• 26 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 29)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 29)

الاخبار نے اپنی اشاعت 26 جولائی 2006ء صفحہ11 پر خاکسار کا عربی میں ایک مضمون بعنوان حقیقۃ الجہاد خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

نوٹ: جیسا کہ ازیں قبل بتایا گیا ہے کہ جہاد کے بارے میں مسلمانوں کا غلط تصور اور پھر جہاد کے غلط معانی اور مسلمانوں کے طرز عمل نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں مسلمانوں میں جہاد کے معنی کی غلط تفسیر ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہے وہاں پر اس وجہ سے غیرمسلموں میں بھی وہی اثر پایا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا تمغہ پہناتے تھکتے نہیں۔ مسلمان ملکوں میں تو یہ بات پائی ہی جاتی ہے غیرمسلم ممالک میں جہاں جہاں مسلمان آکر آباد ہوئے یہ جہاد کے غلط معانی اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔ چنانچہ امریکہ کے بعض حصوں میں مثلاً عربوں کی بہت بڑی آبادی ہے لاس اینجلس، نیویارک اور شکاگو کے علاقوں میں۔ یہاں پر ان کے اخبارات بھی کثیر تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور تجارت میں بھی ان کا بہت اچھا ہولڈ ہے۔ جس میں مسلمان عرب بھی ہیں اور مسلمانوں کی نسبت عیسائی بھی بہت زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ صرف امریکن لوگوں کا ہی سوال نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا اور دوسری قوموں تک پہنچنے میں اخبارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لحاظ سے عربوں میں جو جہاد کے بارے میں خواہ مسلمان ہوں یا عیسائی بھی غلط تصور پایا جاتا ہے۔ خصوصاً 9/11 کے بعد تو بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ لاس اینجلس کے علاقہ میں جتنے بھی عرب اخبارات ہیں خاکسار نے حتی الوسع ان سب سے رابطہ کی پوری پوری کوشش کی اور خداتعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک کامیابی بھی ہوئی جس کا کچھ ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ جہاد کے بارے میں خاکسار نے جو مضمون لکھا تھا اس کا عربی ترجمہ مکرم عابد ادلبی صاحب نے کیا جو اس اخبار نے شائع کیا۔

اس مضمون میں خاکسار نے جہاد کی اقسام، قرآن کریم سے اور جہاد کے لغوی معنی اور اس زمانے میں کس قسم کا جہاد ہمیں کرنا چاہئے نیز آنحضرت ﷺ کی جنگیں صرف اور صرف دفاعی جنگیں تھیں۔ نیز مضمون میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ دین کے معاملہ میں جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ جبر نہیں ہے۔ ہر شخص کو جو چاہے وہ دین اختیار کرے۔ پوری آزادی ہے کیونکہ دین بندے اور خدا کے درمیان ہے۔

’چینو چیمپئن‘ اخبار نے اپنی اشاعت میں ’’مسلم اجتماع‘‘ کے عنوان سے مختصراً خبردی کہ احمدیہ مسلم نوجوانوں نے اپنا ریجنل اجتماع سین ہوزے میں 27-28 مئی کو منعقد کیا جس میں 150 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں علمی ورزشی مقابلہ جات بھی ہوئے۔ امام شمشاد ناصر مشنری ویسٹ کوسٹ نے اجتماع کے آخر پر اپنے ریمارکس دیئے۔

’اردو لنک‘ نے اپنی اشاعت 28 جولائی تا 3 اگست 2006ء صفحہ 6پر ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کا مضمون قرآن کریم کے محاسن، فضائل اور برکات کی اگلی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے اسلام کے ایک اہم رکن زکوٰۃ کی اہمیت کے بارے میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عبادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں پر حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اور اس کے لئے زکوٰۃ کا نظام بھی رکھا ہے۔ خاکسار نے قرآن کریم کی 6 آیات مع ترجمہ درج کی ہیں جن میں زکوٰۃ کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ پھر اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔

اس ضمن یں چند احادیث کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً حضرت معاذ کو جب یمن بھجوایا گیا تو آپؐ نے ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ ان کو توحید کی دعوت دیں، پانچ نمازیں اور پھر ان کے اموال پر زکوٰۃ ہے جو دولتمندوں سے لے کر غرباء کو دی جائے گی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ صدیق کے نزدیک زکوٰۃ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ آپؓ نے فرمایا تھا خدا کی قسم جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے لڑوں گا۔

