند‘‘ امرتسر کے کالموں کو منتخب فرمایا۔ 23 فروری 1875ٗٗء کے ’’سفیر ہند‘‘ میں شرائط مطلوبہ کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اس میں چوتھی شرط یہ تھی۔

4 – ’’شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کومنصفان تنقید جواب قرار دیا ہے مولوی سید احمد خان ،منشی کنہیا لال، منشی اندر من کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں بلکہ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز میں مولوی سید احمد خان کا نام بھی جو ہم سے اخو ت دین رکھتے ،ہیں درج کر دیا ہے‘‘

آگے چلنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ سرسید احمد خان صاحب کی خدمات کا کچھ تذکر ہ کیا جائے ۔

سرسید احمد خان کا سب سے بڑا کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 1857ء کے ہنگامہ اور پر آشوب دور کے بعد مومنوں اور انگریزوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی اور ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کے نام سے رسالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے ’’لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ میں مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالی اور انگریزوں کو مومنوں کے قریب کرنے کی کوشش کی۔ اسی زمانہ میں ان کو خیال پیدا ہوا کہ مومنوں اور عیسائیوں کے درمیان جو اختلافات بڑھتے جاتے ہیں اور جن کو عیسائی پادریوں کی دریدہ د ہنی اور نا مناسب حرکات نے اور اشتعال دلایا ہے، ان کی اصلاح کی جائے ۔چنانچہ آپ نے عیسائیوں اور مومنوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے ’’تبیئن الکلام‘‘ کے نام سے انجیل کی تفسیر لکھی۔ انہی دنوں ولیم میور کی شہرہ آفاق تصنیف ’’لائف آف محمد‘‘ منصہ شہود پر آئی جس میں دین اوربانی دین کی زندگی کورکیک حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جن کتب کے حوالے دیئے تھے ان کو مشاہدہ کرنے اورقدیم کتب کا مطالعہ کرکے اس کا جواب دینے کیلئے سر سید نے اپنا بہت اسباب فروخت کر کے اپریل 1869ء کو انگلستان کا سفراختیار کیا۔ ایک سال کی تگ و دو کے بعد خطبات احمدیہ کے نام سے اس کا جواب دیا۔ اسی دوران مومنوں کے زوال اور انگریز کے عروج کا موازنہ کیا۔ مگر قیام انگلستان کے نتیجہ میں سرسید مغربی فلسفہ اور علوم سے کسی قدر مرعوب بھی ہوئے اور انہوں نے دین کو مغربی فلسفہ کے مطابق ڈھالنا شروع کیا اور دین کا مطالعہ مغربی فلسفہ کی عینک سے کرنا شروع کر دیا۔ 1873ء میں سرسید نے دارالعلوم علی گڑھ کی بنیادرکھ کر مسلمانان ہند کی تعلیمی پسماندگی کو دور کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو انگریزوں کے قریب جانے کا مواقع ملا اور یوں اعتماد سازی کی فضاء پیدا ہوگئی اور مسلمان ایک با ر پھر ترقی کی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ مسلمان نوجوان انگریزی تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمت حاصل کرنے لگے اور ان میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوگئی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ نوجوان نسل مغربی فلسفہ سے نہ صرف متاثر ہوئی بلکہ اس رنگ میں رنگی گئی۔سرسید احمد خان نے مغربی فلسفہ اور مشتشرقین کے اعتراضات اور خاص طور پر فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی سے متاثر ہو کر یہ نظریہ اختیا ر کیا کہ الہام دل سے ہی اٹھتا ہے اور دل پر ہی پڑتا ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف لاکھوں انبیا ء اوراولیاء کا ذاتی تجربہ و مشا ہدہ یہ ہے کہ الہام خارج سے آتا ہے اور وہ قلب کی آواز نہیں ہوتی بلکہ خدا کا کلام ہوتا ہے جو انسان کے قلب پر نازل ہوتا ہے۔ چند ایک مادہ پرستوں سے مرعوب ہو کر لاکھوں راست بازوں کے تجربوں اور مشاہدوں کا سید صاحب نے انکار کر دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین (…) میں الہام کے بارہ میں اعتراضات کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔

حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ سر سید احمد خان کی تعلیمی خدمات کے معترف تھے مگر ان کے مذہبی خیالات کو اور (دین حق) کو مغربی فلسفہ کے مطابق ڈھالنے کے سخت خلاف تھے ۔حضرت اقدس نے 1885ء دعوت نشان نما ئی دی اور مجددیت و ماموریت پر سرفراز ہونے کا اعلان فرمایا اور تمام بڑے بڑے لوگوں کو قادیان آ کر نشان دیکھنے کی دعوت دی آپ نے فرمایا۔

’’اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہد ہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا‘‘
اسی سال نومبر 1885 میں حضرت اقدس نے سرسید احمد خان صاحب اور مہاراجہ دلیپ سنگھ سے متعلق متوحش خبریں بطور پیشگوئی ہندوؤں اور (مومنوں) کو سنائیں پھر بعد میں 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار بھی شائع فرمایا۔

’’اور باوجود اس رحمت کے کہ جو فطرتی طور پر خدائے بزرگ و برتر ہمارے وجود میں رکھی ہے- اگر کسی کی نسبت کوئی بات نا ملائم یا کوئی پیشگوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالم مجبوری ہے جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے بعض دوستوں کی نسبت اپنے جدی اقارب کی نسبت اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے قومی بھائیوںکی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں اور ایک دیسی امیر نو وار دپنجابی الاصل بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعزہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں، جو انشاء اللہ القدیر بعد تصنیف لکھی جائیں گی، منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں۔ اور ہر ایک کے لئے ہم دُعا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر تقدیر معلق ہو تو دُعاؤں سے بففلہ تعالیٰ ٹل سکتی ہے‘‘

یہاں نجم الہند سے مراد سرسید احمد خان تھے۔

(مکتوبات سرسید صفحہ 371)

سرسید احمد خان نے مغربی فلسفہ اور مغربی علوم سے متاثر ہو کر قرآن مجید کی تفسیر لکھی اور جگہ جگہ غلطیاں کیں اور قرآنی تعلیمات کو ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جودین کے بنیادی عقائد کی نفی کر رہی تھی۔ سرسید نے نہ صرف قبولیت دعا اور الہام ملائکہ اور معجزات کا انکار کیا بلکہ ملائکہ اور نبوت کے متعلق اپنی تفسیر القرآن میں لکھا:

’’جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہو سکتا‘‘

’’میں نبوت کو ایک فطری چیز سمجھتا ہوں جو انبیاء میں مقتضائے اپنی فطرت کے مثل دیگر قوائے انسانی کے ہوتی ہے جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے وہ نبی ہوتا ہے‘‘

’’اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیاء میں پیدا کیا جبرائیل نام ہے‘‘

سرسید کے سوانح نگار کا تجزیہ: سرسید کی تفسیر کے بارہ میں ان کے سوانح نگار نورالرحمٰن ’’حیات سر سید‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’جدید علم کلام کی ایجاد اور اس قدر وسیع اور مہتم بالشّان مسئلے میں ہزاروں اختلافات اور گتھیوں کو سلجھا کر ایک سیدھی اور ایک نئی رہ قائم کرنا ایک معمولی کام نہ تھا اور نہ ایک ذات واحد کی کوششوں سے انجام پا سکتا تھا ۔اس لئے سرسید نے اپنے اجتہادات میں با وجود غیر معمولی لیاقت وقابلیت کے بے شمار غلطیاں کی ہیں اور بعض ایسی رکیک اور مہمل تاویلات پر اتر آئے ہیں جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیوں کر وہ ان طفل تسلیوں سے اپنے علمی دماغ اور تنقیدی ذوق کو مطمئن کرسکے …لیکن اکثر مسائل ایسے بھی ہیں جہاں ان کا اجتہاد تمام دنیا سے الگ ہی ہے اور وہ تنہا ان عقائد کے حامل نظر آتے ہیں‘‘

(حیات سرسید شائع کردہ انجمن ترقی اردو علی گڑھ صفحہ 104-105)

