• 8 مئی, 2024

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت، میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت کی گواہی دی۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے۔ شبِ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گزشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا۔ ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی۔ جو طالبِ حق ہو اور خوف خدا رکھتا ہو اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہو گیا ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ492 ،493 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر فرماتے ہیں :
’’میں اس کے رسول پردلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے ۔وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہرہے اور اسی سے فیضیاب ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۳۴۰)

ایک عربی تحریر میں فرماتے ہیں :
ترجمہ: اے مردان میدان اور فقہاء زمان اور علماء عصرِ حاضر، اور فضلاء عالَم ، آپ لوگ مجھے ایک ایسے شخص کے بارہ میں فتویٰ دیں جو کہتاہے کہ میں اللہ کی طرف سے ہوں اوراس کے لئے خدا کی حمایت اس طرح ظاہر ہوئی ہے جیسے چاشت کے وقت کا سورج، اور اس کی صداقت کے انوا ر اس طرح روشن ہیں جیسے چودھویں کا چاند۔ نیز اس کی خاطر اللہ نے روشن نشان دکھائے ہیں اور جس کام کو بھی کرنے کا اس نے ارادہ کیا خدا اس میں اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو گیا۔ نیز ا س نے ا س کی دعاؤں کو سنا، خواہ وہ احباب کے بارہ میں تھیں یا دشمنوں کے بارہ میں۔ یہ بندہ کوئی بات نہیں کہتامگر وہی جو نبی کریم ﷺ نے کہی ہو اور وہ ہدایت سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالتا۔ یہ شخص کہتاہے کہ یقیناً اللہ نے مجھے اپنی وحی کے ذریعہ نبی کا نام دیاہے، نیزقبل ازیں بھی ہمارے رسول مصطفیٰ کی زبان مبارک سے مجھے نبی کا نام دیا گیاہے۔ اورنبوت سے اس کی مراد بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ پاتاہے اور اللہ سے بکثرت غیبی خبریں پاتاہے اور بکثرت وحی پاتاہے۔ نیز کہتاہے کہ نبوت سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو پہلے صحائف میں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا درجہ ہے جو ہمارے نبی خیرالوریٰ کی پیروی کئے بغیر نہیں مل سکتا۔ اور جس کوبھی یہ درجہ ملتا ہے ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ ایسا کلام کرتاہے جوبہت زیادہ اور بہت واضح ہوتا ہے۔ مگرشریعت اپنی اصل حالت پر ہی رہتی ہے ۔ نہ اس سے کوئی حکم کم ہوتاہے، نہ اس میں کسی ہدایت کی زیادتی ہوتی ہے۔ نیز یہ مدعی کہتا ہے کہ میں نبی اکرم ؐ کی امت کا ایک فرد ہوں، اس کے باوجود اللہ نے نبوت محمدیہ کے فیوض کے تحت مجھے نبی کا نام دیاہے، اوراس نے میری طرف وہ وحی کی جو اس نے کی ۔پس نہیں ہے میری نبوت مگر آپؐ ہی کی نبوت۔ اور نہیں ہیں میرے دامن میں مگر آپؐ ہی کے انوار اور آپؐ ہی کی شعاعیں۔ اگر آپؐ نہ ہوتے تومیں ہرگز کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا اور نہ ہی اس لائق تھا کہ میرا نام لیا جاتا۔

نبی تو اپنے روحانی فیض سے پہچانا جاتا ہے۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے نبی اکرمؐ کے فیض ظاہر نہ ہوتے جبکہ آپ ؐ سب نبیوں سے افضل اورفیض رسانی میں سب سے بڑھ کر اور درجہ میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ اُس دین کی بھلا حقیقت ہی کیاہے جس کا نو ر دل کو روشن نہ کرے اور جس کی دوا پیاس نہ بجھائے اور جس کا وجود دلوں کو نہ گرمائے اور جس کی طرف کوئی ایسی خوبی منسوب نہ کی جاسکے جس کا ظاہر ہونا حجت تمام کردے۔

پھر ایسا دین چیز ہی کیا ہے جو مومن کو کفروانکار کرنے والے سے ممتاز نہ کر دے اور جس میں داخل ہونے والا ایسا ہی رہے جیسا کہ اس سے نکل جانے والا اور دونوں میں کوئی فرق ہی نظر نہ آوے ۔۔۔۔۔۔ جس نبی میں فیض رسانی کی صفت ناپید ہو اس کی سچائی پرکوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور اس کے پاس آ کر بھی کوئی اسے نبی نہیں کہہ سکتا۔ اس کی مثال ایسے چرواہے کی سی نہیں جو اپنی بھیڑ بکریوں پر پتے جھاڑتا ہو اور انہیں پانی پلاتا ہو بلکہ وہ تو انہیں پانی اور چارہ سے دور رکھتا ہے۔

اور تم جانتے ہو کہ ہمارا دین زندہ دین ہے اور ہمارے نبیؐ مُردوں کو جِلا بخشتے ہیں اور آپ ؐ آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح عظیم الشان برکات لے کر آئے ہیں ۔ کسی دین کی مجال نہیں کہ وہ ان اعلیٰ صفات میں اس کے آگے دم مار سکے۔اس نہایت روشن دین کے سواکسی اور دین میں یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ انسان سے اس کے حجابوں کا بوجھ اتارے اور اللہ تعالیٰ کے قصر اور اس کے دَر تک پہنچائے۔ اور اس بات میں شک کرنے والا اندھا ہی ہوگا‘‘۔

(الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲۔صفحہ ۶۸۸ ،۶۸۹)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2021