مضمون کے آخر میں زکوٰۃ اور انکم ٹیکس کے فرق کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

’انڈیا ویسٹ‘ نے اپنی اشاعت 28 جولائی 2006ء میں C-34 پر کمیونٹی بریف سیکشن میں ہماری ایک مختصرا ً خبر دی جس کا عنوان ہے احمدی مسلم نوجوانوں کا اجتماع‘‘

اخبار نے لکھا کہ احمدیہ مسلم نوجوانوں نے (خدام الاحمدیہ) اپنا سالانہ اجتماع سین ہوزے میں منعقد کیا جس میں 150 سے زائد نوجوان شامل ہوئے جن میں نیشنل آفس ہولڈرز برائے یوتھ بھی تھے مثلاً محمود قریشی نائب صدر خدام الاحمدیہ یو ایس اے، کلیم احمد، معاون صدر نعیم محمد، امام ارشاد ملہی اور شمشاد ناصر۔

اخبار نے مزید لکھا کہ اجتماع کے موقعہ پر نوجوانوں کے علمی و ورزشی مقابلہ جات بھی ہوئے۔ شام کو ایک سوال جواب کی مجلس بھی ہوئی جس میں جہاد اور پیدائش کائنات کے بارے میں سوال تھے۔ ناصر نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ ہمیں نظم و ضبط اختیار کرنا چاہئے اور پانچ وقت کی نمازیں بروقت ادا کرنی چاہئیں اس کے علاوہ سوسائٹی میں امن کے قیام کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور یہ کہ سیٹیلائٹ کے ذریعہ MTA دیکھیں۔

’چینو ہلز‘ نیوز نے اپنی اشاعت 29 جولائی 2006ء میں صفحہ پانچ پر ہمارے بین المذاہب کانفرنس کی خبر دی۔ خبر میں لکھا گیا ہے کہ احمدیہ مسجد بیت الحمید میں 19 جون کو پادری جائس کرک مور اپنے پیروکاروں کے ساتھ آئیں۔ ہر دو مذاہب کے لوگوں نے آپس میں تعارف حاصل کیا۔ پادری محترمہ نے تقریر کرتے ہوئے مذہب عیسائیت اور اپنے چرچ کے عقائد کا تذکرہ کیا۔ امام شمشاد نے احمدیہ مسلم جماعت کا تعارف کرایا اور بتایا کہ ہماری جماعت وہ ہے جس کی بنیاد اس زمانے کے موعود ریفارمر نے رکھی جس کا انتظار آخری زمانے میں سب مذاہب کر رہے ہیں۔ اور یہ بانی اسلام محمد ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ظہور ہوا۔

’چینو چیمپئن‘ نے اپنی اشاعت 29 جولائی تا 4 اگست 2006ء میں صفحہ C-5 پر ایک مختصراً خبر دی ہے جس کا عنوان ہے۔ مذاہب کی آپس میں میٹنگ۔‘‘

اخبار نے لکھا کہ 19 جون کو مسجد بیت الحمید آف احمدیہ مسلم کمیونٹی میں ایک چرچ کی پادری محترمہ جائس کرک مور اپنے لوگوں کے ساتھ تشریف لائیں۔ اس موقعہ پر انہوں نے عیسائیت کے عقائد بیان کئے اور اپنے لوگوں کا تعارف کرایا۔ امام شمشاد ناصر نے بھی جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعارف کرایا اور بتایا کہ جماعت احمدیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ آخری زمانے میں جس ریفارمر نے آنا تھا وہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آچکا ہے اور وہ بانی جماعت احمدیہ ہیں۔ جن کا دیگر تمام مذاہب آخری زمانے میں انتظار کر رہے ہیں۔

’دی اورنج کونٹی رجسٹر‘ نے اپنی اشاعت 30 جولائی بروز اتوار 2006ء ورلڈ نیوز میں 3 تصاویر کے ساتھ خبر لگائی ہے۔ ایک تصویر میں ’’جامع مسجد نور‘‘ کے باہر کچھ لوگ نظر آرہے ہیں۔ تصویر کے نیچے لکھا ہواہے کہ پاکستانی دیہاتی مسجد نور کے باہر ملاں کی تقریر سن رہے ہیں جنہوں نے گاؤں میں مسجد احمدیہ کو مسمار کر دیا ہے یہ گاؤں جندو ساہی ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔

دوسری تصویر میں جماعت احمدیہ کی تباہ شدہ مسجد دکھائی گئی ہے اور تیسری تصویر میں جماعت احمدیہ کے افراد ہیں جنہوں نے جندوساہی میں واقعہ کے بعد چناب نگر میں پناہ لی ہے۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ : قرآن جلنے کی اطلاع پر پاکستان میں حالات تناؤ کا شکار ہو گئے۔ پاکستان کے گاؤں جندوساہی میں ہجوم قرآن پاک کی بےحرمتی کی خبر ملنے پر ڈنڈے اور مختلف قسم کے اوزاروں سے لیس ہو کر ایک بچے قاسم محمد کو مارنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ جبکہ قاسم محمد کو اس واقعہ کا کوئی علم نہیں تھا۔ اس پر یہ الزام اس وجہ سے لگا تھا کہ اس کا تعلق مسلمانوں کے ایک خاص فرقہ سے تھا۔ لیکن مشتعل ہجوم نے اس کے باپ کی دکان، کئی احمدی گھر اور ٹریکٹر تباہ کر دیئے اور احمدیہ مسجد کو بھی گرا دیا گیا۔

13 سالہ قاسم محمد جانتا تھا کہ اس کو وہاں سے نکلنا ہو گا۔ وہ بھاگا اور ایک دوست کے گھر میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر اس کو گھر میں داخل نہ ہونے دیا گیا اور ایک اور گھر میں ایک چارپائی کے نیچے گھنٹوں چھپا رہا جبکہ ہجوم باہر اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔

احمدی جو کہ پاکستان میں 3 ملین اور پوری دنیا میں تقریباً 200 ملین ہیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ پر یقین رکھتے ہیں جو کہ 1908ء میں وفات پا گئے۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اللہ کے نبی ہیں۔ احمدی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں 1974ء کے آئین میں تبدیلی کر کے احمدیوں کو غیرمسلم سمجھا جاتا ہے۔

اخبار نے لکھا کہ اس متعلقہ گاؤں میں جو کہ لاہور کے مشرق میں ہے اور 20000 کے افراد پر مشتمل ہے۔ ہجوم نے الزام لگایا کہ احمدی جو کہ 100 کے قریب ہیں نے قرآن کو جلایا جب کہ حمدیوں نے اس بات کی تردید کی ہے۔

احمدیوں نے کہا کہ مسجد کی صفائی کے دوران انہوں نے کچھ میگزین جلائے جبکہ مخالفین احمدیت نے خود قرآن کو جلا کر جماعت احمدیہ پر الزام لگانے کی خاطر ایسا کیا۔

24 جون کو پولیس نے قاسم محمد اور ان کے والد کو اپنی حراست میں لے لیا۔ اس کےعلاوہ تین احمدیوں کو بھی قرآن پاک جلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ احمدیوں کا کہنا ہے کہ ان کو پاکستان میں تبلیغ کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہہ سکتے ہیں۔ اور پاسپورٹ بناتے وقت اس بات پر دستخط لئے جاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا بانی ایک جعلی نبی ہے (اور اگر دستخط نہ کئے جائیں اور پاسپورٹ پر مذاہب اسلام نہیں لکھا جا سکتا)

عاصمہ جہانگیر جو کہ ایک غیرسرکاری حقوق انسانیت کی تنظیم چلا رہی ہیں کا کہنا ہے کہ احمدیوں کی Persecution ہو رہی ہے اور ان کو گورنمنٹ کی مدد کی ضرورت ہے۔

احمدی احباب کا موقف ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کو نبی کریمؐ کی اتباع میں غیر شرعی نبی مانتے ہیں۔

اورنج کاؤنٹی رجسٹر نے پاکستان میں ایک گاؤں کے احمدیوں کی ربوہ چناب نگر میں پناہ گزین ہونے کی خبر شائع کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ: گاؤں کے احمدی فرقہ کے لوگوں نے لاہور کے قریب چناب نگر میں پناہ حاصل کی۔ احمدی افراد کا کہنا تھا کہ یہ مولوی حضرات کے جھوٹ پر مبنی الزامات ہیں جن کو درگزر کرنے کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے۔

احمدی جو جندوساہی سے ہجرت کر کے آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گاؤں کی مساجد میں یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ اگر کوئی احمدی بھی واپس آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ گاؤں کے سب لوگ تاہم ایسے نہیں ہیں۔

