• 29 اپریل, 2024

اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید (قسط 3۔ آخری)

اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید
قسط 3۔ آخری

’’اطاعت خلافت کامرانی کی کلید‘‘ اس سلسلے میں قرون آخر کے اصحاب کے چند مزید ایمان افروز واقعات پیش کرنا چاہوں گی۔ 1947ء میں ہندوپاک کی تقسیم ہوئی، پانچ دریائوں کا متحدہ پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ مشرقی پنجاب ہندوستان کے حصہ میں آیا اور مغربی پنجاب پاکستان کے حصہ میں آیا۔ اس خونی تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ایک اندازہ کے مطابق مشرقی پنجاب میں 25-20 لاکھ مسلمانوں کو قتل کروایا گیا۔لاکھوں بچے یتیم ہوئے بہت سے مسلمان اپنے بو ڑھے ماں باپ کو پناہ گزین کیمپوں میں چھوڑ کر بھاگ گئے اور وہ وہاں سسک سسک کر مر گئے۔ ہزاروں مسلمان عورتیں مفسدہ پردازوں اور ان کے فوجیوں نے اغوا کر لیں۔ مسلمانوں کی کم وبیش تمام مساجد، مقابر، خانقاہیں، تباہ و برباد کر دی گئیں۔ (الشاذ کالمعدوم) تقسیم ملک کے ابتدائی سالوں میں مشرقی پنجاب کے ایک دو مقامات کے علاوہ کہیں مسلمان نظر نہ آتا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حالات کے رونما ہونے سے بہت پہلے ان امور کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اور اس کے بدنتائج سے بچنے کے لیے تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ان تیاریوں میں سے حفظ ماتقدم کے طور پر ایک تیاری یہ تھی کہ فوج میں ملازمت کرنے والے احمدیوں کو یہ تحریک کروائی گئی کہ وہ فوجی ملازمت سے استعفیٰ دے کر حفاظت مرکز کے لیے فوراً قادیان پہنچ جائیں۔ چنانچہ تعمیل ارشاد میں سینکڑوں احمدی فوجیوں نے اطاعت کا نمونہ دکھایا اور ملازمت کو خیر آباد کہہ کر قادیان پہنچے۔ ان میں سے بہت سے احمدی فوجیوں کو ان کے افسروں نے سمجھایا کہ تمہاری ملازمت کا عرصہ مکمل ہونے میں صرف ایک ماہ باقی ہے اس وقت تک رک جائو آپ کو پنشن اور دیگر مراعات مل جائیں گی۔ احمدیوں نے جواب دیا ہم ایک دن کے لیےبھی رک نہیں سکتے، ہمارا استعفیٰ منظور کریں، یا نہ کریں، ہم قادیان جا رہے ہیں۔ فو جیوں کے علاوہ بہت سے احمدی رضاکار بھی خدمت کے لیےقادیان پہنچ گئے۔ تقسیم ملک کے خطرناک ایام میں جو خدمات انہوں نے انجام دیں ان کی تفصیل فی الحال بیان کرنے کا موقعہ نہیں۔ صرف اتنابتانا ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعو رضی اللہ عنہ 31 اگست 1947ء کو قادیان سے ہجرت فرما کر لاہور تشریف لے گئے اور آپ نے اپنے ایک اہم پیغام میں فرمایا: ’’اے عزیزو! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا۔ اور اب معلوم ہو گا کہ سچا مومن کون سا ہے، پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمو نہ دکھائو کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں، اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں‘‘

(الفضل 8جون 1948ء صفحہ3)

