حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے متعلق
قرآن و حدیث اور صلحائے اُمت کی پیشگوئیاں
آخری زمانہ کے متعلق ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ ذکر ملتا ہےاور ایک موعود کے آنے کی بھی پیشگوئیاں ملتی ہیں۔قرآن و حدیث میں بھی اس کے متعلق واضح اشارے ملتے ہیں۔ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے عالم اسلام کے تنزل اور ادبار کے زمانہ میں ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی تھی۔ وہ مسیح ومہدی آپؐ کے روحانی فرزند اور خلیفہ کے رنگ میں ظاہر ہونا تھا۔اس مسیح و مہدی نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں احیائے دین اور قیام شریعت کا علم بلند کرنا تھااور خدا نے اس کے ذریعہ تمام ملتوں کے مقابل روئے زمین پر اسلام کو غالب کرنا تھا۔ یعنی غلبہ اسلام اس کے ہاتھ پر مقدر ہے۔اس آنے والے مسیح و مہدی کی تائید و نصرت کرنا ہر مسلمان کیلئے ضروری تھا تاکہ یہ عظیم مقصد پورا ہو سکے۔
اُمت مسلمہ کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں امام مہدی کا ظہور ہوگا اور عیسیٰ ابن مریم کا نزول بھی اسی زمانہ میں ہوگا۔ مسلمانوں کا نظریہ امام مہدی اور مسیح موعود کے بارہ میں یہ ہے کہ دونوں وجودالگ الگ ظاہر ہوں گے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔درحقیقت احادیث اور روایات میں آنے والےموعود کے مختلف صفات کے لحاظ سے کئی نام بیان ہوئے ہیں۔ مگر زیادہ تر دو نام مسیح اور مہدی مذکور ہیں اور حدیث کی رو سے دیکھا جائے تو یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دراصل مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کی ایک حدیث ہے ’’لَاالْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ‘‘ (سنن ابن ماجہ باب شدّۃ الزمان) کہ سوائے عیسیٰ ابن مریم کے اور کوئی المہدی نہیں ہے۔ یعنی عیسیٰ ابن مریم ہی مہدی ہوں گے۔
ایک اورحدیث میں صاف الفاظ میں عیسیٰ ابن مریم کو امام مہدی قرار دیتے ہوئے فرمایا
یُوْشِکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَلْقٰی عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اِمَامًا مَھْدِیًّا‘‘
(مسند احمد بن حنبل جلد دوم)
یعنی قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ ہو عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے اس کےامام مہدی ہونے کی حالت میں۔
مذکورہ بالا دو روایات اس بات کے سمجھنے کیلئے کافی ہیں کہ عیسیٰ اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور احادیث میں جہاں عیسیٰ ابن مریم کی آمد کیلئے ’’نزول‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد محض ظلّی اور بُروزی رنگ میں مسیح ابن مریم کی دنیا میں بعثت ہے۔
بعثت حضرت مسیح موعود ؑ اور قرآن کریم
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۲﴾ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۳﴾ وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۵﴾
(سورۃ جمعہ: 2 تا 5)
ترجمہ۔اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ وہ بادشاہ ہے ، قدّوس ہے، کامل غلبہ والا اور صاحبِ حکمت ہے۔ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور اُنہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہےجبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میںتھے۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسےچاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
سورہ جمعہ کی اِن آیات میں آنحضرت ﷺکی دو بعثتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کی پہلی بعثت عرب کے اُمّیوں میں ہوئی اور دوسری بعثت وَاٰخَرِینَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے مطابق آخرین میں مقدر تھی۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺسے یہ دریافت فرمایا کہ یہ آخرین کون لوگ ہیں جن میں حضورﷺ کی دوسری بعثت ہو گی۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے اُسی مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :
لَوکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ اَوْرِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَآءِ
(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)
یعنی اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی چلا گیا تو ایک فارسی الاصل شخص یا اشخاص اس ایمان کو دوبارہ دُنیا میں قائم کریں گے۔
اِن آیات میں آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے فارسی الاصل شخص کی بعثت کو آنحضرت ﷺ کی بعثت قرار دیا گیا ہے گویا آنے والا موعود آنحضرت ﷺکا ظلّ کامل ہو گا۔
وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰٮۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷﴾ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُوَ یُدۡعٰۤی اِلَی الۡاِسۡلَامِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۸﴾ یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۹﴾ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۱۰﴾
(الصف:7 تا 10)
ترجمہ۔اور (یاد کرو) جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! یقیناً مَیں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو توریت میں سے میرے سامنے ہے۔ اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا ۔ پس جب وہ کھلے نشانوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے ۔ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایا جارہا ہو اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مونہہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نُور پورا کرنے والا ہےخواہ کافر ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے دین کے ہر شعبہ پر کلیّتاً غالب کردےخواہ مشرک بُرا منائیں۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اسلام کا ادیان باطلہ پر غلبہ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ظاہرہوگا۔اس آیت کے اصل مصداق آنحضرتﷺ ہی ہیں لیکن وہ موعودغلبہ مسیح اور مہدی کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا اس لئے مسیح اور مہدی کو آنحضرتﷺ سے جدا نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کا آنا آنحضرتﷺکا آنا قرار دیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15، صفحہ232)
آیت نمبر8 کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اس آیت میں آنحضرتﷺ کی شان احمدیت کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے۔آپ ﷺ محمد کے طور پر بھی جلوہ گر ہوئے جس کی پیشگوئی حضرت موسیٰ نے فرمائی اور احمد کے طور پر بھی جس کی پیشگوئی حضرت عیسیٰ نے فرمائی۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1026، حاشیہ نمبر1)
اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑنے حضرت محمد مصطفیٰﷺکی بروزی رنگ میں شان احمدیت کے ساتھ ایک موعود کے رنگ میں بعثت کی بشارت دی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہو چکی ہے۔
سورۃ الصف کی ہی آیت نمبر 9میں اللہ تعالیٰ اسی مضمون کے تسلسل میں فرماتا ہے:
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ
(الصف: 9)
ترجمہ:وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں۔حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کافر ناپسند کریں۔
اس آیت کے معنوں میں اُس موعود کے ظہور کا وقت بھی بتایا گیا ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود بیان فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے کہ مسیح موعود چودہویں صدی میں پیدا ہوگا کیونکہ اتمام نور کیلئے چودہویں رات مقرر ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن، جلد17، صفحہ 124)