اس نے یہ بھی بتایا کہ دو یا تین دن بعد گاؤں کے مولویوں نے گاؤں کے باہر سے ایک اور مولوی کو دعوت دی اور کہا کہ آؤ اکٹھے ہو کر احمدیوں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔

ریاض الحسن فریدی ایک مولوی نے کہا کہ اگر پولیس نہ آتی تو احمدی مارے جاچکے ہوتے۔ اس نے کہا کہ ہمیں قرآن کے جلانے پر انصاف چاہئے۔ لوکل کونسلر چوہدری غلام باری نے معاملہ کو کچھ سنبھالا اور کہا کہ اگر احمدی اپنے مخالفین پر اس سارے فتنہ انگیزی کا مقدمہ نہ کریں تو حالات کچھ نارمل ہو سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر احمدی ان پر Charges لگائیں گے تو پھر اس سے ملتے جلتے حملے اردگرد کے دیہاتوں میں احمدیوں پر ہونا شروع ہو اجائیں گے اور سارے پاکستان میں بھی ایسے ہی ہو گا۔

پاکستان نیوز نے اپنی اشاعت میں جولائی 2006ء صفحہ 7 پر ایک تصویر کے مختصراً خبر دی ہے۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے سان ہوزے کیلیفورنیا میں آٹھویں سالانہ قرآن کانفرنس کے موقعہ پر شرکاء خطاب کر رہے ہیں۔ جس میں مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر، واشنگٹن سے ڈاکٹر ظہیر الدین منصور اور فلادلفیا سے برادر منیر حامد نے خصوصی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں 250 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔

تصویر میں رشید رینو صاحب پورٹ لینڈ، برادر منیر حامد (مرحوم) نائب امیر امریکہ، ارشاد ملہی صاحب مشنری سان فرانسسکو، ڈاکٹر ظہیر الدین منصور اور خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقاریر کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سامعین بیٹھے ہیں۔

اردو لنک نے 15 سے 21 ستمبر 2006ء کی اشاعت میں کمیونٹی کے تحت ہماری ایک خبر دی ہے۔ اس خبر کا عنوان یہ ہے

انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ مرزا مسرور احمد

اخبار لکھتا ہے: ورجینیا (پ ر) احمدیہ قادیانی کمیونٹی کے زیر اہتمام ڈلس ایکسپو سنٹر پر سالانہ اجتماع (جلسہ سالانہ میں امریکہ، کینیڈا، اور دیگر ممالک سے تقریباً 6 ہزار مندوبین شریک ہوئے۔ قادیانی کمیونٹی کا نعرہ ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اجتماع کے موقعہ پر اسلام اور جہاد کے موضوع پر تقاریر ہوئیں اور امریکی عوام کو بتایا گیا کہ قادیانی جماعت معتدل مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جماعت کے اجتماع میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی، اجتماع سے سیٹیلائٹ کے ذریعہ لندن سے خطاب کرتے ہوئے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا مسرور احمد نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑا جہاد ہے‘‘ انہوں نے گزشتہ سمندری طوفان اور زلزلوں کے مواقع پر جماعت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ قادیانی جماعت کی بنیاد 1889ء میں مرزا غلام احمد آف قادیان نے رکھی تھی اور آج دنیا بھر میں قادیانی جماعت کے لاکھوں ارکان موجود ہیں۔‘‘

اردو لنک نے اپنی اشاعت 15 تا 21 ستمبر 2006ء صفحہ 6 پر ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کا ایک مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے

اسلامی عبادات کا اہم رکن۔ روزہ

اس مضمون میں خاکسار نے روزہ کی غرض کہ یہ اصلاح نفس کا ذریعہ ہے جیسا کہ قرآن مجید کی سورۃ البقرہ 2:184 میں ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ یعنی انسان خدا کی خاطر ہر ایک چیز چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے۔

ایک حدیث نبوی بھی درج ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص روزنہ میں جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مضمون میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ روزے کس پر فرض ہیں نیز اخبار نے مضمون کے ایک حصہ کو جلی حروف میں درج کیا اور وہ یہ ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینہ کو ایک اہم اور بابرکت مہینہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کے نزول کا آغاز اس مہینہ میں ہوا جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ

(سورۃالبقرہ:186)

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا اذا جاء رمضان فتحت ابواب الجنۃ و غلقت ابواب النار و صفدت الشیاطین (بخاری کتاب الصوم) یعنی جب رمضان کا بابرکت مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروزے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