1947ء کے پُر آشوب زمانہ میں مسجد اقصیٰ قادیان کی مغربی جانب ایک مکان میں چالیس 40عورتیں محصورتھیں، ان کی حفاظت کے لیےانہیں مسجد اقصیٰ میں لانا ضروری تھا۔ باہر کرفیو لگا ہوا تھا مسجد کی مغربی دیوار اور مکان کے درمیان تقریباً 7-8 فٹ چوڑی گلی تھی۔ دو نَوجوان غلام محمد صاحب، اور مستری غلام قادر صاحب مسجد کی مغربی دیوار اور دوسری طرف مکان کی دیوار پر تختے رکھ کر ایک ایک عورت کو مسجد میں منتقل کرنے لگے۔ جب انتالیس عورتیں مسجد میں پہنچ گئیں اور چالیسویں 40 کو لا رہے تھے وہ بھی مسجد میں پہنچ گئی تو فو جیوں کی نظر یں دونوں نوجوانوں پر پڑگئیں۔ انہوں نے ان پر گولیوں کی بو چھاڑ کر دی اور انہیں شہید کر دیا۔ان دونوں نوجوانوں نے اپنی اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا اور کسی خاتون کی بے حرمتی نہیں ہو نے دی۔ جب ان دونوں نو جوانوں کی شہادت کی اطلاع حضرت مصلح موعودؓ کو ملی تو آپ نے فرمایا:
’’یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں اور آدمی اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ مرنے والے مر گئے، انہوں نے بہر حال مرنا ہی تھا، اگر اور کسی صورت میں مرتے تو ان کے نام کو یاد رکھنے والا کوئی نہ ہو تا… خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں۔اور ان کا نیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتارہے۔‘‘

(الفضل 11؍اکتوبر 1947ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد11 صفحہ190-191)

ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی جماعت کے جذبۂ اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے اعلان فرمایا: ’’خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کے لیےتیار ہیں۔ میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لیےکہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں، میں انہیں پہاڑوں کی چو ٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لیےکہوں تو وہ پہاڑوں کی چو ٹیوں سے اپنے آپ کو گرادیں۔ میں انہیں جلتے ہوئے تندوروں میں کود جانے کا حُکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تندوروں میں کُود کر دکھا دیں۔اگر خود کشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت احمدیہ کے سوآدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا۔ خُدا نے ہمیں اسلام کی تائید کے لیےکھڑا کیا ہے۔ خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کا نام بلند کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے۔‘‘

(الفضل مصلح مو عود نمبر18 از تبلیغ فروری 1958ء صفحہ17-18)

ہماری جماعت کے جلیل القدر بزرگ صحابی حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ اطاعت کی برکت کے حوالے سے اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کرتے ہیں:
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا۔ اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی۔ اور میری بیوی کہہ رہی تھیں کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں۔ بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہو سکی۔ سکول والے تقاضہ کر رہے ہیں بہت پریشانی ہے۔ ابھی وہ یہ بات کہہ رہی تھیں کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اور کرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے، آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو کر ابھی دفتر میں آ جائیں۔ جب میں دفتر میں جانے لگا تو میری اہلیہ نے پھر کہا کہ آپ لمبے سفر پر جا رہے ہیں۔ اور گھر میں بچوں کے گذارا اور اخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ میں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں؟

میں نے کہا کہ میں سلسلہ کا حکم ٹال نہیں سکتا۔ صحابہ کرامؓ جب اپنے اہل و عیال کو گھروں میں بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کو یہ بھی خطرہ ہوتا تھا کہ نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یا شہادت کا مرتبہ پا کر ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوجاتے ہیں۔ اور بچے یتیم اور بیویاں بیوہ ہوتی ہیں… اس پر میری بیوی خاموش ہو گئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لئے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا۔ اس حالت میں میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا۔ کہ ’’اے میرے محسن خدا تیرا یہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہو رہا ہے اور گھر کی حالت تجھ پر مخفی نہیں تو خود ہی ان کا کفیل ہو اور ان کی حاجت روائی فرما۔ تیرا یہ عبدِ حقیر ان افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لئے راحت و مسرت کا کوئی سامان مہیا نہیں کر سکتا۔‘‘

میں دعا کرتا ہوا ابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی۔ جب میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلاکر مبلغ یکصد روپیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیا جائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ میں نے وہ روپیہ لے کر انہی صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ میں تو اب گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑا ہوں۔ بازار سے ضروری سامان خورونوش لینا ہے وہ آپ میرے گھر پہنچا دیں۔ کیونکہ میرا اب دوبارہ گھر میں واپس جانا مناسب نہیں۔وہ صاحب بخوشی میرے ساتھ بازار گئے۔ میں نے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لئے دیدیا۔ اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھر بھجوا دی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

