• 25 اپریل, 2024

تاریخی قرارداد لاہور پاکستان اور اس کے مرکزی مصنف حضرت چوہدری ظفراللہ خان

معروف اور قابل صحافی احسان اللہ ثاقب اپنے مضمون میں تحریر کرتے ہیں:۔
’’قرار داد لاہور کی تاریخی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ قرار داد 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں لاکھوں فرزندان اسلام نے منظور کی۔ اس قرارداد کی تاریخی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ۔ آزاد خودمختارمسلم ریاست کا نصب العین متعین کیا جس کے نتیجے میں صرف 7سال اور 5 ماہ کے قلیل عرصہ میں توحید و رسالت کے پروانوں کو خود مختار وطن عزیز حاصل ہو گیا۔ یہ قرارداد مسلمانوسچے جذبات اور احساسات کی آئینہ داری اس کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ جذبوں کی سچائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر چہ اس قرار داد میں پاکستان کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں کیا گیا مگر اس کے باوجود اسے قرارداد لاہور کی بجائے زیادہ تر قرار داد پاکستان کا نام دیا جا تا ہے۔‘‘

آگے چل کر مضمون نگار رقمطراز ہیں:۔
قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد پشاور سے لے کر چاٹگا م تک مسلم قوم آزادی حاصل کرنے کے لئے دشمن کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ شہر شہر گاؤں گاؤں ہر زبان پر یہ نعرے تھے ‘‘آزادی کا مطلب کیا لا الہ الا اللّٰہ۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔‘‘ دوسری جانب قرار داد لاہور نے ہندو قیادت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ مثال کے طور پر گاندھی نے مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے اورتقسیم ہند کی تجویز کو نا قابل عمل قرار دیا۔ مگر قائد اعظم نے ہندوراہنماؤں کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا:۔

’’قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے حصے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پرمسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی موجود ہیں ۔‘‘ بالآخر 14 ۔اگست 1947ءکو قرار داد لاہور نے اپنا تاریخی رنگ دکھایا جب اسلامی ریاست پاکستان آزادنیا کے نقشہ میرا بھری۔‘‘

(نوائے وقت 24 مارچ 2012ء)

پہلی بار علیحدہ وطن کا مطالبہ اور ہندو پریس کا فائدہ مند پروپیگنڈا معروف مصنف اور اہل علم ونظر مضمون نگار جناب قیوم نظامی اپنے مضمون 23 مارچ1940 ءکی قرارداد کے پس منظر میں لکھتے ہیں:۔

’’23 مارچ 1940ء لاہور اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران بھارت کے مسلمانوں نے پہلی بار اس قرارداد کے ذریعے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک ہی دن میں ہندوؤں کی بالا دستی میں رہنا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ 1940ء کی قرار داد چونکہ پہلی قرار دادتھی جس میں مسلمانوں کی منزل کی نشاندہی کی گئی تھی اور جسے تاریخی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل باڈی کونسل کے اجلاس میں قائد اعظم کی صدارت میں پُر جوش انداز میں منظور کیا گیا تھا لہٰذا ہر سال اس تاریخی قرارداد کی یاد منائی جاتی ہے۔1940ء کی قرارداد پریس میں شائع ہوئی تو اس پر پورے بھارت میں تبصرےہوئے بیانات جاری ہوئے، کالم لکھے گئے۔ بھارت کے ہندو لیڈروں نے قرارداد لا ہور کو قرار داد پاکستان کا نام دیا جسے مسلمانوں نے قبول کرلیا۔‘‘

(نوائے وقت 23مارچ 2012ء)

اس وقت مسلمان ایک قوم تھے

معروف مضمون نگار مصباح کو کب اپنے مضمون بعنوان 23مارچ میں تحریر کرتی ہیں :۔

23مارچ ایک تاریخ ساز دن ہے۔ آج سے 72 برس قبل 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ کنونشن ہوا تھا جس کی صدارت قائداعظم نے کی تھی۔ اس وقت مسلمان ایک قوم تھے ان میں جذبہ تھا، سچی لگن تھی ،عزم و ارادہ تھا، سب کی زبان پر تھا کہ لے کے رہیں گے پاکستان ۔ بن کے رہے گا پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔

اس وقت مسلمان پنجابی ، سندھی، سرحدی، بلوچی، بنگالی یا پٹھان ہرگز نہ تھے اور نہ ہی کوئی شیعہ تھا اور نہ ہی سنی بلکہ صرف مسلمان تھے اور سب ایک تھے اور قائد اعظم نے بھی مسلمانوں کو جمہوریت کے تین راہنما اصول ایمان (Faith)، اتحاد (Unity) اور نظم و ضبط (Discipline) سے روشناس کر دیا تھا ۔

