صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
قرآن کی تعلیمات کے مطابق چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔ 1۔نفس اور شیطان کے خلاف جہاد 2۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ 3۔ جہاد بالمال 4۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ) اور الحمد للہ جماعت احمدیہ کسی بھی جہاد کے میدان میں پیچھے نہیں بلکہ اتنی آگے ہے کہ کوئی دوسرا اس کی دھول کو کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ خو اہ وہ اصلاح نفس کا جہاد ہو یا دعوت تبلیغ قرآن کا۔ وہ مالی جہاد ہو یا جہاد بالسیف۔ ہر میدان میں اس جماعت نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے نصب کئے ہیں کہ دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔ والفضل ما شھدت بہ الاعداء بعض پڑھنے والے اس سوچ میں ہو نگے کہ جہاد بالسیف کے ذریعہ جماعت نے کب اور کیوں اپنا عمل دکھایا تو ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ آنحضرت کی پیشگوئی کے مطابق اس کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی بیان فرمایا کہ اگر جہاد بالسیف کی شرائط موجود ہوں تو پھر یہ جہاد بھی ضروری ہے۔ آپؑ نے واضح فرمایا۔
’’گر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں‘‘۔
(نورالحق حصہ اول۔روحانی خزائن جلد8ص62)
اس کی مختصر سی جھلک ہم نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب حالات تبدیل ہوتے دیکھے۔ چنانچہ پاکستان کے ہر مشکل وقت میں احمدی مجاہدین نے شاندار کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔ الحمد للہ لیکن اس وقت جو حالات تھے وہ حالات حضرت مسیح موعودؑ کے دور کے حالات سے بالکل منفرد تھے یعنی ایک امن اور آزادی بھر اماحول تھا اس لئے آپؑ نے فرمایا:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
آپؑ نے آنحضرت کی پیشگوئی کے مطابق یضع الحرب کےحکم کو صادر کیا اور فرمایا کہ ہمارےدین کی اشاعت کے لئے اب جنگوں کی اجازت نہیں ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے حضور نے بھی تلوار نہیں اٹھائی۔ اسلام کی ساری جنگیں دفاعی تھیں۔ لیکن اب وہ حالات نہیں جو نبی پاک کے زمانہ میں ہجرت کے بعد تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’جن قوموں سے ہمارے نبی کا واسطہ پڑا ان کو مذہبی امور میں دلائل سننے یادلائل سنانے سے کچھ غرض نہ تھی بلکہ انہوں نے اُٹھتے ہی تلوار کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہا اور عقلی طور پر اس کے ردّ کرنے کے لئے قلم نہیں اُٹھائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ کی کوئی ایسی کتاب نہیں پاؤ گے جس میں اسلام کے مقابل پر عقل یا نقل کے رنگ میں کچھ لکھا گیا ہو کہ وہ لوگ صرف تلوار سے ہی غالب ہونا چاہتے تھے اس لئے خدانے تلوار سے ہی ان کو ہلاک کیا مگر ہمارے اس زمانہ میں اسلام کے دشمنوں نے اپنے طریق کو بدل لیا ہے اور اب کوئی مخالف اسلام کا اپنے مذہب کے لئے تلوار نہیں اٹھاتا اور یہی حکمت ہے کہ مسیح موعود کے لئے يضع الحرب کا حکم آیایعنی جنگ کی ممانعت ہو گی اور تلوار کی لڑائیاں موقوف ہو گئیں۔
(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23 صفحہ۔92، 93)
آپؑ نے اس امر کو اپنے اشعار میں یوں بیان فرمایا۔
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
چنانچہ حضورؑ کے دور میں ہر مذہب والوں نے اسلام کے خلاف ایک خطرناک جنگ شروع کر رکھی تھی اور اس میدان جنگ میں نیزہ ہائے قلم لے کر نکلے تھے اس کے جواب میں مسیح آخر الزماں نے کیا ہتھیار لیا ۔آپؑ فرماتے ہیں۔