(حیات قدسی جلد چہارم صفحہ5)

تاریخ میں ہمیں صرف صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نمونے ہی نظر نہیں آتے بلکہ خلفائے احمدیت کی ذاتی زندگیاں بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونوں سے مزین نظر آتیں ہیں جنکی ایک جھلک آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی حیات مبارکہ کے واقعات میں ملاحضہ کی ہے اسی طرح تمام خلفائے کرام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرلیں یہ قدر مشرک آپ کو تمام خلفائے عظام کی سیرت مبارکہ میں نظر آئیں گی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے جون 1912ء میں احمدیہ بلڈنگ لاہور میں خلافت کے موضوع پر اپنے خطاب میں فرمایا:
’’… مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے… مَیں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ مَیں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کے لیے محبت ہے۔ بیوی صا حبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں۔… مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرماں برداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر ایسا فدا ہے کہ مجھے کبھی وہم بھی نہیں آ سکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو۔‘‘

(اخبار بدر 11،4؍جولائی 1912 بحوالہ حیات نور صفحہ564 عبدالقادر سابق سوداگرمل، بحوالہ روز نامہ الفضل ربوہ 23؍جنوری 2013ء صفحہ6)

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی اطاعتِ امام کا واقعہ بیان کرتے ہو ئے کہتے ہیں
ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مخاطب کر کے کہا:میاں ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے جس کا تدارک اب سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ڈھنگ سے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کر دیں۔ وہ بیعت لے لیا کریں۔ نماز پڑھا دیا کریں۔ خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب و قبول اور اعلان نکاح فرما دیا کریں یا جنازہ پڑھا دیا کریں اور بس۔خواجہ صاحب کی بات سن کر جو جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دیا اسے ہم حضور ہی کے الفاظ میں درج کرتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں:
’’میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفۂ اولؓ نے صاف صاف کہہ دیا (تھا) کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی۔ تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟‘‘

(حیات نورمرتبہ شیخ عبدالقادر سابق سوداگرمل، صفحہ365)

1927ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جو اطاعت کا نمونہ قائم کیا اس کا ذکر الفضل میں یوں ملتا ہے۔

’’مہمانوں کی غیر معمولی کثرت اور اژدہام اس سال کی ایک خاص خصوصیت تھی۔حاضرین کا ہجوم اس قدر تھا کہ تیار کردہ جلسہ گاہ نا کافی ثابت ہوئی اور خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر کے وقت اس قدر کثرت تھی کہ لوگ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے جلسہ گاہ کے باہر کھڑے رہے۔اس پر حضور نے اظہار افسوس فرماتے ہوئے ذمہ دار کارکنو ں کو توجہ دلائی اور منتظمین نے اس قدر ہمت اور کوشش سے کام لیا27؍دسمبر کی کارروائی ختم ہونے کے بعد راتوں رات جلسہ گاہ کو پہلے سے بہت وسیع کر دیا اور صبح جلسہ گاہ میں جانے والوں کو وہ بہت فراخ نظر آئی اور اس پر حضرت اقدس نے بھی اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ جلسہ گاہ کی تیاری میں ساری رات مدرسہ احمدیہ کے طلباءاور دیگر اصحاب مصروف رہے۔ طلبہ نے شہتیریاں اٹھا کر لانے، اینٹیں اور گارا بہم پہنچانے میں بڑی تن دہی اور محنت سے کام کیا۔ان کام کرنے والوں میں صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بھی تھے۔خدا تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے۔

(الفضل 3جنوری 1928صفحہ2)