اردو لنک کی اشاعت 22 تا 28 ستمبر 2006ء صفحہ6 پر ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان ہے۔ رمضان المبارک سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے؟

اس مضمون میں جو کہ اخبار کے قریباً پون صفحہ پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ ہے شائع ہوا۔ مندرجہ ذیل باتیں لکھی گئی ہیں:

1۔ جنت رمضان کے استقبال کے لئے ایک سال سے دوسرے سال تک سجائی جاتی ہے۔ (حدیث)
2 ۔ دو شخص بڑے ہی بدقسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرے وہ جس نےو الدین کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ جا سکا۔ حدیث
3 ۔ نماز باجماعت کا قیام کریں۔
4۔ تلاوت قرآن کریم روزانہ۔
5۔ نماز تہجد ادا کریں یعنی قیام اللیل کریں۔
6۔ نماز تراویح میں شمولیت اختیار کریں۔
7۔ دعائیں کریں، دعائیں کریں، دعائیں کریں۔ اس میں خاص طور پر یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔ اور آیت کریمہ میرے بندوں کو بتا دو میں قریب ہوں اور دعائیں قبول کرتا ہوں۔
8۔ افطاری کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس وقت کو بے کار باتوںاور گپ شپ میں ضائع نہ کیا جائے۔
9۔ ذکرِ الٰہی، توبہ او استغفار اور درود شریف کثڑت سے پڑھا جائے۔ (ان سب کی اہمیت و برکات قرآن و حدیث سے بیان کی گئی ہے۔)
10۔ قرآن کریم کی دعائیں اور احادیث نبویہ ﷺ سے کچھ دعائیں مع اردو ترجمہ بھی لکھی گئی ہیں۔ (جاری ہے)

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 7 تا13 اکتوبر 2006 صفحہ C-5 پر مختصراً رمضان المبارک کے بارے میں خبر دی ہے کہ تمام دنیا میں مسلمان رمضان کے مہینہ سے گزررہے ہیں جو کہ 24 ستمبر سے شروع ہوا ہے۔ مسجد بیت الحمید میں روزانہ شام کو درس کے ساتھ افطاری کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ہر شخص کو اس میں شامل ہونے کی دعوت ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 13 اکتوبر 2006ء کو B-40 پر اس عنوان اور تصویر سے خبر دی ہے کہ چینو کی مسجد میں رمضان کا اہتمام۔ تصویر میں احباب کو افطاری کے وقت کھانا کھاتے دکھایا گیا ہے۔

سٹاف رپورٹر کے حوالہ سے خبر میں لکھا گیا ہے کہ رمضان کے شروع ہوتے ہی مسجد بیت الحمید میں رمضان کی عبادات کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں احمدی مسلم جماعت نماز تراویح، درس القرآن کا روزانہ اہتمام کر رہے ہیں جو کہ امام مسجد کی قیادت میں ہو رہا ہے۔

امام شمشاد نےبتایا کہ آجکل رمضان میں وہ سورۃ لقمان کا درس دے رہے ہیں۔ جس میں مسلمانوں کو خاص طور پر تربتی امور کی طرف ہدایت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نمازباجماعت اور بچوں کی تربیت پر بھی اس سورۃ میں بیان ہوا ہے۔ قریباً 120 سے 125 لوگ روزانہ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور ہفتہ و اتوار کے دن 350 سے زائد حاضری ہوتی ہے۔ مسجد کی ہمسائیگی سےبھی غیرمسلم اور بچے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اوروہ اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ہو رہے ہیں۔

اردو لنک نے اپنی اشاعت 13 تا19 اکتوبر 2006ء صفحہ 6 ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کا ایک مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے۔ جمعۃ الوداع یا جمعۃ الاستقبال

اس مضمون میں خاکسار نے جمعہ کی فرضیت اور اہمیت قرآن کریم کی آیت سے واضح کی ہے۔ احادیث نبویہ ﷺ سے جمعہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس ضمن میں 6 احادیث کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے۔ اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جانا ہے۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّم اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔

اس کے بعد مضمون میں جمعہ کی نماز ترک کرنے پر آنحضرت ﷺ کا انذار بھی بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں جمعۃ الوداع یا جمعۃ الاستقبال کے تحت لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں میں ایک غلط تصور پایا جاتا ہے کہ جب رمضان کا آخری جمعہ ہو اس دن مساجد نمازیوں کی کثرت سے چھلک جاتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کا جمعہ ایسا ہے جس میں سب گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگلے رمضان کے آخری جمعے تک اب چھٹی! یہ جمعہ کا تصور بالکل غلط ہے۔

خاکسار نے یہ اس لئے لکھا کہ ہر ایک ’’جمعہ‘‘ کا اہتمام کیا جاے اور اس جمعہ کو جسے آپ الوداع کرنے آئے ہیں جمعۃ الاستقبال بنا دیں تا آپ ائندہ ہر جمعہ کو جمعہ کی ادائیگی کر سکیں۔ مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر بھی ہے۔

پاکستان ٹائمز کیلیفورنیا نے اپنی اشاعت 19 اکتوبر 2006ء میں صفحہ 8 پر خاکسار کا ایک مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا جس کا عنوان ہے۔رمضان المبارک اور عید کا پیغام

مضمون میں رمضان المبارک کے اختتام پر عید منانے کے بارے میں لکھا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے عید کے بارے میں جو ارشادات اور اپنی سنت قائم کی ہے وہ بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً آپ ﷺ نے فرمایا ’’اپنی عیدوں کو خدا کی کبریائی بیان کرتے ہوئے سجاؤ‘‘ عید کی تکبیرات کا بھی ذکر ہے۔ رمضان کا پیغام یہ ہے کہ عبادت الٰہی کی جائے، حقوق العباد کی ادائیگی کی جائے، نماز تہجد اور نوافل کی جو عادت رمضان میں پڑی ہے اس کو جاری رکھیں۔ اور نماز جمعہ کی باقاعدگی سے ادائیگی کریں۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 21 اکتوبر بروز ہفتہ صفحہ A-10 پر خاکسار کا نصف صفحہ سے زائد پر انگریزی میں مضمون شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان یہ ہے:

Counting the ways of God’s blessings during Ramadan.

یعنی رمضان میں خداتعالیٰ کی برکات کس طرح حاصل ہو سکتی ہیں۔

یہ مضمون اردو میں لکھا گیا تھا تاپاکستانی اورانڈین کمیونٹی کے مسلمان رمضان سے فائدہ اٹھا سکیں اور ان سنتّوں کو زندہ کریں جو آنحضرت ﷺ کی سنت تھی کہ آپ رمضان کس طرح گزارتے تھے۔ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ کر کے انگریزی اخباروں میں بھی دیا گیا۔ یہ اخبار ڈیلی بلٹن لاس اینجلس کا دوسرا بڑا اخبار ہے اور ہفتہ و اتوار کو اخبار کی اشاعت عام دنوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہےا ور لوگ زیادہ پڑھتے ہیں۔ اس لئے اس اخبار میں یہ مضمون شائع ہوا۔ درج ذیل امور کی تشریح لکھی گئی۔ اور پوائنٹس بیان کئے گئے۔ 1۔ رمضان کی برکات اور فضیلت۔2۔ نماز باجماعت۔ 3۔تہجد۔ 4 ۔ تراویح کی نماز۔ 5۔ روزانہ تلاوت قرآن کریم۔ 6۔ دعائیں کریں۔ 7۔ ذکرِالٰہی ۔ 8۔توبہ ، استغفار، درود شریف کی کثرت۔ 8۔صدقہ و خیرات مالی قربانی غرباء کا خیال اور ان کی ضرورتوں کو پوری کرنا۔ 9۔فطرانہ کی بروقت ادائیگی۔ 10۔ اعتکاف اور طریق اور اہمیت۔ 11۔لیلۃ القدر کی تلاش۔ 12۔عیدالفطر کیوں منائی جاتی ہے اور کیا طریق ہے۔

آخر میں خاکسار کا نام مسجد کا ایڈریس اور فون درج کیا گیا ہے۔

اردو دلنک نے اپنی اشاعت 26 اکتوبر 2006ء کی اشاعت میں خاکسار کا مضمون بعنوان رمضان المبارک اور عید کا پیغام دو تصاویر کے ساتھ شائع کیا۔ ایک تصویر خاکسار کی ہے دوسری تصویر میں لوگ نماز ادا کر رہے ہیں۔ اس مضمون میں عید کی روح اور اسے کس طرح منانا چاہئے۔ رمضان کا ایک پیغام عبادت الٰہی۔ (جس میں پانچ نمازیں، تہجد، جمعہ کی ادائیگی، نوافل ہیں) دوسرا پیغام خدمتِ خلق اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ عید کے موقعہ پر ضرورت مند افراد کا خاص خیال رکھا جائے۔

