• 2 مئی, 2024

نومبائعین کی پاک روحانی تبدیلی کے چند واقعات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
بعض کمزور ایمان والوں کو، کم علم کو (پہلے بھی جس کا مَیں گزشتہ دنوں میں دو د فعہ ذکرکرچکا ہوں)۔ بعض ویب سائٹس نے وسوسوں میں ڈالا ہوا ہے۔ گو متأثرہونے والے ایسے چند ایک لوگ ہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں بہر حال وسوسے پیدا ہوتے ہیں، بے چینی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ امریکن نوجوان جو عیسائی تھا اس نے مخالف ویب سائٹس بھی دیکھیں پھر جماعت کی ویب سائٹ دیکھی اور موازنہ کیا، پھر دعا کی اور اس کے بعد اُس کے حقیقت سامنے آئی اور اُس نے احمدیت کے ذریعے سے اسلام قبول کر لیا۔ تو ہمارے نوجوانوں کو، بچوں کو خاص طورپر جو نئے نئے ابھی ٹین ایج (Teenage) میں ہوتے ہیں بعض دفعہ لوگ انہیں بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو دوستیوں کی وجہ سے اُن کو بھڑکایا جاتا ہے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے اور پھر دنیاوی لحاظ سے بھی کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعلیم دلائل سے بھری ہوئی ہے کیونکہ یہ حقیقی اسلام کی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں بھی اپنے دعوے کی سچائی کو ثابت کیا ہے کسی بھی پہلو سے ثابت کیا ہے وہاں دلیل سے ثابت کیا ہے، اس لئے کوئی کمپلیکس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ضرورت ہے تو ہمیں دینی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح انصر عباس بھٹی صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ آلاڈا (Alada) ریجن کے گاؤں لوکولی (Lokoli) میں جلسہ نومبائعین رکھا اور اس میں دورانِ تقریر لوگوں کو ایک مسلمان کی ذمہ داریاں بتانی شروع کیں۔ جلسے کی اختتامی تقریب کے بعد ایک غیر احمدی مولوی وہاں آیا اور لوگوں کو بہکانے اور پھسلانے کی کوشش کی کہ اگر تم نے ان لوگوں کومان لیا ہے، یہ جولو گ احمدی ہیں تم سب نے آگ میں چلے جانا ہے۔ یہ سب لوگ جہنمی ہو جائیں گے۔ فوراً توبہ کا اعلان کرو اُس نے کہا کہ تمام ائمہ مسلمہ ان کو جہنمی قرار دیتے ہیں (مسلمان علماء جو ہیں، پڑھے لکھے لوگ جو ہیں، امام جو ہیں، اور مسلمانوں کے جولیڈر ہیں، وہ احمدیوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں) تو تم کس جہنم میں گرنے لگے ہو؟ یا گر گئے ہو۔ تم لوگ سب ان لوگوں کے ساتھ جہنمی ہو جاؤ گے۔ پھر کہنے لگا کہ پاکستان کے مسلمان ان کو پسندنہیں کرتے، وہاں بھی ان کو غیر مسلم قرار دیا گیاہے۔ اس پر ہمارے معلم صاحب نے سارے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مولوی صاحب ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان کی عزت کرتے ہوئے ان سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کیا خدا کے پاک کلام قرآن کریم سے یہ ثابت کر سکتے ہیں؟ کیا قرآنِ کریم اس کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن کو بنیاد بنا کر ہم بات کرتے ہیں۔ اگر قرآن ان کا ساتھ دیتا ہے تو ہم سب ان کی بات مان لیں گے۔ ہاں اگر قرآن ہمارے ساتھ رہتا ہے تو پھر ہم قرآن کو نہیں چھوڑ سکتے۔ تو یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مولوی صاحب جھٹ بولے، کہنے لگے کہ قرآن کو کیوں لیں۔ بینن کے تمام ائمہ آپ کو غلط کہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ غلط ہیں بس کافی ہیں غلط ہیں کوئی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ لوگ جہنمی ہیں (دیکھیں خود ہی فیصلہ کردیا۔ گویاخدا بن بیٹھے ہیں)۔ اس کو دیکھ کر ہمارے نومبائعین جو تھے وہ جوش میں آ گئے۔ وہاں اکثریت نومبائعین کی تھی کہ اگر تمہیں قرآن کی ضرورت نہیں ہے تو ہمیں تمہاری بھی ضرورت نہیں ہے اور یہاں سے نکل جاؤ اور اُسے مسجد سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ ہمارے معلم صاحب نے بڑا اُن کو سمجھایا کہ یہ ہماری جگہ پر آئے ہیں ذرا تحمل سے، ذرا برداشت سے کام لو، اخلاق سے کام لو، یہ طریق اچھا نہیں ہے لیکن لوگوں میں اس بات کو سُن کر اتنا جوش پیدا ہوا کہ اُنہوں نے اُس مولوی کو مسجد سے نکال دیا۔

تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ہی ملاؤں اور نام نہاد علماء کا طریق چلا آرہا ہے۔ پرانے واقعات بھی کئی ایسے ملتے ہیں کہ جب احمدی قرآن کے ذریعہ سے کوئی دلیل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آیات کے ذریعہ سے، تو ہمیشہ یہ لوگ حدیث اور دوسری باتوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ حدیثیں جن کی اپنی مرضی سے interpretation کرتے ہیں یا دوسرے علماء کی باتیں۔ ایک صحابی کا پرانا واقعہ بھی اس طرح ہی ملتا ہے کہ انہوں نے جب بیعت کی ہے تو ایک بڑے عالم کو انہوں نے کہا کہ میں نے احمدی مولوی صاحب کو اس بات پر منا لیا ہے کہ وہ قرآنِ کریم سے وفاتِ مسیح ثابت کر دیں۔ وہ عالم صاحب کہنے لگے کہ میں ان لوگوں کو کھینچ کھینچ کر قرآن سے باہر لا رہا ہوں، دوسری طرف لے کر جا رہا ہوں، تم اُنہیں پھر اُسی طرف لے آئے ہو، قرآنِ کریم سے تو ہم حیاتِ مسیح ثابت ہی نہیں کرسکتے۔ تو یہ تو ان کے پرانے طریقے کار ہیں۔

(ماخوذ از تذکرۃ المہدی مولفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ155تا158مطبوعہ قادیان ایڈیشن1915ء)

انصر عباس صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ آجاجی ذنبومے (Ndjadji Zimbomy) میں 12؍جولائی 2011ء نمازِ مغرب کے بعد تبلیغی پروگرام شروع ہوا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور آپ کے ذریعے سے اسلام کی ترقی بتائی گئی تو گاؤں والوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم بھی اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، وہیں جانا چاہتے ہیں جہاں اسلام کی ترقی ہو رہی ہے۔ جن کے ذریعہ سے اسلام کی ترقی ہو رہی ہے، چنانچہ اُس مجلس میں 167افراد نے بیعت کی توفیق پائی۔ تو واپس جانے سے قبل ہمارے مربی صاحب نے، معلم نے کہا کہ ہم پرسوں آئیں گے کیونکہ پرسوں جمعہ کا دن ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ جمعہ پڑھیں گے۔ یہ لوگ جنہوں نے بیعت کی یہ لوگ پہلے مسلمان تھے اور ان کی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ جب ہم نے کہا کہ پرسوں آئیں گے اور جمعہ پڑھیں گے، تو اس بات پر گاؤں والوں نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ جمعہ کیا ہوتا ہے؟ ہم نے توکبھی جمعہ نہیں دیکھا، نہ کبھی پڑھا ہے، پندرہ سال سے ہم مسلمان ہیں، آج تک کسی مولوی نے ہمارے کسی بڑے مذہبی لیڈر نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جمعہ بھی پڑھا جاتا ہے۔ چنانچہ جمعہ والے دن وہاں جا کر جمعہ پڑھایا گیا۔ پھر ان لوگوں کا ریفریشر کورس بھی کیا۔ اُنہیں سمجھایا گیا کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے، جمعہ کیا ہے؟ نماز کیا ہے؟ عیدین کیا ہیں؟ باقی کیا عبادتیں ہیں؟قرآنِ کریم کی کیا تعلیم ہے؟ بلکہ یہ لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ والے گاؤں میں بھی لوگ احمدی ہوئے تھے، اُنہیں بھی یہاں جمعہ پڑھنے کا کہا گیا کہ اگلی دفعہ یہاں جمعہ آ کر پڑھیں تو یہ جواب ملا کہ ہمارے سالہا سال سے ان گاؤں والوں سے اختلافات چل رہے ہیں۔ (پہلے گاؤں میں جہاں 167 آدمی بیعت کر کے شامل ہوئے، اُن سے ہمارے اختلافات چل رہے ہیں) نہ ہم کبھی وہاں گئے ہیں اور نہ ہی یہاں اُن کا آنا ہم پسند کرتے ہیں۔ دونوں گاؤں کے بڑے پرانے اختلافات تھے۔ پھر دونوں گاؤں والوں کو جو احمدی ہوئے تھے الگ الگ کر کر سمجھایا گیا کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں، احمدی ہونے سے ہمارے اختلافات ختم ہو گئے ہیں، آج ہم دوبارہ ایک ہو گئے ہیں اور ہمیں ایک ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو ہر ایک کوجمع کرنے آئے ہیں، اکٹھا کرنے آئے ہیں، ایک بنانے کے لئے آئے تھے تا کہ ہم مسلمان ایک ہو کر اسلام کی ترقی کے لئے آگے بڑھیں اور اس لئے بہر حال ہمیں اکٹھا ہونا چاہئے اور مل کے جمعہ پڑھنا چاہئے۔ چنانچہ دونوں پہ اس کا اثر ہوااورجو مدتوں کے بچھڑے ہوئے تھے آپس میں لڑائیاں تھیں ہو سکتا ہے قبائلی لڑائیاں ہوں جمعہ کے ذریعہ پھر مل گئے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جماعت کے ذریعہ سے یوم الجمعہ کا مضمون بھی ایک نئے طریقے سے پورا ہوا۔ پندرہ سال کے بعد ان لوگوں نے جمعہ پڑھا اور پھر اس جمعہ کی برکت سے دونوں گاؤں کے آپس کی رنجشیں بھی ختم ہو گئیں۔ بس جب یہ باتیں ہوتی ہیں تو پھرصرف رنجشیں ختم نہیں ہوتیں، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا ایک مضمون شروع ہوتا ہے۔ پھر ایک دوسرے کی خاطر رحم کے جذبات اُبھرتے ہیں، قربانی کے جذبات اُبھرتے ہیں اور یہی ایک مومن کی شان ہے اور یہی وہ پاک تبدیلیاں ہیں جن کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2021