• 24 اپریل, 2024

23 مارچ 1902ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی احباب کو نصائح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف مقامات پر اپنے دوستوں کو نصا ئح سے نوازا۔ حضور چاہتے تھے کہ میری جماعت کے لوگ صحابہ رسول جیسے اخلاق سے متصف ہوں۔ آپ نے 23 مارچ 1902ء کو جو نصائح فرمائیں وہ آج کے دن کی مناسبت سے قارئین الفضل کے لئے پیش ہیں۔ حضور فرماتے ہیں۔
’’مامور من اﷲ کی صحبت میں رہنے والے لوگ بہت کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ایک حد تک علم صحیح اس تعلق کے متعلق جو مامور من اﷲ اور خدا تعالیٰ میں ہوتا ہے حاصل کرتے ہیں، مگر وہ کامل علم جو اس مامور کو دیا جاتا ہے کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا۔ اور خدا تعالیٰ کا علم تو پھر اور ہی رنگ رکھتا ہے۔ جب مامور کی تکذیب اور انکار حدتک پہنچ جاتا ہے تو پھر ٹھیک اسی طرح جیسے زمیندار جب فصل پَک جاتی ہے تو اس کے کاٹنے کے واسطے درانتی کو درست کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بھی مکذبوں کے لیے تیاری کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے حجت پوری کر چکا ہے۔ اس لیے اب ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خاموشی سے آسمانی ہتھیار اور حربے کو دیکھے۔دنیا میں ہم یہ قانون دیکھتے ہیں کہ جب ایک حاکم کو معلوم ہو جاوے کہ فلاں مظلوم ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ جس کا علم سب سے زیادہ صحیح اور یقینی ہے جو ہر حال کا بینا ہے، کیوں اس مظلوم صادق کی مدد نہ کرے گا۔ جو محض اس لیے ستایا گیا ہےکہ اس نے اﷲ تعالیٰ سے الہام پاکر یہ کہا کہ میں خدا کی طرف سے اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔اﷲ تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ اُن کی مدد کرتا ہے، لیکن ہاں یہ سنت اﷲ ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کو اس تکذیب اور انکار کی خبر نہیں کفر ہے۔ وہ تو ابتدا سے جانتا ہے کہ کیا کِیا جاتا ہے۔

اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دو فریق ہو گئے ہیں۔ جس طرح ہماری جماعت شرح صدر سے اپنے آپ کو حق پر جانتی ہے۔ اسی طرح مخالف اپنے غلو میں ہر قسم کی بےحیائی اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔شیطان نے اُن کے دلوں میں جما دیا ہے کہ ہماری نسبت ہر قسم کا افترا اور بہتان اُن کے لیے جائز ہے اور نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔ اس لیے اب ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو ان کے مقابلے میں بالکل چھوڑدیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلہ پر نگاہ کریں۔ جس قدر وقت اُن کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعائوں کے لیے دیں۔

ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اس امر کو مد نظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے، تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے۔ لیکن جناب الٰہی کو ان امور کی پرواہ نہیں۔ اُس نے تو صاف طور پر فرمادیا کہ ان اکرمکم عند للّٰہ اتقکم۔ (الحجرات : 14)

یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔

اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ان میں علماء بھی ہیں۔ ملہم بھی ہیں تو یہ ایک خیالی بات ہے اور اس سے کوئی فائدہ اس مقصد کو نہیں پہنچ سکتا جو انسانی ہستی کا ہونا چاہیے۔یادرکھو وہ امر جس پر خدا راضی ہوتا ہے جبتک وہ نہ ہو نہ علم صحیح ہوتا ہے نہ الہام مفید۔ جو شخص پاخانہ کے پاس کھڑا ہے۔ پہلے تو اُسے بدبو ہی آئے گی۔پھر اگر عطر اس کے پاس کیا جاوے تو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائیگا۔ جبتک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہ ہو کچھ نہیں ملتا۔ اور خدا سے قریب کرنے والی بات صرف تقویٰ ہے۔ سچی آواز سننے کے لیے متقی بننا چاہیے۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو ہر آواز کو جو انہیں آجاوے الہام ہی سمجھتے ہیں؛ حالانکہ اضغاث احلام بھی ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو آوازیں انہیں سنائی دیتی ہیں،وہ بناوٹی ہیں۔ نہیں اُن کو آوازیں آتی ہوں گی، مگر ہم ہر آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار نہیں دے سکتے، جبتک اس کے ساتھ وہ انوار اور برکات نہ ہوں جو اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ان الہام کے دعویٰ کرنے والوں کو اپنے الہاموں کو اس کسوٹی پر پَرکھنا چاہیے اور اس بات کو بھی اُنہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بعض آوازیں نری شیطانی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان آوازوں پر ہی فریفتہ ہو جانادانشمند انسان کا کام نہیں، بلکہ جبتک اندرونی نجاست اور گند دور نہ ہو اور تقویٰ کی اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل نہ ہو اور اس درجہ اور مقام پر انسان نہ پہنچ جاوے۔ جو دنیا ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی حقیر اور ذلیل نظر آوے اور اﷲ تعالیٰ ہی ہر قول و فعل میں مقصود ہو اس مقام پر قدم نہیں پڑ سکتا جہاں پہنچ کر انسان اپنے اﷲ کی آواز کو سنتا ہے۔ اور وہ آواز حقیقت میں اسی کی ہوتی ہے، کیونکہ اس وقت یہ تمام نجاستوں سے پاک ہو گیا ہوتا ہے۔