’’سرسید کی یہ رائے سن لینے کے بعد ہر شخص ان کے مذہبی کاموں اور عقائد پر دوبارہ نظر ڈالنا چاہتا ہے اور وہ اسباب ڈھونڈتا ہے جن کی وجہ سے سرسید نے مذہبی تصانیف میں صرف اختلافات ہی نہیں بلکہ بے شمار غلطیاں بھی کیں ۔ذاتی اجتہاد میں غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے اور وہ اس موقع پر بھی خلاف توقع نہیں ۔لیکن ایک اور سبب بھی تھا جس نے سرسید کو بعض جگہ نہایت ہی افسوس ناک غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیا۔ سرسید نے انگریزی حکومت کے عروج و اقبال کے ساتھ ہی مغربی علوم کی روشنی اور چمک دیکھی تھی … گویا وہ جدید ترقیات سے اس درجہ متاثر اور مرعوب ہو چکے تھے کہ بغیر غوروفکر کے ان کو قبول و تسلیم کر لیتے تھے چنا نچہ ان کے اکثر کاموں میں مغرب پرستی یا اس کا غیر محسوس اثر نمایاں ہے۔ مذہبی اجتہاد کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ اول انہوں نے مغربی علم و حکمت کو حقائق سمجھ لیا اور پھر تاویل کی لے اس قدر بڑھائی کہ بجائے مغربی علوم کے مذہب کو ہی جھکنا پڑا۔ مجتہد حیثیت میں یہ سب سے بڑا گناہ ہے‘‘

(حیات سرسید صفحہ107-108)

علی گڑھ تحریک مذہبی تحریک نہیں تھی: علی گڑھ تحریک کا درست پہلو اسکا اصلاحی حصہ ہے ۔یہ تحریک ہندوستان کے مسلمانوں کی اصلاحی تحریک تھی تاکہ وہ جدید تعلیم حاصل کر کے کاروبار حکومت میں شریک ہوں اوران کے معاشی حالات بہتر ہوں اور ان کی پسماندگی کو دور کرنے میں مدد دی جا سکے مگر سرسید احمد خان دین کے بارے میں اپنے نظریہ عقل یا نیچر پر ،مبنی خیالات پیش کرنے لگے ۔چنانچہ معروف مؤرخ شیخ محمد اکرم علی گڑھ تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ‘‘سرسید نے جدید الکلام کا آغاز کیا اور ان کے باقی رفقائے کار بالخصوص حالی، محسن الملک اور نذیر احمد ان کے اکثر عقائد سے اختلاف رکھتے تھے۔ دوسرے اس میں کوئی شک نہیں کہ علی گڑھ تحریک نے قوم کو جس رنگ میں رنگا وہ مذہبی نہ تھا بلکہ فی الحقیقت یہ تعلیمی ادبی اور کلچرل تحریک تھی مذہبی تحریک نہ تھی ۔اس کا مقصد اولیٰ قوم کی دنیاوی پستی کو دور کرنا تھا اور مذ ہبی احیاء اس کا مطمع نظر نہ تھا‘‘

(موج کو ثر صفحہ 43)

حضرت اقدس کی محفل میں ذکر: سر سید کے اس میلان طبع کا ذکر ایک روز حضرت اقدس کی محفل میں بھی ہوا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’سید احمد صاحب کے یورپ کی طرف میلان پر فرمایا کہ انسان جس شے کی طرف پوری رغبت کرتا ہے تو پھر اس کی طرف اس کا میلان طبعی ہوجاتا ہے اور آخر کا ر وہ مجبور ہو جاتا ہے ’’حضرت اقدس چونکہ حَکم وعدل تھے آپ نے سرسید کے خیالات کی تردید فرمائی ہے۔ آپ نے سر سید احمد خان کا نام لیکر ان کے غلط خیالات کا رد کیا ۔ فرمایا: ‘‘یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہو گا اور اسلام فتح پائے گا ۔حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں ۔کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کرآویں مگر انجام کار ان کی ہزیمیت ہے۔ میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کی جہالتیں ثابت کردے گا… کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہورہے ہیں۔ اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔ یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو ایساضعیف کردے کہ کالعدم کردیوے گا‘‘

