• 19 مئی, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مصرعے کے مصداق بننے کی کوشش کریں کہ ’نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس دعا کے آداب کا بھی ہمیں کچھ پتہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات جو ربّ، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین ہے اُن پر کامل ایمان ہو اور جب ان صفات پر کامل اور مکمل ایمان ہو گا تو پھر ہی عبادت اور دعا کی طرف توجہ ہوتی ہے اور بندہ عاجزی سے اُس سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ اُن انعامات کے حصول کے لئے اُسے پکارتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے خالص بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ خوف رہنا چاہئے کہ میرا کوئی فعل کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والا نہ ہو۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں قائم ہو۔ ہمیشہ ایک عاجز بندہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کبھی مَیں اپنے خدا سے دور نہ ہوں۔ کبھی وہ وقت نہ آئے جب مَیں خدا کو بھلانے والا بنوں۔ پس جب ایسی حالت ہوتی ہے تو دعائیں قبول ہوتی ہیں اور انعامات نزدیک کر دئیے جاتے ہیں، فتوحات کے نظارے دکھائے جاتے ہیں، دشمن کی تباہی اور بربادی نظر آتی ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا آئیں اب پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان کو مضبوط کریں، خالص ہو کر اُس کے آگے جھکیں۔ اگر ہمارا دشمن انتہا تک پہنچ گیا ہے تو ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مصرعے کے مصداق بننے کی کوشش کریں کہ ’نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں‘۔

(درثمین اردو، بشیر احمد، شریف احمداور مبارکہ کی آمین صفحہ58۔ الحکم 10دسمبر 1901ء شمارہ نمبر45 جلدنمبر5 صفحہ3 کالم نمبر2)

یقینا ًجب ہم اپنے خدا کی مدد اُس میں ڈوب کر اُس سے مانگیں گے تو وہ دوڑتا ہوا آئے گا اور ہمارے مخالفین کو تباہ و برباد کر دے گا۔ اگر ایک بندہ جو اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق رکھنے والا تھا بادشاہ کے درباریوں کو رات کے تیروں سے، رات کی اُن دعاؤں سے جو عرش کے پائے ہلا دیا کرتی ہیں، اُن دعاؤں سے شکست دے سکتا ہے اُنہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے، اُن درباریوں کو یہ کہنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ ہم ان تیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ (ماخوذ از تعلق باللہ صفحہ نمبر 2-3 تقریر حضرت مصلح موعودؓ جلسہ سالانہ 28؍دسمبر 1952ء) تو یقینا ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ مَیں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔ (تذکرہ صفحہ نمبر630 ایڈیشن چہارم 2004ء) اگر ہم دعائیں کریں گے، رات کے تیروں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے تو یقینا ہماری کامیابی ہے۔ لیکن شاید اُن درباریوں کے اندر کوئی نیکی کی رَمق تھی جس کی وجہ سے اُن درباریوں نے اُس بزرگ کو رات کے تیروں کے خوف سے تنگ کرنا، خوف کی وجہ سے تنگ کرنا چھوڑ دیا اور اپنی جگہ بدل لی، گانے بجانے چھوڑ دئیے۔ لیکن ان لوگوں کو جو آج مولوی کہلاتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، جو رسول کے نام پر، اُس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو رحمت للعالمین ہے، ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں اِن میں تو کوئی نیکی کی رَمق نہیں ہے۔ انہیں تو نہ خدا پر یقین ہے نہ رسول پر یقین ہے۔ ان سے تو کوئی بہتری کی امیدنہیں کی جا سکتی۔ ان کا مقدر تو اب لگتا ہے کہ صرف تباہی ہے جو صرف اور صرف ہمارے رات کے تیروں سے ہو سکتی ہے۔ ہم اُس مسیح محمدی کے غلام ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے تسلی دی تھی، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ، ’’مَیں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں‘‘۔ پس جب ہم اپنے پیارے خدا کو خالص ہو کر پکاریں گے، اپنی راتوں کے تیروں کو دشمن پر چلائیں گے تو یقینا ًخدا اپنی قدرت کے خاص نشان دکھائے گا۔ پس دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی اس سے کامل یقین اور خالص ہو کر کام لے تو کوئی اس کے مقابلے پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اُس کے فرستادے ہیں اور وہ عظیم ہستی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے میں بندے کو خدا سے ملانے کے لئے آئے تھے تو پھر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آپ سے جو وعدے ہیں وہ پورے ہوں گے اور ضرور پورے ہوں گے ان شاء اللہ۔ کیونکہ ہمیں اس بارے میں ہلکا سا بھی شک نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے پورے نہیں فرماتا۔ وہ اپنے وعدے پورے فرماتا ہے اور ضرور فرماتا ہے، وہ سچے وعدوں والا ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے لے کر آج تک مخالفتوں کی آندھیاں چلتی رہی ہیں یہاں تک کہ ایک وقت میں خلافتِ ثانیہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی احراریوں نے بَڑ ماری تھی۔ پھر ایک شخص نے حکومت کے نشے میں جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں کشکول پکڑانے کی بَڑ ماری تھی۔ پھر کسی نے اپنی حکومت کے نشے میں احمدیت کو کینسر کہہ کر اُسے جڑ سے اکھیڑنے کی قسم کھائی تھی لیکن نتیجہ کیا ہوا کہ آج احمدیت دنیا کے دو سو ممالک میں پھیل چکی ہے۔ پس یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کاپیارا سلسلہ ہے جس نے اپنے پیارے کو اس زمانے میں بھیج کر اسلام کی آبیاری کے لئے اس سلسلے کو جاری فرمایا ہے۔ اور ہر آن ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتے ہیں۔ پس اگر فکر کی کوئی بات ہو سکتی ہے تو یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کے سچے اور فرستادے نہیں۔ یا یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنے وعدوں کو نعوذ باللہ پورا نہیں فرما رہا بلکہ فکر صرف اس بات پر ہونی چاہئے کہ ہم اپنے فرض کو احسن طورپر ادا کرنے والے ہیں یا نہیں؟ ہم دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہیں یا نہیں، ہم انابت الی اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے جھکنے والے ہیں یا نہیں؟ پس اب یہ ہمارا کام ہے کہ اپنا فرض ادا کریں۔ اپنے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق ظالمانہ الفاظ سُن کر اور پڑھ کر صرف افسوس کرنے والے اور دلوں کی بے چینی کا ظاہری اظہار کرنے والے نہ ہوں بلکہ اپنی راتوں کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جلد تر اپنے حق میں پورا کروانے کی کوشش کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی طورپر اور اجتماعی طور پر بھی ایسی دعاؤں کی توفیق دے جو اُس کے رحم اور فضل کو کھینچنے والی ہوں۔ ہم ایسی دعائیں کرنے والے ہوں جو عرشِ الٰہی کو ہلا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنی فوجوں کو حکم دے، اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جاؤ اور جا کر ان مظلوموں کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کویہ کہے کہ جو مجھے اس دعا کے ساتھ پکار رہے ہیں کہ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔ (تذکرہ صفحہ نمبر71۔ ایڈیشن چہارم 2004ء) اے میرے خدا! میں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے۔ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ (تذکرہ صفحہ نمبر426۔ ایڈیشن چہارم 2004ء) پس ان کو پیس ڈال۔ پس جاؤ اور ان مظلوموں اور بے کسوں کی مدد کرو جن کو اکثریت اپنی اکثریت کے زعم میں ظلموں کا نشانہ بنا رہی ہے۔ جن کو حاکم ظالمانہ قوانین کے تحت ہر حق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن کو مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار اسلام کے نام پر صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے میرے فرستادے کی آواز پر یہ اعلان کیا کہ ہم نے منادی کی آواز کو سنا اور ہم ایمان لائے۔ پس اے فرشتو! جاؤ اور دنیا کو ان کی مدد کر کے بتا دو کہ یہ لوگ میری آواز پر لبیک کہنے والے ہیں۔ پس مَیں ان کا والی ہوں اور میں ان کی حامی و مددگار ہوں۔ آج بھی میرا یہ اعلان سچ ہے کہ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ (الانفال: 41)۔ پس کیا ہی اچھا آقا ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔ پس جو بھی ان سے ٹکرائے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میری گرفت میں آئے گا۔