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ غلبہ اسلام کی کامل تکمیل امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے وابستہ ہے چنانچہ چند ایک حوالجات درج ہیں
(الف) تفسیر ابن جریر میں لکھا ہے:
ھٰذَا عِنْدَ خُرُوْجِ الْمَھْدِیِّ۔
کہ اس آیت میں مذکور غلبۂ اسلام مہدی کے زمانہ میں ہوگا۔
(ب ) تفسیرجامع البیان جلد 29 میں لکھا ہے:
وَذٰلِکَ عِنْدَ نُزُوْلِ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ
کہ یہ غلبہ عیسٰی ابن مریم کے نزول پر ہوگا۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ
ترجمہ۔تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
اس آیت کے متعلق حضرت علی بن حسین نے فرمایا:
نَزَلَتْ فِی الْمَھْدِیِّ
کہ یہ آیت امام مہدی کےبارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح ابوعبداللہ سے مروی ہے کہ اِس سے مہدی اور اس کی جماعت مُراد ہے۔
(بحار الانوار جلد13 صفحہ13)
بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احادیث کی پیشگوئیاں
قرآن کریم کے بعد اب ہم احادیث پر نظرڈالیں تو مسیح موعود کے بارہ میں رسول کریم ﷺکی متعدد احادیث ملتی ہیں۔ایک روایت میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ
(بخاری، کتاب الانبیاء)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہاری حالت کیسی نازک ہوگی جب ابن مریم (یعنی مثیل مسیح) تم میں مبعوث ہوگا جو تمہارا امام ہوگا اور تم میں سے ہوگا۔ایک اور روایت میں ہے کہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے وہ تمہاری امامت کے فرائض انجام دے گا۔
اس حدیث میں آنحضورﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ آنے والا مسیح مسلمانوں کا امام ہوگا اور ایسا ہرگز نہیں کہ وہ امام کسی دوسری قوم سے تعلق رکھنے والا ہوگا بلکہ اسلام کا ہی پیرو ہوگا۔اس حدیث سے حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بجسد عنصری دنیا میں آنے جیسے باطل خیالات کا ردّ ہو جاتا ہے۔
پھر ایک اور حدیث میں مسیح موعود کے کام اور مشن کا ذکر کچھ اس طرح سے آیا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ :لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا وَاِمَامًا عَدْلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلُ الخِنزِیْر وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیُفِیْضُ المَالَ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ اَحَدٌ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال و خروج عیسیٰ بن مریم و خروج یاجوج و ماجوج)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جب تک عیسیٰ ابن مریم جو منصف مزاج حاکم اور عادل امام ہوں گے، مبعوث ہو کر نہیں آتے قیامت نہیں آئے گی۔(جب وہ مبعوث ہوں گے تو) وہ صلیب کو توڑیں گے ،خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کے دستور کو ختم کریں گے اور ایسا مال تقسیم کریں گے جسے لوگ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔
مسلمانوں نے اپنی کم عقلی کی بنا پر اس حدیث کے مفہوم کو بالکل نہیں سمجھا اور آنے والے مسیح کےبارے میں غلط عقیدے رائج ہوگئےاور لوگ یہ ماننے لگے کہ مسیح ظاہری طور پر صلیب کو چن چن کر توڑے گااور ظاہری طور پر خنزیروں کو تلاش کرکے ان کا قتل کرے گا۔کس قدر خام خیالی ہے کہ ایسی سوچ بن گئی۔
پھر ایک اور حدیث ہے جس میں آنے والے مسیح موعود اور امام کی بیعت کا تاکیدی حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
فَاِذَا رَاَیْتُمُوْہُ فَبَایِعُوْہُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ۔
