• 3 مئی, 2024

’’ہر احمدی، جماعت کا ایک قیمتی وجود ہے، خدام و اطفال بہت انمول ہیں‘‘

’’ہر احمدی، جماعت کا ایک قیمتی وجود ہے، خدام و اطفال بہت انمول ہیں‘‘
(سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)

گزشتہ سال2021ء کو ہمارے پیارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الا حمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب میں خدام کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا اور دنیا بھر میں نوجوانوں کی قربانیوں، اسلام، ا حمدیت اور خلافت سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر احمدی، جماعت کا ایک قیمتی وجود ہے اور پھر فرمایا خدام و اطفال بہت انمول ہیں۔

ان دو فقرات پر سیر حاصل گفتگو کرنے سے قبل ان دونوں فقرات میں لفظ وجود اور انمول تشریح طلب ہیں۔ لفظ وجود، زندگی، بدن، ذات کو کہتے ہیں اور جماعت کو ایک خاندان تصور کیا جائے تو جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس روحانی خاندان کا ایک قیمتی وجود ہے۔ اور جہاں تک لفظ انمول کے معنی کا تعلق ہے۔ اس کے معنی نایاب، جس کا کوئی مول نہ ہو، لاثانی شے کے ہیں۔ حضور انور نے عنوان بالا کےدوسرے حصہ میں نوجوان طبقے کو ایسی چیز سے تشبیہ دی ہے جس کی کوئی مثیل نہ ہو۔ نوجوان قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بانی مجلس خدام الا حمدیہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نوجوان صحابہؓ کو ایسے صیقل کیا کہ وہ سونے کی ڈلی بن گئے۔ پھر انہوں نے اسلام اور سیدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جان کی قربانیاں بھی دیں اور ان نوجوان صحابہ کے خون نے اسلام کی کھیتی کو سینچا اور اس چمن کی آبیاری کی۔ معوذ و معاذ کی عمر یں آج کے جماعت احمدیہ کی تنظیموں کے خدام و اطفال کے برابر تھیں۔ جنگ بدر میں ایک والد اپنے جوان ہوتے بیٹے کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا کہ حضورؐ ! عمر کے اعتبار سے تو چھوٹی عمر ہے مگر اس کے ہاتھ اور قد کاٹھ دیکھیں نوجوانوں جیسے ہیں۔ ایک والد نے دو بچوں میں کُشتی کروا کر اپنے بچے کو جنگ کے لئے بھجوایا تھا۔ یہ انمول ہیرے تھے جن کی جانی، مالی، اور وقت کی قربانیوں کے بدولت آج اسلام دنیا کے کونے کونے میں نظر آتا ہے۔ رضی اللہ عنہم

یہی کیفیت ہمیں جماعت احمدیہ میں نظر آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جہاں عمر رسیدہ بزرگ ایمان لائے وہاں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے سمعنا و اطعنا کہا اور پانچوں خلافتوں کے مبارک ادوار میں بھی نو جوانوں نے کثرت سے جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ’’سلام‘‘ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو پہنچانے کی سعادت پائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعد میں خلفاء نے ان نوجوانوں کی ایسی کانٹ چھانٹ و تراش کی کہ وہ ہیرے بن کر جماعت احمدیہ کی انگشتری کا نہ صرف حصہ بنے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان اشعار کے مصداق ٹھہرے۔

وہی مئے ان کو ساقی نے پلادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی

انہی مبارک ہستیوں میں آج تک سینکڑوں ایسے نوجوان فدائی شامل ہیں جن کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر انہوں نے اسلام احمدیت پر آنچ نہیں آنے دی۔ انہی میں مکرم عبد السلام شہید اوکاڑہ ایل پلاٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنے 6سالہ اور 3سالہ بیٹوں کے سامنےخنجر کے وار برداشت کرتے ہوئے احمدیت کے نام کا بول بالا کرتے ہوئے اپنی جاں، جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ کئی ایسے جیسے مکرم سمیع اللہ بندیشہ بعمر 30 سال ہسپتال میں گولیوں کے زخم برداشت کرتے نظر آتے ہیں اور دسیوں نوجوان جیلوں کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ان کو احمدیت چھوڑنے کے لالچ دئے گئے مگر انہوں نے احمدیت کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ احمدیت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ یہی وہ شہداء ہیں جن کے خون سے احمدیت کی کھیتی کی آبیاری ہو رہی ہے۔ ان کے لواحقین اور جیلوں میں پڑے نوجوانوں کے عزیزو اقارب کی آنکھوں سے بہنے والے وہ آنسو ہیں جن سے احمدیت کی دھرتی سیراب ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کی عبادات اور قربانیوں کو شیوہ پیغمبری کہا گیا ہے۔ لہٰذا سچ کہا ہمارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کہ خدام و اطفال بہت انمول ہیں۔