برکات الدعا کی تصنیف: سرسید احمد خان نے رسالہ الدعاء والاستجابۃ میں لکھا کہ استجابت دعا دراصل کوئی چیز نہیں فقط دل کی تسلی کا ہی نام ہے ورنہ دعا کا قبول ہونا بالکل بے معنی بات ہے۔ خدا اپنے کام سے غرض رکھتا ہے کسی کی دعائیں وغیرہ نہیں سنتا …جس میں آپ نے ان کے پیش کردہ دلائل کو معقولی اور منقولی رنگ میں رد فرمایا اوروحی کے خارج سے آنے اور دعا کی قبولیت کے متعلق اپنا تجزیہ بطور ثبوت پیش کیا اور اس میں وہ تمام طریق تحریر فرمائے جن کے ذریعہ انسان اس مقام پر جا پہنچا ہے جہاں بندہ کی دعائیں جناب الٰہی میں مستجاب ہوتی ہیں۔حضرت اقدس نے اس کتاب کے آخر میں ایک نظم لکھی اور سرسید کو دعوت دی کہ مجھ سے دعا کے مستجاب ہونے کے نمونے دیکھ لو ۔اور ان نمونوں میں سے جو آپ نے سرسید احمد خان صاحب کے سامنے پیش کئے، ایک نمونہ لیکھرام پشاوری کی پیشگوئی بھی تھی ۔دوسرے رسالہ ‘‘تحریر فی اصول التفسیر‘‘ میں سرسید نے اپنے دوست حریف سے تفسیر کے اصول مانگے تھے۔

حضرت اقدس نے فرمایا کہ ’’یہ خدمت بھی میں ہی کر دیتا ہوں۔ کیونکہ بھولے کو رہ بتانا سب سے پہلے میرا فرض ہے‘‘

حضرت اقدس نے سرسید کی تا ویلات کاردفرمایا ۔اگر چہ وہ اپنے خیال میں دین کو دشمنوں کے حملوں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن نادانی سے درحقیقت وہ اس کی جڑپر تبر چلارہے تھے۔پس حضرت اقدس نے سرسید اور ان کے پیروکاروں کوجو نیچری کہلاتے تھے، ان کی غلطیوں پرمتنبہ کیا اور قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے تعلق باللہ کا ہونا ضروری قرار دیا ۔آپ نے تفسیر کے لئے سات معیار تحریر فرما کر لکھا کہ سیدصاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروں سے اکثر مقامات میں محروم و بے نصیب ہے ۔آپ فرماتے ہیں: ’’تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصہ کے نہ ہوجائے اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہم السلام دنیا سے بے وارث ہی گزر گئے اور اب ان کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بجز قصہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا بلکہ ہر صدی میں ضرورت کے وقت انکے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس صدی میں یہ عاجز ہے۔ خداتعالیٰ نے مجھ کو اس زمانہ کی اصلاح کیلئے بھیجا ہے تا وہ غلطیاں جو بجز خداتعالی کی تائید کے نکل نہیں سکتی تھی وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں اور منکرین کو سچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے گا‘‘

سرسید کے بارے میں ایک پیشگوئی کا پورا ہونا: جب 6مارچ 1897ء کولیکھرام پیشگوئی کے مطابق قتل ہوا تو حضرت اقدس نے سرسید احمد خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے 12مارچ 1897 کو ایک اشتہار بعنوان سید احمد خان صاحب کے سی ایس آئی شائع فرمایا۔ ’’سو سید صاحب کی یہ غلطی ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی ۔کاش اگر وہ چالیس دن تک ہی میرے پاس رہ جاتے تو نئے اور پاک معلومات پالیتے مگر اب شائد ہماری اور ان کی عالم آخرت میں ہی ملاقات ہو گی۔ افسوس کہ ایک نظر دیکھنا بھی اتفاق نہیں ہوا ۔سید صاحب اس اشتہار کو غور سے پڑھیں کہ اب ملاقات کے عوض جو کچھ ہے یہی اشتہار ہے‘‘

پھر فرمایا ‘‘آپ کو یہ بھی یاد دلاتا ہوں ایک پیشگوئی میں نے 20فروری 1886ء میں آپ کی نسبت بھی کی تھی کہ آپ کو اپنی عمر کے ایک حصہ میں ایک سخت غم وہم پیش آئے گا اور اس پیشگوئی کے شائع ہونے سے آپ کے بعض احباب ناراض ہوئے تھے اور انھوں نے اخباروں میں رد چھپوایا تھا مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور یکدفعہ ناگہانی طور پر ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا۔ اس صدمہ کا اندازہ آپ کے دل کو معلوم ہوگا کہ اس قدر مسلمانوں کا مال ضائع گیا ۔میرے ایک دوست میرزا خدا بخش صاحب مسٹر سید محمود صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس نقصان کے وقت علی گڑھ میں موجود نہ ہوتا تو میرے والد صاحب ضرور اس غم میں مر جاتے ۔یہ بھی میرزا صاحب نے سنا کہ آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی اور اسقدر قومی مال کے غم سے دل بھر گیا کہ ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی سو اے سید صاحب یہی حادثہ تھا جس کا اس اشتہار میں صریح ذکر ہے ۔چاہو تو قبول کرو‘‘ اس پیشگوئی کے بارے میں آپ نے ایک دفعہ سرسید کی وفات کے بعد فرمایا:

’’میں نے سید احمد خان کو لکھا تھا کہ میں نے لیکھرام کے واسطے دعا کی تو مجھے خبردی گئی ہے کہ تیری دعا قبول ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ اس کو ہیبت ناک موت سے مارے گا ۔یہی نمونہ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں کہ اگر یہ دعا قبول نہ ہوئی تو تمہارے دعویٰ کا ثبوت ہوا۔ اور اگر قبول ہوگئی تو تم اس عقیدہ سے توبہ کرنا اور وہ لیکھرام کی موت کو دیکھ کر فوت ہوا‘‘

چندہ لینے کی کوشش:6مارچ 1897ء کولیکھرام قتل ہوا اور 13مارچ کو حضور نے اس کی موت پر پیشگوئی پوری ہونے کا اشتہار شائع فرمایا ۔جن دنوں یہ اشتہار زیر تکمیل تھا ۔سرسید احمد خان حضرت اقدس کے ساتھ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کے ذریعے سلسلہ جنبانی کر رہے تھے جس کی تفصیل حیات نور 222-223میں درج ہے۔

سرسید احمد خان پر اتمام حجت:سرسید احمد خان صاحب کی وفات 27مارچ 1898ء کو ہوئی۔ ان کی وفات سے تقریباً ایک سال قبل حضرت مسیح موعود نے سرسید کے مذہبی معتقدات کے بارے میں ان پر اتمام حجت کردی۔ حضرت اقدس نے … مئی 1897ء میں شائع فرمائی۔ اس میں آتھم و لیکھرام سے متعلقہ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا خاص طور پر تفصیل سے ذکر فرمایا ۔اس کے علاوہ خاص طور پر تین فتنے جو ظہور میں آئے ہیں اور جن کا ذکر براہین(…) میں تھا ۔ان کے بارے میں حضرت اقدس نے بڑی تحدی سے مندرجہ ذیل نوافراد کو قسم موکد بہ عذاب کھانے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:

’’کیا محمدحسین بٹالوی یا سیداحمد خا ن صاحب کے سی ایس آئی۔ یا نذیرحسین،دہلوی یا عبدالجبار۔ غزنوی یا رشیداحمد گنگوہی یا محمدبشیر بھوپالی، یاغلام دستگیر قصوری یاعبداللہ ٹونکی پروفیسر لاہور۔ یا مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ قسم کھاسکتے ہیں کہ یہ تین فتنے جن کا ذکر پیشگوئی کے طور پر براہین (…) میں کیا گیا ہے ظہور میں نہیں آگئے۔ اگر کوئی صاحب ان صاحبوں میں سے میرے الہام کی سچائی کے منکر ہیں تو کیوں خلقت کو تباہ کرتے ہیں میرے مقابل پر قسم کھا جائیں کہ یہ تینوں فتنے جو براہین (…) میں بطور پیشگوئی ذکر کئے گئے ہیں یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور اگر پوری ہوگئی ہیں تو اے خدائے قادر اکتالیس دن تک ہم پر وہ عذاب نازل کر جو مجرموں پر نازل ہوتا ہے پس اگر خداتعالیٰ کے ہاتھ سے اور بلاواسطہ کسی انسان کے وہ عذاب جو آسمان سے اترتا اور کھا جانے والی آگ کی طرح کذاب کو نابود کر دیتا ہے اکتالیس روز کے اندر نازل نہ ہوا تو میں جھوٹا اور میرا تمام کاروبار جھوٹا ہوگا اور میں حقیقت میں تمام لعنتوں کا مستحق ٹھہروں گا‘‘

