• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کا اپنے آقا و مطاع و محبوب خدا حضرت محمد مصطفیٰ ؐسے عشق

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور فدائیت کے انداز اور محبت رسول کی ادائیں اتنی وسیع اور متنوع ہیں کہ اس کا احاطہ کرنا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ مختصر طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی جان تھی۔ آپ کا سارا وجو د اس محبت اور عشق میں مخمور تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی آپ کی روح کی غذاتھی۔ اسی سے آپ کی ذات کا خمیر اٹھا یا گیا اور آپ کا سارا وجود عشق رسول کا ایک شیر یں ثمر تھا ۔ سچے عشق اورمحبت کے جو لوازم اور اثرات ہوتے ہیں آپ کی ساری زندگی ان سے پر نظر آتی ہے ۔ آپ کی تحریرات سے عشق محمد عربی کی خوشبو آتی ہے ۔ آپ کی ہر ادا میں حسن محمد ی کا دلکش عکس دکھا ئی دیتا ہے ۔ آپ کا عشق بے مثال تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ :۔

بعد ازخدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ185)

ترجمہ: یعنی میں خدا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں اگر میرا یہ عشق کسی کی نظر میں کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کا فر ہوں۔

کسی بھی انسان کی تحریرات اس کی کیفیات کی حقیقی غماز ہوتی ہیں۔ آپ کی شاند ار تحریرات عدیم المثال ہیں۔ انہیں پڑھنے سے انسان کی روح ورطہ حیرت میں گم ہوجاتی ہے۔ فدائیت اور محبت کے یہ دلر با اند از آپ علیہ السلام کی تحریرات کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا و مطاع محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو،وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا ۔ قمر میں نہیں تھا ۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیزارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیا ء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ160-161)

آپ مزید فرماتے ہیں:۔
’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا و صدق و صفا و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سے انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلیٰ و صفا تھے۔ اس لیے خدائے جلّ شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا۔ اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر تھا۔ وہ اسی لائق ٹھہر ا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہوکہ جو تما م اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشاد ہ اور وسیع آئینہ ہو‘‘

(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2 صفحہ71 حاشیہ)

پھر فرماتے ہیں :۔
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاًو صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا ۔۔۔۔۔۔ وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا۔ اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا۔ جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔‘‘

(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد نمبر 8 صفحہ308)

پھر آپ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگریہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔

(کشتی نوع، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ13-14)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام میں بھی محبت اور فدائیت کا سمندر موجزن ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہر ایک شعر عشق و محبت میں ڈوبا ہوا اور دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ اور پڑھنے والے کے دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ225)

اپنے عربی منظوم کلام میں اپنے محبوب کا ذکر یوں فرماتے ہیں:

یَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْدَ خَلْتَ مَحَبَّۃً فِیْ مُھْجَتِیْ وَ مَدَارِ کِیْ وَ جَنَانِیْ

ترجمہ:اے میرے محبوب! تیری محبت میری جان اور میرے حواس اور میرے دل میں سرایت کر چکی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر بھی عشق و محبت اور فدائیت کا عجیب رنگ اپنے اندر رکھتا ہے آپ علیہ السلام کا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا ایسا والہانہ اظہار ہے۔ جو عدیم المثال ہے۔

جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَا لَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃَ الطَّیْرَانِ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ594)

ترجمہ: (اے میرے معشوق!) تیرا عشق میرے جسم پر (کچھ) اس طرح غلبہ پا چکا ہے کہ (وفور جذبات کی وجہ) سے تیری طرف اڑا جاتا ہے۔ اور کاش مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی اور میں اڑ کر تیرے پاس پہنچ سکتا۔
ایک اور شعر میں فرماتے ہیں:

اِنِّیْ اَمُوْتُ وَلَا تَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ
یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التُّرَابِ نِدَائِیْ

ترجمہ: اے میرے پیارے! میں تو ایک دن اس دنیا سے کوچ کر جاؤں گا۔ لیکن میری (وہ) محبت (جو میں تجھ سے کرتا ہوں) اس پر کبھی موت نہ آئے گی۔ کیونکہ میری قبر کی مٹی سے تیری یاد میں جو آوازیں بلند ہو نگی۔ وہ یہی ہونگی (اے میرے محبوب محمدؐ! اے میرے معشوق محمد ؐ! اے میرے پیارے محمدؐ!)

آپ علیہ السلام کی تحریرات ،آپ کا منظوم کلام ایک نہایت خوبصورت باغ کی طرح ہے جہاں پر جابجا قسما قسم کے پھول کھلے ہیں جن کا رنگ جدا گانہ ہے اور یہ بستان عشق محمدی کے خوش رنگ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔

رسول پاک ﷺ کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؐ کی آل اولاد سے اور آپ ﷺ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی۔

حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے اپنی کتاب ’’سیرت طیبہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
جب محرم کا مہینہ تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے۔ اپنے پاس بلایا اور فرمایا! آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں ۔ پھر آپؑ نے بڑے درد ناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھےاور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ علیہ السلام نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:۔
’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا ﷺ کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاکؐ کے عشق کی وجہ سے تھا

(روایات نواب مبارکہ بیگم صاحبہ)

(از سیرۃ طیبہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے صفحہ نمبر 31)

سچے عاشق کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کے لئے غیرت رکھتا ہے اور اس کے خلاف کوئی بات سننا برداشت نہیں کر سکتا۔ اور آپ میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ جس کا اندازہ درج ذیل واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ 1925ء میں جب میں انگلستان گیا تو مجھے خواہش ہوئی کہ میں پادری ڈاکٹر وائٹ بریخت سے ملاقات کروں کیونکہ یہ پادری بٹالہ میں مشنری رہ چکے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کئی بار مل چکے تھے۔ دوران گفتگو انہوں نے کہا! ’’میں نے ایک بات مرزا صاحب میں یہ دیکھی وہ مجھے پسند نہیں تھی کہ جب آنحضرت ﷺ پر اعتراض کیاجاتا آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا۔‘‘