نوٹ: اخبارات سے جماعت احمدیہ کے بارے میں پڑھنے سے کالج، یونیورسٹیوں اور سکولز سے اساتذہ، طلباء اور ان کے والدین کے فون کالز بھی آتے ہیں کہ انہیں اسلام کے بارے میں معلومات چاہئیں۔ بعض اوقات اساتذہ او ر پروفیسرز اپنے کالج وغیرہ میں اسلام کے بارے میں لیکچر دینے کے لئے بھی دعوت دیتے ہیں اور بعض اوقات طلباء اور والدین مسجد کا وزٹ بھی کرتے ہیں۔

چنانچہ خاکسار کو علاقہ کے اکثر سکولوں اور کالجوں سے اس قسم کی دعوت ملتی رہی ہے اور وہاں جا کر اسلام کی تعلیمات پر لیکچر دینے کی توفیق بھی ملی۔

Riverside Community College

کا ایک فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ مسٹر مائیکل سی رومیرو نے خاکسار کو شکریہ کا خط لکھا جو افادہ کے لئے درج کیا جارہا ہے۔

Riverside Community College
Imam Shamshad A. Nasir
11941 Ramona Ave
Chino, California 91710
November 14, 2006

Dear Imam Shamshad
Thank you for being a guest speaker in my World Religions classes on November 9th and November 14th of 2006. I really enjoyed your very interesting discussion on the basic concepts and tenets of Islam (e.g., the Five Pillars of Islam). In addition, I appreciated your perspective on how other religions such as Christianity and Judaism share common religious values and ideas with your own religion of Islam. Also, given the students’ comments and questions in class, and your considerate answers to these students’ questions, I really believe that the students have become more aware and understanding of the Islamic religion

I hope in the future, you may visit my World Religions courses again. You are always welcome to come and speak in my classes. Your guest speaking is very helpful in making this class more exciting and engaging for the students

If I can be of any help to you, please do not hesitate to call me at (626) 419-0450.
Thank you very much for your time and efforts

Sincerely
Michael C. Romero
Insturctor- Philosophy Department
Riverside Community College
Norco Campus

اردو لنک۔ اپنی اشاعت 4 جنوری 2007ء کی اشاعت میں صفحہ 7 پر خاکسار کے مضمون ’’اسلام میں عورت کی عظمت احترام اور عزت۔ مغربی معاشرہ میں‘‘ کی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کرتا ہے۔

خاکسار نے اس مضمون کی پہلی قسط میں سب سے پہلے تو تمام قارئین کو نئے سال کی مبارک باد دی ہے اور لکھا ہے کہ ہمارا مہربان خدا اس سال کو سب کے لئے برکتوں، رحمتوں اور کامیابیوں اور خوشیوں کا سال بنا دے۔ گزشتہ کوتاہیوں، غفلتوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں آئندہ سال میں اعمال صالحہ بجا لانے کی توفیق دے جو اس کی رضا اور پیار کا ذریعہ ہوں۔

خاکسار نے مزید لکھا کہ نئے سال کے آغاز میں خاکسار نے ایک ایسے مضمون کا انتخاب کیا ہے جو کچھ عرصہ تک چلے گا۔ یہ مضمون اس وجہ سے چنا ہے کہ ہم جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں اور جسے مغربی معاشرہ کہا جاتا ہے اس میں قرآنی تعلیمات سے عورت کی عظمت اور احترام اور عزت کو بیان کیا جائے۔ اور اس طرح پھر عملاً بھی اسے ثابت کریں تا مغربی معاشرے میں اسلام کی برتری ثابت ہو۔

اس وقت موجودہ زمانے میں مغربی اقدار نے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بس سب کچھ یہی ہے اور اسی معاشرہ کی چکاچوند روشنی میں مضمر ہے۔ وہ یا تو بھول رہے ہیں یا جان بوجھ کر بھولے بن رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسلام دجال کے نرغے میں ہے، عیسائیت اور یہودیت ہر دو اسلام پر اپنے دانت تیز کر رہے ہیں اور کوئی تیر بھی ایسا نہیں جو وہ بھولے سے بھی اسلام کے خلاف استعمال نہ کرتے ہوں۔ بلکہ عیسائی معاشرہ اور یہود نواز قومیں کبھی قرآن کی تعلیمات پر حملہ آور ہوتی ہیں تو کہیں آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کو نشانہ بنا رہی ہوتی ہیں۔