پس خدا تعالیٰ کے اس پیار کے سلوک کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائے، دعائیں کرے، یہاں تک کہ عرشِ الٰہی سے ہمارے دشمنوں کے خلاف ہماری مدد کا حکم جاری ہو جائے۔ ہم کمزور ہیں، ہم ان حرکتوں کا بدلہ نہیں لے سکتے جو یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر کے کر رہے ہیں۔ پس ایک ہی علاج ہے کہ اپنی سجدہ گاہوں کو تَر کریں۔ اپنے مولیٰ، بے کسوں کے والی اور مظلوموں کے حامی کو پکاریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کو پکاریں جس نے کمزور اور نہتے مسلمانوں کو محکوم سے حاکم بنا دیا، جس نے دشمن کا ہر مکر اُن پر الٹا دیا۔

پس اے خدا! آج ہم تجھ سے تیری رحمت اور جلال کا واسطہ دے کر یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ زمین جو تیرے پیارے رسول کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنے ملکوں میں، اپنے مفادات اور اَناؤں کی تسکین کے لئے تیرے مظلوم بندوں پر تنگ کی ہوئی ہے، یہ لوگ اسے ہمارے لئے خاردار اور جنگل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اپنی رحمتِ خاص سے اسے ہمارے لئے جنت بنا دے۔ ہمارے لئے اسے گل و گلزار کر دے۔ ہمیں تقویٰ میں ترقی کرنے والا بنا دے۔ ہمیں اپنا نہ ختم ہونے والا وصال عطا فرما۔ ہماری دعاؤں کو ہمیشہ قبولیت بخش۔ ہمیں اُمّتِ مسلمہ کی اکثریت کو نام نہاد علماء کے چُنگل سے نکال کر اپنے حبیب کے عاشقِ صادق کی جماعت میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرما تا کہ اُمت مسلمہ خیرِ اُمّت ہونے کا حق ادا کرنے والی بن جائے اور دنیا کو ظلم سے پاک کرے۔ اے ارحم الراحمین خدا! تُو ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں اس کی توفیق عطا فرما۔

(خطبہ جمعہ 7؍ اکتوبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2021