’’یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو۔جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجزکا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔اس میں یہی سر ہے کہ یہ زمانہ جنگ و جدل کا نہیں بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 214)
نیزایک مقام پر آپؑ نے فرمایا۔
’’اور اب قلمی لڑائیوں کا وقت ہے اور چونکہ ہم قلمی لڑائیوں کے لئے ہیں اس لئے بجائے لوہے کی تلو ار کے لوہے کی قلمیں ہمیں ملی ہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد23 صفحہ93)
نیز آپؑ فرماتے ہیں:
’’اس زمانہ میں جہاد، روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں۔ مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں۔ دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں۔‘‘
(مکتوبات بنام حضرت میر ناصر صاحب مندرجہ رسالہ درود شریف صفحہ66 مؤلفہ حضرت مولانا محمد اسماعیل ہلال پوریؒ)
دوستو!جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کے لئے کس طرح دلائل اوربراہین کے ساتھ فریق مخالف کے ساتھ ہر روز مذاہب عالم کے میدان کارزار میں فتح نصیب جرنیل کے طور پر قلم کے ذریعہ چومکھی لڑائی لڑتے رہے۔ایک ایسا جہاد جو نہ صرف قلب و ذہن کو مطمٔن کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دلوں میں ایک پاک روحانی انقلاب بھی برپا کرتا ہے۔جس میں ہر مذہب و ملت کے تعلق رکھنے والے کے لئے اسلام کا زندگی بخش پیغام ہے۔ آپؑ نے اپنی پوری زندگی میں اس قلمی جہاد کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی جس طرح اللہ تعالیٰ الہاماً آپؑ کو بتایا تھا کہ:
’’میں ہر میدان میں تیرے ساتھ ہوں گا اور ہر ایک مقابلہ میں روح القدس سے میں تیری مدد کروں گا۔‘‘
(تحفہ گولڑیہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ241)
یہ تائید و نصرت کا سلوک آپؑ کے ساتھ ہمیشہ رہا ان بے شمار قلمی جہاد کو اس مختصر مضمون میں بیان کرنا ایک بہت ہی مشکل امر ہے صرف آخری سال میں جو آپ نے قلمی جہاد بیماری اور ضعف کے باوجود سرانجام دئیے اس کا مختصر خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ وباللہ توفیق
مؤرخہ 27۔اپریل 1908ء کو الٰہی اذن سے حضرت اقدسؑ لاہور تشریف لے گئے۔قیام لاہور کے دنوں میں حضورؑکو بہت مصروفیات رہا کرتی تھیں تقریر اور تحریر کے ساتھ ساتھ خلق خدا کا تانتا بندھا رہتا اور رجوع کا یہ عالم تھا کہ باوجود مخالفانہ کوششوں اور سخت روکوں کے لوگ جوق درجوق لوہے کی طرح اس مقناطیس کی طرف کھینچے چلے آتے اور اپنے علم و ذوق کے مطابق سوالات کرتے اور جواب پاتے تھے۔ لاہور میں حضرت مسیح موعودؑ کی مصروفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے فرماتے ہیں۔
’’الغرض حضورؑ کا قیام لاہور ایسے ہی حالات کا مجموعہ اور اسی قسم کی مصروفیات کا مرکز تھا۔حق و حکمت کے خزائیں لٹاکرتے اور علم و معرفت کے موتی بٹا کرتے تھے اور اگرچہ اس سفر کا عرصہ بالکل محدود، زیادہ سے زیادہ صرف ایک ماہ تھا مگر اس سفر کے نقشہ پر بحیثیت مجموعی غور کرنے سے ایک ایسی پر کیف کیفیت نمایاں طور سے نظر آنے لگتی ہے جیسے کوئی یکہ و تنہا مسافر کسی لمبے بے آب و گیاه اور سنسان ویرانے کے سفر کو جلد جلد طے کر کے منزل مقصود پر پہنچنے کی انتھک اور سرگرم کوشش میں لگ رہا ہو یا کوئی جری ہو بہادر جانباز جرنیل چاروں طرف سے خونخوار دشمنوں کے گھیرے میں پھنسا ہوا دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے واروں کو بچاتا ،ان کا حلقہ توڑ کر شیر نر کی طرح حملے کرتا اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد میں مصروف ہو، بعینہٖ یہی حال حضور کی تبلیغی کوششوں، سرگرمیوں اور مساعی جمیلہ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ گویا حضورؑ کی ساری زندگی کا نچوڑ اور سارے مقاصد اور سلسلہ کے اہم مسائل اور خصوصی عقائد کی تکمیل کا یہ سفر ایک مجموعہ اور خلاصہ تھا اور یہ کہ حضورؑ ان ایام کو غنیمت جان کر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ انہماک اور مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی لمحہ فارغ نہ جاتا تھا اور حضور کی پوری توجہ اور ساری کوشش و سعی تبلیغ اور اشاعت ہی پر مرکوز تھی اور کم از کم پچیس مختلف صحبتوں اور تقاریر کا ذکر تو اخبارات میں موجود ہے۔ کتنی تقاریر اور ڈائریاں میری کوتاہ قلمی یا غیر حاضری کی نذر ہوئیں یا کتنی صحبتوں میں شرکت سے دوسرے ڈائری نویس محروم رہے اس بات کا علم اللہ کو ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ بہت کچھ لکھنے سے رہ جایا کرتا تھا مجھے خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ بہت سے وہ معارف اور حقائق جو حضورؑ سیر کے وقت بیان فرمایا کرتے، میں اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے صفحہ قرطاس پر نہ لاسکا … خلاصہ یہ کہ حضورؑ کی ساری حیات طیبہ، انفاس قدسیہ اور توجیہات عالیہ جہاں خدا کے نام کے جلال کے اظہار، اس کے رسول ﷺ کے صداقت و عظمت کے اثبات اور اس کی مخلوق کی بہتری وبہبودی کے لئے وقف تھیں وہاں خصوصیت سے حضور کی پاکیزہ زندگی کے یہ آخری ایام انت الشیخ المسیح الذی لایضاع وقتہ کی سچی تفسیر اور مصدقہ نقشہ تھا۔
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ نمبر394،393)
قارئین کرام! یہ وہ مسیح تھا جس کا کوئی بھی وقت ضائع نہیں ہوا ہر لمحہ اسلام کی تبلیغ اور تحریر و تصنیف میں مشغول رہے۔ ان بہترین تصانیف میں سے ایک چشمہ معرفت تھی جو آپ نے اپنی زندگی کے آخری سال میں تصنیف فرمائی۔ آیئے اس جامع کتاب کی خوبی و تصنیف کے تعلق سےکچھ مختصر تاریخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
چشمہ معرفت کی تصنیف
’’آریہ سماج نے اپنی مذہبی کا نفر نس میں اسلام اور آنحضرتﷺ اور قرآن کریم پر ناپاک حملے کئے تھے۔ اور گو آریہ سماج نے جب اس کا نفر نس کے مضامین شائع کئے تو اس میں سے قابل اعتراض حصّے حذف کر دئیے۔ مگر جن گندی باتوں کو ہزاروں افراد نے سنا ان کا ازالہ کرنا ازبس ضروری تھا۔ لہٰذا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے شروع جنوری 1908ء میں ہی اس کے جواب میں ’’چشمہ معرفت‘‘ کے نام سے ایک مبسوط اور جامع کتاب تالیف فرما دی جو 15مئی 1908ء کو شائع ہوئی۔ یہ کتاب اپنے نام کی طرح معرفت کا ایسا پاک چشمہ ہے جس سے اسلام کی خوبیاں اور کمالات بحر مواج کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر513)
نیز اس کی خصوصیت میں یہ شامل ہے کہ اس میں بہت سے مضمون نہایت جامعیت سے چند سطروں میں آجاتے ہیں اور چند سطروں کے بعد ایک نیا مضمون سامنے آجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم فرما کر ایک حصہ ان دعاوی کے رد میں فرمایا جو ڈاکٹر بھارد واج سیکرٹری آریہ سماج لاہور نے وید کے بارے میں کئے تھے اور دوسرا حصہ ان حملوں کے رد میں جو قرآن اور آنحضرتﷺ پر کئے گئے تھے اور اس طرح حضورؑ نے اس کتاب میں اسلام کے زندہ ہونے کے متعلق تمام غیر مذاہب والوں کو چیلنج کیا اور فرمایا۔
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفارروئے زمین دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ نمبر339تا340)
