• 4 مئی, 2024

انسان کی پیدائش کی علتِ غائی

اس حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پھر آپؑ عبادت کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کی پیدائش کی علتِ غائی یہی عبادت ہے…۔‘‘ (یعنی پیدائش کا مقصد عبادت ہے۔ جیسا کہ پہلے آیت آچکی ہے) فرماتے ہیں کہ ’’عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو دُور کرکے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے۔ عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُعَبَّدٌ۔ جیسے سُرمہ کو باریک کرکے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں۔ اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہوکہ گویا رُوح ہی رُوح ہو اس کا نام عبادت ہے۔ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پید اہوجاتے ہیں۔ پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے، تو اس میں خدانظرآئے گا۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہوکر نشوونما پائیں گے‘‘۔ اگر دل صاف ہو جائے، خالصۃً خدا تعالیٰ کی خاطر سب کچھ کرنے لگ جاؤ، اُسی کو سب کچھ سمجھو، اُسی پر انحصار کرو تو پھر اُس میں خدا نظر آتا ہے اور اُس میں پھر خدا تعالیٰ کی محبت کے درخت نشوونما پائیں گے۔ ’’اور وہ اثمارِ شیریں وطیب ان میں لگیں گے جو اُکُلُھَادَآئِمٌ (الرعد: 36) کے مصداق ہوں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ347 ایڈیشن 2003ء)

پھر دوسری جگہ آپؑ نے اس کی یوں وضاحت فرمائی کہ:
’’حضرتِ عزّت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبتِ ذاتیہ کے ممکن نہیں۔‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک خاص حالت میں عاجزی اور انکساری سے اُسی وقت انسان کھڑا ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ سے ایک خاص ذاتی تعلق اور محبت ہو۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے اور فرمایا ’’اور محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں۔‘‘ جب انسان ایسی محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی محبت کا جواب ملتا ہے ’’تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے، بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ218)

یعنی جب گرج چمک والی بجلی انسان پر گرتی ہے تو وہ جل جاتا ہے۔ انسان خاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح محبت جو ہے یہ ایسی محبت ہونی چاہئے، ایسی آگ ہونی چاہئے، ایسی تپش ہونی چاہئے، رمضان کے بھی ایک معنی تپش اور گرمی ہے، کہ جو انسان کی کمزوریاں ہیں، بد عادتیں ہیں اُن سب کو جلا دے اور تمام وجود پر روحانیت کا قبضہ ہو جائے۔ یہ انسان کا مقصد ہے اور یہ مقصدہے جس کے لئے رمضان کے مہینے میں سے ہمیں گزارا جاتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کی عبادت کایہ معیار ہے جو ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے۔ اور جب یہ معیار حاصل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر غالب آ جاتی ہے تو پھر تمام قسم کے شرکوں سے انسان آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ ایسی عبادت کی توفیق عطا فرمائے کہ اُس کی محبت ہم میں قائم ہو اور وہ دائمی محبت ہو۔

( خطبہ جمعہ 26؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ریجنل فٹ بال لیگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2022