اس کے بعد خصوصی طور پر سرسید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور یاد رہے کہ میں نے سیّد احمد خان صاحب کا نام منکرین کی مد میں اس لئے لکھا ہے کہ ان کو خدا کے اس الہام بلکہ وحی سے بھی انکار ہے جو خدا سے نازل ہوتی اور علم غیب کی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے چونکہ وہ بھی اب عمر کی منزل کو طے کر چکے ہیں میں نہیں چاہتا کہ وہ یورپ کے کورا نہ خیالات کی پیروی کر کے اس غلطی کو قبر میں لیجائیں اب گو وہ متوجہ نہ ہوں اور اس بات کو ٹھٹھے میں اڑائیں مگر میں نے جو (دعوت الی اللہ) کرنی تھی وہ کر چکا ہوں میں ڈرتا ہوں کہ میں پوچھا نہ جاؤں کہ ایک بندئہ گم شدہ کو تم نے کیوں تبلیغ کی‘‘ حضرت اقدس نے پادری ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ اقدام قتل میں سرسید احمد خان کو صفائی کا گواہ لکھوا یا تھا حضرت اقدس نے مئی 1898ء میں شائع شدہ کتاب فرمائی اس میں سرسید احمد خان کی سیاسی سوجھ بوجھ کی تعریف فرمائی تھی:

خدا ان پر رحم کرے :حضرت اقدس سرسید احمد خان کے بارے میں اپنی پیشگوئی کو اپنی صداقت کا تہترواں نشان قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :پیشگوئی کی اشتہار 12مارچ 1897ء سے جو سرسید احمد خان کے سی ایس آئی کی نسبت میں نے کی تھی۔ اس پیشگوئی سے اول ایک اور پیشگوئی اشتہار 20فروری 1886ء میں کی گئی تھی جو اسی وقت مشتہر ہو کر ہزاروں انسانوں میں شائع ہو گئی تھی جس کا خلاصہ مطلب یہ تھا کہ سید احمد خان صاحب کو کئی قسم کی بلائیں اور مصیبتیں پیش آئیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور وہ ایک عظیم الشان مالی نقصان اٹھا کر بڑی تلخی کے ساتھ اس دنیا سے گزرے اور میں نے صدہا انسانوں کے روبرو جو ان میں سے بہت سے ابتک زندہ موجود ہیں اس کشف کو ظاہر کر دیا تھا کہ مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا گیا ہے کہ سید صاحب موصوف بعض سخت تکالیف اٹھا کر بعد اس کے جلد اس عالم نا پائیدار سے گذر جائیں گے ۔چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور بعض اولاد کی موت کا بھی حادثہ انہوں نے دیکھا اور سب سے زیادہ یہ کہ ایک شریر بندہ کی خیا نت کی وجہ سے اس قدر مالی نقصان ان کو اٹھانا پڑا کہ وہ سخت غم کا صدمہ ان کی اندرونی قوتو ں کو یک دفعہ سلب کر گیا …غرض سید احمد خان کی موت بھی آخر کمزوری کی وجہ سے ہوئی خدا ان پر رحم کرے‘‘

خلاصہ کلام یہ کہ حضرت اقدس جہاں سرسید کی سیاسی خدمات کے معترف رہے اور ان کو پولٹیکل مصالح شناس بزرگ بہادر اور زیرک انسان قرار دیتے رہے وہیں پر آپ نے سرسید کے غیردینی خیالات کا بھی سختی سے نوٹس لیا اور جابجا ان کے غلط خیالات کی اصلاح وتردید فرمائی اور ان پر اتمام حجت کی غرض سے ان کے بارے میں ایک پیشگوئی بھی فرمائی جو کہ پوری نشان سے پوری ہوئی اور حقیقت حال یہی ہے کہ سرسید کی ساری شہرت اور نیک نامی ان کی سیاسی اور تعلیمی خدمات کی وجہ سے ہے ۔ان کے مذہبی نظریات کو کبھی بھی کسی نے صحیح قرار نہیں دیا۔سرسید احمد خان کو زندگی کے آخری ایام میں بعض سخت صدمات برداشت کر نے پڑے جبکہ علی گڑھ کے خزانچی نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ غبن کرلیا اور سرسید کے بیٹے سید محمود کی کثرت شراب نوشی نے جو حالات پیدا کر دیئے وہ اس پر مستزاد تھے۔ 27مارچ 1898ء کو ان کی وفات ہوئی۔ تجہیز وتکفین کے اخراجات کیلئے چندہ اکٹھا کیا گیا اور کالج کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی۔


(مرزا خلیل احمد قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