گویا کہ تبلیغ اسلام کے لئے آپؑ نے ہر مذاہب والوں کو چیلنج دیا اور ہمہ تن اس فریضہ کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کئے اس بات کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ:
’’30۔اپریل 1908ء حضورؑ کے قیام لاہور کا پہلا دن تھا جب کہ ابھی پوری طرح یکسوئی اور سکون میسر نہیں آسکا تھا اس دن سے ہی حضورؑنے پوری قوت سے پیغام پہنچانا شروع کر دیا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر5287)
اور یہ قوت ہمیں حضورؑکے آخری ایام میں اور زیادہ تیزی پیدا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تاریخ میں آتا ہے کہ آپؑ آخری ایام میں لاہور میں تحریرو تبلیغ میں اس طرح مصروف رہتے تھے کہ گویا عظیم فاتح جرنیل ہے جو ایک دوسری منزل پر روانہ ہونے سے قبل اپنا کام تیزی سے ختم کرنے کی فکر میں دن رات ایک کئے ہوتا ہے آپؑ کمزوری اور ضعف کے باوجود ہمیشہ تقریر اور تحریر میں مصروف رہتے۔ان ہزاروں تکالیف میں سے دو کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
حضرت مہتہ عبدالرحمٰن قادیانیؓ فرماتے ہیں:
’’17مئی 1908ءکی صبح کو مکرمی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے چند معزز تعلیم یافتہ رؤساء لاہور کی دعوت کی تھی اور حضرت اقدسؑ سے اس موقع پر کچھ تقریر کرنے کی بھی درخواست کی تھی چنانچہ حضرت اقدسؑ نے اس کو منظور بھی فرمالیا تھا۔ 16 کی رات کو حضرت اقدسؑ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور متواتر چند دست آجانے کی وجہ سے بہت ضعف ہوگیا چنانچہ 17 کی صبح کو جب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بیدار ہوئے تو یہ الہام ہوا اِنّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اقُومُ۔ چنانچہ اس وعدہ الٰہی سے طاقت پا کر حضرت اقدسؑ نے اس موقع پر قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہو کر بڑی پُر زور تقریر فرمائی۔‘‘
(تذکرہ صفحہ نمبر639، الحکم نمبر35 جلد12 مورخہ 30مئی 1908ء صفحہ1)
اسی طرح حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی ؓ ایک جگہ ذکر فرماتے ہیں۔
’’ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ کو خارش کی بہت سخت شکایت ہوگی تمام ہاتھ بھرے ہوئے تھے۔ لکھنا یا دوسری ضروریات کا سرانجام دینا مشکل تھا۔علاج بھی برابر کرتے تھے مگر خارش دور نہ ہوتی تھی … ایک دن میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عصر کے قریب وقت تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ بالکل صاف ہیں مگر آپؑ کے آنسو بہہ رہے ہیں … میں نے جرأت کر کے پوچھا کہ حضور آج خلاف معمول آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔حضورؑ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک معصیت کا خیال گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے کام تو اتنا بڑا میرے سپرد کیا ہے اور ادھر صحت کا یہ حال ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شکایت رہتی ہے۔ اس پر مجھے الہام ہوا
’’ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے‘‘
اس سے میرے قلب پر بے حد رقت اور ہیبت طاری ہے کہ میں نے ایسا خیال کیوں کیا۔ ادھر تو یہ الہام ہوا مگر جب اٹھا تو ہاتھ بالکل صاف ہوگئے اور خارش کا نام ونشان نہ رہا۔ ایک طرف اس پُرشوکت الہام کو دیکھتا ہوں دوسری طرف اس فضل اور رحم کو تو میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کے رحم اور کرم کو دیکھ کر انتہائی جوش پیدا ہو گیا اور بے اختیار آنسو جاری ہوگئے‘‘۔
(تذکرہ صفحہ نمبر685، الحکم جلد37نمبر12مورخہ 7۔اپریل 1934ء صفحہ4)
قارئین کرام!