(سنن ابو داؤد، باب خروج المہدی)
ترجمہ :یعنی اے مسلمانو! جب تمہیں اس کا علم ہو جائے تو فوراً اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف پر سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔
جب سورۃ جمعہ کی آیت وَاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ نازل ہوئی تو حدیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کے استفسار پر آنحضرتﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رَجُلٌ اَوْ رِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَاءِ (بخاری، کتاب التفسیر) کہ جب ایمان زمین سے اٹھ کر ثریا ستارے پر چلا جائے گا تب ان میں سےیعنی بنو فارس میں سے کوئی شخص یا اشخاص دوبارہ ایمان کو قائم کریں گے۔سورۃ جمعہ کی اس آیت کے اعداد بحساب جُمل 1275 بنتے ہیں جس سے اشارہ ملتا ہےکہ آنے والا موعود تیرہویں صدی کے میں ظاہر ہوگا۔
احادیث میں مسیح موعود کی جو علامتیں بیان کی گئیں ہیں انکے مطابق مسیح موعود نے عیسائیت کے غلبہ کے وقت آنا تھا۔ کیونکہ اس موعود کا کام حدیث میں ’’یَکْسِرُ الصَّلِیْب‘‘ بیان ہوا ہے۔ یعنی مسیح موعود عیسائی عقائد کو باطل ثابت کرے گا۔ عیسائیت کا یہ غلبہ تیرہویں صدی ہجری میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ لہٰذا حدیث میں مذکور پیشگوئیوں کا تقاضا تھا کہ مسیح موعود تیرہویں صدی ہجری کے آخیر یا چودہویں صدی ہجری کے آغاز پر ظاہر ہوتا۔
اب وہ احادیث پیش ہیں جن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کس علاقہ میں ظاہر ہوگا۔ چنانچہ ایک حدیث میں اس کا ذکراس طرح ملتا ہے:
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَیْنَـمَا کَذٰلِکَ اِذْبَعَثَ اللّٰہُ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَآءَ شَرْقِیَّ دِمَشْقَ
(مسلم ،جلد دوم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال)
یعنی آنحضرتﷺ نے خروج دجّال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی حالت میں مسیح ابن مریم کو اللہ تعالیٰ بھیجے گا۔وہ دمشق کی طرف سفید مینار کے پاس نازل ہوں گے۔ مسلمانوں نے اس حدیث سے غلط مطلب لے لیا کہ مسیح موعود کا نزول دمشق شہر کے مشرقی حصہ میں سفید مینار پر ہوگا اور بہت عجیب وغریب تاویلیں اس حدیث کے بارہ میں کی گئی ہیں۔مگر درحقیقت اس حدیث سے مراد دمشق شہر کے مشرق میں نزول مسیح ہے، خاص دمشق شہر نہیں۔اس لئے خاص جائے نزول کے بارہ میں اختلاف ہی رہا ہے۔لیکن احادیث پر غور کرنے سے جائے نزول کا معمّہ بھی حل ہو جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِصَابَۃٌ تَغْزُوالْھِنْدَ وَھِیَ تَکُوْنُ مَعَ الْمَھْدِیِّ اسْمُہٗ اَحْمَدُ۔
(رواہ البخاریؒ فی تاریخہٖ)
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: ایک جماعت ہندوستان میں (مخالفین اسلام سے) جہاد کرے گی اور وہ مہدی کے ساتھ ہوگی۔ اس مہدی کا نام احمد ہوگا۔
ایک روایت میں ہے کہ مہدی ’’کدعہ‘‘ بستی سے نکلے گا۔فرمایا:
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ الْمَہْدِیُّ مِنَ قَرْیَۃٍ یُقَالُ لَھَا کَدْعَہْ
(جواہر الاسرار قلمی، صفحہ 56،بحوالہ حدیقہ الصالحین ، حدیث نمبر 967)
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مہدی کدعہ نامی بستی سے ظاہر ہوگا اور کدعہ سے مرادقادیان ہے جو درحقیقت پہلے ’’اسلام پور قاضی‘‘ تھا۔ پھر کادیؔ یا کادیںؔ کے نام سے معروف رہا۔ اس طرح کدعہؔ دراصل قادیانؔ کا ہی معرَّب ہے۔
اوربھی متعدد احادیث ہیں جن میں مسیح موعود کے بارہ میں پیشگوئیاں ملتی ہیں یہاں مضمون کی طوالت کے پیش نظر صرف ایک حدیث پیش کروں گا جس میں آنے والے مسیح موعود کیلئے ایک نشان کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یُنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ۔