قرارداد لاہور کے مصنف کے طور پر ایک ہی نام نمایاں رہا ہے
اگر ہم مارچ 1940ء کے بعد مختلف ادوار کا جائزہ لیں تو کبھی سینہ بہ سینہ اور کبھی اہل علم و خبر کے حوالوں سے قرار داد لاہور (بعد میں ہمیشہ کے لئے قرار داد پاکستان) کے مصنف کے طور پر چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کا نام ہی نمایاں نظر آتا ہے۔ اب اس سلسلہ میں بعض معروف اہل علم و قلم کے اہم اور واضح حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔

نئی نسل کو یہ یاد دلوانا ضروری ہے

معروف علمی و ادبی شخصیت اور کالم نگار محترمہ زاہدہ حنا اپنے کالم نرم گرم میں تحریر کرتی ہیں:۔
’’یہاں نئی نسل کو یہ یاد دلوانا ضروری ہے کہ یہ وہی ظفراللہ خان تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قرار داد پاکستان کی عبارت کو تحریر کرنے والوں میں سے تھے۔بانی پاکستان نے ان کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا اور باؤنڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کی طرف سے کشمیر کا مقدمہ بھی انہوں نے لڑا تھا۔‘‘

(روزنامہ ایکسپریس 2جون 2010ء)

چوہدری صاحب نے ہی قرار داد پاکستان کا مسودہ تیار کیا
دی نیوز انگریزی مؤرخہ 20 نومبر2011ء کی اشاعت میں جرأتمند خاتون صحافی اور اینکر پرسن ثنابچہ اپنے مضمون اقلیتی رپورٹ کے کالم نمبر 2 میں تحریر کرتی ہیں (ترجمہ)’’مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو بھلا دیا ہے جنہوں نے اس قرار داد کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کی جس کے نتیجے میں ہمیں پاکستان حاصل ہوا۔محمد ظفراللہ خان ایک احمدی تھے لیکن انہوں نے ہی قرار داد پاکستان کا مسودہ تیار کیا اور جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آئندہ کی حد بندی کا فیصلہ کرنے کا موقع آیا تو انہوں نے ہی مسلم لیگ کا نقطہ نظر ( حد بندی کمیشن کے سامنے( مترجم ) پیش کیا۔ انہوں نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی وطن عزیز کی خدمات انجام دیں محمد علی جناح اپنے روشن خیالات اور کشادہ دلی کے باعث اپنے ملک کی نمائندگی اور خدمت کے لئے استحقاق اور اہمیت کی بنا پر لوگوں کا انتخاب کیا کرتے تھے نہ کہ مذہب، ذات یا عقیدہ کی وجہ سے۔

(دی نیوز مؤرخہ 20 نومبر 2011ء)

قرارداد لاہور کے مصنف ظفراللہ خان ہی تھے

اسلام آباد کی معروف نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے لیکچرار جناب حسین احمد اپنے مضمون مطبوعہ Daily Times (22 دسمبر2012ء) میں تحریر کرتے ہیں:۔

(ترجمہ) یہ سر ظفر اللہ خان ہی تھے جنہوں نے قرارداد لاہور کا بھی مسودہ تیار کیا تھا۔ جس میں پہلی دفعہ پا کستان کا تصور پیش کیا گیا۔ سر ظفر اللہ خان کا تعلق بہر حال احمدی فرقہ سے تھا۔ اس لئے اس سلسلہ میں ان کے کردار کو سالہا سال تک صیغہ راز میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ حال ہی میں لا رڈ لنلتھگو کی تحریر کردہ دستاویزات اور خطوط نے سر ظفر اللہ خان کے کردار کی مرکزی حیثیت کومنکشف کردیا ہے۔

(ڈیلی ٹائمز 22 دسمبر 2012ء)

ایک نقطہ پر جمع ہونے کی بنیادی دستاویز

وقیع و بے باک صحافی جناب محمد احمد اپنے تفصیلی مضمون

The Forgotten Hero
Mohammad Zafarullah Khan

مطبوعہ ڈیلی ٹائمز (مؤرخہ یکم ستمبر 2013ء) میں رقمطراز ہیں۔ (ترجمہ) ’’سرظفر اللہ خان کی مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کے لئے سب سے بڑی خدمت قرار دارد لاہور (قرارداد پاکستان) کی تیاری ہے جو ہماری قومیت کے ایک نقطہ پر جمع ہونے کی بنیادی دستاویز ہے۔ قرارداد لاہور ایک وسیع البنیا دحل تھا جس میں کئی ایک Solutions کی گنجائش موجودتھی جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور پاسبانی کرنا تھا۔‘‘

(ڈیلی ٹائمز مؤرخہ یکم ستمبر2013ء)

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اپنے کالم ‘‘بے نیاز یاں‘‘ مطبوعہ نوائے وقت میں تحریر کرتے ہیں:۔
’’پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں نامور پاکستانی تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے انہیں خط میں مائی سن (میرے بیٹے) لکھا۔ کیا قائداعظم ؒکے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا کہ یہ کس کو وزیر خارجہ بنایا جارہا ہے۔ نامور سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام نے بھی پاکستان کے لئے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی ۔ انہوں نے مرنے کے بعد پاکستان میں دفن ہو نا پسند کیا۔‘‘