قیمتی وجود

جہاں تک اس آرٹیکل کے عنوان ’’ہر احمدی جماعت کا ایک قیمتی وجود ہے‘‘ کا تعلق ہے۔ اس حوالہ سے خاندان اور وجود کا ذکر اوپر کر آیا ہوں۔ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے مادی خاندان کی مثال پیش کروں گا۔ مادی خاندانوں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خاندانوں میں بالعموم کوئی فرد بے کار نہیں ہوتا۔ اس کا کردار کسی نہ کسی طرح خاندان کی فلاح و بہبود کے لئے دکھائی دیتا ہے۔ ایک سربراہ ہوتا ہے اور اس کے نیچے خاندان اور گھرانہ میں دسیوں لوگ نظر آئیں گے۔ وہ تمام لوگ گھرانہ کے سربراہ کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے گھر کے تمام کام کاج جو ان کے سپرد ہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا ہر کوئی کارآمد وجود ہوتا ہے۔ کوئی گھر کی صفائی ستھرائی کر رہا ہے تو کوئی بازار سے سودا سلف لانے میں مصروف ہے۔ کوئی کچن میں کھانا پکاتے نظر آتا ہے۔ تو کوئی دفتر، کاروبار کے لئے باہر گیا ہوا ہے۔ اور کوئی تعلیم حاصل کرنے کالج، یونیورسٹی یا اسکول گیا ہوا ہے۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود ہر کوئی اللہ کے بھی حقوق ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی نماز میں مصروف ہے، تو کوئی قرآن کریم کی تلاوت کررہا ہے اور کوئی گھر یا باہر دعوت الی اللہ میں مصروف عمل نظر آئے گا۔ یعنی خاندان میں کوئی وجود بے کار نہیں ہوتا۔

یہی اصول، جماعت احمدیہ جو ایک روحانی خاندان کی حیثیت رکھتی ہے، میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اس روحانی گھر کے سربراہ ہیں۔ اور دنیا میں بسنے والے کروڑوں بندے اس روحانی گھر کے افراد ہیں۔ ہم اس گھر کی عزت اور وقار ہیں۔ ہمیں اس روحانی گھر کے ان تمام اصولوں پر کاربند رہنا ہے جو اس گھر کی فلاح و بہبود کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے فرائض اسی طرح ادا کرنے ہیں جیسے ہم مادی گھروں میں ادا کرتے ہیں۔ ہمیں سربراہ خاندان خلیفۃ المسیح سے محبت و عقیدت سے نہ صرف پیش آنا ہے بلکہ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر لے کر سمعنا و اطعنا کہنا ہے۔ آپس میں اسی طرح اتحاد و اتفاق ہو اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اس خاندان کے لئے کام کریں جس طرح مادی گھروں میں کرتے ہیں۔ افراد جماعت کی تعلیم و تربیت اور اصلاح احوال کر رہے ہوں اور خاندان کے افراد کو بڑھانے کے لئے دعوت الی اللہ بھی کر رہے ہوں۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے مورخہ 22مئی 2022ء کو مجلس شوریٰ برطانیہ کے نمائندگان سے تبلیغ کرنے اور پیغام حق پہنچانے کی تلقین فرمائی۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو لازماً ہم قیمتی وجود ہیں جماعت احمدیہ کے لئے۔

یہاں ایک اور مضمون بھی ابھرتا ہوا نظر آتا ہے وہ یہ کہ گھروں میں جو قیمتی اشیاء ہوتی ہیں چور ان کو چوری بھی کر لیتے ہیں۔ نقصان بھی پہنچاتے ہیں بلکہ ڈاکو لے بھی جاتے ہیں۔ آج جماعت احمدیہ کا ہر وجود بھی قیمتی ہے اسی لئے تو معاندین کبھی کسی کو شہید کر دیتے ہیں، کبھی جسمانی، کبھی مالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ کبھی جیلوں میں اسیران راہ مولیٰ کے طور پر بند کر دیتے ہیں۔ اس لئے ہمارے امام نے درست فرمایا ’’ہر احمدی، جماعت کا ایک قیمتی وجود ہے۔‘‘

ہمیں اس مقام کی قدر کرتے رہنا چاہئے اور اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہئے۔ اللہ کے حقوق ادا کریں۔ پنجوقتہ نمازیں پڑھیں، تہجد و نوافل ادا کریں۔ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کریں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کریں۔ اللہ کی مخلوق سے پیار کرنے والے ہوں۔ اپنے رشتہ داروں کی تعظیم و عزت کر کے ان سے نہ صرف حسن سلوک کریں بلکہ ان کے حقوق ادا کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق و فرائض کی ادائیگی کرنے والا بنائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ریجنل فٹ بال لیگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2022