(سنن دار قطنی جلد نمبر1، باب صلوٰۃ الکسوف و الخسوف صفحہ65)
یعنی ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے آج تک کسی کیلئے ظاہر نہیں ہوئے۔ یعنی ماہ رمضان میں چاند کو (چاند گرہن کی راتوں سے ) پہلی رات کو اور سورج کو (سورج گرہن کی تاریخوں میں سے) درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا۔
عین حدیث کے الفاظ کے مطابق آنے والے موعود کے حق میں یہ پیشگوئی بھی بڑی شان کے ساتھ1894ء کے رمضان المبارک میں پوری ہوئی۔
بعثت مسیح موعود اور صلحائے امت کی پیشگوئیاں
امت مسلمہ میں گزشتہ صدیوں میں بے شماربزرگان اولیاء کرام اور صلحائے امت گزرے ہیں جن کی تکریم ہر مسلمان کے دل میں ہے۔ ان صلحائے کرام نے بھی مسیح موعود کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں۔ان میں سے بعض ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔
بارہویں صدی کے مجدّد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؔ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میرے ربّ بڑی عظمت والے نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدیؑ ظاہر ہونے کو تیار ہیں۔‘‘
(تفہیمات الٰہیہ، جلد2، صفحہ123)
حضرت حافظ برخوردار خان علیہ الرحمۃ جو سیالکوٹ کے ایک ولی کامل بزرگ گزرے ہیں۔ مسیح موعود کی آمدکے بارہ میں فرماتے ہیں:
پچھے اک ہزار پہ گزرے تریسے سال
عیسیٰؑ ظاہر ہوسیا کرسی عدل کمال
یعنی جب ہجری سن کے پورے تیرہ سو سال گزر جائیں گے تب حضرت عیسیٰ کا ظہور ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت حافظ برخوردار صاحبؒ عیسیٰؑ کے ظہور‘‘ کے قائل ہیں آسمان سے اترنے کے نہیں۔
(قلمی نسخہ انواع ’’انواع‘‘ صفحہ14)
ایک مشہور شیعہ بزرگ حضرت ابو سعید خانم ہندی گزرے ہیں۔ آپ نے کشف میں حضرت امام مہدیؑ کی زیارت کی تھی۔ آپ پورا کشف بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں: ’’کُلُّ ذٰلِکَ بِکَلَامِ الْھِنْدِ‘‘ (صافی شرح اصول کافی ،کتاب الحجہ، باب مولد صاحب الزمان ،جزو سوم، حصہ دوم، صفحہ304) یعنی کشف میں حضرت امام مہدیؑ نے جس زبان میں کلام فرمایا وہ سارا ہندوستانی زبان میں تھا۔
(امام مہدی کا ظہور، صفحہ363)
ایک صوفی بزرگ حضرت شیخ حسن العراقی گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں شیعہ اصحاب کی معتبر کتاب غایۃ المقصود میںلکھا ہے: ‘‘میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں … جب میں شام میں نوجوانی کی حالت میں جامع بنی امیہ میں داخل ہوا تو میں نے ایک شخص کو کرسی پر بیٹھے ہوئے مہدی اور اس کے خروج کے بارے میں گفتگو کرتے سنا۔ اس وقت سے مہدی کی محبت میرے دل میں گڑ گئی اور میں دعا میں لگ گیا، کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے ملائے ۔پس میں ایک سال تک دعا کرتا رہا۔ ایک دن میں مغرب کے بعد مسجد میں تھا کہ اچانک ایک آدمی میرے پاس آیا ،کہ جس کے سر پر عجمیوں کی پگڑی بندھی ہوئی تھی اور اونٹ کے بالوں کا جُبّہ تھا۔ اس نے میرے کندھے کو اپنے ہاتھ سے چھوا اور مجھے کہا، میری ملاقات کی تجھے کیا ضرورت ہے۔ میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا میں مہدی ہوں، پس میں نے اس کے ہاتھ چومے۔‘‘
(غایۃ المقصود، جلد دوم، صفحہ81)
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ موعودِ زمانہ عجمی ہوگا نہ کہ عربی۔ اس حوالہ کو پہلے حوالہ سے ملاکر دیکھیں تو موعود امام کا ہندوستان میں ظاہر ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔
حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ جن کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق جو انہیں رویاء میں حضورؐنے فرمایا تھا، ایک کتاب فصوص الحکم تحریر فرمائی۔ اس میں پیشگوئی فرمائی کہ آنے والا موعود جو خاتم الاولیاء بھی ہے تو ام پیدا ہوگا۔اس سے پہلے ایک لڑکی پیدا ہوگی اس کے بعد وہ پیدا ہوگا ۔آپ فرماتے ہیں ۔