خاکسار نے اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آئینہ کمالات اسلام سے یہ عبارت تحریر کی ہے:
’’اس زمانہ میں جو کچھ دینِ اسلام اور رسول ِکریم ﷺ کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں او ربڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آلِ رسول ؐکہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمنِ رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردشنام دہی کی کتابیں نبی کریم ﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو وَاللّٰہِ ثُمَّ وَاللّٰہِ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریمؐ کی گئی دُکھا۔‘‘

خاکسار نے دجالی معاشرہ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ کوئی بھی مجلس غیرمسلموں کے ساتھ ایسی نہیں ہوتی جہاں یہ سوال نہ اٹھایا گیا ہو کہ اسلام نے عورت کو جائز مقام نہیں دیا بلکہ تھرڈ کلاس سیٹیزن سمجھا ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بدقسمتی سے کسی مسلمان خاتون کے خیال میں بھی یہی سوال اٹھا ہو۔

خاکسار نے چینو میں سینٹ پال کیتھولک چرچ کے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ وہاں خاکسار کو اسلام کی تعلیمات بیان کرنے کے لئے بلا لیا گیا تھا۔ وقت صرف پون گھنٹہ تھا مگر دلچسپی اس قدر تھی کہ دو گھنٹے یہ پروگرام جاری رہا۔ خاکسار نے پہلے آنحضرت ﷺ کا تعارف کرایا، پھر قرآن مجید کا، پھر پانچ ارکان اسلام بیان کئے اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک سوال اس چرچ میں یہ کیا گیا کہ
’’آپ مسلمان عورتوں سے اچھا اور صحیح سلوک نہیں کرتے اور انہیں بند رکھتے ہو، انہیں آزادی نہیں دیتے۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘

خاکسار نے اپنے اس مضمون میں وہ جواب بھی لکھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کہ آپ نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ اسلام نے جو آزادی، حقوق، عزت و احترام عورت کو بخشا ہے وہ کسی اور مذہب نے عورت کو نہیں دیا۔

خاکسار نے انہیں پوچھا کہ جس آزادی پر آپ خوش اور نازاں ہیں کیا وہ آزادی آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام نے دی ہے؟ انجیل کے کس باب اور کس آیت میں یہ بات لکھی ہے کہ عورتوں کو یہ آزادی ہو گی اور خصوصاً وہ آزادی جس پر آپ اس وقت نازاں ہیں۔ کیا یہ بائبل کی تعلیم ہے؟ اگر ہے تو کہاں درج ہے؟

آپ تو اپنے کلچر کا میرے مذہب کے ساتھ مقابلہ اور موازنہ کر رہے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ آپ اپنے مذہب کی حسین تعلیم عورتوں کے بارے میں پیش کریں اور پھر اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس کا موازنہ کریں۔ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

خاکسار نے اسی مضمون میں ایک اور واقعہ میری لینڈ کا ذکر کیا کہ وہاں پر چند پادریوں نے ہمیشہ مجھے یہی سوال کیا کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ میٹنگز میں بھی انہیں الگ الگ بٹھایا جاتا ہے۔ مساجد میں بھی انکے لئے الگ الگ جگہ ہے دیگر پارٹیوں میں بھی آپ انہیں الگ رکھتے ہیں وغیرہ۔

میں ہر دفعہ ہر میٹنگ میں انہیں عورتوں کے بارے میں اسلامی تعلیم بتاتا تھا۔ مگر وہ وہیں کے وہیں اور اگلی میٹنگ میں پھر وہی سوال۔ اس طرح کوئی 3-4 مرتبہ ہوا۔ ایک دن پھر خاکسار نے انہیں کہا کہ اگلی میٹنگ میں آپ لوگ اپنے اپنے مذہب (بائبل۔ انجیل) سے عورت کے مقام کو بیان کریں۔ اس پر سب نے بالاتفاق کہا کہ نہیں۔ ایک دو پادریوں نے تو ہنستے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہم بائبل کی تعلیم عورت کے بارے میں بیان کریں تو ہمارا تو چرچ ہی نہیں چلے گا۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللّٰہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2021