یہ عظیم فاتح جرنیل ان تکالیف کے باوجود قلمی جہاد میں ہمیشہ مصروف رہتا۔ ان مصروفیت کے ایام میں آپؑ نے آخری سال میں جو قلمی جہاد کی اس کا ایک خوبصورت نقشہ تصنیف ’’پیغام صلح‘‘ میں بھی نظر آتا ہے۔ آئیے اس کتابچہ کے تعلق سے کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیغام صلح کی تصنیف
’’پیغام صلح‘‘ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا دنیا کے لئے اپنا آخری پیغام ہے اور مشیت الٰہی میں جتنا حصہ لکھا جانا تھا وہ جب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا حضورؑ کی وفات نہیں ہوئی۔ اس معرکہ آراء مضمون میں سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے برصغیر کی دو بڑی قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح اور آشتی پیدا کرنے کے لئے ایک درد مندانہ اپیل کی ہے اور زریں لائحہ عمل اور معاہدہ کی تجویز فرمایا ہے۔‘‘
معاہدہ کی تجویز:
’’چنانچہ حضور ؑنے اس میں خدا تعالیٰ کی عالمگیر صفت ربوبیت کا تذکرہ کرنے کے بعد ہندوؤں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہندو اور آریہ صاحبان اگر ہمارے نبی ﷺ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ توہین و تکذیب چھوڑ دیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر تیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور وید اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپے سے کم نہیں ہوگی ہندوصاحبو کی خدمت میں ادا کریں گے۔اور اگر ہندو صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کردیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہ ﷺکی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے۔اور اگر ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپے سے کم نہیں ہوگی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر534)
ان تجویز کے ساتھ ساتھ حضورؑ نے صاف صاف لفظوں میں لکھا کہ ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں۔لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے نا پاک حملے کرتے ہیں۔خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘
(روحانی خزائن جلد23 صفحہ۔459، کمپیوٹرائزڈ، پیغام صلح)
اس کتابچہ کی اہمیت کے بارےمیں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد ایم اےؓ فرماتے ہیں:۔
’’خدا کے برگزیدہ نبی اور رسول سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زندگی کے آخری دو تین روز ایک ایسی اہم اور مہتمم بالشان تصنیف میں مصروف رہے جس میں نسل انسانی کے لئے بے نظیر اور فقید المثال خدمت کا مواد اور امن عالم کے قیام کی تجاویز درج ہیں۔جس کا نام اس شہزادہ صلح و آشتی اور امن و سلامتی نے مضمون کی مناسبت اور وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ’’پیغام صلح‘‘ تجویز فرمایا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ نمبر407)
’’حضور کا یہ آخری مقدس پیغام عوام تک پہنچانے کے لئے 21جون 1908ء کو پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور نے رائے پرتول چندر صاحب جج چیف کورٹ کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں خواجہ کمال الدین نے ’’پیغام صلح‘‘ کا مضمون نہایت بلند آواز اور مؤثر لہجے میں پڑھا جسے حاضرین نے بہت سراہا۔ اندرون ملک میں ’’پیغام صلح‘‘ کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود ہندوؤں نے اس کی تائید کی اور اس پر عمدہ رائے کا اظہار کیا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر536)
ان عمدہ رائے میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے جن کو تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر 536تا537 سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اخبار (ہندو پیٹریٹ) مدراس نے لکھا۔
’’دو عظیم الشان طاقت اور اعلیٰ درجہ کے ہمدردی جو قادیان کے بزرگ کے اس آخری پیغام صلح سے ظاہر ہوتی ہے یقیناً ایک خاص امتیاز کے ساتھ اسے ایک عظیم الشان انسان ثابت کرتی ہے … ایسی اپیل ایسے عظیم الشان انسان کی طرف سے یونہی ضائع نہیں جانی چاہئے اور ہر ایک محب وطن ہندوستانی کا مدعا ہونا چاہئے کہ وہ مجوزہ صلح کو عملی رنگ پہنانے کی کوشش کرے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز اردو 1908ء صفحہ نمبر 440تا444)