’’اور اوپر قدم اور طریق شیث علیہ السلام کے ہوگا۔ اخیر ایک لڑکا کہ پیدا ہوگا وہ اس نوع انسان سے اور وہ لڑکا اٹھانے والا ہوگا علم اسرارِ شیث ؑ کا وہ لڑکا ختم کرنے والا ولادت آدم کا ہے اور پیدا ہوگی ساتھ بہن اس کی۔ پس نکلے گی اس کی شکمِ مادر سے آگے اس کے اور نکلے گاوہ بعد بہن اپنی کے۔ اسطرح کہ ہوگا سر اس کا نزدیک دونوں پاؤں بہن اپنی کے اور ہوگی ولادت اس کی چین میں۔‘‘
(فصوص الحکم، صفحہ36، مترجم مولانا محمد مبارک علی حیدر آبادی، مطبوعہ 1308ھ، مطبع احمدی کانپور)
اس پیشگوئی میں سب سے پہلے بتایا گیا کہ آنے والا موعود خاتم الاولاد ہوگا۔ خاتم الاولاد کے معنے یہاں خاتم الاولیاء کے ہیں۔ دوسرے وہ توام پیدا ہوگا اور اس سے پہلے ایک اس کی بہن پیدا ہوگی اور اسکا مولد چین ہوگا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ متن عربی عبارت کا ترجمہ ہے۔ عربی میں ’’الصین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ عربی میں غیر عرب علاقہ یا دور دراز علاقہ کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی موعود زمانہ کا مولد غیر عرب علاقہ یا دور دراز کا ہونا ہی مراد ہے۔
حضرت محی الدین ابنِ عربیؒ کی ہی ایک اور تصنیف ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ ہے۔ اس کتاب کی تیسری جلد میں آنے والے موعود کے اصحاب اور مقربین کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’وہ سب عجمی ہوں گے۔ ان میں سے کوئی عربی نہ ہوگا۔ لیکن وہ عربی میں کلام کرتے ہوں گے۔ ان کیلئے ایک حافظ قرآن ہوگا جو ان کی جنس سے نہیں ہوگا کیونکہ اس نے کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کی ہوگی۔ وہ اس موعود کا خاص وزیر اور بہترین امین ہوگا۔‘‘
(فتوحات مکیہ، جلد سوم، صفحہ 364تا365)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور پیشگوئیوں کا پورا ہونا
مذکورہ بالا تمام پیشگوئیوں کے مطابق جو قرآن، حدیث، کتب سماویہ اور صلحائے امت مسلمہ نے کیں وہ موعود مسیح و مہدی اس دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے اور وہ کوئی اور نہیں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے بروز اور ظلّ اور آپ ؐکے غلام صادق اور خودکو آپ کا شاگرد قرار دینے والے سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود ہیں۔ آپؑ کے آنے سے یہ تمام پیش خبریاں روز روشن کی طرح پوری ہوئیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
آپؑ پیشگوئیوں کے مطابق 1250ھ میں قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔یہ وہی قادیان ہے جسے حدیثوں میں کدعہ کہا گیا جو دو نہروں کے درمیان ہے۔ اور دمشق سے مشرق میں ہندوستان کی سر زمین پر موجود ہے۔ آپؑ1290ھ میں بعمر چالیس سال الہام الٰہی سے مشرف ہوئے اور چودہویں صدی ہجری کے آغاز پر خدا تعالیٰ سے حکم پاکر آپ نے امام مہدی و مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ آپ کی صداقت پر کسوف خسوف کا عظیم الشان نشان 1311ھ کے رمضان میں ظاہر ہوا۔ آپؑ نے دہریوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر اقوام کے مقابل پر اسلام کا مضبوطی سے دفاع کیا اور ہر دشمن کے دانت کھٹے کئے اور ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح ہر میدان میں اسلام کا جھنڈا اونچا کیا۔آپ نے دنیا کے کناروں تک تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا ایک مضبوط نظام قائم فرمایا۔آپ کی وفات کے بعد خلافت علٰی منھاج نبوّت کا قیام عمل میں آیا اور اب خلافت کے سائے تلے دنیا کے 212 ممالک میں اس موعودمسیح پر ایمان لانے والے موجود ہیں۔ فالحمدللہ علیٰ ذلک۔
(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ قادیان)