نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے۔ مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے۔ اس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا ،تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہے بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے۔ اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے۔ اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیے وہ مزا نہیں آتا۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظّ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھا سکتا۔ اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو عبادتِ الٰہی میں حظّ اور لذت نہیں پاتے۔ ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اس کے لیے لذت اور سُرور نہ ہو۔ لذت اور سُرور تو ہے مگر اس سے حظّ اُٹھانے والا بھی تو ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
(الذاریات:57)
اب انسان جب کہ عبادت ہی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سُرور بھی درجہ غایت کارکھا ہو۔ اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لیے پیدا ہوئی ہیں تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لیے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں۔ کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا انسان حظّ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش کُن اور سُریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اَور بھی اس امر کے اثبات کے لیے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں۔
(ملفوظات جلد1 صفحہ159-160۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)