• 29 اپریل, 2024

خدا کی خاطر قربانی اور خدا کا سلوک

خدا کی خاطر قربانی اور خدا کا سلوک
(واقف زندگی کی کہانی، خلیفہ کی زبانی)

’’مولوی رحمت علی صاحب مبلغ احمدیت نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس طرح انڈونیشیا میں خدمت اسلام میں کاٹا کہ پیچھے جوان بیوی بوڑھی ہو گئی، اس کے کالے بال سفید ہوگئے اور بچے جوان ہوگئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ ماں سے اپنے ابا کے متعلق پوچھا کرتے اور خصوصیت کے ساتھ ایک بچہ جو چھوٹا تھا وہ اپنی ماں کو تنگ کرتا اور کہتا کہ امی! دوسروں کے ابا آتے ہیں اور ان کے لئے چیزیں لاتے ہیں، میرا ابا کہاں ہے؟ وہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی امی کی آواز بھرا جاتی تھی جس کی وجہ سے بول نہیں سکتی تھیں اور جس طرف بھی وہ انڈونیشیا سمجھا کرتی تھیں اس طرف اشارہ کرکے کہتیں کہ تمہارا ابا اس طرف ہے، وہاں سے کسی وقت آئے گا۔ اس عرصہ میں وہ بچہ جوان ہوگیا اور بچپن میں باپ کی شفقت کا جو سایہ ہوتا ہے اس سے محروم رہ کر جوان ہوا۔ جتنی عظیم الشان قربانی کوئی خاندان خدا کی راہ میں دیتا ہے اسی شان کے فرشتے اس پر نازل ہوا کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں میں ہیں کہ جن کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو خدا کئی دفعہ سچ کر دکھاتا ہے۔ یہ پہلے کہتے ہیں اور خدا کے فرشتوں کو بعد میں ان کی متابعت کا حکم دیا جاتا ہے۔

چنانچہ مولوی رحمت علی صاحب انڈونیشیا میں جس محلہ میں رہائش پذیر تھے وہ سارے کا سارا لکڑی کے مکانوں کا بنا ہوا تھا۔ ایک دفعہ وہاں ایسی خوفناک آگ لگ گئی جو پھیلتے پھیلتے ہوا کے رُخ کے مطابق مولوی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی۔ جماعت کے پریشان حال ممبران وہاں پہنچے اور انکی منتیں کیں کہ مولوی صاحب! آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں۔ کم از کم سامان ہی نکال لیں۔ بعد میں انسان تو جلدی سے بھاگ کر بھی باہر جاسکتا ہے۔ یہ بہت خطرناک آگ ہے جو کسی چیز کو نہیں چھوڑے گی۔ پھر ہوا کا رُخ ایسا ہے کہ لازماً اس نے آپ کے گھر تک پہنچنا ہی پہنچنا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا، اس جگہ کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تو اس آقا کا غلام ہوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ (تذکرہ صفحہ324) اس لئے یہ آگ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتی۔

یہ بھی ایک بہت بڑا دعوٰی تھا، لیکن ایک بہت بڑے مومن کی زبان کا دعوٰی تھا۔ ایک ایسے مومن کی زبان کا دعوٰی تھا جن کے متعلق حضرت محمد ﷺ کی یہ خوشخبری ہے، رُبَّ اَشعَثَ اَغبَرَ۔۔۔۔ لَو اَقسَمَ لَاَبَرَّہٗ (مستدرک حاکم جلد4. صفحہ364) کہ خبردار! خدا کے ایسے درویش بندے بھی ہیں جو پراگندہ بال اور خاک آلود ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ خدا پر قسم کھائیں تو خدا ضرور انکی قسم کو پورا کرتا ہے۔

انڈونیشیا کی تاریخ کا یہ ایک درخشندہ واقعہ ہے کہ وہ آگ بڑھتی رہی اور اس نے سارے مکان جلا دئے، لیکن جب اس کے شعلے مولوی صاحب کے مکان کو چھونے لگے تو اچانک اتنی موسلا دھار بارش آئی کہ دیکھتے دیکھتے وہ شعلے بھسم ہوگئے اور آگ مکان کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکی۔ وہ آگ جو دوسری چیزوں کو بھسم کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے نتیجے میں خود بھسم ہوگئی۔‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیان فرمودہ 11 فروری 1983ء۔ بحوالہ خطبات طاہر، جلد2 صفحہ 79 تا 81)

(مرسلہ: میر ثناء اللہ ناصر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