جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ ایک شفاف آئینہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔جہاں آپ نے خدا سے رہنمائی پاکر اپنی فکر کو ملفوظات اور روحانی خزائن کی شکل میں زیور تحریر بخشا۔ وہیں خدا کی بتائی ہوئی پاک راہوں پر چلتے ہوئے آپ ؑ کی زندگی ہم سب اور آنے والے زمانوں کے لئے انسانی اخلاق کا عظیم ترین نمونہ ہے۔ ا ٓپؑ کی سیرتِ قدسیہ اور اوصافِ کریمانہ پر کئی کتب اور ہزاروں مضامین لکھے گئے۔اس مختصر مضمون میں بھی آپ کے عجز و انکسار کے چند واقعات پیش ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی انتہائی سادگی، عاجزی اور انکساری میں گزری اور آپؑ نے جماعت کو بھی یہی تعلیم دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ’’انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا۔سو تم دل کے مسکین ہو جاؤ‘‘
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ63)
ایک اور جگہ آپؑ تحریرفرماتے ہیں:
’’میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے۔پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتاہوں ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا عقلمند یا ہنر مندہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کردے اور اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم دیدے‘‘
(نزول مسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ402)
آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’کوئی شخص محبت الہٰی اور رضائے الٰہی کو حاصل نہیں کر سکتا کہ جب تک کہ دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں۔اول تکبر کو توڑنا ۔جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین پر ہموار ہوجائے ۔اسی طرح انسان کو چاہئے کہ تمام تکبر اور برائی کے خیالات کو دور کرے ۔عاجزی اور خاکساری کو اختیا کرے۔‘‘
( ذکر حبیب،حضرت مفتی محمد صادقؓ صفحہ 261)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس نہایت سادہ ہوتیں،جس کو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتا مجلس میں آنے والے احباب سے انتہائی محبت سے ملتے آپؑ کے کسی قول و فعل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ آپ بڑے آدمی ہیں۔حضرت مولانا عبدالکریم ؓ صاحب سیالکوٹی اپنی کتاب ’’سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ صفحہ41-42 میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’باہر مسجد مبارک میں آپؑ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی ایک اجنبی آدمی آپؑ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا۔آپؑ ہمیشہ دائیں صف ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے۔میں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اس لئے داخلی دروازہ کے عین محاذ میں ہوتا ہوں بسا اوقات ایک اجنبی جو مارے شوق کے سرزدہ اندر داخل ہوا ہے تو سیدھا میری طرف ہی آیا ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوا ہے یا حاضرین میں سے کسی نے اُسی حقدار کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔آپؑ کی مجلس میں احتشام اور وقار اور آزادی اور بے تکلفی دونوں ایک ہی وقت میں جمع رہتے ہیں ہر ایک خادم ایسا یقین کرتا ہے کہ آپؑ کو خصوصاً مجھ سے ہی پیار ہے۔‘‘ آپؑ کے بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ ’’والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری‘‘ …… آپؑ کے حلم اور منکسر المزاجی کی ایک مثال حیات طیبہ میں کچھ یوں تحریر ہے کہ، ’’قادیان کے کنہیا لعل صراف کا یہ بیان ہے کہ ایک دفعہ خود مرزا صاحب کو بٹالہ جانا تھا آپ ؑ نے مجھے فرمایا کہ یکہ کرادیا جائے۔حضورؑ جب نہر پر پہنچے تو یاد آیا کہ کوئی چیز گھر میں رہ گئی ہے ۔یکے والے کو وہیں چھوڑا اور خود واپس پیدل تشریف لائے ۔یکے والے کو پل پر اور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہو گیا اور مرزا صاحب غالباً پیدل ہی بٹالہ گئے تو میں نے یکے والےکو بلا کر پیٹا اور کہا کہ کمبخت اگر مرزا نظام الدین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تو تُو بیٹھتا لیکن چونکہ یہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے۔اسی لئے تو اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ جب مرزا صاحب کو اس کا علم ہوا تو آپؑ نے مجھے بلا کر فرمایا۔ ’’وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتا اسے مزدوری مل گئی وہ چلا گیا‘‘۔
(حیات طیبہ صفحہ15-16)
آپ کے حلم و کرم کا ایک جلوہ یوں بیان ہے؛حضرت مفتی محمد صادقؓ صاحب نے بیان کیا کہ
’’جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضورؑ اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میں قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحبؑ نے میرے لئے کھانا منگوایا ۔جو خادم کھانا لایا وہ یوں ہی کھلا کھانا لے آیا۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے کر جائیں گے کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں اور پھر اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔‘‘
(ذکر حبیب، ص ۳۲۱)
ایک واقعہ ڈاکٹر بشارت احمد کی کتاب ’’مجدد اعظم‘‘ جلد دوم صفحہ 1293 تا 1294سے تحریر ہے۔
’’نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت اقدس ؑجنازہ کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے۔نماز جنازہ خود پڑھائی۔قبر ابھی تیار نہ تھی۔ میں (مولف مجدد اعظم) بھی جنازہ کے ساتھ تھا۔لوگ قبر دیکھنے میں مشغول ہو گئے۔ میں بھی اسی طرف متوجہ ہو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد میں جو دیکھتا ہوں۔ تو حضرتؑ صاحب ندارد۔ گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا توباغ میں ایک طرف اکیلے زمین پر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔میں نے جلدی سے ایک درخت کے نیچے چادر بچھائی اور حضرتؑ سے جاکر عرض کی کہ یہاں تو دھوپ ہے وہاں درخت کے سایہ میں تشریف لے چلئے۔فرمانے لگے، ہاں یہ ٹھیک ہے۔آپؑ درخت کے سایہ میں اس درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔میں قریب ہی بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں لوگوں نے جو دیکھا کہ حضرت صاحبؑ درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو لوگ وہیں آنا شروع ہو گئے ۔اب جو آتا حضرت اقدسؑ اُسے فرماتے ’’آئیے آئیے یہاں بیٹھئے‘‘ اور خود پیچھے کھسک جاتے اور اُسے چادر پر بٹھا لیتے لوگ آتے گئے اور حضرت صاحبؑ پیچھے کھسک کھسک کر لوگوں کو چادر پر بٹھاتے گئے۔ یہاں تک کہ تھوڑی دیر نہ گزری تھی جو دیکھتا ہوں حضرت صاحب تو مٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور مرید سارے چادر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔آنے والوں کو تو زیارت اور ملاقات کے ذوق شوق میں یہ نظر نہ آیا۔مگر میں دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا۔ ساتھ ہی ایمان ترقی کر رہا تھا کہ خدا نے کیا مرتبہ دیا ہے اور نفس میں کس قدر انکسار اور فروتنی ہے۔‘‘
یہ وہ راہیں ہیں جو ہماری منزل کا نشان ہیں کہ ہم اپنے نفس کے گورکھ دھندوں سے نکل کر راہِ حق پائیں۔خدا ہمیں ان پاک راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
(از رانا عبدالرزاق خاں لندن)