پادری صاحب کی یہ بات سن کر عرفانی صاحب نے کیا خوب تبصرہ فرمایا۔ کہ پادری صاحب! جو بات آپ کو ناپسند ہے میں اسی پر قربان ہوں۔

ایک اور واقعہ لاہور کے جلسہ و چھو والی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ آریہ صاحبان نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے ہر مذہب و ملت کو دعوت دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی باصرار درخواست کی کہ آپ بھی اس بین الاقوامی جلسہ کے لئے کوئی مضمون تحریر فرمائیں۔ اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلاف تہذیب اور دلآزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہو گی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جو کہ بعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اول ہوئے۔ بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا ۔ ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں اسلام کے محاسن بڑی خوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش انداز میں بیان کئے گئے تھے۔ مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس بندہ خدا نے اپنی قوم کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں آنحضرت ﷺ کے خلاف اتنا زہر اگلا اور ایسا گند اچھالا کہ خدا کی پناہ۔ جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان میں واپس آئے تو آپ علیہ السلام حضرت نور الدین صاحب اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے۔ اور فرمایا!!

کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ کو گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے ۔ اور کیوں نہ اٹھ کر باہر چلے آئے۔؟؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ آیت پڑھی۔

اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ۔

(سورۃ نساء: 141)

ترجمہ: یعنی اے مومنو! جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا ہے اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے ۔ تو تم ایسی مجلس سے فوراً اٹھ جایا کرو۔ تا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ انداز سے گفتگو اختیار کریں۔

اس مجلس میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر ندامت سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم و ندامت سے کٹی جا رہی تھی۔

(ملخصاً سیرت المہدی جلد1 حصہ اول ص201 روایت نمبر 196)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمت دین، خدمت اسلام کے لئے وقف تھا۔ اسلام کے احیاء اور سر بلندی کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف رکھی۔ اس شان سے قلمی جہاد کیا کہ دشمنوں کے منہ بند کر دئیے۔ اور اسلام پر ہونے والےہر حملے کو ناکام و نامراد کیا۔ آپ نے روحانی خزائن کی صورت میں جو زبر دست لٹریچر پیدا کیا۔ وہ اس فدائیانہ جہاد کی عظمت پر زندہ گواہ ہے۔ آپ کی عاشقانہ خدمت کی بناء پر آپ کے وصال پر آپ کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا اور آپ کو اسلام کے فتح نصیب جرنیل کے طور پر یا د کیا۔

آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں اپنے محبوب محمد ﷺ کے مبارک اسوہ کی تصویر نظر آتی ہے آپ نے ساری زندگی آنحضرت ﷺ کی پیروی کی اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوجو بھی عطا ہوا وہ سب آنحضرت ﷺ کی سچی اور بے مثال محبت اور کامل اتباع کی برکت سے عطا ہوا۔ آپ کا یہ عشقِ رسول صرف اپنی زندگی تک محدود نہ تھا بلکہ آپ نے عشق رسول کی شمعیں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں روشن کیں۔ اور آپ نے تقویٰ شعاروں کی ایسی جاں نثار جماعت پیچھے چھوڑی ہے۔ جو خلافت کے زیر سایہ دین اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہے۔ جو آپ کے پیغام کو اکناف عالم میں پھیلانے کے لئے شب و روز کوشاں ہے۔ اور آج ساری دنیا گواہ ہے کہ کروڑوں احمدیوں کے سینوں میں عشق محمدؐ کی شمعیں روشن ہیں اور یہ سب آپؑ ہی کی بدولت ہے۔ جماعت احمدیہ عالمگیر کی صورت میں عاشقِ رسول جماعت کا قیام حضرت مسیح موعود ؑ کے عشق رسول مقبول ﷺ کا ایک زندہ و تابندہ ثبوت ہے جس کی عظمت و شوکت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ وہ نور کی شمع ہےجو احمدیوں کے دلوں میں روشن ہے اور ہمیشہ روشن رہے گی۔

ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے آنحضرت ﷺ کی محبت کا جام پیا ہے۔ اور آج آپ کے جانثاروں سے ہی یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ رسول مکی و مدنی سے محبت کے دعویٰ سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ محبت ہماری نس نس میں سرائیت کر چکی ہے ہم اس راہ میں موت تو قبول کر سکتے ہیں مگر آنحضرت ﷺ کے دامن سے جدائی قبول نہیں۔ ہم اسی پر زندہ ہیں اورا سی پر مریں گے۔

آج دنیا میں عشق رسول کا جو علم جماعت احمدیہ بلند کر رہی ہے۔ ہم اس علم کو کبھی سر نگوں نہیں ہونے دیں گے خواہ ہمارے سر تن سے جدا کر دئیے جائیں ۔ ان شاء اللہ

اللھم صل علی محمد و علی ال محمد وعلی عبدک المسیح الموعود وبارک وسلم

یہ میرا دل جسے دنیا بھی دل ہی کہتی ہے
یہ ایک جام ہے یثرب کے بادہ خانے کا
زہے نصیب کہ میرا لہو بھی کام آئے
مجھے جنون ہے چراغ حرم جلانے کا
زمانہ جتنے ستم چاہے توڑ لے ثاقب
دلوں سے عشق محمد نہیں ہے جانے

(ثاقب زیروی)

(طاہرہ زرتشت۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2021