ایک غیر مسلم دوست پی بی سنگھ نے لکھا:۔
’’کتاب پیغام صلح نے مجھ پر حیرت انگیز اثر کیا ہے۔ میں اسلام کو اچھا مذہب خیال نہیں کرتا تھا۔ اسلام کے متعلق مسلمانوں کا جو تھوڑا بہت لٹریچر میں نے مطالعہ کیا ہے اس سے بھی مجھ پر یہی اثر ہوا تھا کہ اسلام جارحانہ مذہب ہے میں اسے کبھی رواداری کا مذہب نہیں سمجھتا تھا جیسا کہ اب سمجھتا ہوں‘‘
(بحوالہ الفضل 29مارچ 1940ء صفحہ2 کالم2)
مسٹر برہم دت ڈیرہ دون نے لکھا:
’’چالیس برس پیشتر یعنی اس وقت جبکہ مہاتما گاندھی ابھی ہندوستان کے افق سیاست پر نمودار نہ ہوئے تھے (حضرت) مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے 1891ء میں دعوی مسیحیت فرما کر اپنی تجاویز رسالہ ’’پیغام صلح‘‘ کی شکل میں ظاہر فرمائیں جن پر عمل کرنے سے ملک کے مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور محبت و مفاہمت پیدا ہوتی ہے۔ آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ لوگوں میں رواداری اخوت اور محبت کے روح پیدا ہو۔
بے شک آپ کی شخصیت لائق تحسین اور قابل قدر ہے کہ آپ کی نگاہ نے مستقبل بعید کے کثیف پردے میں سے دیکھا اور (صحیح) راستہ کی طرف رہنمائی فرمائی۔‘‘
(اخبار فرنٹیر میل 22دسمبر 1948ء بحوالہ تحریک احمدیت ص13،12 مؤلفہ جناب مولوی برکات احمد صاحب راجیکی قادیان)
چنانچہ ’’پیغام صلح‘‘ کو مغربی ممالک میں خاص عظمت و وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔مشہور رسالہ ’’ریویو آف دی ریوریوز‘‘ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’یہ پیغام ایک سنہری پل کا کام دے سکتا ہے جس پر سے ہو کر مسلمانان ہندو قانون اساسی کے خیمے میں پہنچ سکتے ہیں۔ پیغام صلح شروع میں ہی تمام ہندوستانیوں کے ایک ہونے کو تسلیم کرتا ہے … وہ بات جس سے اس کی خواہش کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ تمام نبیوں کو خدا کی طرف سے مان کر مذہبی اتفاق اور اتحاد کی بنیاد رکھی جائے اس پیغمبر صلح کی یہ نرالی تجویز ہے۔‘‘
(بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو 1908ء صفحہ نمبر438تا440)
گو کہ اس نرالی تجویز کا دوست تو دوست غیر بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔
قارئین کرام: ایسا ہی قلمی جہاد کا ایک نقشہ 23مئی 1908ء کی تاریخ میں ملتا ہے۔
اخبار عام کی غلط رپورٹ اور حضورؑ کی تردید
اخبار عام 23مئی 1908ء نے حضورؑ کے پبلک لیکچر کی خبر دیتے ہوئے یہ غلط رپورٹ شائع کی کہ گویا حضور نے جلسہ میں اپنی نبوت سے انکار کیا ہے جس پر حضورؑ نے اسی دن ایڈیٹر صاحب اخبار عام کو ایک مفصل تریدی خط لکھا کہ:
’’اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلا ع دیتا رہاہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا۔ اور اپنا علیحدہ کلمہ ،علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت ﷺ کے اقتدا اور متابعت سے باہر ہوجاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ اس سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ میں لکھتا آیاہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اورکلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا ہے … میں خود ستائی سے نہیں بلکہ خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف میں کھڑا کیا جاؤں اور کوئی امر ایسے پیش کیا جائے جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا غلبہ دے گا اور ہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہوگا اور ہر ایک میدان میں وہ مجھے فتح دے گا بس اسی بنا پر خدا نے میرا نام بنی رکھا ہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ نمبر531۔532)
یہ تھی وہ آخری تحریر جو خدا کے اس برگزیدہ نے لکھی لیکن مشیت الٰہی کے تحت یہ خط آپؑ کی وفات کے بعد شائع کیا گیا۔
پیارے دوستو:
حضرت مسیح موعودؑنے آخری دنوں میں قیام لاہور کے دوران صرف تصنیف کے ذریعہ سے ہی اتمام حجت نہیں فرمائی بلکہ حضورؑنے ان دنوں میں تبلیغ و تقریر کے ذریعہ بھی اتمام حجت کیا جس میں گوروہرسہائے ضلع فیروز پور میں باوا نانک ؒ کے تبرکات میں قرآن شریف کا انکشاف اور اس کے ذریعہ ہندو اور سکھ اصحاب پر اتمام حجت، اسی طرح سر جیمز ولسن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب کا دورہ قادیان اور آپؑ کی ان کے ساتھ ملاقات اور گفتگو 7۔اپریل 1908ء کو ایک امریکن سیاح مسٹر جارج ٹرنر کی قادیان میں آمد آپؑ کی ان سے ملاقات اور سوال و جواب کا ایک سنہرا ماحول پیدا ہوجانا شامل ہے۔سوال و جواب کی محفل کے دوران موصوف کا سوال کہ آپؑ نے جو دعویٰ کیا ہے اس کی کیا سچائی ہے؟ اس کے جواب میں حضورؑ نے فرمایا:
’’خود آپ اتنےدور دراز ممالک سے یہاں اک چھوٹی سی بستی میں آنابھی ہماری صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب کہ ہم بالکل گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا یا تون من کل فج عمیق و یاتیک من کل فج عمیق‘‘ یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے اور خدا کی مدد ایسی راہوں سے آئے گی کہ وہ لوگوں کے بہت چلنے سے گہرے ہوجائیں گے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ نمبر519)
اسی طرح 2مئی 1908ء کو شہزادہ سلطان ابراہیم صاحب سے حضورؑ کی ملاقات اور آپؑ کا ان کو فارسی میں تبلیغ کرنا بھی شامل ہے نیز 12مئی 1908ء انگلستان کے ماہر ہیت دان پروفیسر ریگ سے حضورؑکی ملاقات ہوئی جس میں پروفیسر صاحب نے آپؑ سے بہت سے سوالات کئے اور آپؑ نے ان تمام سوالات کے نہایت لطیف، مسکت اور جامع جوابات دئیے جنہیں سن کر مسٹر ریگ ازحد متاثر ہوئے اور حضورؑ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ:
’’مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ہر طرح سے کامل اطمینان ہوگیا اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سوا کسی میں نہیں۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر528تا529)
اسی طرح 17مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے ایک پبلک لیکچر کے ذریعہ روسائے لاہور کو تبلیغ کی ،اس جلسہ دعوت میں لاہور کے بڑے بڑے روساء، امراء، وکلاء، بیرسٹر اور اخبار کے ایڈیٹر مدعو تھے جن میں سے اکثر غیر احمدی تھے۔ حضرت اقدسؑ کی بے نظیر تقریر سے وہ بہت متاثر ہوئے۔
(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ نمبر530)
یہ مختصر سی جھلک تھی اس جہاد کی جو آپؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں سرانجام دئیے گو کہ آپؑ نے پوری زندگی تبلیغ و اشاعت میں صرف کی آخر میں وہ وقت بھی آپہنچا کہ اس برگزیدہ وجود نے اس دنیا کو الوداع کہا اس جیسے بین الاقوامی شخصیت کا انتقال جس نے مذہبی دنیا میں اپنے فولادی قلم زبردست مقناطیسی جذب و کشش، مقدس تعلیمات اور غیر معمولی قوت قدسی کے ساتھ ربع صدی سے زائد عرصے تک تہلکہ مچار رکھا کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا جس پر خاموشی اختیار کی جاسکتی ۔ادھر یہ چونکا دینے والی خبر سنی گئی ادھر ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پریس میں ایک شور پڑگیا اور اخبارات نے حضورؑ کی وفات کی خبر شائع کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کیا ۔اُن اخبارات میں مسلمان، ہندوؤں اور عیسائی وغیرہ ہر قسم کے مکتبہ خیال کے لوگ شامل تھے۔
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر559تا560)
ان میں سے چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے۔ اخبار وکیل امرتسر نے لکھا:۔ ’’وہ شخص بہت بڑاشخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو ۔وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارالجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔جو شور قیامت ہو کے خفتگاں خواب ہستی کو بیدا کرتا رہا۔خالی دنیا سے اٹھ گیا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر560)
نیز لکھتا ہے کہ:
’’غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچریادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظرآئے۔قائم رہے گا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ561)
