• 13 مئی, 2025

افضال الٰہی اور اس کی رحمتیں

سورۃ النور کے آغاز پر اللہ تعالیٰ نے چار مقامات پر یکے بعد دیگرے فضل اور رحمت کے نزول کا ذکر یوں کیا ہے:

1۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتے ۔۔۔ (تو تمہارا کیا بنتا)

(النور:11۔ ترجمہ ازحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)

2۔ اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتے تو اس (فتنہ) کے نتیجہ میں جس میں تم پڑ گئے تھے ضرور تمہیں ایک بہت بڑا عذاب آلیتا۔

(النور:15۔ ترجمہ ازحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)

3۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتے ۔۔۔(تو تم میں بے حیائی پھیل جاتی)

(النور:21۔ ترجمہ ازحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)

4۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتے تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہوسکتا۔

(النور:22۔ ترجمہ ازحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)

ان کے علاوہ قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر فضل اور رحمت کا ذکر فرمایا ہے۔ اکثر مقامات پر فضل کو رحمت پر ترجیح دی ہے۔ جس میں سورۃ النور کے مندرجہ بالا چار مقامات شامل ہیں۔ اور سورۃ النساء میں اللہ اور رسول کی اطاعت کی وجہ سے درجہ انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ملنے کا ذکر ہے وہاں بھی اِسے اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل قرار دیا ہے۔ نیز سورۃ الجمعہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کی پیشگوئی کے ساتھ فضل کا ذکر ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں جہاں فضل اور رحمت کا ذکر فرمایا ہے وہاں اکثر مقامات پر فضل کو رحمت پر فوقیت دی ہے۔ سورۃ النور کے مندرجہ بالا چار مقامات کے علاوہ دیکھیں۔ البقرہ:65، النساء:84، 114، یونس:59 وغیرہ وغیرہ۔

احادیث میں بھی آنحضرت ﷺ نے اکثر مقامات پر فضل کو رحمت پر فوقیت دی ہے۔ ہاں جہاں رحمت کا ذکر ہے یا رحمت کا فضل سے قبل ذکر ہے وہاں ایک انسان کی محنت، اس کے عمل سے رحمت کو جذب کرنے کا ذکرملتا ہے۔ جیسے آیت استخلاف کے بعد خلافت کے دوام کو نماز، زکوٰۃ اور اطاعت سے مشروط کیا ہے وہاں فرمایا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں سات مقامات پر لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ کا ذکر ہے۔ وہاں اس رحم کو انسان کے نیک اعمال سے باندھا گیا ہے۔ جیسے سورۃ الاعراف کی آیت 205 میں مومنوں کو نصیحت یہ کی گئی کہ قرآن پڑھے جانے کے وقت اُسے خاموش رہ کر سُنو تا تم پر رحم کیا جائے۔

پھر سورۃ الانعام آیت 156 میں بابرکت کتاب کی پیروی کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین ہے تا تم پر رحم کیا جائے۔

سورۃ الحجرات جو حقوق العباد اور ماحول میں بسنے والے لوگوں سے حسن سلوک کے احکام لئے ہوئے ہےمیں لکھا ہے: فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (الحجرات:11) کہ بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور تقویٰ اختیار کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔

اس مضمون کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کا عمل اس کو جنّت میں داخل نهیں کرے گا اور آگ سے نجات نہیں دے گا سوائے اس کے کہ اللہ کی رحمت نازل نہ ہو۔ صحابہ ؓ نے آقا رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا۔ آپ کے اعمال بھی نہیں! تو آپ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں بھی۔ جب تک اللہ کی رحمت مجھے ڈھانپ نہ لے۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل)

ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ اور حضرت مرزا شریف احمد ؓ کے مابین اس بات پر جھگڑا ہوا کہ دولت اچھی ہے یا علم۔ اسی دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہاں سے گزر ہوا اور آپؑ نے دونوں بھائیوں میں ہونے والی گفتگو سُن کر فرمایا کہ نہ دولت اچھی ہے نہ علم، اللہ کا فضل اچھا ہے۔

تو گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک مومن کے اعمال رحمت کو جذب کرنے کا موجب ہوتے ہیں اور یہ رحمت اللہ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل انسان پر نازل ہوتا ہے جس کی بدولت وہ نیک اعمال بجالاتا ہے جو رحمت کو جذب کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی نماز جمعہ کے بعد اللہ کے فضل کی جستجو کرنے کے لئے کاروبار پر جانے کا حکم دیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’گناہوں سے بچنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اُس کی توفیق شامل حال نہ ہو اور اُس کا فضل عطا نہ ہو اور یہ توفیق اور فضل دُعا سے ملتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ394)

پھر فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھاؤ ورنہ نکمّی شے کی طرح تم پھینک دیئے جاؤ گے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ400)

پھر گناہ اور اس کے علاج کو نہایت اچھوتے انداز میں یوں بیان فرمایا:
’’اس وقت جیسے طاعون پھیلی ہے اور سوائے خدا کے فضل کے نجات نہیں۔ اسی طرح گناہ کی طاعون ہے اور اس سے بچنے کے لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے۔ جیسے جسمانی حالت اور قویٰ میں دیکھا جاتا ہے۔ کسی کی کوئی قوت کمزور ہوتی ہے اور کسی کی کوئی ۔ یہی حال گناہوں کا ہے کہ بعض انسان خاص گناہوں کے ترک میں کمزور۔ پس جس گناہ کے چھوڑنے میں جو اپنے آپ کو کمزور پاوے اس کو نشانہ بنا کر دُعا کرے تو اُسے فضلِ خدا سے قوت عطا ہو گی۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ414)

پھر ایک موقع پر فرمایا:
’’بیمار اگر طبیب کی پوری اطاعت نہیں کرتا تو اس سے کیا فائدہ؟ ایک عارضہ تو نہیں تو دوسرا اس کو لگ جائے گا اور وہ اس طرح پر تباہ اور ہلاک ہو گا۔ دنیا میں اس قدر آفتوں سے انسان گھرا ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو اور اس کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو تو پھر سخت خطرہ کی حالت ہے۔ پنجابی میں بھی ایک مصرعہ مشہورہے ؏ جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو۔ یہ مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ ہی کا ترجمہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ378)

اللہ تعالیٰ کے ہم پر نازل ہونے والے فضلوں کو بار بار یاد کر کے اُس اللہ کے شکر گزار بندے بننے کی ضرورت ہے تا ہم افضال کو پہلے سے بڑھ کر سمیٹنے والے ہوں۔ انفرادی طور پر بھی اور من حیث الجماعت بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2021