حضرت مرزا طاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) کراچی میں تھے جب آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی طرف سے پیغام ملا کہ فوری طور پر ڈھاکہ بنگلہ دیش روانہ ہو جائیں کیونکہ وہاں پر جماعتی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہاں جا کر ان کی رہنمائی کریں۔ یاد رہے کہ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا۔ ڈھاکہ جانے کے لئے ہوائی جہاز کا پتہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئی جگہ نہیں ہے چانس پر ٹکٹ حاصل کیا گیا۔ احباب کی تما م تر کوششوں کے باوجود جب کوئی سیٹ نہ مل سکی تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ آپ اگلے جہاز پر کچھ دن بعد ڈھاکہ چلے جائیں مگر حضرت مرزا طاہر احمد نے فرمایا کہ جب خدا کا خلیفہ مجھے فوراً ڈھاکہ جانے کا حکم دے رہا ہے تو میں کیونکر اس میں تاخیر کر سکتا ہوں۔ چنانچہ آپ اپنا سامان لے کر Air Port پہنچ گئے جبکہ سیٹ کنفرم نہیں تھی۔

کچھ دیر انتظار کے بعدائرپورٹ کی انتظامیہ نے اعلان کر دیا کہ ڈھاکہ جانے والا جہاز روانگی کے لئے تیار ہے یہ سننے پر تمام وہ لوگ جو چانس پر جانے کے لئے آئے ہوئے تھے مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ مگر حضرت مرزا طاہر احمد اس یقین کے ساتھ وہاں موجود رہے کہ یہ جہاز مجھے ضرور لے کر جائے گا۔ کیونکہ خلیفۂ وقت کا منشاء یہ ہے کہ میں فوراً ڈھاکہ جاؤں۔ چنانچہ آپ انتظار میں ہی تھے کہ اعلان کیا گیا کہ ڈھاکہ جانے والے جہاز میں ایک شخص کی جگہ خالی ہے اگر کسی مسافر کے پاس ٹکٹ ہے تو فوراً رپورٹ کرے۔ آپ نے فوراً پیش قدمی کی اوراسی جہاز میں ڈھاکہ روانہ ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک ناممکن کام کو خلیفۂ وقت کی توجہ اور برکت سے ممکن بنادیا۔

(الفضل 22مئی 2009ء صفحہ9)

حضرت سیدہ امۃالسبوح بیگم صاحبہ (حرم خلیفۃالمسیح الخامس) اطاعت امام کے حوالے سے خلیفۃالمسیح الخامس کے بارے میں فرماتی ہیں۔ خلفاء کے ساتھ اطاعت آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہمیشہ اشارہ سمجھ کر اطاعت کی۔ آپ ہر معاملہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ہر حکم کی پوری تعمیل کرتے۔ انیس بیس کا فرق بھی نہ ہونے دیتے۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بیمار ہوئے آپ نے منع فرمایا تھا کہ کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن طبیعت کمزور تھی اور فکر مندی تھی۔ انتہائی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر میاں سیفی (مرزا سفیر احمد صاحب) نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو فون کر دیا اور صورتِ حال بتا کر کہا کہ اگر آپ آجائیں تو اچھا ہے۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لندن تشریف لے آئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملاقات کے لیے گئے تو حضورؒ نے دریافت فرمایا۔ ’’کیسے آئے ہو۔‘‘ آپ نے جواب دیا کہ آپ کی طبیعت کی وجہ سے جماعت فکر مند ہے اس لیے پوچھنے کے لیے آیا ہوں تو حضورؒ نے فرمایا حالات ایسے ہیں کہ فوراً واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بہت بہتر۔ میں فوراً واپسی کی سیٹ Book کروا لیتا ہوں۔ بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے میاں سیفی سے پوچھا کہ اس (حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ) میں تو اتنی اطاعت ہے کہ یہ میرے کہے بغیر آہی نہیں سکتا۔ یہ آیا کیسے؟ تب میاں سیفی نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو بتایا کہ ان کو تو میں نے فون پر آنے کو کہا تھا اس لیے آئے ہیں۔ اس پر حضور رحمہ اللہ کو اطمینان ہوا کہ ان کی توقعات کے مطابق ان کے مجاہد بیٹے کی اطاعت اعلیٰ ترین معیار پر ہی تھی۔