(ازمضمون مطبوعہ نوائے وقت یکم جون2010ءصفحہ2)

قرارداد پاکستان کے مرکزی مصنف

(الف) روزنامہ ڈان (انگریزی) نے اپنی 18 جون 2017ء کی اشاعت کا پوراصفحہ نمبر 4 مطالبہ پاکستان کی تاریخی ‘‘قرار داد لاہور’’ (’’پاکستان‘‘) 23مارچ 1940ء سے مُعَون کیاہے۔ اس صفحہ پرسب سے اوپر والی لائن میں قائد اعظم کی نمایاں تصویر دی گئی ہے۔ جس کے متعلق تحریر کیا گیا ہے کہ وہ 22 مارچ 1940 کو منٹو پارک لا ہور (موجودہ اقبال پارک) میں ایک جم غفیرسے مخاطب ہیں …. درمیان والی لائن کی بائیں جانب پہلے نمبر پر چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان کی تصویر ہے جس کے متعلق صفحہ کے آخری حصے میں یہ الفاظ درج ہیں۔ (ترجمہ): سرظفر اللہ خان (فوٹو۔ درمیان والی لائن بائیں جانب پہلے نمبر پر) کو ’’قرار داد‘‘ (پاکستان) کا اولین و بنیادی مسودہ تیار کرنے کا کریڈٹ حاصل ہے۔ بعد میں اس کے اہم نکات ایک میمورنڈم (یادداشت) کی شکل میں دہلی میں وائسرائے لارڈ لنلتهگو کو پیش کئے گئے۔ اس کے بعد لاہور میں (مسلم لیگ۔ مترجم) ورکنگ کمیٹی نے اسے مزید سنوارا (اور آخری شکل دی)۔

(ڈان (انگریزی) مورخہ 18 جون 2017ء)

(ب)انگریزی اخبار ڈان نے اپنی 23 مارچ 2018ء کی اشاعت میں قرار داد لاہور (پاکستان) پر اہم مضامین شائع کئے ہیں اخبار کے صفحہ 3 پرمضمون نگار علی محمد صدیقی کا ایک تاریخی اور معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے جس کے پہلے کالم کے ایک اہم اقتباس کا ترجمہ نذر قارئین ہے:۔

یہ قرار داد کئی زعماء پر مشتمل ٹیم کی کاوش کی عکاسی کرتی تھی۔ ان زعماء میں سر ظفر اللہ خان جن کے متعلق یقین کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس قرار داد کا مسودہ تیارکرنے میں خاطر خواہ حصہ لیا اور ابوالقاسم فضل الحق جنہوں نے اس قرارداد کو پیش کیا شامل تھے۔‘‘

(اقتباس از مضمون مطبوعہ ڈان مورخہ23مارچ 2018ء)

(ج)ڈاکٹررمیش کمار (ممبرقومی اسمبلی) کا ایک حقیقت افروز مضمون ’’تحریک پاکستان‘‘ میں ڈاکٹر موصوف اپنے مضمون مطبوعد روزنامہ جنگ کے کالم نمبر 2 میں تحریر کرتے ہیں:۔

’’میں اپنے گزشتہ کالموں میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں کہ قائداعظم ہندومسلم اتحاد کے سفیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انڈین کانگرس کے غیر ضروری مسلمان مخالف اقدامات کی بدولت مسلمانوں میں یہ تاثر تقویت پا گیا تھا کہ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑ دینے کے بعد وہ کانگریس کے رحم و کرم پر ہوں گے،یہی وہ خدشات تھے جنہوں نے آگے چل کر تقسیم ہند کی راہ ہموار کی۔‘‘

(کالم نمبر 2)

قرارداد پاکستان کا متن تیار کرنے والے

ڈاکٹر رمیش کمار آگے چل کر تحریر کرتے ہیں:۔
بہت کم پاکستانی اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ قرارداد پاکستان کا متن تیار کرنے والے جماعت احمدیہ کے سرظفر اللہ خان تھے۔

(ازمضمون مطبوعہ روزنامہ جنگ مورخہ 26 مارچ 2018ء کالم نمبر5)

یہ الله تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہے کہ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کے صرف 7 سال بعد اللہ تعالیٰ نے قائداعظم اور ان کے مخلص ساتھیوں کی انتھک اور بے لوث کوششوں اور کاوشوں کے نتیجہ میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو جانے والے مسلمانان ہند کی مددفرمائی اور 14 ۔اگست 1947ء کو بفضل الله تعالیٰ پیارا پاکستان دنیا کے نقشے پر روشن سورج کی مانند طلوع ہوا۔ الله تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے اور وطن عزیز کو ہمیشہ سلامت و سرفراز رکھے۔ آمین

یہ دیس ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے
اس کا ہر اک ذرہ ہمیں جان سے پیارا ہے
رنگ اس کو دیئے ہم نے اسے ہم نے نکھارا ہے


(پروفیسر راجا نصر اللہ خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