غرض نری آوازیں اور چندرسمی کتابوں کے پڑھ لینے سے فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ فیصلہ کی اصل اور سچی راہ وہی ہے جس کو تائیداتِ الٰہیہ کہتے ہیں۔ اُن سے ہی فیصلہ ہوتا ہے اور خدا ہی کا حربہ فیصلہ کرتا ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور ایسے مقام پر کھڑا ہے جو نجاست سے بالکل الگ ہے۔ وہ وہی پاک آوازیں سنتا ہے جو حضرت موسیٰ۔حضرت عیسیٰ۔حضرت نوح۔حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام نے سنیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو سنا تھا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آوازوں کی صداقت اور عملی ظہور کے لیے انسانی ہاتھوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ خود خدا تعالیٰ ان کی چمکار دکھاتا ہے؛ اگر چہ یہ بہت ہی باریک باتیں ہیں جو معرفت کے اسرار میں داخل ہیں؛ تا ہم خوشبو اور بد بو اپنے مختلف نظاروں سے شناخت کی جاسکتی ہے۔ اچھے درخت کو کئی طرح پہچان لیتے ہیں۔پتوں سے بھی شناخت کر لیتے ہیں۔ میں نے ایک بار الائچی کا درخت انبالہ میں دیکھا اور ایک پتا اس کا لیکر سونگھا، تو اس میں الائچی کی خوشبو موجود تھی؛ اگر چہ ابھی اس کے تین درجے باقی تھے، مگر خوشبو موجود تھی۔ دانشمند انسان بہت سے قرائن سے امر واقعی کو معلوم کر لیتاہے۔ خباثت بھی ہزاروں پردوں میں چھپی رہتی ہے اور تقویٰ بھی ہزاروں پردوں میں مخفی رہتا ہے، مگر اُن کے آثا ر اور قرائن سے بخوبی پتہ لگ سکتا ہے۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے کوئی آدمی عین بدکاری کی حالت میں پکڑا جاوے تو اسے بہت ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ ایسے ہی ایک متقی جب اپنے تقویٰ کے سیر و عبادت میں مصروف ہو اور کوئی اجنبی اس پر گزرے توا س کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ شرمندگی کے موجبات تو ایک ہی ہیں ۔بدکار اپنی بدکاری کو امر مستور رکھنا چاہتا ہے اور متقی اپنے تقویٰ کو۔غرض تقویٰ کے امور بہت پوشیدہ ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ اس سر کی ملائکہ کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پھر دوسرے کو کیسے مل سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تعلق تدلیٰ کا تھا اس کی کیفیت کو اﷲ تعالیٰ جس قدر سمجھتا تھا اس کو کسی دوسرے نے ہر گز نہیں سمجھا۔ نہ حضرت ابو بکرنے اُسے سمجھا نہ حضرت علی نے اور نہ کسی اور نے۔ آپ کا انقطاع تام اور اﷲ تعالیٰ پر توکل کرنا۔ اور مخلوق کو مرے ہوئے کیڑے سے ہیچ سمجھنا ایک ایساامر تھا جو دوسروں کو نظر نہ آسکتا تھا، مگر خدا تعالیٰ کی تائیدوں کو دیکھ کر لوگ یہ نتیجہ ضرور نکالتے تھے کہ جیسا خدا تعالیٰ سے سچا اور قوی تعلق اُس نے پیدا کیا ہوا ہے ۔خدا تعالیٰ نے بھی اس سے کوئی فرق نہیں کیاہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم ص37۔41)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2021