٭ ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ‘‘ علی گڑھ نے لکھا کہ:
’’مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے۔ 1874ء سے 1876ء شمشیر قلم عیسائیوں، آریوں اور برہمو صاحبان کے خلاف خوب چلایا۔ آپ نے 1880ء میں تصنیف کا کام شروع کیا۔ آپ کی پہلی کتاب اسلام کے ڈیفنس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپے انعام رکھا تھا…آپ نے اپنی تصنیف کردہ 80کتابیں پیچھے چھوڑی ہیں جس میں سے 20عربی زبان میں ہیں … بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ565)
٭ اسی طرح ’’صادق الاخبار‘‘ ریواڑی نے لکھا کہ:
’’مرزا صاحب نے اپنی پُرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچراعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کماحقہ ادا کر کے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔‘‘
(بحوالہ تشحیذالاذھان جلد3 نمبر10، صفحہ382، تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ565)
٭ ’’کرزن گزٹ‘‘ دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا کہ:
’’اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجابی بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں…اس کا پرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارت پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے۔‘‘
(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ نمبر183)
٭ اسی طرح غیر مسلم اخبارات میں سے ’’میونسپل گزٹ‘‘ نے لکھا کہ:
’’مرزا صاحب علم،و فضل کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے تھے۔ تحریر میں بھی روانی تھی۔ بہرحال ہمیں ان کی موت سے بحیثیت اس بات کے کہ وہ ایک مسلمان عالم تھے نہایت رنج ہوا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک عالم دنیا سے اٹھ گیا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ566)
٭ ’’جیون تت‘‘ میں دیوسماج کے سیکرٹری نے لکھا۔
’’وہ اسلام کے مذہبی لٹریچرکے خصوصیت سے عالم تھے۔ سوچنے اور لکھنے کی اچھی طاقت رکھتے تھے۔ کتنی ہی بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ568)
آج حضرت مسیح موعودؑکی وفات پر صدی سے زیادہ گزر چکا ہےمگر خدا کے فضل سے حضورؑکی جلیل القدرشخصیت اور عظیم الشان قلمی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ آج تک جاری ہے بلکہ جوں جوں صداقت کی روشنی پھیلتی جاتی ہے حضورؑ کی مقدس ذات دنیا کی گہری توجہ اور خاص دلچسپی کا مرکز بنتی جارہی ہے اور عالمی رحجانات بڑی تیزی سےاس حقیقت کی طرف آرہے ہیں کہ بیسویں صدی کی کوئی مذہبی تاریخ آپؑ کے قلمی جہاد کے ذکر کے بغیر مکمل ہوہی نہیں سکتی اور ہمیں اس ذکر کو محفوظ رکھنا ہے کیونکہ یہ وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدولت ہمیں خدا جیسے قیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے۔اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ہر قسم کی علمی اور اخلاقی ،روحانی اور جسمانی شفاءاور ترقی کا زینہ آپ کی یہی تحریرات ہیں اس خزانے سے منہ موڑنے والا دین و دنیا دونوں جہانوں سے محروم قرار پاتا ہے۔ اور خدا کی بارگاہ میں متکبرشمار کیا جاتا ہے جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ:
’’وہ خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 ص403)
آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا۔
’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 ص361)
پس یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس سلطان القلم مسیح و مہدیؑ کو ماننے کی توفیق ملی اور اس نے ہمیں ان روحانی خزائن کا وارث ٹھہرایا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ان بابرکت تحریروں کا مطالعہ کریں۔ تاکہ ہمارے دل، ہمارے سینے اور ہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہوجائیں۔ اللہ کرے ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معاشرہ میں امن و سلامتی کے دئیے جلانے والے بن سکیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(از حلیم خان شاہد۔انڈیا)