(ماہنامہ تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور ایدہ اللہ نمبر ستمبر، اکتوبر 2008ء صفحہ20-21)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی ادھر اْدھر نہ ہو۔ جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے بیٹھ جاؤ۔ اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے اْدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا وہ حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ۔‘‘

(انوار العلوم جلد14 صفحہ515-516)

پس اطاعتِ خلافت درحقیقت وہ کامل محبت ہے جس میں انسان امامِ وقت کی ایسی پیروی کرے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے اور سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کی مجسم تصویر بن جائے۔

یہی نظارہ چشم فلک نے اس روز دیکھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا تو آپ نے مسجد فضل کے اندر موجود احباب کے لیے ارشاد فرمایا بیٹھ جائیں۔ طیورِ ابراہیمی کو جیسے جیسے اپنے خلیفہ کا یہ ارشاد پہنچتا گیا۔ یہ بیٹھتے چلے گئے یہاں تک کہ مسجد فضل کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں موجود احمدی اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’عمومی طور پر ہر بات جو اس زمانے میں اپنے اپنے وقت میں خلفاء وقت کہتے رہے ہیں۔ جو خلیفہ وقت آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، جو تربیتی امور آپ کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ ان سب کی اطاعت کرنا اور خلیفہ وقت کی ہر بات کو ماننا یہ اصل میں اطاعت ہے اور یہ نہیں ہے کہ تحقیق کی جائے کہ اصل حکم کیا تھا؟ یا کیا نہیں تھا؟ اس کے پیچھے کیا روح تھی؟ جو سمجھ آیا اس کے مطابق فوری طور پر اطاعت کی جائے تبھی اس نیکی کا ثواب ملے گا۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ288)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ چند سالوں سے دنیا کو عالم گیر تباہی سے متنبہ فرما رہے ہیں۔ آپ ایک طرف تو ان ہولناک خطرات سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہیوں کا احساس دلا رہے ہیں۔ اور دوسری طرف رحمۃ للعالمین کی غلامی میں وہی جذبہ رحمت نمایا ںنظر آتا ہے۔ اور افراد جماعت کو دنیا والوں کے لیے دعائیں کرنے کی بار بار تاکید فرما رہے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:
’’ہر روز ایک نئی خبر آتی ہے کہ آج جنگ کا شعلہ بھڑکنے والا ہے، آج ختم ہونے والا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جو ہیں وہ جنگ کی طرف جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اس میں اب مزید کوئی روک پیدا ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ خاص طور پر مسلمانوں کو، خاص طور پر احمدیوں کو ان جنگ کے بداثرات سے بچا کر رکھے اور عمومی طور پر انسانیت کو بھی بداثرات سے بچائے۔ اگر ابھی بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے اور کوئی ذریعہ بن سکتا ہے کہ ان کی اصلاح ہو جائے اور یہ خدا کو پہچاننے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ وہ حالات پیدا کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اپنی تباہی سے بچ سکیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18مئی 2018ء)

اطاعت کا تقاضا ہے کہ ہم درد دل سے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ عصر حاضر کے انسانوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عذاب الٰہی سے بچائے۔ کیونکہ انذاری پیشگوئیاں توبہ، دعا اور صدقات سے ٹل جاتی ہیں۔

اطاعت خلافت کامرانی کی کلیدکے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 23تا 30 مئی 2003ء صفحہ1)

آخر میں دُعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی اُسی طرح کامل اطاعت وفرما نبرداری کی توفیق عطا فرمائے جیسے صحابہ کرام رسول کریم ﷺ او ر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ حضور علیہ السلام کی کیا کرتے تھے اور یہ بھی دُعا ہے اللہ تعالیٰ اس اطاعت کو قبول فرمائے اور ہماری جماعت کو اور ہمیں اور ہماری اولاد کو دنیا اور آخرت میں بے انتہا برکتیں وکامرانیاں اور کا میابیاں عطا فرمائے آمین۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ریجنل فٹ بال لیگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2022